اہل دل اور اہل ذکر کون ہیں
یہ ذکرکرکے دیکھو اس سے تمہاراسینہ کھل جائے گا اگراللہ نے چاہااور سلسلہ چل پڑا توسمجھنا کہ رب مہربان ہوگیاہے ورنہ کوئی اور طریقہ ڈھونڈ لینا ۔ لیکن طریقہ یہی ہے کہ دل کی دھڑکن کے ساتھ اللہ اللہ مل جائے ۔بس ذکر میں اسی کوفضیلت ہے۔ آدھی رات کے بعد آسمان سے فرشتوں کی ایک خاص جماعت آتی ہے اور کراماً کاتبین سے ہرشخص کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ رات کو سوتے وقت اس کا آخری عمل کیاتھا۔وہ کہتے ہیں کہ بھوکے کو کھانا کھلا کر سویا تھاوہ جواب دیتے ہیں کہ اللہ اس کو خوش رکھے۔ دوسرے کے متعلق پوچھتے ہیں یہ کیاکرکے سویا تھا وہ جواب دیتے ہیں کہ عشاء کی نماز پڑھ کرسویاتھافرشتے کہتے ہیں اللہ اسے بھی خوش رکھے ۔تیسرے شخص کے بارے میں پوچھتے ہیںیہ کیاکرکے سویاتھا وہ کہتے ہیں کہ یہ آیت الکرسی پڑھ کر سویاتھا ،فرشتے کہتے ہیں کہ آیت الکرسی کی لاج رکھنا اور اسکی حفاظت کرنا۔پھر چوتھے شخص کے بارے میں پوچھتے ہیں یہ کیاکرکے سویا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ ھُو، اللہ ھُو پڑھتے اسی کے تصّور میں سوگیا تھا۔فرشتے کہتے ہیں کہ شاید اس کی یاد میں آنکھ لگ گئی ہو، آہستہ بات کرو۔
یہ فضیلت ہے ان لوگوں کی جو دل سے اللہ کا ذکرکرتے ہیں۔ہم توبس یہی کہتے ہیں کہ اپنے دل میں اللہ اللہ بسالو۔باقی کام کاج بھی کرو ،نمازبھی پڑھو،سب کچھ کرولیکن یہ جو تمہارے دل کی دھڑکنیں خالی جارہی ہیں اس میں بھی اللہ بسالوتوحرج کیا ہے حدیث میں آیاہے کہ جس کی زبان پرمرتے وقت کلمہ طیبہ ہوگا وہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوگا۔لیکن آپ نے دیکھا ہوگاکہ زیادہ ترمرنے سے پہلے زبان بندہوجاتی ہے،کلمہ کیسے پڑھے گا۔کوئی لاکھوں میں ایک آدھ ہوتاہے جو کلمہ پڑھتے پڑھتے اس دنیا سے رخصت ہوجاتاہے ۔اکثر کی زبان بند ہوجاتی ہے لیکن وہ لوگ جن کے دل کی دھڑکنیں اللہ اللہ کررہی تھیں ،مربھی رہے تھے اور کلمہ بھی پڑھ رہے تھے۔حتیٰ کہ مربھی گئے اور ڈیڑھ سیکنڈتک اللہ اللہ کرتے رہے۔جبکہ دل کی زبان کو ظاہری زبان سے ستر گنا فضیلت ہے۔سلطان باھُو ؒ فرماتے ہیں کہ توساری عمرلگارہے لیکن مرنے سے تھوڑی دیرقبل اسم ذات نصیب ہوجائے توخوش نصیب ہے۔جائے گاتوایمان کے ساتھ جائے گا ۔اسی لئے غوث پاکؓ فرماتے ہیں کہ میرامرید ایمان کے بغیر نہیں جائیگا ۔ آپ نے ستردفعہ اللہ سے وعدہ لیااورآپ نے فرمایاکہ ’’میرامرید وہی ہوگاجوذاکر ہوگااورفرمایا میں ذاکراسی کو مانتاہوں جس کا دل اللہ اللہ کرے اور وہی میرامرید ہے جسے کوئی خوف و ڈرنہیں۔ ‘‘(مزید تفصیل کتاب’’ اعجاز غوثیہ ‘‘میں منقول ہے۔)
جب اسم اللہ ذات سے آپ کا ذکرچل جائے تو آپ کے ورد ووظائف میں خود ہی کمی آجائے گی ۔اس کے علاوہ جب آپ کو اللہ اللہ کی لذت آ رہی ہے اور آپ وردو وظائف میں لگ جائیں تو ذکرمیں کمی ہوجائے گی ،آپ اسے خودبخود محسوس کر لیں گے ۔اس لئے اسم اللہ ذات مل جائے تو سب ورد و وظائف چھوڑ دو ، اگراسمِ ذات نہ ملے تووردو وظائف جاری ہی ہیں۔اگرذکرقلبی مل جائے تو اس طرح ورد و وظا ئف کی ضرورت نہیں پڑتی،کیونکہ قلب کا درجہ زبان سے ستر گنازیادہ ہے۔آپ سترگھنٹے وظیفہ پڑھتے رہیں ،لیکن آپ ایک گھنٹہ دل سے اللہ اللہ کرلیں سترگھنٹے وردووظائف سے بھی اس کو فضیلت حاصل ہے ۔زبانی عبادات میں سب سے افضل درودشریف ہے ۔لیکن جب ذکرعطاہوجاتاہے تودرودشریف اس کا وسیلہ بن جاتاہے ۔صحابہ اکرامؓ فرماتے ہیں جب ہمیں کوئی مصیبت آتی تو ہم درودشریف پڑھتے ۔باقی وقت وہ کیا کرتے تھے ،بس ہر وقت اللہ اللہ کرتے تھے۔ اب لوگ کہتے ہیں ہم تووہ کام کرتے ہیں جو اللہ کرتاہے۔اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں کریں گے ۔وہ کیاکہتے ہیں؟ہم درود شریف پڑھتے ہیں ،اللہ بھی پڑھتاہے لیکن درود شریف کا فائد ہ تو اس وقت ہوگا جب تمہارے دل میں اترے گا ۔اس لئے دل کی صفائی کے لئے پہلے تمہیں ذکر قلبی کرناپڑے گا۔بعض ولی ہوتے ہیں کہ کسی کے دل میں خانہ کعبہ بس جاتاہے ۔کسی کے دل میں اسمِ ذات کسی کے دل میں حضورپاک ﷺ کا روضہ بس جاتاہے ۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ مجددالف ثانی ؒ نے دیکھا کہ باطنی مخلوقات جنات وغیرہ انہیں سجدہ کررہے ہیں ، پریشان ہوئے کہ انسان کوسجدہ جائزہی نہیں ۔سجدہ تواللہ کو ہوتاہے ۔غیب سے آوازآئی یہ سجدہ تمہیں نہیں بلکہ تمہارے دل میں جوخانہ کعبہ بس گیاہے اسے سجدہ کررہے ہیں۔وہ خانہ کعبہ جس کی بنیاد حضرت ابراہیم ؑ نے رکھی اور یہ خانہ کعبہ جو دل میں بس جاتاہے اس کی بنیاد خوداللہ تعالیٰ رکھتاہے ۔اسی لئے اس خانہ کعبہ کو اس کعبہ سے فضیلت ہے ۔بعض لوگ درود شریف پڑھتے ہیں کچھ دنوں کے بعد چھوڑ دیتے ہیں کہتے ہیں ہمیں توفیض ہی نہیں ہوتا۔فیض توتب ہوگا جب تمہارادل منور ہوگا۔بعض لوگ اسم اعظم کا ذکرکرتے ہیں تھک جاتے ہیں توکہتے ہیں کہ پتہ نہیں اسم اعظم کس میں ہے ،کچھ اثرہی نہیں ہوتا۔لیکن یہ پتہ نہیں کہ اسم اعظم اس وقت اثردکھاتاہے جب جسم اعظم ہوجائے ،جب تمہارے جسم کی نس نس میں اللہ اللہ بس جائے گا توجسم اعظم ہوجائے گا ۔پھر اللہ بھی اسم اعظم اوریارحمن بھی اسمِ اعظم ۔حتیٰ کہ قرآن مجید کی ہرآیت میں اسم اعظم دکھائی دے گا۔عباد ت کے اعتبارسے مسلمانوں میں چار قسم کے لوگ ہیں۔کوئی اہل کان ،کوئی اہل زبان،کوئی اہل دل اور کوئی اہل نظر ہوتاہے۔
1۔ اہل کان بے شمارلوگ ہیں ۔ساری رات وعظ سنتے رہیں گے ،تقریریں سنتے رہیں گے ،ان کو سننے میں مزاآتاہے ۔ساری رات قوالی بھی سنتے ر ہیں گے لیکن صبح کوئی نماز روزہ نہیں ۔یہ کان کی عبادت ہے ۔ ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے علماء بنا دیئے جو ان کو تقاریرسناتے رہیں،نعت خواں اور قوال بنادیئے ، حافظ قرآن بھی بنادیئے کہ ان کو قرآن بھی سناتے رہو۔
2 ۔ دوسرے اہل زبان جنہیں سننے میں مزہ نہیں آتابلکہ جب تک کچھ زبان سے پڑھتے نہیں ،ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے کامل شریعت بنادیئے، ان کو وردووظائف بتادیئے کہ بس یہ پڑھتے رہیں اور دن رات وہ زبان سے تسبیحات پڑھتے رہتے ہیں ،ان کو اسی میں مزہ آتاہے۔یہ اہل کان کی عباد ت سے زیادہ بڑی عبادت ہے ،کیونکہ اسکے ساتھ کان بھی ہیں اور زبان بھی ہے۔
3 ۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو اہل دل ہیں ۔وہ یہ کہتے ہیں کیاکان سے سنناکیازبان سے پڑھناجب تک دل اللہ اللہ نہ کرے ۔ان کے لئے کامل طریقت بنادیئے وہ انکے دلوں کو اللہ اللہ میں لگادیتے ہیں۔وہ بس اسی اللہ اللہ میں مست رہتے ہیں کہ ان کے درجات بہت زیادہ ہوجاتے ہیں ان کا دل بھی عبادت کررہاہے،زبان بھی کررہی ہے اور کان بھی سن رہاہے۔
4 ۔ چوتھے اہل نظرہیں اہل نظروالے کہتے ہیں کیادل سے اللہ اللہ کرناکیازبان سے پڑھنا ،کیاکان سے سننا جب وہ اللہ ہی نظرآجائے ۔ان کے لئے فنافی اللہ بقاباللہ والے بنادیئے گئے۔وہ اگرکسی سے ٹکراجائیں تووہ کہتے ہیں کہ بس اوپر ہی دیکھتارہ اوریہ باقی تمام درجوں سے بڑی عبادت ہے۔اب جو جس طبقہ کا ہے وہ اسی میں جاکر فٹ ہوگا۔ اب اگر اہل زبان ہے اہل دل کیسے بنے گا ،اگر اہل دل ہے زبان میں چلا گیا تو اس کو وہاں سکون نہیں ملے گا۔ جو سب سے بڑی عبادت ہے وہ اہل نظر لوگوں کی ہے لیکن اہل نظر کوئی کوئی ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ پورے زمانے میں ایک یا دو صاحب نظر لوگ ہوں،اب ایک یا دو اس مرتبہ تک پہنچے باقی کیا کریں۔اہل دل زیادہ ہوتے ہیں، اہل زبان اور زیادہ ہوتے ہیں اور اہل کان سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔انہیں کے لئے قرآن کہتاہے کہ وہ جانوروں کی مانند ہیں۔نعت خوانی بھی عبادت ہے،قوالی بھی،لوگ اس کو حرام کہتے ہیں،حرام نہیں ہے جس سے اللہ اور اس کے حبیبﷺ کا عشق پیداہوجس سے اس کی یاد ستائے وہ چیز حرام نہیں ہوسکتی ۔لیکن اس سے جو زیادہ فضیلت ہے وہ حافظوں کو ہے۔جو قرآن مجید سناتے ہیں ۔ اس سے زیادہ فضیلت اس کو ہے جو ہروقت اللہ اللہ کرتے ہیں۔ان سے زیادہ ان کو جو رب کو دیکھتے ہیں اور ان سے زیادہ فضیلت ان کو ہے جن کو رب دیکھتاہے ۔ اب چونکہ یہ سب مراحل ہم کو طے کرنے ہیں اور ہم ایک ہی جگہ پر ڈٹے ہوئے ہیں آگے بڑھتے نہیں ہیں۔اب دنیاوی لحاظ سے کسی کے پاس جھونپڑی ہے ،وہ کوشش کرتاہے مکان بن جائے ، مکان ہے توکوشش کرتاہے کہ بنگلے کا مالک بن جائے ، کاربھی ہوجائے ،کوٹھی بھی ہوجائے ،کتنی تمناہے ۔اسی طرح دین کا بھی سلسلہ ہے ۔ہم سوچتے ہیں اتنے ہی میں بخشے جائیں۔ٹھیک ہے سب امتی بخشے جائیں گے۔لیکن کیاہوگا قرآن مجید کی ایک آیت ہے کہ ’’کیاان لوگوں نے سمجھ لیاہے کہ ہم نیک کاروں کے برابر کردیں گے ؟‘‘۔اب تم بخشے توگئے اگر صرف بخشش جنت کی چاہیے تھی توایک جنت ہوتی،سات جنتیں کیوں بنائی گئیں اور وہ بھی ایک سے بڑھ کرایک اعلیٰ ،اب سب سے اعلیٰ جو جنت ہے وہ عاشقوں کے لئے ہے۔جس طرح سات جنتیں بنائیں اس کے ساتھ ہی تمہارے اندرسات مخلوقیں رکھ دیں۔جو قلب کی مخلوق سے عبادت کرے گا توخلد کاحقدارہوگااگرانّاکی مخلوق سے عبادت کرے گا توفردوس کا حقدارہے۔اگر ان کے بغیر ہے کیاخبر تُوبخشابھی گیاکہ نہیں۔اگربخشابھی گیاتب بھی تو ان کے برابر نہیں بیٹھ سکے گا،ان کا غلام بن کررہے گا۔دوزخ کی آگ سے بچ توجائیگا لیکن اہل جنت کا غلام بن کررہا۔کتناپچھتائے گا ،کاش!یہ دل میرے اندربھی تھا اگردل سے اللہ اللہ کرلیتاان کے برابر ہوجاتااورجو قلب کی عبادت کرنے والاہے وہ کہے گا کاش میں بھی روح کی عبادت کرلیتاکیونکہ روح مجھ میں بھی تھی تودارالسلام میں چلاجاتا۔ایک سے بڑھ کرایک درجہ ہے۔اب یہ جو زندگی ہے جس کو ہم زندگی سمجھتے ہیں یقین کروایک کھلونا ہے۔جس طرح بچوں کے ہاتھ میں ایک کھلونا دے دیاتوتھوڑی دیرکے بعد وہ توڑپھوڑدیا اسی طرح یہ دنیاایک کھلوناہے ۔اصل چیز وہ ہے جواس کے اندرہے وہ ہے روح یہ جسم اس کامکان ہے ا ب اس کاجو بچہ ہے وہ روح کا نہیں ہے جسم کاہے،مٹی سے ہے اورنہ روح کا کوئی باپ ہے نہ بیٹا ان سب کو ایک ہی دن اللہ تعالیٰ نے پیداکردیاتھا۔یہاں جوباپ بیٹاہے وہ روحیں وہاں کہیں گی ہم مکانوں میں ایک جگہ اکٹھے رہتے تھے ۔جب صورپھونکا جائے گا توسب رحم کے رشتے ختم ہوجائیں گے (القرآن)
نور بنانے کے مختلف طریقے
پہلا طریقہ
کاغذ پر کالی پنسل سے اللہ لکھیں، جتنی دیر طبیعت ساتھ دے روزانہ مشق کریں ایک دن لفظ ا للہ کاغذ سے آنکھوں میں تیرنا شروع ہو جائے گاپھر آنکھوں سے تصور کے ذریعہ دل پر اُتارنے کی کوشش کریں۔
دوسرا طریقہ
زیرو کے سفید بلب پر پیلے رنگ سے اللہ لکھیں،اُسے سونے سے پہلے یا جاگتے وقت آنکھوں میں سمونے کی کوشش کریں ۔جب آنکھوں میں آ جائے تو پھر اُس لفظ کو دل پر اُتاریں۔
تیسرا طریقہ
یہ طریقہ اُن لوگوں کے لئے ہے جِن کے راہبر کامل ہیں اور تعلق اورنسبت کی وجہ سے روحانی اِمداد کرتے ہیں ۔ تنہائی میں بیٹھ کر شہادت کی انگلی کو قلم خیال کریں اور تصور سے دل پر اللہ لکھنے کی کوشش کریں، راہبر کو پکاریں کہ وہ بھی تمھاری انگلی کو پکڑ کر تمھارے دل پر اللہ لکھ رہا ہے۔ یہ مشق روزانہ کریں جب تک دل پر اللہ لکھا نظر نہ آئے۔پہلے دونوں طریقوں میں اللہ ویسے ہی نقش ہوتا ہے، جیسا کہ باہر لکھا یا دیکھا جاتا ہے۔ پھرجب دھڑکنوں سے اللہ ملنا شروع ہوجاتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ چمکنا شروع ہوجاتا ہے۔ چونکہ اس طریقے میں کامل راہبر کا ساتھ ہوتا ہے، اس لئے شروع سے ہی خوشخط اور چمکتا ہوا دل پر اللہ لکھا نظر آتا ہے۔ دنیا میں کئی نبی ولی آئے، ذکر کے دوران بطور آزمائش باری باری، اگر مناسب سمجھیں تو سب کا تصور کریں جس کے تصور سے ذکر میں تیزی اور ترقی نظر آئے آپ کا نصیبہ اُسی کے پاس ہے۔ پھر تصور کیلئے اُسی کو چن لیں، کیونکہ ہر ولی کا قدم کسی نہ کسی نبی کے قدم پر ہوتا ہے، بے شک نبی ظاہری حیات میں نہ ہو۔ اور ہر مومن کا نصیبہ کسی نہ کسی ولی کے پاس ہوتا ہے۔ ولی کی ظاہری حیات شرط ہے۔ لیکن کبھی کبھی کسی کو مقدر سے کسی ممات والے کامل ذات سے بھی ملکوتی فیض ہوجاتا ہے، لیکن ایسا بہت ہی محدود ہے۔ البتہ ممات والے درباروں سے دنیاوی فیض پہنچاسکتے ہیں۔ اسے اویسی فیض کہتے ہیں اور یہ لوگ اکثر کشف اور خواب میں اُلجھ جاتے ہیں، کیونکہ مرشد بھی باطن میں اور ابلیس بھی باطن میں۔ دونوں کی پہچان مشکل ہوجاتی ہے۔ فیض کے ساتھ علم بھی ضروری ہوتا ہے، جس کیلئے ظاہری مرشد زیادہ مناسب ہے، اگر فیض ہے، علم نہیں تو اُسے مجذوب کہتے ہیں۔ فیض بھی ہے، علم بھی ہے اُسے محبوب کہتے ہیں۔ محبوب علم کے ذریعے لوگوں کو دنیاوی فیض کے علاوہ روحانی فیض بھی پہنچاتے ہیں، جبکہ مجذوب ڈنڈوں اور گالیوں سے دنیاوی فیض پہنچاتے ہیں۔اگر کوئی بھی آپ کے تصور میں آکر آپ کی مدد نہ کرے تو پھر گوہر شاہی ہی کو آزما کر دیکھیں۔ مذہب کی قید نہیں، البتہ ازلی بدبخت نہ ہو۔ جاری ہے ۔۔