ایڈیٹر کی ڈاک دسمبر 2009
ہمارے مسائل
مکرمی! میں آپکے موقر جریدے کی وساطت سے اعلیٰ حکام تک یہ بات پہنچانا چاہتا ہوں کہ جہاں ہمارے ملک میں بہت سے مسائل درپیش ہیں وہاں سب سے اہم مسلہ نوکریوں کا نا ملنا ہے ۔ایک طرف تو عام آدمی کو کھانے پینے کی اشیاء نہیں ملتی تو دوسری طرف ہمار اتعلیمی میعار بہت پست ہو چکا ہے۔ہر سکول، کالج اور یونیورسٹی کا اپنا سلیبس ہے اور ان کے امتحان لینے کا طریقہ بھی الگ ہے ۔تعلیم یافتہ افراد کے لیے نوکریوں کا نا ہونہ اس سے بھی سنگین مسئلہ ہے ۔ حکومت سے درخواست ہے کہ وہ اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دے ،خاص طو پر ان غریب طالب علموں پر جو اپنی پڑھائی مکمل کر چکے ہیں اور نوکری کے لیے در بدر پھر رہے ہیں۔
محمد عمران ، لاہور
اچھی پالیساں بنانے کی ضرورت
مکرمی! ہمارے ملک میں مہنگائی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اسکے کے سدباب کے لیے کچھ نہیں کیا جار ہا ۔ مہنگائی نے جہاں غریب آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے وہاں امیر آدمی بھی اس مہنگائی سے پریشان رہنے لگا ہے ۔اب تو نوکری کرنے والے حضرات مہینے کے آخری دنوں میں جیب سے خالی ہو چکے ہوتے ہیں اور سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ بندہ آخر کتنا کا م کرنے ۔اپنے اخراجات کیسے پورے کرے؟ پنجاب حکومت نے غریب آدمی کے لیے روٹی کا مسئلہ تو حل کردیا ہے اور اس سے لوگ خوش بھی بہت ہیں لیکن افسوس کا مقا م یہ ہے کہ ایک کے بعد ایک بحران سر اٹھا رہا ہے ۔پہلے آٹا اور اب چینی کا بحران آگیا ہے ۔لوگ چینی لینے کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔کسی بھی دکان پر جاتے ہیں وہاں سے ناں ہی سننے کو ملتی یہاں تک کہ دکانداروں نے خود بڑے بڑے کاغذوں پر لکھ کرلگا دیا ہے کہ ’’یہاں چینی دستیاب نہیں‘‘۔حکومت پنجاب سے گزارش ہے کہ جس طرح آٹے کا شدید بحران آگیا تھا اور حکومت کی اچھی پالیسیوں کی وجہ سے آج اس بحران کا نام و نشان باقی نہیں ہے اسطرح گنے کے کاشتکاروں پر سے گڑبنانے کی پابندی ختم کردی جائے تو چینی کا بحران اپنی موت آپ مرجائے گا۔
محمد اشفاق ،ملتان
رویوں میں تبدیلی ضروری ہے
مکرمی!ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی لہر نے ہر ایک فردکو خوفزدہ اور پریشان کر رکھا ہے ۔جہاں ہمارے ملک کی پولیس پریشانی میں مبتلا ہے تو دوسری طرف عام آدمی بھی اس سے زیادہ پریشان دکھائی دیتا ہے ۔اس کی وجہ ہمارے ملک میں ہونے والے بم دھماکے ہیں۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ پولیس نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر جن راستوں کو بند کر رکھا ہے وہاں تعینات پولیس اہلکار عام شہریوں سے بڑی بد تمیزی سے پیش آتے ہیں اورا نہیں دور سے ہی اس طرح دھتکارتے ہیں کہ جیسے یہی شخص خود کش بمبار ہے ۔پولیس کے ساتھ عوام کا رابطہ نہ ہونیکا دہشت گردوں کو ہی فائدہ ہوتاہے اور یہ پولیس کارویہ ہی ہے جس کی وجہ سے عام لوگ پو لیس سے رابطہ کرنے یا تھانے جانے سے ڈرتے ہیں ۔اس لیے پولیس اہلکاروں کو چاہیے کہ وہ اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں اور عام افراد سے ایسے ہی پیش آئیں کہ جس طرح یہ ان کے بھائی ہیں۔اس سے نہ صرف عوام میں پولیس کا میعار بہترہوگا بلکہ عوام بھی پولیس کو کسی قسم کی معلومات دینے سے گریز نہیں کریں گے۔
افتخار مجید فیصل آباد
دہشت گردی کے منفی اثرات
مکرمی!میں آپکے موقر جریدے کے ذریعے احکام بالا اور وزراء کو ملک کے ابھرتے ہوئے مسائل میں سے ایک بڑے مسئلے کی جانب متوجہ کرنا چاہوں گی کہ آئے دن تعلیمی اداروں اور مدارس و مساجد میں ہونے والے بم دھماکوں کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟۔آخر کون ان تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے لیے آئے گا؟کس طرح سے ننھے معماروں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جا سکے گاکہ جن کو آگے چل کر اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے ؟ 80فی صد طلبہ و طالبات کے والدین ڈر کے مارے اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے نہیں بھیجیں گے اور ملک میں تعلیم یافتہ افراد کی کمی سے ملکی ترقی کے لیے بے شمار مسائل پیدا ہوجائیں گے۔یہاں پر پڑھے لکھے سیاستدان بھی نہیں ہوں گے اور ان پڑھ سیاستدان اورجاہل حکمران ہما را مقد ر ہوں گے۔تعلیم نہ ہونے سے ہمیں دوسرے تعلیم یافتہ ممالک کا دست نگر ہونا پڑے گا اور ہو سکتا ہے کہ غیر ملکی حکمران بھی ہمارے ملک پر حکومت کرنے کے لیے آجائیں اور ہم ایک مرتبہ پھر سے غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے نظر آئیں گے۔ آج جس مسئلے کو ہم چھوٹا جان کر اس کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں کل کو وہ مسئلہ ہمارے لیے اتنا ذیادہ گھمبیر مسئلہ بن جائے گا کہ اس کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے ۔تحریک آزادی سے پہلے سر سید احمد خان نے مسلمانوں کی غلامی کی بڑی وجہ تعلیم کی کمی قرار دی اور پھر اس کمی کو دور کرنے میں عملی جدو جہد کی ۔مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنے کی جانب راغب کیا ۔لیکن آج پھر سے تعلیمی اداروں میں دہشت گردی سے عوام میں خوف و ہراس پیدا کیا جا رہا ہے اور لوگوں کو تعلیم سے دور کیا جانے لگا ہے ۔تعلیم سے دوری ترقی سے دوری ہے اور ترقی سے دوری غلامی کی جانب پہلا قد م ہے ۔دنیا میں کامیابی سے رہنے کے لیے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کو فعال رکھنا ہوگا اور ہمیں ان چھوٹی چھوٹی مشکلات سے گھبرا کر اپنی ترقی کی راہ سے نہیں ہٹنا ہوگا بلکہ اپنا سفر جاری رکھنا ہوگا۔
نمرہ عمران، راولپنڈی
بیوٹی کے سلسلے شروع کئے جائیں
مکرمی!میں آپکے جریدے کی ایک سال سے قاری ہوں اور میں نے ا س جرید ے میں بہت سی اچھی باتیں دیکھی ہیں جن میں سب سے نمایاں مجھے ایک بات لگی ہے کہ آپ کے جریدے میں اگرچہ مذہبی و روحانی معلومات بہت ہوتی ہیں لیکن آپ نے کبھی بھی کسی خاص مذہب یا فرقہ پر بات نہیں کی ہے ۔میں سمجھتی ہوں کہ یہ ایک اچھا اقدام ہے ۔ کیونکہ اس وقت ٹولیوں میں بٹنے کی بجائے ہمیں ایک ہونے کی ضرورت کہیں زیادہ ہے ۔آپ نے اپنے جریدے میں اندرونی خوبصورتی کے لیے بہت کچھ شائع کیا ہے لیکن بیرونی یا ظاہری خوبصورتی کے لیے بھی کچھ شائع کیا کریں تاکہ ہم جو کہ اس شمارے کے باقاعدہ قاری ہیں اور ذیادہ دلچسپی سے اس کا مطالعہ کر سکیں۔اس لیے میر ی آپ سے گزارش ہے کہ اس میگزین میں کچھ مستقل سلسلے شروع کئے جائیں اور بیوٹی کا خاص طور پر کچھ شائع کریں تاکہ میں بھی اسکو اپنے بیوٹی پارلر پر رکھ سکوں۔
صدف امتیاز کراچی
قارین کے پر زور اصرار پر ان کی نمائندگی کو دگنا کر دیا گیا ہے اور اسی شمارے سے قارین کے مسائل اور تجاویز کے اس سلسلے کے لے مزید صفحات کو مختص کر دیا گیا۔
(ادارہ)