داستانِ عشق
محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ کو سماع کا بے حد شوق تھا اور سماع سے ان کے جذب اور عشق میں تحریک ہوتی تھی ۔ایک بار حضرت محبوب الٰہی نے حالتِ جذب میں فرمایاکہ ’’ دھوبن کا لڑکا بازی لے گیا‘‘ ۔امیر خسرو بھی وہاں موجود تھے ۔مصاحبین نے امیر خسرو سے کہا’’آپ مرشدِ کریم سے معلوم کریں کہ اس کا مطلب کیا ہے ؟‘‘امیر خسرومزاج آشنائے خواجہ تھے ۔جواب دیا ’’اس وقت مرشد حالت جذب میں ہیں اس لئے میں ان سے بعد میں بات کروں گا‘‘۔دوستوں نے پوچھا۔’’ہم کب تک اس کی امید رکھیں؟‘‘امیر خسرونے جواب دیا ’’دوچاردن میں ‘‘۔اس وقت آپؒ کی طبیعت معمول پر آجائے گی پھر میں ان سے بات کروں گا۔امیر خسرونے تیسرے دن اپنے پیرومرشد کو ہشاش بشاش پایا وہ بے حد خوش تھے ۔امیر خسرونے موقع غنیمت دیکھ کر پوچھا۔’’حضرت آپ سے کچھ پوچھنا ہے ؟‘‘آپ ؒ نے اجازت دے دی ۔’’خسرو!پوچھوکیا پوچھنا ہے ؟‘‘امیر خسرو نے عرض کیا ۔آپ ؒ نے کچھ دن پہلے حالتِ وجد کے دوران فرمایا تھا کہ ’’دھوبن کا لڑکا بازی لے گیا۔دھوبن کالڑکا بازی لے گیا؟‘‘تما م دوست اس کی تفصیل جاننے کے لئے بے چین ہیں ۔حضرت محبوب الٰہی نے امیر خسروکو سمجھایا۔اس واقعے میں ایک ایسے عاشق کی داستان پنہاں ہے جو زبردست مثال ہے اور عارفانِ عشق و محبت کے لیے اس میں عبرت اور رشک کا سبق پایا جاتا ہے ۔سنو اور اس جیسا بننے کی کوشش کرو۔
حضرت امیر خسرو اپنے مرشد کے شیدائی تھے ۔پوری محویت وانہماک سے ان کی باتیں سن رہے تھے ۔حضرت محبو بِ الٰہی فرمارہے تھے ۔’’وہ شاھی دھوبن تھی ۔محل سے کپڑے آتے تھے اور پوراکنبہ ان کی دھلائی اور صفئی میں مشغول ہو جاتا تھا ۔دھوبن کا لڑکا بھی ان میں شامل تھا ۔لڑکے نے شہزادی کے کپڑوں کو اپنے لیے پسند کر لیا تھا ۔وہ ان کپڑوں کو دیکھتا۔ان کی بو سونگھتااو رشہزادی کے لئے اپنے دل میں ایک کسک سی محسوس کرتا ۔فارغ اوقات میں وہ شہزادی کے خیالیوجود سے باتیں کرتا رہتا ۔اُن باتوں کو جب زیادہ وقت گزر گیا تو اس کی محبت میں شدت بھی زیادہ پیدا ہو گئی پھر گھر والے بھی اس راز سے آگاہ ہو گئے ۔اس کے والدین کو فکر لاحق ہوئی کہ اگر یہ بات کسی طرح مشہور ہو کر محل کے اندر پہنچ گئی تو بادشاہ کا عتاب اور جلال اس کے خاندان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا۔
دھوبی نے بیوی کو سمجھایا’’نیک بخت اس کو سمجھا کہ یہ پاگل پن چھوڑ دے ‘‘۔
دھوبن نے جواب دیا ’’میں سمجھاؤں گی ضرورلیکن مجھے یقین نہیں کہ اس پر میری نصیحتوں کا اثر ہوگا‘‘۔
دھوبی نے کہا’’تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنا پاگل پن چھوڑے گا نہیں اور ہم سب بلا وجہ مارے جائیں گے ‘‘۔
دھوبن کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ وہ کیا تدبیر کرے جس سے اس کا لڑکا اپنے اس لاحاصل عشق سے باز آجائے ۔کافی غوروفکر کے بعد دھوبن کے ذہن میں ایک تدبیر آگئی۔کچھ دن بعد اپنے بیٹے کے پاس سوگوار سی گئی اور بیٹے سے پوچھا’’تو کیا کر رہاہے ؟‘‘
ؓبیٹے نے جواب دیا ۔’’شہزادی کے کپڑے تہہ کررہاہوں ‘‘۔
ھوبن آنکھوں میں آنسو بھر کر کہنے لگی ’’افسوس کہ اب تو یہ کام نہیں کر سکے گا‘‘۔
لڑکے نے پوچھا’’کیوں؟‘‘
دھوبن نے جواب دیا’’وہ آشیانہ ہی نہ رہا جس پر تجھے ناز تھا‘‘
ؒ لڑکے نے سارے کپڑے ایک طرف رکھ دئییاور پوچھا’’ماں !کیا بات ہے ؟ذرا صاف صاف بتائیں۔
دھوبن نے کہا’’ آج میں محل گئی تھی وہاں کہرام برپا تھا۔محل کے درودیوار آنسو بہا رہے تھے ‘‘۔
لڑکے کا دل ڈھوبنے لگا’’ماں !مجھے صاف صاف بتائیں کیا معاملہ ہے ؟‘‘
دھوبن نے جواب دیا’’محل کی کنیزیں بتا رہی تھیں کہ شہزادی کے پیٹ میں اچانک درد اُٹھا ۔اس درد میں وہ رات بھر تڑپتی رہی ۔طبیبوں نے رات بھر علاج کیا اورآخر صبح کو شہزادی چل بسی اورپورے محل کو روتا چھوڑ گئی‘‘۔بیٹے نے پوچھا:’’کیا خبر سچ ہے ؟‘‘۔
دھوبن نے جواب دیا ۔’’کیا تو سمجھتا ہے کہ میں زندہ شہزادی کوخوامخواہ مار سکتی ہوں ؟‘‘۔
بیٹے نے حسرت سے کہا’’ماں!یہ تونے کیسی خبر سنائی افسوس کہ میں بے خبر رہا‘‘۔
ماں نے اسے تسلی دی ’’ہاں بیٹے!موت پر کس کو اختیار ہے اور کسی کوبھی کچھ بتا نہیں کہ اس کی موت کب اور کہاں واقع ہوجائے ‘‘۔
لڑکے نے سرد آہ بھری’’درست…..بجا…..موت کاکوئی بھروسا نہیں کہ کب اور کہاں آجائے ‘‘۔
ماں نے محسوس کیا کہ بیٹے کی حالت ٹھیک نہیں ہے ۔وہ سرد پڑتا جارہاہے ۔سرد اور زرد…..
لڑکے نے شہزادی کے کپڑوں کو بوسہ دیا’’تو اب میں بے کار ہو گیا……..میرا کام مجھ سے چھین لیا گیا اور جب کرنے کو کام ہی نہ رہے تو زندگی
بے کار ہے ‘‘۔ماں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ’’یہ تو کیا کہہ رہا ہے ؟‘‘ماں نے اسکا ہاتھ برف کی طرح سرد محسوس کیا ’’یہ تیرے ہاتھ اتنے ٹھنڈے کیوں ہیں ؟‘‘ ۔بیٹے نے کوئی جواب نہ دیا اور گرتا چلا گیا۔ماں نے اسکو سنبھالنے کی کوشش کی مگرلڑکا زمین پر گر گیا۔
ماں نے شور مچایا’’لوگودوڑنا دیکھنامیر بیٹ کو کیا ہو گیا ہے ؟‘‘۔
برادری والے بھی آگئے اور دھوبی بھی آگیااورفرش پر دراز بیٹے کی طرف اشارہ کرکے پوچھا ‘‘اس کو کیا ہو گیا ہے ؟‘‘۔
دھوبن نے جواب دیا ’’یہی جاننے کے لئے تو میں نے تم سب کو آواز دی ہے ‘‘۔
برادری والوں نے لڑکے کی نبضیں ٹٹولیں اور انہیں نہ پاکر اعلان کر دیا کہ’’یہ تو مرگیایہ زندہ ہی کب ہے ؟‘‘۔
باپ نے بڑے قلق آمیز لہجے میں کہا ’’اپنی زبان سنبھالوکیسی بری بات نکال رہے ہو ۔تم لوگ جانتے بھی ہو کہ کیا کہہ رہے ہو‘‘۔
ایک بزرگ نے جوب دے ’’بھائی !ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں ،سچ کہہ رہے ہیں ۔تیرا لڑکا مرگیا ہے جس سے چاہے تصدیق کرالے ‘‘۔ اب تو
پور ی برادری میں کہرام برپا ہو گیا ۔دھوبی نے دھوبن سے پوچھا لیکن یہ اچانک کس طرح ہو گیا ۔دھوبن نے پورا واقعہ سنا دیا ۔دھوبی نے دھوبن کی پٹائی کردی۔’’تونے اپنے بیٹے کو یوں ٹھکانے لگا دیا‘‘۔
دھوبن نے رورو کر اپنی صفائی پیش کی ’’میراتو یہ خیال تھاکہ اس طرح مایوس ہو کر وہ شہزادی کا پیچھا چھوڑ دے گا‘‘
دھوبی نے روتے ہوئے کہا ’’کیا خوب پیچھا چھڑایا تو نے !کیا تجھ کو یہ نہیں معلوم تھا کہ عشق کی جو آگ دل میں روشن ہوئی تھی وہ اس طرح
نہیں بجھتی ۔’’دھوبن روتی جاتی اور کہتی جاتی ۔’’اب تم جوچاہو کہو مجھ کومار دو کیونکہ اپنے بیٹے کو خود میں نے ماردیا ۔میں اسکی قاتل
ہوں ‘‘۔دھوبی نے کہا ’’اب میں تجھ کو کیا ماروں گا توُ توخود ہی جیتے جی مر گئی ‘‘۔
دھوبن محل کے اندر جب کپڑے لے کر اندر گئی تو شہزادی کے کپڑے اس کے حوالے کیے۔شہزادی نے ان پر ایک نظر ڈالتے ہی اعتراض کر
دیا۔’’اس بار میرے کپڑے کس نے دھوئے ہیں؟‘‘دھوبن نے جواب دیا’’اسی نے جو ہر مرتبہ دھوتا ہے ‘‘۔
شہزادی نے کہا ’’جھوٹ بالکل جھوٹ یہ میں نہیں مانوں گی‘‘۔
دھوبن نے حیرت سے پوچھا’’وہ کیوں ؟اس میں ایساکیا فرق نظر آیاآپ کو‘‘۔
شہزادی نے جواب دیا’’کپڑوں کی دھلائی اور ان کے بناؤ سنوار میں جو بات پائی جاتی تھی اس بار نہیں ہے ‘‘۔
دھوبن خاموش ہو گئی ۔شہزادی نے پوچھا’’دھوبن !تو خاموش کیوں ہوگئی ؟جواب کیوں نہیں دیتی ؟‘‘َ
شہزادی نے اصرار کیا’’کیابات ہے ؟توخاموش کیاں ہو گئی ،میرے سوال کاجواب کیوں نہیں دے رہی ؟‘‘۔
دھوبن نے ڈرتے ڈرتے کہا’’شہزادی صاحبہ!میں کیا عرض کروں ۔مجھ کو ڈر لگتا ہے کہ کہیں کوئی طوفان نہ اُٹھ کھڑا ہو‘‘۔
شہزادی نے پوچھا’’کیسا طوفان؟اورتہ توروکیوں رہی ہے ؟‘‘۔
دھوبن نے سرد آہ بھری’’رونا تو میرامقدر ہے اب میں یوں ہی زندگی بھر روتی رہوں گی ‘‘۔
شہزادی کو ا س پر غصہ بھی آرہاتھا اور افسوس بھی ہو رہا تھا ’’دیکھ دھوبن تو سچ سچ بتا دے بات کیاہے ؟‘‘۔
دھوبن نے کہا ’’شہزادی صاحبہ!آپ پہلے مجھے یہ یقین دلا دیں کہ میں آپ کو جو کچھ بتاؤں گی ۔آپ اپنے تک ہی رکھیں گی ،چرچا نہیں کریں
گی اور مجھ کو معاف کردیں گی ‘‘۔شہزادی نے وعدہ کیا اور دھوبن نے ہیر پھیر سے بتانا شروع کر دیا۔’’شہزادی صاحبہ !میری سمجھ میں ابھی
تک نہیں آیاکہ وہ آپ کو دیکھے بغیر آپ پر عاشق کس طرح ہو گیا؟‘‘شہزادی خاموش رہی اور دھوبن بولتی رہی ۔آپ کے کپڑے وہ خود
دھوتااوران کپڑوں کی دھلائی اور بنانے سنوارنے میں آپ کو جو سلیقہ نظر آتا تھااس میں بھی آپ کا عشق کار فرما تھا ۔ہم سب جب اس راز
سے واقف ہوئے تو اسے سمجھانے لگے مگر وہ نہیں مانا۔
پھر شہزادی سے پوچھا ۔آپ ہی بتائیں کہ یہ بری بات تھی یا نہیں ؟‘‘۔
شہزادی نے کہا ’’بات کو طول نہ دے مختصر کر ‘‘۔
دھوبن نے کہا ’’جب ہماراسمجھاناکام نہ آیا تو میں مکروفریب اور جھوٹ کا سہارا لیا‘‘۔
شہزادی کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ۔وہ سب کچھ ایک آن میں سن لینا چاہتی تھی ۔بیزاری سے کہنے لگی ’’دھوبن تو باتوں کو خوامخواہ طول
کیوں دیتی ہے ؟‘‘۔دھوبن نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا ’’اور پھر میں نے روروکر یہ منحوس خبر سنائی ،جھوٹی خبر کہ شہزادی کا انتقال ہوگیااور
اب تو شہزادی کے کپڑے نہیں دھو سکے گا۔شہزادی نے پوچھا’’پھر ؟پھر کیا ہوا؟‘‘دھوبن نے جواب دیا’’پھر وہ مایوس ہو کر کہنے لگاکہ …..
میں کیا کروں گا زندہ رہ کر ،کیوں کہ کرنے کے لیے کوئی کام ہی نہیں رہ گیا …وہ گرا اور مر گیا ۔اتنا کچھ بتانے کے بعد دھوبن زاروقطار رونے
لگی۔
شہزادی کو اس خبر سے بڑی تکلیف پہنچی ۔اس نے آہستہ سے کہا ’’اتنا کچھ ہو گیا اور مجھ کو خبر تک نہ ہوئی ‘‘۔
دھوبن مسلسل روئے جارہی تھی ’’اگر میں یہ جانتی کہ میر ے جھوٹ کا یہ اثر ہوگا تو میں کچھ بھی کرتی مگر یہ جھوٹ نہ بولتی ‘‘۔
شہزادی نے کہا ’’تجھ کو اس جھوٹ کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟اس سے تم لوگوں کو کیا تکلیف پہنچ رہی تھی ؟‘‘
دھوبن نے کہا ’’شہزادی صاحبہ !ہمیں خوف تھا کہ یہ خبر آپ کے والد بادشاہ سلامت تک پہنچ گئی تو ہم سب ہلاک کر دئیے جائیں گے ‘‘۔
شہزادی نے کہا ’’تم تو یہ کہتی ہوکہ وہ خاموش رہتا تھا اور کسی سے بات چیت بھی نہیں کرتا تھا پھر یہ بات محل تک کس طرح آجاتی ؟‘‘۔
دھوبن نے جواب دیا’’شہزادی صاحبہ !آپ میری برادری کو نہیں جانتیں !اس میں کون ہمارادوست کون ہمارادشمن ہمیں نہیں معلوم لیکن کسی
ایک کا حسد یا دشمنی ہمیں موت کے منہ تک پہنچا سکتی تھی‘‘شہزادی کو لڑکے کی موت کا بڑادکھ تھا وہ دیر تک افسوس کرتی رہی ۔شہزادی نے
پوچھا’’اس کو تم لوگوں نے دفن کہاں کیاہے ۔اس کی قبر تک مجھے لے کر جاسکتی ہو؟‘‘۔
دھوبن کو بڑی حیرت ہوئی ’’وہاں آپ جائیں گی قبرستان پر جائیں گی ؟‘‘دھوبن کو خوف ہوا کہیں وہ شہزادی کو محل کے باہر لے جانے کے
جرم میں قتل نہ کردی جائے ۔شہزادی نے کہا ’’میں تیرے ساتھ تیرے بیٹے کی قبر پر ضرور جاؤں گی ۔دھوبن نے کہا ’’کب اور کس طرح ؟‘‘
شہزادی نے جواب دیا’’کل میں کنیز کے لباس میں محل کے عقبی دروازے سے باہر آجاؤں گی وہاں تم مجھ کو مل جانا‘‘۔دھوبن پر بادشاہ کی
دہشت طاری تھی ۔وہ اس کام کے لیے تیار نہ تھی جب دھوبن کو یہ دھمکی دی گئی کہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو یہ باتیں بادشاہ تک پہنچا دی جائیں گی
تو وہ تیار ہوگئی۔دوسرے دن حسب وعدہ شہزادی کنیزکے لباس میں محل کے عقبی دروازہ سے باہر نکلی وہاں دھوبن ا س کی منتظر تھی ۔وہ دونوں
لڑکے کی قبر پر گئیں ۔شہزادی سے پوچھتی جاتی تھی ’’آخر آپ کیوں رورہی ہیں ؟‘‘۔
شہزادی نے جواب دیا ’’میں یہ سوچ سوچ کر رورہی ہوں کہ آج بھی ایسے دردمند دل موجود ہیں جو اندر ہی اندر جل اُٹھتے ہیں۔عشق کرنے
والے خاموش عاشق۔اس کا کتنا بڑا ظرف تھا ۔بے لوث بے غرض نہ کوئی مطالبہ نہ کوئی گلہ ‘‘۔دھوبن حیران تھی کہ اس کے بیٹے کے عشق کی
تعریفیں ہو رہی ہیں ۔کچھ دیر بعد دھوبن نے کہا ’’شہزادی صاحبہ !’’اب آپ چلیں‘‘
شہزادی نے پوچھا’’کہاں ؟کہاں چلیں ؟‘‘دھوبن نے جواب دیا ’’محل وہاں آپ کونہ پاکر ایک قیامت اٹھ کھڑی ہوگی ‘‘۔
شہزادی وہاں بیٹھ گئی اور کہنے لگی ’’مجھ میں چلنے کی سکت بھی نہیں رہی ۔مجھ سے تو چلا بھی نہیں جائے گا‘‘۔
دھوبن پریشانی ہونے لگی ’’شہزادی صاحبہ!آپ کیا کہہ رہی ہیں ۔آپ کو واپس اپنے محل چلنا ہے ‘‘۔اب شہزادی سے بیٹھا بھی نہیں جارہاتھا ۔اس کادل ڈوب رہا تھا ۔’’دھوبن یہ مجھ کو کیا ہو رہا ہے ۔مجھ سے بیٹھا بھی نہیں جا رہا۔میرادل ڈوب رہا ہے ‘‘۔دھوبن نے اس کو سنبھالنے کی کوشش کی مگروہ گر گئی ۔اس کی حرکتِ قلب بند ہوگئی اور وہ بھی خاموشی سے چل بسی ۔
دھوبن نے بھاگنا چاہالیکن شاہی ہرکاروں نے اسے گرفتار کر لیا جو خاموشی سے شہزادی اور دھوبن کا تعاقب کرت چلے آئے تھے ۔اس بادشاہ کے سامنے مقدمہ پیش ہوا ۔بادشاہ نے تخلیے میں یہ روداد سنی اور دونوں کے حال پر افسوس کرنے لگا۔
اس نے دھوبن سے کہا ’’تجھے شہزادی کو اپنے ساتھ نہیں لے جانا چاہیے تھا‘‘۔
دھوبن نے عرض کیا ’’میں موت کے خوف سے شہزادی کو اپنے ساتھ لے گئی تھی ‘‘اب تیرے ساتھ کیا سلوک کیاجائے ؟کیا تو موت سے بچ جائے گا؟‘‘دھوبن نے جواب دیا ’’اب میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ اگر موت پیچھا کر لے یا کررہی ہوتو
انسان اس سے بچ نہیں سکتا۔اب میں موت سے نہیں ڈرتی ‘‘۔بادشاہ نے کہا ’’اگر تو موت سے نہیں ڈرتی تو موت بھی تجھ سے دوردوررہے گی۔جاؤمیں نے تجھے معاف کیا لیکن دیکھ اس کا چرچامت کرنا اس طرح رہنا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو‘‘۔
دھوبن کو اپنی جاں بخشی پر یقین نہیں آرہاتھا اس نے پوچھا ’’کیا میں جاؤں ؟‘‘۔بادشاہ نے کہا’’ہاں تو جا‘‘۔دھوبن اپنے گھر چلی گئی ۔یہ واقعہ خوب مشہور ہوا مگر بادشاہ کی موت کے بعد ۔
حضرت محبوب الٰہی نے یہ قصہ سنانے کے بعد فرمایا’’ ہم میں کون اتنا بڑا عاشق ہے ؟‘‘۔کسی شے اور کسی صلے کی تمنا کئے بغیر عشق کرنابہت دشوار امر ہے ۔عشق تو ایک کشش ہے ۔مقناطیس کی کشش کے دائرے میں جب لوہا آجاتا ہے تو لوہے کی اپنی طاقت اور قوت مغلوب
ہو جاتی ہے اور مقناطیس کی کشش لوہے کو اپنی ذات کے قریب کرلیتی ہے ۔مقناطیس سے قریب ہونے سے پہلے لوہا بننا ضروری ہے یعنی مقناطیس کی کشش کے آگے لوہا اپنے آپ کو قطعی طور پر بے بس بنالیتاہے ۔اپنے اندر کی تما م قوت کی نفی کرکے مقناطیس کی کشش کو قبول کرلیتاہے تو وہ مقناطیس سے مل جاتاہے ۔قانون قدرت یہ ہے کہ کوئلہ جب آگ میں ڈالا جاتا ہے تو آگ کی گرمی کو اس حد تک جذب کرلیتاہے کہ خود آگ بن جاتا ہے ۔
اس کے بعد ایسا لگا کہ محبوب الٰہی عشقِ حقیقی میں جذب ہوگئے ہیں ۔آپ ؒ نے فرمایا’’پس اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے بھی خود اپنی ذات کی نفی کرنا لازمی ہے ۔مقناطیس کی قربت لوہے کو بھی مقناطیس بنا دیتی ہے ۔اللہ کے بندے جب اللہ کی محبت میں اس سے قریب ہو جاتے ہیں تو ان کے ہر قول اور ہر فعل میں اللہ کی ضمانت اور مخلوق کی شہادت شامل ہو جاتی ہے ‘‘۔