Tuesday, October 15, 2024
روحانی تعلیمات

حالاتِ زندگی حضرت لعل شہباز قلندرؒ


سندھ کے مشہورو مقبول قدیم بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر ؒ چھٹی صدی ہجری کے آخر میں تبریزکے قریب ایک گاؤں مروند میں ۵۷۳ھ(۱۱۷۷ء)میں پیدا ہوئے ۔آپ ؒ کے والد صاحب کانام حضرت سیّد کبیر ؒ تھا ۔عقیدت مندوں میں یہ روایت عام طور پربیان کی جاتی ہے کہ آپ ؒ کی ولادت سے پہلے آپ ؒ کے والد سیّد کبیر نے خواب میں دیکھا تھا کہ قلندروں کی جماعت دف بجا کر گا رہی تھی اور بلند آواز سے کہتی جاتی ہے کہ سیّد کبیرؒ کا بیٹا قلندروں میں ’’امیر قلندر ‘‘ہو گا۔کچھ عرصہ کے بعد آپ ؒ پیدا ہوئے تو آپ ؒ کے والد ماجد نے گہوارہ میں آپ ؒ کی حرکات و سکنات کو دیکھ کر یقین کر لیا کہ میرا خواب سچا تھا اور اس بچے میں ابھی سے قلندرانہ رنگ دکھا ئی دے رہاہے ۔آپ ؒ کااصلی وطن مروند تھا ۔اس جگہ کو تاریخ سندھ اور موج کوثر میں مہمند بھی کہا گیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ یہ جگہ تبریز نہیں بلکہ ہرات کے قریب افغانستان کے علاقہ میں واقع تھی ۔بعض لوگوں نے اس جگہ کانا م مروند بھی بیان کیا ہے ۔حضرت لعل شہباز قلندر ؒ سادات خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت امام محمد تقی ابن حضرت امام جعفر صادقؒ کی اولاد میں سے تھے ۔صوفیائے سندھ کے مصنف نے سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا ہے ۔
حیات نامہ قلندری کا بیان ہے کہ حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کاپورا نام سیّد محمد عثمان حنفی تھا اور آپ کے والد صاحب کا نام سیّد محمد اکبر الدین ؒ تھا ۔آپ ؒ آذر بائیجان کے صدر مقام تبریز سے چالیس میل دور مغرب کی جانب ایک گاؤں مرند میں پیدا ہوئے تھے مگر مرند ی کی بجائے کتابوں میں ان کو مروندی لکھا گیا ہے ۔اس غلطی کی وجہ سے ان کا پیدائشی مقام افغانستان کے قریب مروند تصور کر لیا گیاہے ۔آپ ؒ کاسلسلہ نسب تیرھویں پشت میں حضرت امام جعفر صادق ؒ سے مل جا تا ہے ۔حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کی والدہ ماجدہ مروندکے حاکم سلطان شاہ کی نواسی تھیں۔مقامِ پیدائش کی طرح ان کی تاریخ ولادت میں بھی اختلاف ہے ۔بعض کتابوں میں ۵۸۳ھ لکھی ہے جب کہ تذکرہ صوفیائے سندھ میں ۵۷۳ھ بیان کی گئی ہے اور یہ زیادہ صحیح ہے ۔اسی طرح حیات نامہ قلندری میں سال ولادت ۵۳۸ھ بیان کیا گیا ہے اور وفات کی تاریخ ۶۵۰ھ لکھی ہے اور ثبوت میں ایک تاریخی قطعہ بھی لکھاہے جو درج ذیل ہے :۔
بجوتاریخ شمس الدین عثمان
بدر کن رنج ازملک کرامت
سن عمرش ولی ۱۱۲وفائش۵۳۸
سروش غیب می گویدوفاقے
بعض راویوں کا بیان ہے کہ حضرت لعل شہباز قلندر ؒ جب اپنی والدہ صاحبہ کے پیٹ میں تھے تو ایک رات کو خواب میں حضرت رابعہ بصریہ ؒ تشریف لائیں اور ان سے فرمایا کہ اے میری بیٹی تم کو یہ بشارت سنانے آئی ہوں کہ تمہارا فرزند اللہ تعالیٰ کا محبوب اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا برگزیدہ اور نامورقلندرہوگا اور اس کی ذات سے اللہ تعالیٰ اپنے بہت سے گنہگار بندوں کو توبہ کی توفیق عطاء فرمائے گا ۔اے میری بیٹی جب یہ پیدا ہو تو اس کے دونوں کانوں میں بلند آوازسے کلمہ طیبہ لاالہ الااللہ محمد الرسول اللہ کی آواز پہنچا دینا اور اپنے فرزند عالی قدر سے میرا سلام کہہ دینا چنانچہ آپ ؒ کی والدہ صاحبہ نے اس خواب کو اور بشارت کو یاد رکھا اور جب لعل شہباز قلندر صاحب ؒ پیدا ہوئے تو والد صاحبہ نے ان کے کہنے کے مطابق عمل کیا اور یقین کر لیا کہ میرا فرزند اللہ تعالیٰ کا محبوب اور اللہ تعالیٰ کے دین کا ضرور بہت بڑا خیر خوا ہ ہو گا۔
حضرت لعل شہباز قلندر ؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں مروند میں حاصل کی ۔سب سے پہلے آپ ؒ نے قرآن شریف پڑھا اور دین کے ابتدائی مسائل نماز ،روزے اور طہارت کے متعلق سیکھے ۔چھ برس کی عمر میں اس سے فارغ ہوگئے تو قرآن پاک حفظ کرنا شروع کردیا ۔سات برس کی عمر میں حافظ قرآن ہوگئے اور علومِ اسلام کے سیکھنے کاسلسلہ شروع کر دیااور بڑی جلدی اس قابل ہو گئے کہ اپنے گاؤں سے باہرجاکر علمائے اسلام سے استفادہ کریں مگر آپ کی والدہ صاحبہ پسند نہیں کرتی تھیں کہ اپنے سے دور رکھا جائے ۔حضرت قلندر صاحب ؒ بیس برس کی عمر تک اپنی والدہ ہی کے پاس رہے ،دل تو چاہتا تھا کہ گاؤں سے باہر علماء کی خدمت میں جاکر علم دین حاصل کریں اور بحر علوم میں غوطہ لگائیں مگرجب ارادہ کرتے تو ماں کی اطاعت راستہ روک کرکھڑی ہوجاتی اور آپ ؒ حصولِ علم پر والدہ کی اطاعت اور خدمت کو ترجیح دیتے اور اپنا ارادہ ملتوی فرمادیتے۔یہ سلسلہ بیس سال کی عمر تک چلتا رہا اور آپ ؒ نے جوانی و شباب کے ایام والدین کی خدمت و اطاعت میں گزار دئیے۔
حضرت قلندر صاحبؒ کے والد ماجد حضرت سیّد کبیر الدین صاحب ؒ نے تھوڑی عمر میں اس وقت انتقال کیا ۔جب حضر ت قلندر صاحبؒ ؒ کی عمر شریف صرف ۱۸سال کی تھی ۔آپ ؒ اپنے والد صاحب ؒ کی حیات ہی میں حافظ قرآن ہوچکے تھے ۔آپ ؒ کے والد صاحب ؒ بھی چاہتے تھے کہ فرزند دل بند کو علماء کی خدمت میں حاضر کریں مگر قلندر صاحب ؒ کی والدہ کی محبت مانع ہوتی تھی ۔آخر آپ ؒ اللہ کو پیارے ہوگئے اور حضرت قلندر صاحب ؒ کی پوری نگرانی والدہ صاحبہ کے ذمہ آگئی ۔عمر کابیسواں سال شروع تھا کہ آپ ؒ کی والدہ صاحبہ نے بھی داعی اجل کو لبیک کہا اورحضرت قلندر صاحبؒ کو مغموم و ہراساں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئیں۔والدہ صاحبہ کی وفات کے بعد چند ماہ آپ ؒ کی طبیعت بڑی غمگین اور ملول رہی ۔آخر اللہ تعالیٰ نے صبر عطا کیااور آپ ؒ نے سامان سفر درست کیا اور گاؤں سے باہر حصول علم دین کی غرض سے قدم نکالا۔علم کی لگن اور طریقت سے پیدائشی و فطری لگاؤآپ ؒ کوبہت سے مقامات پر لے گیا اور آپؒ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ۔
حضرت قلندر صاحب ؒ درحقیقت پیدائشی ولی تھے ۔دنیامیں آتے ہی کرامتوں کا ظہور شروع ہو گیا تھااور لوگوں کی نظروں میں آپ ؒ کی ذات گھر سے لیکر مکتب و مدرسہ تک وجہ عقیدت بن گئی تھی ۔خود آپ ؒ کے والدین اس بات پر پورا یقین رکھتے تھے کہ فرزند محمد عثمان عرف لعل شہباز قلندر ؒ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا ظہور ہیں اور ان میں وہ تمام آثار اور علامات موجود ہیں جو ایک مادر زادولی میں ہو نا چاہیے۔اس لئے وہ فرزند سے غیر معمولی محبت کرنے لگے تھے ۔ابھی سن شعور و شباب شروع ہی ہوا تھا کہ مروند کے نامور بزرگ حضرت شیخ ابو اسحاق باباابراہیم قادریؒ کو ان کے جد امجد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے عالمِ خواب میں آگاہ کیا اور کہا کہ مروند میں محمد عثمان (لعل شہباز قلندر)کی طرف توجہ کریں اور راہ سلوک کی منازل طے کرانے میں پوری پوری کوشش کریں ۔حضرت بابا ابراہیم صاحب ؒ نے اس خواب کے بعد آپ ؒ سے ملاقات فرمائی اور ایک ہی نظر میں ہونہار صاحبزادہ کو سینہ سے لگا لیا ۔حضرت قلندر صاحب ؒ نے محسوس کیا کہ باباابراہیم صاحب ؒ ایک طرح سے جانے پہچانے سے معلوم ہوتے ہیں ۔دن بدن ان کی محبت دل میں گھر کرنے لگی ۔آخر ایک دن عصر کے بعد بابا ابراہیم قادری ؒ صاحب نے مروند کے مشائخ کو جمع کیا اور اس خصوصی تقریب میں حضرت قلندر صاحب ؒ کو سلسلہ قادریہ میں داخل فرماکر سلوک و معرفت کی منازل طے کرانا شروع کردیں۔
بغداد شریف سے سندھ کے لئے روانہ ہوئے تو پہلے ایران تشریف لائے اور حضرت امام رضا صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے روضہ مبارک پر حاضری دی ۔یہ دوسری حاضری تھی ۔مختصر قیام میں بہت کچھ حاصل کیا۔اس کے بعد ایران اور اس کے اطراف میں مقیم مشاخین سے ملاقاتیں فرمائیں ۔سب سے فیضیاب ہوتے ہوئے اور سب کی دعائیں لیتے ہوئے مکران میں تشریف لائے ۔چند روز قیام فرمایا اور مکران میں خدمت اسلام کے فریضہ کوانجام دینے والے بزرگوں سے ملاقات فرمائی ۔علماء اور مشائخ سبھی کی خدمت میں حاضری دی ۔جہاں بھی گئے اور جس سے بھی ملے ۔ہر جگہ نظرِ محبت سے نوازے گئے ۔بس ایک ہی خیال تھا کہ سندھ کی سرزمین پر پہنچوں اور وہ فریضہ اداکروں جس کے لئے غیبی اشارہ ملا ہے چنانچہ مشاخین اسلام سے اس مقصد میں حصو لِ کامیابی کے لئے د عائیں کراتے ہوئے مکران سے علاقہ سندھ میں داخل ہو گئے ۔
حضرت لعل شہباز قلندررحمتہ اللہ علیہ مکران سے براستہ بلوچستا ن سندھ میں تشریف لائے مگر قدرت کو ابھی یہ بات منظور نہیں تھی کہ آپ ؒ اپنے اصلی مقام (سہون شریف) میں قیا م پذیر ہوں ۔اس لئے آپ ؒ بہت تھوڑے دن سندھ میں ٹھہرے اور پاک و ہند کے بعض نامور بزرگوں کی ارواح سے روحانی استفادہ کے لئے سندھ سے مار واڑکی سرزمین کو طے کرتے ہوئے سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت بابرکت میں اجمیر شریف حاضر ہوگئے ۔
حضرت قلندر صاحب ؒ نے اجمیر شریف میں چالیس دن سے زیادہ قیام کیا اوراس عرصہ میں اپنا تمام وقت عبادت و ریاضت کے علاوہ دربار حضرت خواجہ صاحب ؒ میں حاضر رہ کر مراقبہ میں صرف کیا ۔اس دربار کی حاضری سے آپ ؒ بہت مسرور ہوئے اور باطنی فیوضات سے مالا مال کئے گئے۔کہتے ہیں کہ آپ ؒ عصر کے وقت درگاہ شریف میں آتے تھے اور صبح فجر تک بیدار رہ کر حضرت خواجہ ؒ سے روحانی استفادہ فرماتے رہتے تھے ۔دہلی میں حضرت لعل شہباز قلندر صاحب ؒ نے سب سے پہلے حضرت قطب الاقطاب خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری دی اور ایک چلہ پورا مصروف عبادت و ریاضت رہے ۔
حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ دہلی سے رخصت ہو کر حضرت بوعلی شاہ قلندر ؒ کی خد مت میں پانی پت پہنچے اور کچھ عرصہ ان کی خدمت میں حاضر رہ کر منازل سلوک طے کئے اور قلندری کے ان رموز کو حاصل کیا جن کو کسی قلندر ہی کی خدمت میں رہ کر حاصل کیا جا سکتا ہے ۔حضرت بو علی شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ نے آپ ؒ کی طرف پھر توجہ فرمائی ۔جب تک رہے بڑی محبت سے پیش آتے رہے اور جب پورے طور پر فیض یاب ہو چکے تو حضرت بو علی شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ۔عثمان (لعل شہباز) تم ہمارے دوست ہو ہم تم سے محبت کرتے ہیں ۔تمہاراراستہ صاف ہو چکا ہے ہم تم کو یہیں کہیں رہنے کا حکم دیتے مگر اس علاقہ میں بہت قلندر ہیں اور سندھ کی زمین پر تم جیسے قلندر کی ضرورت ہے ۔اس لئے مناسب معلوم ہو تا ہے کہ آپ سندھ کی جانب جا ئیے۔پہلے ملتان میں قیام کیجئے ۔اس کے بعد اپنا مستقل مستقر تلاش کیجئے ۔مجھے اُمید ہے کہ سندھ کی سرزمین پر بسنے والے اللہ تعالیٰ کے بندوں کو تمہاری ذات سے بہت فیض پہنچے گا ۔حضرت لعل شہباز صاحب ؒ نے اپنے محسن و مخلص حضرت بوعلی شاہ قلندرؒ کے مشورہ کو قبول فرمایا اور پانی پت سے رخصت ہو کر ملتان شریف لائے اور اس علاقہ کے مشاہیر اولیاء اللہ کی خدمت میں رہ کرمصروف ریاضت ہو گئے ۔
حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ نے پانی پت میں جتنے عرصہ قیام کیا ،ریاضت وعبادت میں مصروف رہے ۔مختلف بزرگوں سے ملاقات اور ان کے مزاروں پر حاضری اور روحانی تعلیم و تربیت کے بعد جو کچھ آپ ؒ کو حاصل ہوا تھا۔اس میں پانی پت کی حاضری اورحضرت بوعلی شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ کی نظرِ التفات نے خاصا اضافہ کیا اور آپ ؒ اکتساب فیض سے سرفراز ہوکر حسب الحکم حضرت بو علی شاہ قلندر حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ ملتان کے لئے روانہ ہوئے ۔
کہتے ہیں کہ پانی پت سے ملتان کا سفر لعل شہباز صاحب ؒ نے لاہور کے راستہ طے کیا تھا یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ ؒ لاہور میں چالیس دن سے زیادہ مقیم رہے تھے ۔اس عرصہ میں زیادہ وقت آپ ؒ کو حضرت داتا گنج بخش صاحب ؒ کے مزار پر گزرتا تھا ۔آپ ؒ نے لاہور میں آرام فرمانے والے دوسرے بزرگوں کے مزارات پر بھی حاضری دی ۔خصوصاًحضرت شیخ حسین زنجانی ؒ حضرت سیّد یعقوب زنجانی ؒ اور حضرت سیّد اسحاق زنجانی ؒ کے مزارات پر حاضر ہوئے اور مراقبہ کا سلسلہ جاری رکھا۔یہ تینوں حضرات آپس میں رشتہ دار تھے اور حضرت گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ سے کچھ عرصہ پہلے لاہو ر آئے تھے ۔ان حضرات نے اس علاقہ میں اسلام کی اشاعت میں خاصی کوشش فرمائی اور بہت سے لوگوں کو اسلام لانے کی توفیق ملی ۔حضرت گنج بخش صاحب ؒ 431ھ میں لاہور تشریف لائے تھے ۔جس دن آپ ؒ نے لاہور میں قدم رکھا ۔اسی دن حضرت شیخ حسین زنجانی ؒ نے وفات فرمائی۔دونوں ساتھی بزرگ پہلے ہی اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو چکے تھے ۔ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ لعل شہباز صاحب ؒ لاہور سیالکوٹ بھی تشریف لے گئے تھے اور چند روز�آپ ؒ نے حضرت سیّد امام لا حق ؒ کے مزار پر مراقبہ فرمایا تھا۔
حضرت سیّد امام علی صاحب ؒ کے متعلق تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ یہ حضرت بھی شیخ حسین زنجانی ؒ کے رشتے دار تھے اور تبلیغ اسلام کے لئے سیالکوٹ کو پسند فرمایا تھا ۔آپ ؒ نے جب سیالکوٹ میں قدم رکھا تو وہاں ایک ہندو راجہ کی حکومت تھی ۔اس وقت اگر چہ تغلق خاندان کی حکمرانی تھی مگر سلطان کی طرف سے راجہ کو حکومت کرنے کی اجازت ملی ہوئی تھی مگر راجہ اندر خانہ مسلما نوں کا دشمن تھا ۔کہتے ہیں کہ راجہ کو کسی نے بتایاکہ اگر کسی مسلمان کا خون قلعہ کی دیواروں پر چھڑک دیا جائے تو مسلمان پھر اس قلعہ کو کبھی ختم نہیں کر سکیں گے چنانچہ راجہ نے ایک بڑھیا کے نوجوان بیٹے کو قتل کراکر اس کا خون قلعہ کی دیواروں پر چھڑکوایا ۔بڑھیا نے امام صاحب سے فریاد کی اور پھر فیروز شاہ تغلق تک گئی ۔بادشاہ نے امام صاحب کی سرپرستی میں اسلامی فوج کو راجہ کے مقابلہ کیلئے بھیج دیا۔
امام صاحب نے راجہ سے مقابلہ کیا ۔شکست دی اور قلعہ پر قبضہ کرلیا مگر اس کے بعد ہندوؤں نے دھوکہ سب خون ماراجس میں امام صاحب اور ان کے ساتھی شہید ہو گئے جن کے مزارات قلعہ کے قریب ہیں۔یہ واقعہ 686ھ کاہے ۔
حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ لاہور اور سیالکوٹ کے بعد ملتان تشریف لائے اور یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں سے آپ ؒ نے اپنے اصلی مستقر سیوستان (سیون )میں قدم رنجہ فرمائیں گے ۔ملتان میں کچھ عرصہ ٹھہرنے کی طرف حضرت بوعلی شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ نے جو اشارہ فرمایا تھ ا۔اس کی بڑی وجہ یھی کہ اس زمانہ میں ملتان شہر جلیل القدر بزرگوں کا مرکز تھا ۔
ان تینوں بزرگوں کے نام یہ تھے ۔حضرت بابافرید گنج شکر ؒ ،حضرت بہاؤ الدین ذکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت جلال الدین بخاری ،جہانیاں جہاں گشت ؒ ۔ایک اور چوتھے بزرگ کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور وہ حضرت بہاؤلدین ذکریاؒ کے فرزند نامدار شیخ صدر الدین عارف ؒ ہیں ۔
اللہ تعالیٰ حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ کی رہنمائی فرما رہے تھے ۔مشیت یہ تھی کہ آپ ؒ اپنے اصلی مستقر پر قیام پذیر ہونے سے پہلے سلوک و طریقت کی وہ تمام منزلیں طے کر لیں جس کی ایک سالک و عارف کوضرورت ہوتی ہے اورجن کے بغیر کوئی شخص جاوید زہدو قناعت پر اپنی استقامت کا ثبوت نہیں پیش کر سکتا ہے چنانچہ حضرت قلندر صاحب ؒ نے ان چاروں بزرگوں کی صحبت سے اچھی طرح فیض اٹھایا اور بہت دن ان سب حضرات کے قرب میں رہ کر ریاضت و عبادت کے مناز ل طے کئے اور تصوف و سلوک پر مذاکرات ہوتے رہے ۔تذکرہ نگاروں نے اس دور کو چاریاروں کا دور کہا ہے یعنی مذکورہ بالا حضرات اور چوتھے حضرت لعل شہباز صاحب ؒ تھے ۔
اب وہ زمانہ پورا ہو چکا تھا جس میں حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کو اکتسابِ فیض اور تعلیم و تربیت کی ضرورت تھی۔طویل سیروسیاحت اور عرصہ تک دہلی و مانی پت کے قیام اور پھر لاہور وغیرہ کے بعد ملتان آپؒ کے حصول علم اور اکتسابِ فیض کی آخری منزل تھی ۔بزرگوں کی صحبت نے اب آپ ؒ کو اس قابل بنا دیا تھاکہ آپ ؒ اپنے اصل مستقر سیوستان کی طرف جائیں اور اس علاقے کے باشندوں کو دین اسلام اورنیک بندے کام کرتے رہے ہیں اور ان کو گناہوں میں ڈوبی ہوئی زندگی سے نکال کر اس راستہ پر لگائیں جس کے لئے ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کے نیک بندے کام کرتے رہے ہیں اوراللہ تعالیٰ کی مخلوق کو راہِ ہدایت پر لگاتے رہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ ملتان سے سیوستان میں تشریف لے آئے گویا اپنی اس آخری منزل اور دائمی آرام گاہ میں پہنچ گئے جہاں اللہ تعالیٰکے دین کے لئے کام کرنا تھااور اللہ تعالیٰ ہی کے نام پر جان دے کر دائمی نیند سونا تھا۔
سیوستان کو سیون بھی کہتے ہیں ۔یہ سندھ کابہت قدیم شہر ہے ۔مشہور مورخ صاحب تحفت الکرام بیان کرتے ہیں کہ سہوان کو ایک شخص سیون نے آبا د کیا تھا۔یہ سہوان سندھ کی اولاد سے تھا ۔اسی سندھی کی وجہ سے اس پورے علاقے کو صوبہ سندھ کہا جانے لگا ۔شروع میں یہ شہر رایان الور کے ماتحت تھا ۔اس کے بعد ٹھٹھہ کے بادشاہوں کی حکومت میں شامل کر لیا گیا ۔جب شاہ بیگ ارغون نے سندھ کی حکومت حاصل کی تو یہ شہر سہون اس کے ہاتھ میں چلا گیا مگر شاہ بیگ نے اس ٹھٹھہ سے الگ کردیا تاکہ انتظام میں آسانی ہو سکے ۔اس کے بعد جب شاہ حسن ارغون کی حکومت کا زمانہ آیا تو اس نے اس کو پھر ٹھٹھ ہ میں شامل کر لیا ۔اکبر بادشاہ کے زمانہ میں سندھ کو مغلیہ حکومت کاصوبہ بنایا گیا تو سیوستان یعنی سہون کا الگ ایک حاکم مقرر کیا گیا ۔اب خدایار خان کلہوڑا کے زمانہ سے پہلے کی طرح سیون سندھ میں شامل ہے ۔
حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ نے ملتان سے سیون میں تشریف لاکر جس علاقہ کو اپنی سکونت کے لئے پسند فرمایا ۔وہ پوراعلاقہ پیشہ ور عورتوں کا علاقہ کہلاتا تھا ۔ہزاروں عورتیں جو اس علاقہ میں رہتی تھیں۔وہ اگرچہ اپنے آپ کو مسلمان کہتی تھیں مگر زنا کاری ان کا ذریعہ گزر اوقات تھا۔وہ عورتیں کہاکرتی تھیں کہ ہم زنا نہیں کرتی ہیں بلکہ یہ تو ایک طرح کامنع ہے جو ہروقت ہر شخص سے کیا جاسکتا ہے ۔بہر حال حضرت قلندر صاحب ؒ نے سب سے پہلے ان فاحشہ اور کسی عورتوں کی طرف توجہ فرمائی اور اللہ تعالیٰ سے زنا کاری اور فحاشی کاجو بازار متعہ کے نام سے
گرم ہو رہا تھا۔اس کے سرد ہونے کی دعا فرمائی اور عرض کیا کہ اے میرے رب !یہ تیرا بندہ (عثمان )تو خود تیرے نامور بندوں کی اولادمیں سے ہے ۔میرے داداعلیؓ اور حسینؓ نے تو اس کی سخت ممانعت فرمائی ہے ۔اے میرے اللہ !ان کو ہدایت اور پاکبازوں کا راستہ دکھا ،توبہ کی توفیق عطا فرما اور میرے آباؤاجداد کے بتائے ہوئے سچے راستہ پر چلنے کی ہدایت دے ۔اے اللہ !یہ بڑے گندے اور دین کو خراب کرنے والے لوگ ہیں ۔ان کی گندگی اور گندی باتوں سے دین کو بچائے رکھنا۔حضرت قلندر صاحبؒ کی اس دعانے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبولیت حاصل کی اور اللہ تعالیٰ نے ان زانیہ عورتوں کے دل نیکی کی طرف متوجہ کر دئیے اور وہ سب جمع ہوکر حضرت قلندر صاحب ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اورکہنے لگیں کہ حضرت قلندرصاحب ؒ ہم کو توبہ کرادیجئے اورہم نیکی اور اچھے اخلاق کی بیعت کرتی ہیں۔حضرت قلندر صاحب ؒ نے اللہ تعالیٰ کی بارگا ہ میں نفل شکرانہ اداکئے اور ان تمام عورتوں کوتوبہ کرائی اور ان سے نیکی کرنے اور گناہوں سے بچنے کی بیعت لی ۔اللہ تعالیٰ نے ان کے دل بدل دئیے اور وہ بدترین علاقہ نیک عورتوں کا علاقہ بن گیا۔
کہتے ہیں کہ ان عورتوں کی توبہ اور بیعت کے بعد زنا کار مردوں کا ایک ہجوم جمع ہو گیا اور انہوں نے لعل شہباز صاحب ؒ کے متعلق جادوگر ہو نے کا شور مچانا شروع کردیا اور عورتوں سے کہا کہ یہ شخص جادوگر ہے اور تم کو تمہارے مذہب سے ہٹانا چاہتا ہے لہٰذاتم اس کے کہنے میں مت آنا۔یہ اس سے پہلے لوگوں کو ان کے باپ داداکے طریقے سے ہٹاکر گمراہ اور بے دین بناچکا ہے مگر حضرت شہباز قلندر صاحب ؒ کی دعا نے ایسا اثر کیا تھا کہ مردوں کے شور مچانے اور عورتوں کو سمجھانے کا کوئی اثر نہیں ہوا جو توبہ کر چکی تھیں وہ اپنے فیصلہ پر جمی رہیں اور بدستور حضرت قلندر صاحب ؒ کے قریب بیٹھی رہیں اورانہوں نے مردوں سے صاف صاف کہہ دیا کہ تم لاکھ کہومگر اب ہم اس برے کام کی طرف نہیں لوٹیں گے ۔اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہدایت کے راستہ پر لگایاہے اور یہ ہماری بہت بڑی خوش قسمتی ہے ۔اب تم جاؤ یا پھر ہماری طرح اللہ تعالیٰ کے دین کے راستہ پر آجاؤاور وہ ہدایت حاصل کرلوجو خوش قسمتوں کو ملتی ہے ۔ہدایت یافتہ عورتوں کی باتوں نے زانی مردوں پر کوئی اثر نہیں کیا اور وہشور مچاتے ہوئے حضرت قلندر صاحب ؒ کے قریب آگئے ۔حضرت قلندر صاحب ؒ نے جب یہ دیکھا کہ ان کی نیت خراب ہورہی ہے اور یہ فساد کے درپے ہورہے ہیں تو آپ ؒ نے قبلہ رخ کھڑے ہوکر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی پریشانی کا حال بیان کیا اور عرض کیا کہ اے میرے مولیٰ !میں تنہاہوں اور تیرے فاسد اِرادوں سے باز رکھ اور ا ن کے دل میں نیکی کاجذبہ پیدا فرما۔تاکہ یہ برائی سے نکل کر بھلائی کی طرف آجائیں اور اس نئے مقام میں جہاں تیرے دین کو غالب کرنے کا خیال کرتا ہوں ہر طرف بھلائی اور نیکی کابول بالا ہو جائے ۔فاسد اِرادوں سے باز رکھ اور ا ن کے دل میں نیکی کاجذبہ پیدا فرما۔تاکہ یہ برائی سے نکل کر بھلائی کی طرف آجائیں اور اس نئے مقام میں جہاں تیرے دین کو غالب کرنے کا خیال کرتا ہوں ہر طرف بھلائی اور نیکی کابول بالا ہو جائے ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت قلندر صاحب ؒ کی یہ درخواست بھی قبول فرمائی اور جو لوگ شور مچا رہے تھے اور عورتوں کو چھیننے کی تدابیر کر رہے تھے ۔ان کے دل میں ایک د م ہدایت کا جذبہ پیدا ہوا اور سب کے سب حضرت قلندر صاحب ؒ کے سامنے زمین پر گر گئے اور زور زور سے توبہ توبہ کہنے لگے ۔حضرت قلندر صاحب ؒ نے ان سب کو اُٹھایا ،وضو کرایااور سب کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرتے ہوئے اسلام کے سچے اصولوں اور عقائد کی تعلیم سے آگاہ کیا ۔سب تائب ہو کر بھلائی کی طرف آگئے اور وہ سیون جوکچھ عرصہ پہلے بدکاری کے لئے مشہور تھااور جہاں پیشہ ور زانیوں کا ہر آن مجمع لگا رہتا تھا ۔ایک دم گناہوں سے دور نظر آنے لگا۔حضرت قلندر صاحب ؒ نے مردوں کو ہدایت ملنے اور توبہ کی توفیق حاصل ہونے کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا او ردیر تک بارگاہِ الٰہی میں سجدے کئے ۔اس کا ذکر کرتے رہے ۔اللہ تعالیٰ کے نیک بندے کبھی کسی کو پریشان نہیں کرتے ہیں ۔ان کا طریقہ سراسر محبت اور اخلاق کا طریقہ ہو تا ہے ۔البتہ جب کوئی ان سے مخالفت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کو جھٹلانے کے لئے اذیت اور لڑائی پر اتر آتاہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی نظرِ جلال حرکت میں آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندے شرارت کرنے والوں کی تباہی کی درخواست کرتے ہیں ۔یہی طریقہ تمام انبیائے اکرام کا رہ چکا ہے اور اسی طریقہ پر اولیاء اللہ عمل کرتے آئے ہیں ۔ایسا بھی ہوا ہے کہ نیک بندوں نے بڑی بڑی تکالیف اُٹھائی ہیں اور صبر کیا ہے اور ہر معاملہ کوا للہ تعالیٰ کے سپر د کر دیا ہے جیسا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا کہ باوجود مقبول بارگاہ ہونے کے آپؓ نے دشمنوں کی تباہی کے لئے بددعا نہیں فرمائی اورجملہ مصائب صبرو سکون سے برداشت کرتے رہے ۔یہاں تک کہ اپنا پورا گھر بار اور اپنی جان اپنے جگر گوشوں کی جانیں تک اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خاموشی سے قربان کردیں ۔بیان کیا جاتاہے کہ حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ اپنی جائے قیام سیون شریف کے علاوہ آس پاس کے دیہات میں بھی تبلیغ دین کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے اور اس گاؤں کے رہنے والوں کو نیکی کا راستہ دکھانے کے لئے وعظ و نصیحت فرمایا کرتے تھے ۔سیون سے چند میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں میں جاکر گاؤں والوں کو ہدایت کی طرف بلایا مگر وہ ہمیشہ سب کو تکلیف پہنچاتے رہے ۔حضرت قلندر صاحبؒ ؒ بھی اس گاؤں میں گئے اور باربار گئے ۔گاؤں والوں کو محبت سے سمجھانے کی کوشش کی مگر ان پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔اخلاق اور نرمی کو جب انہوں نے ٹھکرادیا تو حضرت قلندر صاحب ؒ کو سخت صدمہ ہوا اور آپ ؒ نے اللہ تعالیٰ سے بدکرداروں کی تباہی کے لئے درخواست کی ۔چند راتیں گزرنے کے بعد آپ ؒ کو خواب میں بتایا گیا کہ گاؤں میں جو لوگ اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں ۔ان کو اپنے گھروں سے باہر آنے کا حکم دیجئے چنانچہ حضرت قلندر صاحب ؒ نے ایک دن اس گاؤں میں اعلان کر دیا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺپر ایمان رکھتے ہیں اور نیک کاموں کی پابندی کرتے ہیں ۔وہ آفتاب ڈوبنے سے پہلے اپنے گھروں سے باہر آجائیں ۔اس اعلان کے ہوتے ہی اللہ والوں نے اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لیکر گھروں سے نکلنا شروع کردیا اور غروب آفتاب سے قبل سب گھروں سے باہر آگئے ۔شرارت پسند مذاق اڑارہے تھے اور آپس میں کہہ رہے تھے کہ یہ سب کچھ ہمیں ڈرانے کے لئے کیا جا رہاہے۔آخر رات شروع ہوگئی اور شرارت پسند لوگ اپنے گھروں میں جاکر سو گئے ۔آدھی رات کے بعد زلزلہ کے جھٹکے شروع ہوئے ۔بدکرداروں نے گھر سے نکل کر بھاگنے کی کوشش کی مگر کوئی کامیاب نہ ہوسکا اور ان کے گھر دیکھتے ہی دیکھتے الٹے ہو گئے ۔تمام بدکردار دَب کر مر گئے مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت سے نیک لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ۔اللہ تعالیٰ کی اس قدرت اور غضب نے آس پاس کے بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں اور ہزاروں آدمی تائب ہو کر بھلائی کے راستہ پر آگئے ۔کہتے ہیں کہ اس گاؤں کے الٹنے کے آثار اب بھی پائے جاتے ہیں اور لوگ حضرت قلندر صاحب ؒ کے مزار کے قریب کرامات کے ظہور سے ایک طرح کی ترغیب مقصو د ہوتی ہے تاکہ لوگ ڈر کر نیکی کی طرف آجائیں ورنہ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے۔وہی تو اپنے بندوں کا پیدا کرنے والاہے ۔وہ ان بندوں کوبھی کھانے کو دیتا ہے اور زندہ رکھتا ہے جو اس کی نافرمانی کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی باتوں پر کان نہیں لگاتے ہیں ۔عام طور پر یہ کرامت بیان کی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ سیون میں اورآس پاس کے علاقے میں بڑا سخت قحط پڑااور اتنا سخت تھا کہ اس کے اثرات پورے علاقہ میں شدت سے محسوس کئے جارہے تھے ۔بارش بند ہوگئی تھی ،کھیت سوکھ گئے تھے ،زمین میں پانی نیچے بیٹھ گیا تھا اور کنویں اتنے گہرے ہوگئے تھے کہ دور تک پانی نظر نہیں آتا تھا ۔غرض ہر طرف پریشانی اور تباہی مچی ہوئی تھی اس علاقے کے صدہا آدمیوں نے حضرت شہباز قلندر ؒ کی خانقاہ کو گھیر ااور فریاد کرنے لگے ۔حضرت قلندر صاحب ؒ نے اپنے حجرے سے باہر آکر لوگوں کو سمجھایا اور فرمایا کہ سب لوگ توبہ کرو اور میرے پیچھے کھڑے ہوکر جب میں دعا مانگوں تو تم سب بلند آواز سے �آمین کہتے جاؤچنانچہ سب لوگ اللہ تعالیٰ سے تو بہ کرتے اور اپنے گناہوں پر معافی مانگتے ہوئے حضرت قلندر صاحب ؒ کے پیچھے کھڑے ہوگئے ۔حضرت قلندر صاحب ؒ نے قبلہ رخ کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ :۔’’اے میرے رب !میں تیرا ایک عاجز اور مسکین بندہ ہوں۔میرے گناہ اتنے زیادہ ہیں کہ مجھے تیرے سامنے حاضر ہوتے ہوئے شرم آتی ہے مگر میں تیرے حکم کے مطابق تیری بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں اور س مشکل میں تجھے پکانے کی ہمت کر رہا ہوں ۔اے اللہ !اپنی رحمت اور اپنے کرم پر نظر فرما اور میر ے گناہوں کی کثرت کو نہ دیکھ ،یہ تیرے بندے میرے پاس آئے ہیں ااور میں ان کو تیری بارگاہ میں لے کر آیاہوں ۔اے اللہ !میری فریاد کو سن لے اور اس قحط سے اپنے بندوں کو نجات عطافرما۔اے اللہ !اپنے کنوؤں کو حکم دے کہ وہ پانی سے ابلنے لگیں ۔اے اللہ !رحم فرمااور ہم سب کی فریاد کو سن لے اور ہم سب کواس عذاب سے نجات عطا فرما۔اے اللہ !ہم تجھے تیرے آخری نبی حضرت محمدمصطفی ﷺکا واسطہ دیتے ہیں اور التجا کرتے ہیں کہ ہماری آہو زاری پر ہماری طرف نظرِ کرم سے دیکھ اور یہ قحط جس نے تیرے بے شمار بندوں کو نڈھال اور پریشان ر دیا ہے ۔ان کو اس مصیبت سے نجات عطا فرما۔اے اللہ !ہم بڑی امیدوں کے ساتھ تیری بارگاہِ عالیہ میں حاضر ہوئے ہیں اور تیری رحیمی و کریمی سیامید کرتے ہیں کہ تو ہم کو ناکام واپس نہیں فرمائے گا۔ بیان کیا گیا ہے کہ اس دعاکے ختم ہوتے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت فرمائی اور ابھی لعل شہباز صاحب ؒ اپنی خانقاہ میں پہنچے بھی نہیں تھے کہ آسمان سے پانی برسنے لگا ۔ایک رات گزرنے پائی تھی کہ خشک زمین شاداب ہوگئی اور ہر طرف سبزہ نظر آنے لگا ۔انسانوں اور جانوروں میں زندگی کی لہر پیدا ہوگئی ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندے کی دعا قبول فرمائی اور اپنے بندوں پر سے اس عذاب کو اُٹھا لیا جو پورے علاقہ کو پریشان کئے ہوئے تھا۔حضرت قلندر صاحب ؒ نے دوسرے دن اپنی خانقاہ میں جشنِ مسرت منایا اور غرباء کو دعوتِ طعام دی اور بعد عشاء ذکرِ رسول میں ایک محفل خاص کا انعقاد کیا۔حضرت شہباز رحمتہ اللہ علیہ کی ایک بڑی کرامت یہ بھی مشہور ہے کہ آپ کے پاس آنے والاکوئی بیمار کبھی مایوس نہیں جاتا تھا۔جب کسی بیمار کو دیکھتے تھے اس پر گہری نظر جما دیتے تھے اور فرماتے تھے ’’اے بیماری! میں اللہ تعالیٰ کے نام کا واسطہ دیتاہوں کہ تو اس کے پاس سے چلی جا ‘‘اس جملہ کے کہتے ہی بیمار میں تندرستی کے آثار پیدا ہونے لگتے تھے ۔اس کے بعد آپ ؒ قرآنِ کریم کی چند آیات تلاوت فرماکر پانی پر دم کر دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس پانی کو بیمار کو پلاؤ اور بیمار کی آنکھوں پر لگاؤ۔تیماردار!آپ ؒ کی نصیحت پر عمل کرتے تھے اوربیمار اچھے ہو جاتے تھے ۔آپ ؒ جوآیات تلاوت کرتے تھے وہ قرآن کریم کی دوسورتیں ہوا کرتی تھیںیعنی سورۃالناس اورسورۃ فلق۔پھرایک مرتبہ سورۃفاتحہ اور اس کے بعد آپ ؒ کلمہ طیبہ ایک مرتبہ پڑھ کر خلفاء راشدین کے نا م کیواسطے سے مریض کی شفاء کیلئے دعا فرمایا کرتے تھے ۔آپؒ کا یہ معمول تھا اتنا مجرب تھاکہ کبھی کسی مریض کو آپ ؒ کے یہاں سے مایوس واپس جانے کا اتفاق نہیں ہوتا تھا ۔اللہ تعالیٰ سب کو شفاء عطا فرماتا تھا۔ یہ بھی روایت مشہور ہے اور ادن رات بیمار ا کا تجربہ کرتے رہتے ہیں کہ آپؒ کے مزار پر حاضر ہونے کے بعد آپ ؒ کی روح پر فاتحہ پڑھی جائے اور ایصالِ ثواب کے بعد ایک مرتبہ الحمد ۔ایک مرتبہ کلمہ طیبہ اور اس کے بعدچاروں خلفاء کا نام لے کر اللہ تعالیٰ سے شفائکی درخواست کی جائے تو بیمار کو صحت حاصل ہوتی ہے ۔چنانچہ بہت سے بیمار دوردراز سے مزار پر آتے ہیں اور مذکورہ بالا طریقہ پر عمل کر کے صحت حاصل کرتے ہیں۔ہر روز نئے نئے بیماروں کے آنے کا سلسلہ قائم رہتاہے اور اللہ تعالیٰ کے بندے صحت یاب ہوکر واپس جاتے ہیں۔مزار کے وریب بہت سے فقیر فقراء رہتے ہیں اور وہ بیماروں کو دعامانگنے اور آیات و کلمات پڑھوانے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے نام پر اللہ تعالٰٰ کے بندوں کی مدد کے لئے اگر کیا جاتا ہے تو فائدہ ہوتا ہے ،ورنہ کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔حضرت لعل شہباز صاحب ؒ کی یہ کرامت عام طور مشہور و معروف ہے کہ آپ ؒ اپنی خانقاہ کے صحن میں وضو کر رہے تھے ۔جس جگہ وضوفرما رہے تھے وہاں دھوپ تھی ۔چند مریدین نے عرض کیا کہ حضرت اس جگہ ہم ایک سایہ دار درخت لگائیں گے تاکہ کچھ دن کے بعد سایہ ہو جائے اور اس کے سائے میں لوگوں کو بیٹھنے سے آرام ملے ۔آپ ؒ نے وضو سے فارغ ہو کر ایک مرید کو اپنی مسواک دیدی ،فرمایا۔اسی جگہ اس کو زمین میں کھڑی کر کے لگادو۔مرید صاحب نے حسب حکم مسواک زمین میں گاڑ دی ۔اللہ تعالیٰ کی شان کہ دوسرے دن اس میں شاخیں نمودار ہوگئیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند روز میں اس مسواک نے درخت کی شکل اختیار کرلی اور بڑی جلد ہی ایک سایہ دار درخت تیار ہو گیا۔کہتے ہیں کہ جب تک آپؒ حیات رہے یہ درخت بڑھتا اور پھیلتا رہا اور اس کے سایہ سے لوگ فائدہ اُٹھا تے رہے اور جس دن آپ ؒ نے وفات فرمائی درخت خودبخود سوکھنا شروع ہو گیا۔ہر چندلوگوں نے کوشش کی اور اس کی جڑ میں پانی وغیرہ ڈالا مگر درخت سوکھتا ہی گیایہاں تک کہ چند روز میں اس کا نام و نشان ختم ہو گیا۔یہ بھی بیان کیا جاتاہے کہ جب تک وہ درخت قائم رہا کوئی شخص یہ نہیں پتہ لگا سکا کہ یہ کس چیز کا درخت ہے ۔صرفہرے پتے اور گھنی شاخوں کے سوا نہ پھول اس میں آتے تھے اور نہ پھل آتے تھے ۔اللہ تعالیٰ کی شان کا یہ عجیب کرشمہ تھا۔حضرت قلندر صاحب ؒ کا اسم گرامی محمد عثمان تھا مگر آپ ؒ نے لعل شہباز قلندر ؒ کے نام سے شہرت حاصل کی ۔محمد عثمان نام رکھنے کی وجہ بھی یہ بیان کی گئی ہے کہ آپؒ کے والد حضرت سیّد محمد کبیرالدین صاحب ؒ کے کوئی اولاد نہیں ہوتی تھی اور وہ قطع نسل کے خیال سے سخت پریشان رہتے تھے ۔چنانچہ ایک خواب میں انہوں نے حضرت علیؓ کو دیکھااور عرض کیا کہ اے امیر المومنینؓ!آپؓ میرے حق میں اولاد کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے فرزند عطا فرمائے ۔حضرت علیؓ نے ارشاد فرمایا ۔احمد!اللہ تعالیٰ تم کو بیٹا عطا فرمائے گا مگر ایک میری بات یاد رکھنا کہ جب فرزند ہوتواس کانام محمد عثمان رکھنااور جب وہ تین سو چوراسی دن کا ہو تو اس کو لے کر مدینہ طیبہ حاضری دینا اور حضور ﷺکے سلام کے بعد حضرت سیّد عثمانؓ کے مزار پر لے جانااور سلام عرض کرنا چنانچہ یہ خواب پورا ہوا اور جب آپ ؒ پیداہوئے تو والد نے محمد عثمان نام رکھا اورتین سو چواراسی دن جب پورے ہوئے تو طیبہ میں حاضری دی اور حسب وصیت تمام کام انجان دئیے۔بعض لوگوں کا بیان ہے کہ تین سو چوراسی دن کی قیادت میں یہ اشارہ تھاکہ لفظ قلندر کے بھی ۳۸۴عدد نکلتے ہیں ۔بہر حال جفظ کی وجہ تسمیہ کے سلسلہ میں اور بھی متعدد روایات زبان زد خاص و عام ہیں اور جن کو ہم نے پچھلے اوراق میں حوالہ کتاب بھی کیا ہے ۔ان روایتوں میں تھوڑا بہت اختلاف اور تضاد بھی پایاجاتا ہے مگرہم نے ہربات جیسی ہم کو پہنچی ہے اور ملی ویسی ہی یہاں بیان کر دی ہے ۔اللہ والوں کے معاملات میں ہم کسی تحقیق کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔جہاں جیسا ہے ،اسے ویسا ہی بیان کر دینا چاہیے البتہ کوئی ایسی روایت نہیں بیان کرنا چاہییجو دینی معاملات و احکامات کے خلاف ہو اور جس سے دین کو شریعت کواور اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺکی تعلیمات کو نقصان پہنچتا ہویا وہ بات اصو لِ دین اور شریعت کے خلاف ہو ۔کچھ لوگ آپ ؒ کے نام کے ساتھ مخدوم کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ ؒ کو مخدوم کا خطاب ملتان سے ملاتھاجب کہ آپؒ ملتان میں حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس منازل سلوک طے فرمارہے تھے ۔ تذکرہ صوفیائے سندھ نے اس سلسلہ میں بیان کیا ہے کہ :’’آپ کا اسم گرامی عثمان تھا لیکن عام طور پر لعل شہباز قلندر ؒ کے لقب سے مشہور ہیں ۔یہ لقب آپ کو آپ ؒ کے مرشد نے دیا تھا ۔آپ ؒ کیوالد ماجد کا نام سیّد کبیرتھا اور آپ ؒ حضرت امام محمد باقر صاحب ؒ کی اولاد سے ہیں ‘‘بیعت و سیاحت کے سلسلہ میں اسی کتاب میں بیان کیا گیا ہے کہ :’’سن شعورکو پہنچنے کے بعدحضرت باباابراہیم قدس سرہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر ان سے شرف بیعت حاصل کیا اور ایک سال کی مختلگ عبادتوں اور ریاضتوں کے بعد انوارِ الٰہی سے اپنے قلب کو روشن و منور بنا کر بابا ابراہیم ؒ سے خلافت حاصل کی اور بہت دن تک آپؒ شیخ منصور ؒ کی خدمت میں بھی رہے اس کے بعدبھی روحانی کسب کمال کیلئے آپ ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں گھومتے رہے ارومختلف اولیاء اروصوفیائے کرام کی صجتوں سے مستفیض ہوئے جن میں شیخ فرید گنج شکرؓ، حضرت زکریا ملتانیؒ ، حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت جلال الدین بخاریؓ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں شیخ صدرالدین عارفؒ سے بھی آپ کی ملاقاتیں رہیںْْجس طرح حضرت لعل شہباز قلندرؒ نام مشہورہونے کے سلسلہ میں بہت سی باتیں کی جاتی ہیں اسیِِِ طرح لفظ قلندر سے پہلے لال شہباز کے لفظ کے لگائے جانے کی بھی بہت سی وجوہات اور واقعات ہیں۔چنانچہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ ؒ لال رنگ کو بہت پسند کرتے تھے۔ ہروہ چیز جس کا رنگ لال ہوتا تھا آپ ؒ کو اچھی معلوم ہوتی تھی اور آپ اسے بہت غور سے دیکھتے رہتے تھے اوریہ بات بھی مشہور اور معروف ہے کہ آ پ ؒ لال رنگ کالباس استعمال کیا کرتے تھے اور چلنے پھرنے اور عبادت و تبلیغ کرنے میں بڑے جاں باز اور بہت تیز واقع ہوئے تھے ۔اس لئے لال کے ساتھ شہباز کا لفظ بھی آپ ؒ کیلئے استعمال کیا جانے لگا۔ایک بات یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ آپؒ سفید لباس پہنا کرتے تھے مگر ایک مرتبہ دہلی میں ایک مولوی صاحب اپنے وعظ میں سرخ رنگ کاذکر کر رہے تھے کہ حضرت امام حسینؓ کو سرخ رنگ بہت پسند تھا چنانچہ اسی دن سے آپ ؒ نے سرخ رنگ اختیار کرلیااور ایک قصہ یہ بھی مشہور ہے کہ آپ ؒ عالم جذب میں چھوٹے چھوٹے پتھروں سے کھیل رہے تھے ۔ان کو آسمان کی طرف اچھالتے تھے اور پھر اپنے کرتے کادامن پھیلاکر ان کو دامن میں لے لیا کرتے تھے ۔کسی شخص نے کہا کہ کیا پتھروں سے کھیل رہے ہو تم جیسے اللہ والے کو تولعلوں سے کھیلنا چاہیے۔آپؒ نے یہ بات سن کر کرتے کا دامن چھوڑ دیااور وہ پتھر جو کُرتے کے دامن میں تھے ،سب لعل بن کر زمین پر گر گئے اور چاروں طرف سرخ روشنی سی پھیل گئی اور آپؒ اس دن سے لعل شہباز کہے جانے لگے ۔یہ نام دوطرح لکھاہوا کتابوں میں ملتا ہے ۔ایک ’’لعل شہباز قلندر ‘‘اور دوسرے ’’لال شہباز قلندر ‘‘غرض صحیح حال اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ محمد عثمان کو لعل شہباز قلندر یا لال شہباز قلندر کہنے کی اصل وجہ کیا تھی ۔کچھ لوگ آپؒ کے نامکے ساتھ مخدوم کا لفظ استعما ل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کو مخدوم کا خطاب ملتان سے ملاتھاجب کہ آپؒ ملتان میں حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس منازل سلوک طے فرمارہے تھے ۔سیوستان میں آپؒ کے قیام کے سلسلہ میں عام مور خین اور خصوصاًتذکر�ۂسندھ نے بیان کیا ہے کہ :’’اتفاقاًسیوستان میں آکر آپ ؒ جس محلے میں مقیم ہوئے وہ کسبی عورتوں کامحلہ تھا ۔اس عارف بااللہ کے قدوم میمنت الزوم کا پہلا اثر یہ تھا کہ وہاں زناکاری اور فحاشی کا بازار سرد پڑ گیا ،نیکی اور پرہیز گاری کی طرف قلوب مائل ہوئے اور زانیہ عورتوں نے آپؒ کے دستِ حق پرست پر توبہ کی ‘‘ُ’پھر آگے چل کو اسی کتاب میں رشدوہدایت کے سلسلہ میں لکھتے ہیں کہ :۔’’مخدوم شہباز قلندر ؒ نے سیوستان میں رہ کر بگڑے ہوئے لوگوں کو سیدھے راستہ پر لگایا،ان کے اخلاق کو سنوارا،انسانوں کے دلوں میں نیکی اور سچائی کی لگن پیدا کی اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور پیار سے رہنا سکھایا‘‘۔حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی عمر کے آخری ایام جذب وشکر کے ایام تھے ۔قلندرانہ کیفیت طاری رہنے لگی چنانچہ آپؒ بہت کم حجرہ سے باہر تشریف لاتے مگر اسی حالت جذب میں بھی جب کوئی شخص بلند آواز سے کلمہ طیبہ پڑھتا تھایا ازان کی آواز آتی تھی تو فوراًہوش میں آجاتے تھے۔یہ بات بھی عام طور پر مشہور ہے کہ آپ ؒ کے سامنے جب کوئی شخص حضرت فاروقِ اعظمؓ کا نام لیتا تھاتو آپ ہوش میں آکر بلند آواز سے فرمایا کرتے تھے ۔ھذامرشدی حذامرشدیکہتے ہیں کہ جذب و سکر کا عالم ایک سال سے کم عرصہ قائم رہا اور آپؒ نے جب وفات پائی تو شعبان کی چاند رات سے یہ حالت بالکل ختم ہوگئی اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کبھی آپؒ پر جذب کا عالم طاری ہی نہیں ہوا تھا ۔صوفیائے سندھ کا بیان ہے کہ آخر عمر میں آپؒ نے قلندریہ مشرف اختیار کرلیاتھا اور جذب و سکر کی کیفیت طاری رہنے لگی تھی ۔آپ ؒ کے قلندروں کو لعل شہبازیہ کہتے ہیں۔شیخ محمد اکرام صاحب نے اپنی کتاب موج کوثر میں ایک انگریزی مورخ کے حوالے سے لکھاہے کہ حضرت قلندرصاحب ؒ بہت بڑے عالم اور بہت سی زبانوں کے جاننے والے تھے اور علوم صرف و نحو میں پوری مہارت رکھتے تھے ۔چنانچہ انگریز مورخ برٹن کے زمانہ ۱۸۵۲ء میں میزان لصرف اور صرف صغیر کی کتا بیں جو عام طور پر مدارس عربیہ میں پڑھائی جاتی تھیں ۔وہ سب آپ کی تصنیف تھیں اور آپؒ ہی منسوب کی جاتی تھیں۔میزان الصرف تو آج بھی درسِ نظامی میں شامل ہے اور عربی مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہے ۔حضرت قلندر صاحب ؒ چونکہ مذہبی علوم کے عالم تھے اور فارسی و عربی زبان پر پورا عبور رکھتے تھے ۔اس لئے اکثر اہلِ علم آپ ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور مسائل وقواعد میں آپؒ سے استفادہ کرتے تھے ۔یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ملتان میں حضرت زکریاملتانی رحمتہ اللہ علیہ نے جو مدرسہ قائم کیا تھااس میں آپ ؒ نے کچھ عرصہ درس وتدریس کی خدمت بھی انجام دی تھی اور صرف و نحو کے شائقین خاص طور پر آپ ؒ سے سبق لیا کرتے تھے ۔حضرت لعل شہباز قلندر رحمتہ اللہ علیہ جس وقت سیوستان تشریف لائے تو ان کی عمر کا بڑا حصہ گزر چکا تھا ۔تذکرہ نگاروں کے بیان کے مطابق نوے سال سے بھی زیادہ کی عمر ہو چکی تھی مگر اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے لوگوں کو دین کی باتیں بتاتے تھے ۔ آپ ؒ نے آٹھ سال کے قریب سیوستان میں قیام فرمایااور یہاں اپنی قائم کردہ خانقاہ سے اسلام کا نور پورے سندھ اور دوردراز کے علاقوں تک پھیلاتے رہے ۔آپ کی ذات سے ہزاروں انسانوں نے ہدایت کا راستہ پایااور اپنے بگڑے ہوئے اخلاق و اعمال کو سنوارا۔بھٹکے اور بہکے ہوئے لوگ اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہونے لگے ۔آپ ؒ نے اس علاقہ میں پھیلی ہوئی جہالت اور بربریت کو بھی دور کیا ۔خاندانی رنجشوں کی بناء پر جو لوگ مدتوں سے لڑتے بھڑتے چلے آ رہے تھے ۔ان کے دلوں کو رنجش و عداوت سے پاک کیا اور ان کوبھروسہ پر تیرے نام کی تبلیغ کررہاہوں تو میری مدد فرما 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *