Monday, October 14, 2024
میگزین

ایک برہمن دوشیزہ

پنڈت لالہ رام کاسی کے پنڈتوں کا ایک نہایت مشہور گھرانہ تھا اطراف ہند کے سینکڑوں جاتری ہروقت اسکے مہمان خانے میں بھرے رہتے تھے ،جائیداد بھی اچھی خاصی تھی، برادری کے لوگ بھی اعتماد کی نظر سے دیکھتے تھے۔ کم وبیش سارے بنارس کے لوگ پنڈت جی کومانتے تھے شہرت کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ہزار تمناؤں کے بعدادھیڑ عمر میں ان کے ہاں ایک بچی پیدہ ہوئی۔ بچی کیا تھی جمال و زیبائی کی مورت تھی۔ماں کی مامتا اور باپ کی شفقت کہاں نہیں ہوتی لیکن اس گھرکا قصہ بڑا عجیب و غریب ہو گیا تھا صبح اٹھ کر جب تک ماں باپ اپنی بچی کا منہ نہیں دیکھ لیتے تھے کسی چیز کو دیکھنا حرام سمجھتے تھے۔ بچی نے جیسے ہی شعور کی منزل پر قدم رکھا اس کی تعلیم و تربیت کے لئے کئی کئی اتالیق مقرر کر دیئے گئے قامت و رخ کی دل کشی کے ساتھ ساتھ عقل و ذہانت بھی اسے غضب کی ملی تھی۔ چودہ برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتے وہ علم و ہنر میںیکتائے روزگار ہو گئی۔
حسن کی شہرت کے ساتھ ساتھ اب اس کے علم و کمال کی چاندنی دور دور تک پھیل گئی تھی صبح کے تڑکے جب وہ گنگا اشنان کرنے کے لئے نکلتی تھی تو راہ گزر میں سینکڑوں پروانے اپنی آنکھیں بچھائے کھڑے رہتے تھے حیا اور پارسائی کا ایک مجسمہ تھی گھرسے نکلتے وقت پلکوں کی جو چلمن گرتی تھی تو وہ گھرہی واپس آکر اوپراٹھتی تھی گھاٹ یا راستے پرکبھی نظر اٹھا کر اس نے کسی کو نہیں دیکھا تھا سال میں ایک بار وہ ہنومان مندر میں پوجا کے لئے جایا کرتی تھی یہی وجہ تھی کہ پوجا کے موقع پر وہاں تل رکھنے کی جگہ نہیں رہتی تھی دور دور سے نادیدہ عشاق اس کے خرام ناز کا محشر دیکھنے کے لئے مندر کے آس پاس پجاری کے بھیس میں وہاں جمع ہو جاتے تھے۔متھرا، اجودھیا اور ہندو دھرم کے تمام بڑے بڑے شہروں سے پیغام نکاح کا تانتا بندھا رہتا تھا لیکن ماں نہیں چاہتی تھی کہ اس کی لاڈلی بیٹی ایک لمحے کے لئے بھی اس کی پلکوں کی چھاؤں سے اوجھل ہو وہ کوئی بر تلاش کرتی تھی جو ساری خوبیوں سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ گھر داماد بننے کے لئے بھی تیارہو اس لئے جتنے بھی رشتے آتے تھے انہیں مسترد کر دیا جاتاتھا ماں باپ پیار سے اپنی بیٹی کو شکنتلا کہتے تھے بڑے ہونے پر یہی نام سب کی زبان پر جاری ہوگیا اب شکنتلا کا نام گھر ہی کے لوگوں کی زبان پرنہیں تھا دور دورتک شکنتلا کے نام کی شہرت پہنچ گئی تھی۔ٹھیک انہی دنوں حضرت اورنگزیب عالمگیر کی حکومت کی طرف سے ابراہیم خاں نامی ایک شخص بنارس کا کوتوال مقرر ہو کر آیا تھا ابھی اسے آئے ہوئے چند ہی روز ہوئے تھے کہ سارے بنارس میں اس کے خلاف دہشت پھیل گئی تھی کہتے ہیں وہ ایک نہایت ظالم اور عیاش تھا اتنے دبدبے سے رہتا تھا کہ کوئی اس کے خلاف پر نہیں مار سکتا تھا۔ اس کی ہوسناک نگاہوں کی زد سے کسی نو شگفتہ کلی کا بچ نکلنا بہت مشکل تھا اس کے جاسوس گلی گلی چلمنوں کے پیچھے مہکتی ہوئی زلفوں کا سراغ لگاتے پھرتے ایک دن جاسوس نے فاتحانہ انداز میں کوتوال کو یہ اطلاع بہم پہنچائی۔
حضور ناحق پریشان ہیں اپنے وقت کا سب سے چمکتا ہوا ہیرا تو اسی بنارس میں موجود ہے لوگ کہتے ہیں کہ پنڈت لالہ رام کی بیٹی شکنتلا اس کنول کا پھول ہے جو سارے جھیل میں صرف ایک ہی کھلتا ہے شہر کا بہت بڑا حصہ اس کے کاکل و رخ کا اسیر ہو چکا ہے۔ صبح سے شام تک نہ جانے کتنے گھائل اس کی گلی کا چکر کاٹتے ہیں اور اس دیوار سے اپنی آنکھیں سینک کرچلے آتے ہیں وہ چلتی ہے توقدموں کی آہٹ سے قیامت جاگ اٹھتی ہے۔اسکی خمارآلود آنکھوں میں جیسے میخانہ تیرتا رہتا ہے کبھی وہ اپنی زلفیں بکھیر دیتی ہے تو ہر طرف کالی گھٹاؤں کا موسم امنڈنے لگتا ہے اس کا ایک تبسم نہ جانے کتنے ناسوروں کا علاج ہے اس کی رنگت اتنی نکھری ہوئی ہے، جیسے کسی نے چاندی کا غازہ مل دیا ہو۔‘‘یہ سن کر کوتوال کے منہ میں پانی آ گیا، حرص و ہوس کا شیطان اس کی آنکھوں میں ناچنے لگا اس کی فطرت کی درندگی اب برہنہ ہوتی جا رہی تھی ایک بد مست شرابی کی طرح بہکتے ہوئے انداز میں کہا ’’ تم اس کے گھر کا صحیح صحیح پتہ معلوم کر کے آؤ اور یہ خبر لے کر آؤ کہ وہ اپنے گھر سے باہر کب نکلتی ہے‘‘دوسرے دن جاسوسوں نے ساری تفصیلات معلوم کر کے کوتوال کو یہ اطلاع دی ’’کاشی کے فلاں محلے میں بالکل لب دریا اس کا گھر ہے، بالکل صبح سویرے گنگا اشنان کرنے کے لئے اپنے گھر سے باہر نکلتی ہے، رات اور دن میں اس کے گھر سے نکلنے کا بس یہی وقت ہے‘‘۔آج کئی دن سے پنڈت لالہ رام کا چہرہ اترا ہوا تھا آنکھوں کی نیند بھی اڑ گئی تھی کھانا پینا بھی چھوٹ گیا تھا بیوی الگ پریشان تھی، شکنتلا الگ متفکر تھی۔پنڈت جی صحیح وجہ کسی کو نہ بتاتے تھے بہت پوچھنے پر بس یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے تھے کہ طبیعت اچھی نہیں ہے بیماری کی علامت بھی کہیں سے ظاہر نہیں ہوتی تھی کہ یہ بہانہ چل سکے۔آخر کار ایک دن ماں بیٹی دونوں بضد ہو گئیں کہ آپ اپنی پریشانیوں کی صحیح صحیح وجہ بتائیے کس نے آپ کو کیا کہا ہے ؟ کس فکر میںآپ شب و روز غلطاں رہتے ہیں؟
بہت دیر تک پنڈت نے ضبط کرنے کی کوشش کی جب غم کا دباؤ قابو سے باہر ہو گیا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا،ماں بیٹی بھی اپنے تئیں ضبط نہ کر سکیں، بے اختیار ان آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے۔ بڑی مشکل سے پنڈت نے اپنے دل پرقابو حاصل کیا اور طبیعت تھم جانے کے بعد اصل واقعہ بیان کرنا شروع کیا۔
’’یہاں کے کوتوال کے متعلق ہوس پرستی اور عیاش مزاجی کی جوداستانیں شہر میں مشہور ہیں وہ تم بھی جانتی ہو۔ اب بہو بیٹی کی آبرو اس کے حرص وآزکی درندگی سے محفوظ نہیں رہ گئی ہے، جب تک کہ وہ عفت وعصمت کا کوئی تازہ خون نہیں کر لیتا اس کی رات چین سے نہیں کٹتی ۔ آج تک ہمارے بنارس میں کوئی ایسا بد طنیت، شقی القلب اوربدمست فرماں روا نہیں آیا تھا۔ آ۱۱۱ہ۔۔۔۔! کتنی مظلوم روحیں آج اس کے زخموں کی ٹیس سے بے چین ہیں کسی کو کیا معلوم۔۔۔؟‘‘
ابھی یہیں تک بات پہنچی تھی کہ وہ پھر پھوٹ پڑا اور پھرروتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ ماں بیٹی پر ایک سکتے کی کیفیت طاری تھی۔ وہ سخت حیران تھیں کہ آخر ماجرا کیا ہے۔ کس صدمے نے انہیں اس طرح گھائل کر دیا ہے تھوڑی دیر کے بعد جب کچھ سکون ہوا تو پھر اس نے سلسلہ بیان کا آغاز کیا۔
آج چھٹا دن ہے کہ اس کے دو سپاہی بنگلے پر آئے تھے انہوں نے اطلاع دی کہ کوتوال صاحب نے آپ کو بلایا ہے یہ خبر پا کر میرا کلیجہ سوکھ گیا اس لئے کہ اس سنگدل کی سرشت سے واقف ہوں بہر حال اس کی حکومت ہے چار و ناچار مجھے جانا پڑا۔ لرزتے کانپتے جب میں اس کے سامنے پہنچا تو اس نے اپنی کھڑی کھڑی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مجھے ایک تخت پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اس کے سپاہی جھٹ پٹ باہر گئے تو اس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’مجھے خبر ہے کہ شکنتلا نام کی تمہاری بیٹی ہے وہ عمر کے اس حصے میں داخل ہو گئی ہے جب کہ کسی کے گھر کی زینت بنے، میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اسکی ڈولی سجا کر میرے دروازے پر پہنچا دو‘‘پنڈت نے سلسلہ بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس کی یہ بات سن کر میں بے اختیار رونے لگا، بار بار مجھے اپنے خاندان کا ناموس یاد آ رہا تھا۔ بار بار میں سوچتا تھا کہ آبرو سب سے زیادہ قیمتی چیز ہوتی ہے اس کے لٹ جانے کے بعد اب میرے پاس رہ کیا جائے گا۔۔۔؟ روتے روتے میرا حال برا ہو گیا مگراس ظالم کو ذرا ترس نہ آیا۔ مجھے اسی حالت اضطراب میں وہ چھوڑ کر اٹھا اور یہ کہتا ہواچلا گیا ایک ہفتہ کی مہلت تمہیں دیتا ہوں اگر اس مدت میں شکنتلا کی ڈولی میرے دروازے پر نہیں لگی تو یاد رکھنا میں اپنے سپاہی بھیج کر اسے اپنے یہاں اٹھوا منگواؤں گا، کان کھول کر سن لو کہ بنارس کے سب سے بڑے حکمران کی زبان کے یہ الفاظ ہیں، کمان سے نکلا ہوا تیر واپس لوٹ سکتا ہے مگر میری زبان کے الفاظ واپس نہیں لوٹ سکتے۔‘‘کہانی کے آخری حصے تک پہنچتے پہنچتے پنڈت کا حال قابو سے باہر ہو گیا اب اس گریہ و ماتم میں ماں بیٹی بھی پوری طرح شریک ہوگئیں عورت کادل یوں بھی نازک ہوتا ہے اور وہ بھی ماں کی مامتا۔۔۔! گنگا کی لہروں کی طرح طوفان کا ایک تلاطم برپا ہو گیا۔ ماں کا دل اس وحشت ناک صدمے کی تاب نہ لا سکا۔ وہ فرط غم سے بے ہوش ہو گئی شکنتلا اپنی ماں کی یہ حالت دیکھ کر پاگل ہو گئی جلدی سے اٹھ کر منہ پر پانی کا چھینٹا دیناشروع کیا کچھ دیر کے بعد ماں کو ہوش آ گیا۔پنڈت کی آنکھوں کا آنسو ابھی جذب نہیں ہوا تھا کہ اس نے پھر بھرائی ہوئی آواز میں کہا ایک دن کی مہلت باقی رہ گئی ہے جتنا روناہے رولو کل اس کے سپاہی آکر ہماری بیٹی شکنتلا کو ہمیشہ کے لئے ہم سے چھین کے لئے ہم سے چھین لے جائیں گے۔ آ۱۱۱ہ۔۔۔!کل ہمارے گھر سے شکنتلا کی ارتھی اٹھے گی ہماری آرزؤں کا شمن تاراج ہو جائے گا کیوں نہ ہم کل سورج طلوع ہونے سے پہلے گنگا کی لہروں میں ڈوب جائیں۔یہ کہتے ہوئے عالم وحشت میں اٹھ کر بھاگنا چاہتا تھا کہ شکنتلا اس کے قدموں سے لپٹ گئی۔’’باپو جی! آشانہ توڑو،وقت سے پہلے ہمیں یتیم نہ بناؤ۔بھگوان کی کرپا ہو گئی تو یہ گرہ کٹ جائے گی اور مان لو اگر وہی وقت آ گیا تو ہم سب کے سب ایک ساتھ ہی گنگا جی کے چرنوں میں اپنا شرن بنائیں گے‘‘۔بیٹی نے اصرار کر کے اپنے باپ کو خود کشی سے روک دیا اس کے بعد بٹھا کر سمجھانے لگی باپو جی! آپ اتنا نراش نہ ہوں۔ تدبیر کے ہتھیار سے تلوار کی دھار بھی بیکار ہو جاتی ہے آپ کل صبح کو کوتوال کے پاس جائیے اوراس سے کہیے کہ شکنتلا کی ڈولی سجانے کے لئے ہمیں ایک مہینے کی مہلت دی جائے آخر بیٹی کو تن کے کپڑے پر ہم کیسے رخصت کردیں باپ ہونے کے رشتے سے آخر ہمارے بھی کچھ ارمان ہیں زیادہ نہ سہی تو کچھ نہ کچھ تو انتظام کرنا ہی ہو گا۔‘‘
باپ نے پوچھا۔’’مان لو! اس نے مہلت دے دی تو پھر ایک مہینے کے بعد کیا ہوگا۔۔۔؟ جو کام اس وقت ہمیں کرنا ہے وہ آج ہی کیوں نہ کر ڈالیں۔‘‘ بیٹی نے آنکھیں نیچے کئے ہوئے جواب دیا ایک مہینے میں حالات بدل جائیں گے باپو جی! شاخ ہی نہ رہے گی جس پر آشیانہ باندھنے کی نوبت آئے۔ بہتر ہے آپ ہم سے اس کی تفصیل نہ پوچھئے۔
دوسرے دن کوتوالی میں سپاہیوں کا دستہ تیار ہی کھڑاتھا کہ ہانپتے کانپتے پنڈت جی پہنچ گئے۔ کوتوال نے دیکھتے ہی دریافت کیا۔ شکنتلا کی ڈولی کہاں ہے۔۔۔؟پنڈت نے لرزتے ہوئے جواب دیا۔ حضور وہ تو آپ کے چرنوں میں آنے کے لئے بالکل تیار ہے مگر ماں باپ اس کو تن کے کپڑوں پر کیسے رخصت کر دیں کچھ تو اس کی ڈولی سجانے کے لئے ہمیں کرناہی چاہیے اس لئے سرکار ایک مہینے کی مہلت ہمیں پردان کریں تاکہ ہمیں بھی اپنے دل کے ارمان نکالنے کا کچھ موقع مل سکے۔ یہ غیر متوقع جواب سن کر بڈھے کوتوال کا چہرہ کھل گیا اس نے خوشی کے ترنگ میں جواب دیا۔ ضرور تمہیں ایک مہینے کی مہلت ملے گی لیکن اس کے بعد اب مدت میں کوئی توسیع نہیں ہو سکے گی۔ اس لئے جو تیاری کرنی ہے اس مدت میں کر لو اور دیکھو! اس سلسلے میں میری مدد کی بھی کوئی ضرورت ہو تو میں ہر طرح تیار ہوں۔‘‘
کوتوال کو دیکھ کر فرط غضب سے شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا آنکھوں سے چنگاری پھوٹ رہی تھی اور کوتوال کا خون سوکھتا جا رہا تھا اسی درمیان میں دہلی سے چلا ہوا فوجی دستہ بھی آموجود ہوا۔ کوتوال کی طرف اشارہ کر کے شہنشاہ نے سپہ سالار کو حکم دیا؟ اس سیہ کار کو فورا کیفر کردار تک پہنچاؤ تاکہ دوسروں کے لئے اس کا انجام تماشائے عبرت ہو اسکے دونوں پاؤں الگ الگ دو خونخوار ہاتھیوں کی ٹانگوں سے باندھدیئے جائیں اور پوری قوت کے ساتھ ہاتھیوں کو مختلف سمت دوڑایا جائے یہاں تک کہ زمین پراس بدبخت کے ریزے ریزے بکھر جائیں۔شہنشاہ کے حکم کی تعمیل کے لئے فوجی دستہ فورا حرکت میںآ گیا۔ سارا بنارس شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے آوازہ رحم و انصاف سے گونج رہا تھا شہنشاہ کی دانشوری، رعایا نوازی اور بے لاگ قوت فیصلہ پرہر شخص مبہوت ہو کے رہ گیا تھا۔شکنتلا کا ڈولا فح کی مسرتوں میں ڈولا ہوا اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا بجلی کی طرح شہنشاہ اورنگ زیب کے فیصلے کی خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔واقعہ کی اطلاع پاتے ہی شکنتلا کے ماں باپ خوشی سے پاگل ہو گئے شکنتلا اپنے گھر جیسے ہی پہنچی شہنشاہ اپنی ’’بیٹی‘‘ کے گھر تشریف لائے اور فرمایا۔ ’’پیاس کی شدت سے بے تاب ہوں سب سے پہلے مجھے پانی پلایا جائے میں اس دن سے پیاسا ہوں جس دن شکنتلا میرے حضور میں اپنی فریاد پیش کی اسی دن میں نے اپنے خدا سے عہد کر لیا تھا کہ جب تک میں ایک مظلوم برہمن کو اس کا انصاف نہیں دے لوں گا شکنتلا نے دو شالے سے اپنا منہ چھپاتے ہوئے کہا’’بھارت کے سوامی مجھے وشواش تھا کہ جسے آپ نے اپنی بیٹی کہا ہے اس کی لجا بچانے ضرور آؤ گے‘ اپنی محبوب رعایا کے ساتھ یہ انیائے تم سے ہرگز نہ دیکھا جائے گا ، اسی لئے میں نے اپنی زمین میں ایک چبوترا پہلے ہی بنا دیا تھا تاکہ ہمارے شہنشاہ کو نماز پڑھنے کیلئے کوئی جگہ تلاش نہ کرنی پڑے اسی چبوترے پر پانی اور بھوجن کا بھی انتظام ہے۔‘‘حضرت اورنگ زیب نے پہلے وضو کر کے شکرانے کی دو رکعت نماز ادا کی اس کے بعد کچھ کھانا تناول فرمایا اور پانی کے چند گھونٹ پی کر جونہی واپس ہونا چاہیے تھا کہ پنڈت لالہ رام ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے اور کہا ’’جہاں پناہ ۔۔۔! جس بھومی کو آپ نے اپنے سجدوں سے پوتر بنا دیا ہے اب ہم اسے کسی دوسرے کام میں استعمال نہیں کر سکتے اس لئے ہم اپنے دل کی اتھاہ گہرائی سے اس زمین کو مسجد کیلئے وقف کرتے ہیں۔‘‘شہنشاہ نے اس کے اعلان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک تانبے کے پتر پر یہ تحریر لکھ کر دیدی کہ ’’اس مسجدکے متولی ہمیشہ اسی خاندان کے لوگ رہیں گے‘‘ چنانچہ وہ مسجد آج بھی گنگا کے کنارے کھڑی ہے اور اس کا نام ’’دھریرا کی مسجد ہے‘‘۔
سید العلماء حضرت مولانا سید شاہ آل مصطفی صاحب قادری دامت برکاتھم نے تانبے کے پتر پر حضرت اورنگزیب کا وہ تاریخی دستاویز بچشم خود ملاحظہ فرمایا ہے آج بھی اسی خاندان کا شخص اس مسجد کا متولی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *