آبادی میں اضافہ اور ماحولیات
جس برق رفتاری سے آبادی میں اضافہ ہورہا ہے ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ پچیس برس کے بعد دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے تجاوز کر جائے گی 11جولائی۲۰۰۹ء میں پوری دنیا میں آبادی کا عالمی دن منایا گیا اس دن دنیا کی آبادی چھ ارب ۲۵ کروڑ افراد تک پہنچ چکی تھی ہر بارہ تیرہ سال کے بعد انسانی آبادی میں ایک ارب نفوس کا اضافہ ہورہا ہے پاکستان میں 2.6فیصد سالانہ کے حساب سے آبادی میں اضافہ ہورہا ہے ۲۰۲۵ء میں پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک بن جائے گا۔
شہری آبادی میں اضافہ کی سب سے کم شرح روانڈا میں ہے چین کی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ ایک ارب بیس کروڑ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ملک بھارت کی آبادی ایک ارب افراد کے لگ بھگ پہنچ چکی ہے جس کے باعث غذائی قلت کا اندیشہ پیدا ہورہا ہے ٹیسٹ آف فوڈ سیکورٹی ان دس ورلڈ کی رپورٹ ۱۹۹۹ء کے مطابق دنیا کے ۸۰ کروڑ افراد کو کھانے کیلئے مطلوبہ مقدار میں خوراک میسر نہیں ہے گلوبل واٹر سپلائی اینڈ سینی ٹیشن اسیسمنٹ ۲۰۰۰ء کے مطابق ۱۸۰۴ء میں دنیا کی آبادی صرف ایک ارب انسانوں پر مشتمل تھی ۱۹۲۷ء میں ۲ ارب افراد اور ۱۹۶۰ء میں تین ارب افراد پر مشتمل ہوچکی تھی ۱۹۸۵ء میں پانچ ارب افراد کرہ ارض پر بس رہے تھے جبکہ آج یہ آبادی چھ ارب ۱۶کروڑ نفوس پر مشتمل ہے جن کے لئے بہتری کی کوششوں کو سب سے زیادہ خطرہ خود انسانی سیلاب سے ہے گزشتہ نصف صدی سے عالمی کوششوں کے باوجود آبادی میں اضافے کا رجحان بدستور جاری ہے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ رہائشی کالونیوں میں وسعت پیدا ہورہی ہے جبکہ فصلوں کے لئے قابل کاشت اراضی میں کمی واقع ہورہی ہے گنجان آبادیاں ماحولیات پر کئی طرح سے اثر انداز ہورہی ہیں۔ زرعی اجناس کی بڑھتی ہوئی انسانی ضروریات کے ساتھ ساتھ اشیائے ضروریہ کی تیاری کیلئے وسعت پذیر صنعتوں اور آلات کی تنصیبات بھی ماحولیات میں تبدیلی اور ضرر رسائی کا سبب بن رہی ہیں ناخالص ہوا اور فضا میں شامل کارخانوں کی چمنیوں کے دھویں سے پیدا شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر زہریلی گیسیں گنجان علاقوں میں آباد لوگوں کی صحت کیلئے خاموش زہر کا کام سرانجام دے رہی ہیں بظاہر دکھائی دینے والی صنعتی ترقی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کے لئے کافی محسوس ہوئی ہے اس کے باوجود آبادی میں اضافہ اقتصادی ثمرات کو کھا جاتا ہے یہ سرعت کیساتھ بڑھتی ہوئی آبادی معیار زندگی بلند کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے
عام مشاہدہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایک ایک فیملی دس گیارہ گیارہ افراد پر مشتمل ہے اور گھرانے کا سربراہ بیل کی طرح کام کر کے بھی ان کی حقیقی کفالت کا حق ادا کرنے سے قاصر رہتا ہے جس بناء پر بہت سے بچے ناکافی وسائل کے باعث تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کی بجائے چائلڈ لیبر بن جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم تعلیمی نقطہ نظر سے دنیا کے اکثر ممالک کی نسبت بہت پیچھے رہ چکے ہیں جبکہ غیر تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل غیر مہذب معاشرہ تشکیل پاتا ہے کم وسائل اور زیادہ آبادی کی وجہ سے ہماری بنیادیں تو کمزور چلی آرہی ہیں مگر نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ہمارے سما ج میں ناخواندگی کے مہیب سائے ترقی کے اجالوں کو نگلتے جارہے ہیں جس سے معاشرتی ناہمواری میں اضافہ فزوں تر ہورہا ہے اور اقتصادی سماجی معاشرتی مذہبی اور سیاسی طور پر بحیثیت قوم ہم پستیوں میں گرتے جارہے ہیں ایک طرف آبادی میں برق رفتار اضافہ ہورہا ہے دوسری طرف بیروز گاری کا عفریت انسانوں کو زندہ درگور کئے دے رہا ہے جو لوگوں کو ڈیپریشن اور ذہنی دباؤ یعنی ٹینشن کا شکار بنا رہا ہے اس فزوں تر آبادی اور بیروز گاری سے سوسائٹی کے ماحول اور ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں
رہائشی مکانات کی تعمیر کے ساتھ ساتھ درختوں اور جنگلات میں کمی سے موسم روز بروز گرم اور حبس زدہ ہورہے ہیں جس سے گھٹن بڑھتی جارہی ہے اور تازگی اور ہریالی سمٹتی جارہی ہے آکسیجن میں کمی پیدا ہورہی ہے کئی گنجان آباد کالونیوں اور محلوں میں سانس لینا محال ہورہا ہے بڑھتی ہوئی آبادی ماحولیات پر شدید اثرانداز ہورہی ہے بلکہ یہ موسموں کی تبدیلی اور درجہ حرارت میں اضافہ کا موجب بن رہی ہے یونائیٹڈ فنڈ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے ایک ارب تیس کروڑ افراد انتہائی غربت کی زندگی بسر کررہے ہیں ان میں ۴۰ فیصد لوگ جنوبی ایشیا ممالک میں آباد ہیں ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے
طبی نقطہ نگاہ سے بھی دیکھا جائے تو بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ ماں اور بچے دونوں کی صحت کے لئے ضروری ہے صحت مند بچہ صحت مند نسل اور صحت مند معاشرے کا فعال رکن ثابت ہو گا جبکہ صحت مند ماں اپنی مناسب تعداد اولاد کی مناسب انداز سے دیکھ بھال اور پرورش کر سکے گی کثرت اولاد کی حامل مائیں اپنے بچوں کی تربیت کرنے کی بجائے ان کے بکھیروں اور کام دھندوں میں الجھ کر رہ جائیں گی یہی وجہ ہے کہ کثرت اولاد والدین کی کمر توڑ کررکھ دیتی ہے اور وہ کولہو کے بیل بن کر رہ جاتے ہیں اور گردش دوران میں الجھے رہتے ہیں ایسے والدین کو اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت کا صحیح طور وقت ہی میسر نہیں آتا ایسے بچے نامناسب دیکھ بھال کیباعث سن بلوغت کو پہنچتے پہنچتے آوارہ سوسائٹی کا شکار ہو کر برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں بہت سے افراد نشے کی عادات کو اپنا لیتے ہیں انحطاط پذیر معاشرہ راہ ترقی کی جانب گامزن ہونے کے برعکس لاقانونیت کا شکار اور اچھائی برائی میں تمیز کرنے کی سوچوں سے عاری ہو جاتا ہے تب ان دوسرے لوگوں کے لئے بھی زندگی جہنم کا نمونہ بن جاتی ہے جو خود اقتصادی ثمرات سے بہرہ مند ہوتے ہیں لہذا ہمیں از خود بھی کثرت اولاد سے اجتناب کرنا چاہئے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب اور آگہی دینے کی ضرورت ہے کیونکہ شعور کی بیداری سے ہی معاشرتی بے راہ روی اور ناہمواری کاخاتمہ ہوسکتا ہے یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ ہر کام میں میانہ روی اور اعتدال باعث کمال بنتا ہے اس لئے چھوٹے خاندان کے تصور کو فروغ دینا وقت کا اہم تقاضہ ہے تحفظ ماحولیات ترقی اقتصادیات نیک طرز معاشرت صحت عامہ اور مضبوط معاشیات کیلئے ضروری ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی پر منصوبہ بندی کے ساتھ قابو پایا جائے
ماہرین کا خیال ہے کہ خوراک کی کمی آبی وسائل کی کمیابی جنگلات کی تباہی زرعی اراضی اور فصلوں کی کمی خراب انسانی صحت نفسیاتی مسائل اور دیگر ماحولیاتی مسائل کا اصل محرک بے لگام بڑھتی ہوئی آبادی ہے ۔ دنیا کے چھ ارب پندرہ کروڑ سے زائد نفوس کیلئے بہتری کی کوششوں کو سب سے زیادہ خطرہ خود انسانیت سیلاب سے ہے جبکہ دستیاب ذرائع سمٹتے جارہے ہیں ۱۹۶۰ء سے جاری بہبود آبادی کی عالمی کوششوں کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے صرف چند ترقی یافتہ ممالک میں آبادی کی کمی کی کوششوں کے خاطر خواہ مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔