Sunday, November 24, 2024
میگزین

اسلامی عبادات میں حج کا مقام

حج کا تصور بڑا قدیم ہے، پہلا حج حضرت آدمؑ نے پیدل چل کر کیا تھا، آپ نے چالیس پیدل حج کئے تھے۔ روایت میں آیا ہے کہ ہر نبی نے حج کی سعادت حاصل کی۔ حج کے لئے نیت شرط ہے حج ایک شرعی عمل ہے اور اس کا ثواب یا اجر اللہ کے ذمے ہے۔
حج تین قسم کا ہوتا ہے
(۱) تمتع:اس کے معنی فائدہ اٹھانا ہے۔ شریعت میں اس سے مطلب ہے میقات سے عمرے کا احرام باندھ کر خانہ کعبہ میں جا کر عمرہ ادا کرنا، پھر احرام کھول دینا۔ اس کے بعد ایام حج یعنی آٹھ ذی الحج کو دوبارہ حج کی نیت سے احرام باندھنا اور مناسک حج ادا کرنے کے بعد حلق کروانے کے بعد احرام کھول دینا۔
(۲)قرآن:اس کے معنی دو چیزوں کو ایک ساتھ ملانا یا اکٹھنا کرنا ہے۔ شریعت میں حج اور عمرے کا احرام ایک ساتھ باندھ کر پہلے عمرہ ادا کرنا اور پھر اسی احرام سے مناسک حج ادا کر کے حلق کروانے کے بعد احرام سے نکلنا ہیں۔
(۳) افراد:اس کے معنی کوئی کام اکیلے کرنا ہے ، شریعت میں حج افراد سے مراد وہ حج ہے جس کے ساتھ عمرہ نہ کیا جائے ، صرف حج کا احرام باندھے اور مناسق حج کی ادائیگی کے بعد احرام کھول دے یہ حج عموماً اہل مکہ مکرمہ اور اہل حل کرتے ہیں، حج بدل کرنے والے لوگ بھی یہی حج ادا کرتے ہیں، ان تینوں حج کے مسائل، شرائط اور فضائل جدا جدا ہیں، مگر اکثریت حج تمتع ہی ادا کرتی ہے۔احادیث میں اس کی فضیلت بھی بیان ہوئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ کو حج تمتع ہی کا حکم فرمایا تھا۔حج تمتع میں پہلے عمرہ ادا کیا جاتا ہے۔ جس کے لئے احرام شرط ہے۔
احرام:یہ معتمر(عمرہ کرنے والے) اور حاجی کا بغیر سلا لباس ہوتا ہے جو حج اصغر(عمرہ) اور حج اکبر کے موقع پر پہنا جاتا ہے، اسے پہننے والے کو’’محرم‘‘ کہا جاتا ہے ۔سب سے پہلے حضرت ابراہیم نے یہ لباس زیب تن فرمایا۔ اسے پہننے کے کچھ آداب ہیں، مثلا ناخن کاٹ لیں، جسم پر موجود غیر ضروری بال صاف کر لیں ، غسل کر لیں۔ مرد،دوچادریں بغیر سلی استعمال کرینگے۔ ایک تہبند کے طور پر اور دوسری کندھوں پر ڈال کر کمر اور سینہ ڈھانپ لیں۔ خواتین پر کوئی پابندی نہیں ان کے سلے ہوئے پاک اور ڈھیلے ڈھالے کپڑے ہی احرام ہیں۔ بس عریانیت نہ جھلکے۔ سر کے بالوں کو کسی رومال سے باندھ لیں ، چہرہ کھلا رکھیں پردے کی قید لازم نہیں ہے، مرد احرام کا نچلا حصہ اس طرح باندھیں کہ جیسے آپ چل رہے ہوں یعنی ایک ٹانگ آگے اور دوسری پیچھے ہو۔ دوسری چادر اوڑھ لیں، سر کھلا اور شانے ڈھکے رہیں، طواف کے وقت احرام کی چادر کو دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لیں، اسے ’’اصطباغ‘‘ کہا جاتا ہے۔احرام باندھنے کے بعد دو رکعت نماز ٹوپی اوڑھ کر ادا کریں، خواتین مجبوری کی حالت میں بغیر نماز نیت کر لیں گی۔ نماز سے فارغ ہو کر دعا مانگیں، پھر مرد ٹوپی اتار دیں اور ننگے سر عمرے کی نیت کریں اب یہ امور بالکل منع ہیں، خوشبو لگانا، ناخن کاٹنا، سر کے بال سنوارنا ، کاٹنا اور جسم کے کسی بھی حصے سے بال کاٹنا، ان میں مہندی یا حضاب کا استعمال، خشکی کے جانور کا شکار یا اس کا پتا بتانا، خوشبودار پھل پھول سونگھنا ، زن و شوہر کی بے حجانہ گفتگو کرنا، باہمی یا کسی اور سے جھگڑے کرنا، بدن کا میل کچیل دور کرنا، جوتا پہننا(ہوائی چپل پہنیں) ، سرڈھانپنا اور جوئیں وغیرہ صاف کرنا۔
تلبیہہ:لبیک کا کلمہ ادا کرنا، شرعی اصطلاح میں اسکے معنی دو کلمات ہیں جو احرام باندھنے کے بعد رمی جمار تک عازمین بلد آواز سے ادا کرتے رہتے ہیں وہ الفاظ یہ ہیں۔
’’لبیک اللھمہ لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ للک والملک لا شریک لک‘‘
ترجمہ:’’ میں حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں خالص تیرے لئے ہی حاضر ہوں، بے شک تعریفیں اور نعمتیں اور بادشاہی تیری ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں‘‘۔
احرام باندھنے کے بعد یہ کلمات ایک مرتبہ ادا کرنا فرض ہیں اور تین مرتبہ ادا کرناسنت ، تلبیہہ کو حاجی کا’’ترانہ‘‘ کہا جاتا ہے، حجاج کرام کی زبان پر ہر وقت یہ ورد جاری رہنا چاہیے۔
ہمارے ملک کی اکثریت حج تمتع ادا کرتی ہے،اس لئے یہ بات مد نظر رکھی گئی ہے کہ تمام احکام و مسائل اسی ترتیب سے لکھ دیئے جائیں جو اس حج کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے۔
عمرہ ادا کرنے کا طریقہ
مکہ پہنچ کر سب سے پہلے عمرہ ادا کرنا ہوتا ہے، حرم میں آپ کا داخلہ کسی بھی باب(دروازہ) سے ہو، انکساری و عاجزی کے ساتھ کعبتہ اللہ کی عظمت و جلال کا خیال رکھتے ہوئے داخل ہوں اور جونہی اس پر نظر پڑے، اپنی نظروں کو وہیں جما دیں، اپنی خوش قسمتی پر ناز کیجئے اور اپنے رب سے تمام جائز اور نیک خواہشات کی دعا مانگئے کیوں کہ دعا قبول کرنے والے کا گھر آپ کے سامنے ہے، یہ قبولیت دعا کا سب سے افضل اور برتر مقام ہے۔بہتر یہ ہے کہ اس مقام اور وقت پر آپ کو جو دعا مانگنی ہو، وہ پہلے سے یاد کر لیں، اس مقام پر بڑے بڑے بہادر لرزہ براندام ہو جاتے ہیں وہ اپنی قوت گویائی کھودیتے ہیں، اپنا مدعا بیان کرنا بھول جاتے ہیں، اس دربار میں بادشاہوں کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ وہ دعا خوب یاد کر لیں تاکہ آپ کو یہ خیال رہے کہ مجھے اپنے رب سے کیا مانگنا ہے کیوں کہ اس وقت وہ مائل بہ کرم ہوتا ہے اور آپ کی دعا کو رد نہیں کرتا۔
عمرہ ادا کرنے کے لئے ان اعمال سے گزرنا ہو گا۔
*احرام باندھنا، یہ عمرہ ادا کرنے کی شرط ہے۔
* طواف کعبہ، بیت اللہ کے گرد سات چکر لگانا یہ عمرے کا خاص عمل ہے۔
* صفا و مروہ کی سعی ، دونوں پہاڑیوں کے درمیان سات پھیرے(ضروری عمل ) لگانا۔
*حلق یعنی سرمنڈوانا یا قصر یعنی تمام سر کے بال کتروانا۔
مطاف میں پہنچ کر بیت اللہ کی عمارت کا بہ غور جائزہ لیں کیوں کہ اس کا دیکھنا بھی ثواب ہے، حرام کے ایک گوشے میں ہمیشہ ایک جلتی ہوئی لائٹ نظر آئے گی جو کبھی نہیں بجھتی۔ یہ لائٹ پٹی کی سیدھ اور حجر اسود کی نشاندہی کرتی ہے اس مقام پر آ کر تین کام کریں۔
* تلبیہہ پڑھنا بند کریں
* مرد اصطباغ کریں۔
* نیت طواف کر لیں ۔ اس کے بعد پٹی پر دائیں جانب ایسے بڑھیں کہ پٹی آپ کے دونوں قدموں کے درمیان ہو یعنی ایک قدم ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف ، خانہ کعبہ آپ کے بالکل سامنے ہو، اس طرح حجر اسود آپ کے بالکل سامنے ہو جائے گا یہاں بھی تین کام کرنے ہوں گا۔
* نماز کی تکبیر تحریمہ کی طرح ہاتھ کانوں تک لے جائیں، دونوں ہتھیلیاں خانہ کعبہ کی طرف ہوں اور یہ تکبیر’’بسم اللہ اللہ اکبر وللہ الحمد‘‘ صرف پہلے چکر کی ابتداء میں پڑھتے ہوئے ہاتھ کانوں سے نیچے گرادیں۔
*اب حجر اسود کا استلام کریں،اس کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھ ناف تک اٹھاتے ہوئے ہتھیلیوں سے حجر اسود کو تصور میں چھو لیں اور پڑھیں:’’ اللہ اکبر لا الہ الا اللہ والحمد اللہ والصلوۃ والسلام علی رسول‘‘ اس کے بعد ہتھیلیوں کو بوسہ دیں۔گویا آپ نے حجر اسود کو چوم لیا۔
* استلام کرنے کے بعد دائیں جانب مڑ جائیں کہ خانہ کعبہ آپ کے بائیں ہاتھ پر آ جائے، دوران طواف جو بھی تسبیح یا دعا یاد ہو پڑھتے رہیں، اگر کسی کو کوئی دعا یاد نہیں تو خاموشی سے چکر لگاتا رہے تب بھی طواف کا عمل پورا ہو جائے گا۔
اگر تسبیحات و دعائیں یاد کر لیں گے تو عبادات کے حسن میں نکھار آ جائے گا ، مردوں کو طواف کے پہلے تین چکروں میں ذرا سینہ تان کر چلنا ہے، یہ’’رمل‘‘ کہلاتا ہے۔ اگر کوئی شخص رمل کرنا بھول جائے تو کوئی بات نہیں، طواف میں خلل نہیں آیا، یہ ادا ہو جائے گا، جب رکن یمنی پر پہنچیں تو دائیں ہاتھ سے چھو لیں لیکن رخ کعبہ کی جانب نہ ہو اور اسی رکن سے حجر اسود تک ’’ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب الناس وادخلنا الجنۃ مع الابرار یا عزیز یا غفار یا رب العالمین‘‘ پڑھیں یہ ایک چکر پورا ہو گیا۔اس وقت پیروں کے نیچے کالی پٹی ہو گی ، قدم اسی طرح یعنی دایاں پیر آگے اور بایاں پیر پیچھے رکھتے ہوئے اپنا چہرہ اور سینہ حجر اسود کی طرف کرتے ہوئے استلام کریں اب نہ نیت کرنی ہے اور نہ ہاتھوں کانوں تک لے جانے ہیں اس طرح ہر چکر پر حجر اسود کو استلام کر لیں اور سات چکر مکمل کر لیں۔
طواف کی تکمیل کے بعدآٹھواں استلام کرنا ہے، حجر اسود کو بوسہ دینے اور رکن یمانی کوچھونے کا موقع نہ مل سکے تو کوئی ہرج نہیں، مقام ابراہیم کے پیچھے یا حرم میں جہاں بھی آسانی سے جگہ مل جائے، دو رکعت واجب الطواف ادا کر لیجئے، اس کے بعد خوب سیر ہو کر آب زم زم پیچھے اور یہ دعا کیجئے’’
اللہ انی اسئلک رزقا واسعا وعلمانافعا وشفا من کل د آ‘‘
پھر کالی پٹی پر واپس آئیں ، نواں استلام کریں اور سعی کے لئے روانہ ہو جائیں۔
سعی کا طریقہ
صفا پر سعی کی نیت کریں، اللہ انی ارید السعید بین الصفا والمروہ سبعۃ اشواط توجھک الکریم فیسرہ لی تقبلہ منی دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھائیے، مگر کانوں تک نہ لے جائیں، دعا کے بعد مروہ کی جانب روانہ ہوں، مرد حضرات سبز ستون آنے کے بعد ذرا تیزی سے چلیں گے، جب کہ خواتین معتدل رہیں گی، سبز لائٹ کے خاتمے کے بعد مرد اعتدال پر آ جائیں گے، تیزی ختم کر دینگے، مروہ پر پہنچ کر دعا کریں، یوں پہلا چکر ختم ہو جائے گا ، اب مروہ سے صفا کی جانب روانہ ہوں گے۔ یہ دوسرا چکر کہلائے گا۔ اس طرح سات چکر مکمل کر لیں ساتواں چکر مروہ پر اختتام پذیر ہو گا۔
بیت الحرام میں دو رکعت نفل سعی ادا کر لیجئے (اگر ممکن ہو) اب مرد حضرات اپنے بال حلق یا قصر کروائیں گے۔ جب کہ خواتین اپنی چوٹی سے ایک پوریا کچھ زائد مقدار میں(شرعی حکم کے مطابق) کاٹ لیں ، یہ عمرہ مکمل ہو گیا۔ احرام کی پابندی سے آزادی مل گئی، اب نہا دھو کر سلے ہوئے کپڑے پہن لیجئے۔
حضور ﷺ نے فرمایا ہے ’’تیرے حج کا ثواب تیری مشقت کے مطابق ہے‘‘اسلامی سال کے آخری مہینے میں یعنی’’ذی القعدہ کے بعد ذالحجہ کا مہینہ آتا ہے۔ ’’ وہ مبارک ایام آتے ہیں جن میں آج سے چودہ سو سال حضور ﷺ پر اللہ تعالیٰ نے آخری آیات نازل فرمائیں۔ یعنی دین حق کی تکمیل کا مژدہ جانفزا سنایا اور اپنی نعمتوں کو پورا فرما دیا اور ہمارے واسطے دین اسلام کو پسندیدہ دین فرمایا جیسا کہ سورۃ المائدہ آیت نمبر۲۷ میں ہے(ترجمہ) آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتوں کو پورا کر دیا اور میں نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا‘‘۔
انہی دو مہینوں میں ذی القعدہ وار ذی الحجہ میں خطہ ارض کے کونے کونے سے آئے ہوئے لوگ( مختلف النسل) حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کرتے ہیں یہ ان لوگوں کی انتہائی خوش بختی ہے کہ جن کو خداوند قدوس نے اپنے گھر کی حاضری نصیب فرمائی اور انہوں نے اپنے آنکھوں سے آیات بینات کو دیکھا جو اس سرزمین میں عموما اور خانہ کعبہ اور حرم شریف میں خصوصا نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔ حقیقت ہے کہ نگاہ بصیرت رکھنے والوں کو اس سرزمین پر ہر طرف اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہی نشانیاں نظر آئیں گی۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلمانان عالم اسلام کے روحانی،ایمانی، ثقافتی، اقتصادی، مذہبی اور سیاسی ارتقاء میں حج بیت اللہ شریف کا مقدس کردار بڑا مثبت اور موثر اہمیت کا حامل ہے۔ یا یوں سمجھ لیں کہ حج عظیم تمثیلی عبادت ہے۔ وہاں روحانی تعلیم و تربیت کا ایک مفید عملی کورس بھی ہے۔ جسے مکمل کر کے ایماندار اپنے ایمان کی حقیقت سے آشنا ہو جاتے ہیں۔
اصلاح ایمان کے بارے میں امام زین العابدینؓ کا قول ہے، ترجمہ’’حج اور عمرہ ادا کرو تاکہ تمہارے ایمانوں کی اصلاح ہو جائے حج شعائر اسلام اور ارکان دین محمدی علیہ الصلوۃ والسلام میں قرب الٰہی کا ذریعہ اور مجرب عمل ہے جس کے چھوڑنے سے گناہ لازم ہے کسی بھی حال میں حج اور عمرہ اگر استطاعت ہو چھوڑنا نہیں چاہیے۔ اس کا ترک کرنا گناہ عظیم ہے۔ حاجی اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوتا ہے حرم شریف میں براہ راست اللہ تعالیٰ کی حضوری اور میزبانی ہے اور خدا رب سبحانہ و تعالیٰ آنے والے مہمان کو اپنی خاص ملاقات سے نوازتا ہے۔
حج وہ اسلامی فریضہ ہے جس کی تکمیل و بجا آوری سے مومن کے گناہ دھل جاتی ہیں حضور ﷺ نے فرمایا کہ حج دو چیزوں کو ختم کردیتا ہے(۱) گناہ کو(۲) غربت اور مفلسی کو۔ اور نومولود بچے کی طرح گناہوں سے حاجی معصوم اور پاک ہو جاتا ہے۔
حضور ﷺ نے نو ہجری کو عظیم الشان جماعت کثیرہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حاکمیت کی پر نور فضاؤں میں حجتہ الوداع کا اہم بحکم الٰہی ادا فرمایا۔ حج تمام اسلامی اعتقادات و نظریات کا ایک ایسا شفاف اور آئینہ ہے جس میں ہر اہل ایمان کا اپنا چہرہ اپنی اصلی حالت میں دکھائی دیتا ہے۔کہاں حالانکہ آج سے چالیس ہزار برس پہلے یہ جگہ بے آب و گیاہ وادی تھی۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ صحرائے عرب و حجم اور عالم اطرف و اکناف میں آباد مخلوق خدا وندی اسی ابراہیمی صدائے بازگشت کے جواب میں والہانہ طور پر سنت خلیلیؓ کی اتباع و پیروی کرتے ہوئے نفس کشی، خاک نشینی، جسمانی مشقت، دنیاوی عیش و آرام اور نفسانی لذت کو معطل و موقوف کر کے اس مرکز اسلام اور بیت العتیق تک پہنچنے کے لئے سفر و خضر کی مسلسل دشواریوں کو عزم و حوصلہ اور خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے لبیک الھم لبیک کا روحانی ورد کرتے ہوئے ہر سال یہاں اتحاد و یگانگت کا عظیم اجتماع ہوتا ہے۔
حج کئی عبادتوں کا مجموعہ ہے حضور ﷺ کا فرمان مقدس ہے’’اگر تم کوہ قبیس کے برابر سونا بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خیرات کر دو تو بھی وہ ثواب، متربہ اور درجہ نہیں پا سکتے جو ایک حاجی کو فریضہ حج کے بعد ملتا ہے‘‘۔حج میں سنت اسماعیل اور سنت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کو وہ عظیم شرف و قبولیت حاصل ہوئی ہے کہ حاجی آج کل بھی حج سے فراغت پر مقام منیٰ میں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی تمام زندگی کا مقصد و مدعا ایثار قربانی ہے۔ سال کی ابتدا بھی قربانی اور انتہا بھی قربانی۔
ماہ محرم میں حضور ﷺ کے نواسے سیدنا حضرت امام حسینؓ کی قربانی اور ذوالحجہ میں فرزند اسماعیلؓ کی قربانی۔ علامہ اقبال نے اس کیفیت کو یوں بیان کیا ہے۔
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہیں اسماعیلؑ
حج کا فلسفہ یہ ہے کہ بندگان خدا جو خطہ ارض کے کونہ کونہ میں آباد ہیں وہ سال کے کچھ مخصوص ایام میں بیت اللہ شریف میں جمع ہو کر اللہ کریم کے اس فرمان(ترجمہ)’’ اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھواور فرقے فرقے مت ہو‘‘کی عملی شکل پیش کر سکیں۔اگر ان بندگان خدا کے دلوں میں کدورت اختلافات و تضادات بھی پیدا ہو چکے ہوں تو وہ بیت اللہ کی حاضری کی برکت سے ختم ہو جائیں یہاں یہ سارے ایک لباس میں ملبوس ہو کر ایک ہو جاتے ہیں اور ببانگ دہل یہ اعلان ہوتا ہے کہ مسلمانوں کا طرز زندگی، طرز معاشرت ، طرز سیاست، تمدن و تہذیب وغیرہ سب ایک ہے، ایک ہے، ایک ہو گا، ایک رہے گا۔
یہ ایک اصول اورضابطہ حیات ہے جب انسانی دلوں کے اختلافات مٹ جاتے ہیں۔ بغض و حسد کی آلودگی دھل جاتی ہے تو فاصلے سمٹ کر قربتوں میں بدل جاتے ہیں۔ قندیل محبت دلوں کو روشن کر دیتی ہے اور انسان انسان کا دوست ، غمخوار اور مونس بن جاتاہے اس طرح اسلامی معاشرے کی وہ تصویر جھلکتی ہے۔ جس کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ’’انسان کا ایک دوسرے انسانیت کی مسکراہٹ تصور کی جائے گی حج بیت اللہ شریف عالمی اتحاد و یگانگت کا ذریعہ اور بخشش کا ذریعہ وسیلہ ہے۔‘‘
حضور ﷺ کی زیارت کرنا، شفاعت اورمحبت اور نجات کا بہترین ذریعہ ہے۔
حضور ﷺ کے ارشادات مدینہ منورہ کے بارے میں اور آپ ﷺ سے ملاقات کے بارے میں۔
(۱) حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا، یا الٰہی جتنی برکت تو نے مکہ معظمہ میں پیدا فرمائی ہے اس سے دگنی مدینہ منورہ میں پیدا فرما(بخاری و مسلم)
(۲) جس نے نیت اورارادہ سے میری زیارت کی وہ قیادت کے دن میرے پڑوس میں ہو گا۔
(۳) ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو مدینہ منورہ میں مر سکتا ہو اسے یہاں مرنا چاہیے جو کوئی اس سرزمین پر مرے گا بلاشبہ میں اس کی شفاعت کرونگا(مسند امام احمد ترمذی)
(۴)حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا جس نے حج کیا اور میری قبر کی زیارت کی میری وفات کے بعد وہ ایسا ہی ہے جیسے اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔(مشکوۃ)
(۵) حضرت سفیان بن زبیرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ سے سنا ہے’’لوگوں کے لئے مدینہ بہتر ہے کاش وہ جان جائیں۔(مسلم)
(۶) جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی(فتح القدیر۹۴ جلد۳)
حضور ﷺ کی قبر مبارک کی زیارت کرنا قرب الٰہی کا سب سے بڑا ذریعہ اور عظیم تر عبادت ہے۔
جو مسلمان ایماندار بیت اللہ کا حج کر سکے اور سیدنا مصطفیٰ مجتبےٰ ﷺ کی زیارت کر سکتا ہو حج کے موقع پر اس کا دل مدینہ طیبہ منورہ کی حاضری کے بغیر کیسے سکون حاصل کر سکتاہے۔(الفقہ علیٰ مذاہب الاربعہ)
محبت رسولؐ ایمان کا جز لاینفک ہے۔ انبیاء علیہ السلام اپنے قبور مبارکہ میں زندہ ہیں تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ جو حاجی حج پر جائے۔ ضرور مدینہ منورہ جا کر حضور ﷺ       کی کے سامنے ان کو صلوۃ سلام پیش کرے اور شفاعت حقہ کا مژدہ جانفزا حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ  تمام مسلمانوں کو بیت اللہ  کا حج اور روضہ مبارک کی باربار زیارت نصیب فرمائے آمین ثم آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *