حضرت بہاوالدین زکریا ملتانی
جہاز عدن کی طرف جا رہا تھا۔ ابھی آدھے سے بھی کم سفر طے ہوا ہو گا کہ بادِ مخالف چلنے لگی۔ تمام مسافر اس قدر خوف زدہ ہُوئے کہ ہر ایک کی زبان پر خُدا کا ذکر ہونے لگا مگر طوفان کی شدت میں کوئی کمی نہ آئی۔ یہاں تک کہ زندہ بچنے کی تمام امیدیں معدوم ہو کر رہ گئیں۔ خواجہ کمال الدین سعود شیر وانی جواہرات کے تاجر بھی اِسی جہاز میں سوار تھے آپ حضرت بہاؤالدین ذکریا ملتانی کے مُرید تھے اور نیک و صالح شخص تھے۔ ایسے عالم حسرت و یاس میں خواجہ کمال الدین نے سب مسافروں سے کہا ’’ اگر خُدا تعالیٰ ہمیں اس عذاب اور طوفان سے صحیح و سالم ہماری منزل پر پہنچادے تو ہم اپنے مال و اسباب کا تیسرا حصہ اُس کی راہ میں خیرات کردیں گے ‘‘ سب مسافر رضامند ہو گئے۔ خواجہ کمال الدین سر بسجدود ہو کر خُدا سے فریاد کرنے لگے۔ حضرت بہاؤالدین ذکریا اُس وقت ملتان میں تشریف فرما تھے اور ہزاروں میل کی مسافت اُن کے اور جہاز کے درمیان تھی۔ جہاز کے تمام مسافر اور خود خواجہ کمال الدین کہتے ہیں ’’ ہم نے جہاز میں حضرت ذکریا ملتانی کو بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز پا یا اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلا کہ جہاز کیسے ساحل عدن پر بخیر و عافیت پہنچ گیا چنانچہ ہمارے حواس جب بحال ہوئے تو حضرت جہاز سے جاچکے تھے۔ ‘‘
عدن پہنچ کر تمام سودا گروں نے حسبِ وعدہ اپنے مال و اسباب کا تیسرا حصہ خواجہ کمال الدین کے حوالے کیا اور انہوں نے فخر الدین گیلانی کے ہاتھ ستر لاکھ روپے کی رقم حضرت بہاؤالدین ذکریا کو ملتان بھیج دی۔ بہاؤالدین ذکریا نے رقم کو قبول کیا اور اُسی وقت شہر کے ناداروں، مفلسوں اور مستحقوں میں تقسیم کر دیا اور خود اس سے اپنا دامن جھاڑ کر علیحٰدہ ہو گئے۔ اس واقعہ سے ملتان شہر اور اس کے قرب و جوار میں جناب ذکریا ملتانی کے جودو سخا کی دھوم مچ گئی۔ آپ نے لوگوں پر عملاً ثابت کر دیا کہ جن خوش بختوں کو خُدا مل جاتا ہے انہیں پھر کسی شے کی حاجت نہیں رہتی۔ قربِ خُدا وند ہی کو پالینے والے دُنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ رقم لانے والے صاحب فخرالدین گیلانی آپ کی فراخ دلی اور سخاوت سے اتنے متاثر ہوئے کہ اپنا تمام مال و اثاثہ خُدا کی راہ میں خیرات کر کے در ویشی اختیار کر لی اور حضرت ذکریا ملتانی سے بیعت ہو کر اُن کی خدمت میں پانچ سال گزارے پھر اُن کے ہی حُکم سے حج کے لیے روانہ ہو گئے مگر جدے کے قریب پہنچ کر اُن کا وصال ہوگیا۔ حضرت زکریا ملتانی کو اللہ تعالیٰ نے صاحب کرامت اور قطب الاولیاء کے ساتھ صاحب حشمت و ثروت بھی بنایا۔ آپ ہر وقت لوگوں میں خیرات کرتے رہتے تھے۔ مگر کبھی آپکو تنگ دستی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
حضرت بہاؤالدین ذکریا ملتانی ۵۷۸ ہجری کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے جد امجد کمال الدین علی شاہ مکہ معظمہ سے نکل کر خوارزم میں آکر آباد ہو گئے تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب اسودبن مطلب بن اسدین عبدالعزیز ابن قصیٰ قریشی سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد گرامی قدر وجیہ الدین اور دادا کمال الدین علی شاہ بڑے خُدا رسیدہ بزرگ تھے۔ کمال الدین علی شاہ نے خوارزم سے ملتان ہجرت کی اور یہاں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ ذکریا ملتانی کے نانا مولانا حسام الدین ترمذی بھی منگولوں کے حملوں سے تنگ آکر ہندوستان آئے اور کوٹ کروڑ کے علاقے جو کہ ملتان کا مضافاتی علاقہ ہے میں سکونت اختیار کرلی۔ کمال الدین علی شاہ نے اپنے صاحبزادے اور جناب ذکریا ملتانی کے والد محترم وجیہ الدین کی شادی مولانا حسام الدین ترمذی کی بیٹی سے کر دی جو کہ مولانا بہاؤالدین ذکریا ملتانی کی والدہ ماجدہ تھیں۔ موصوفہ بڑی عفیرہ اور پارسا خاتون تھیں۔ اُن کا نام نامی فاطمہ تھا۔
جناب زکریا ملتانی کی ولادت جُمعہ کے روز ۲۷ رمضان کو صبح کے وقت ہوئی۔ آپ کا نام بہاؤالدین اور رکنیت ابو محمد اور ابو بر کات تھی۔ آپ مادر زاد ولی تھے۔ آثارِ بزرگی بچپن سے ہی آپ میں نمایاں ہوگئے تھے۔ آپ کے والدِ محترم جب تلاوت کلام پاک فرماتے تو آپ دُودھ پینا چھوڑ دیتے اور تلاوت کی آواز سُننے میں محو ہو جاتے تھے۔ جب آپ کو مکتب میں داخل کروا دیا گیا تو ابتدائی ایام میں ہی آپ نے فرمایا ’’ جس وقت حق تعالی نے ٰ (اَلستُ بِرَبکُم) فرمایا تھا اُس وقت سے لے کر اب تک کے تمام واقعات مُجھے یاد ہیں۔ آپ کی عُمر ابھی بارہ سال تھی کہ آپ کے والدین یکے بعد دیگرے اللّٰہ کو پیارے ہو گئے۔ آپ انہی دنوں خراساں چلے گئے۔ وہاں سات برس تک علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کی اور پھ بخارا پہنچ کر یہاں بھی مزید تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب بہت سارے بزرگوں کی صحبت صالحہ سے فیض یاب ہوگئے تو پھر حج بیت اللّٰہ کے لیے حرمین شریفین حاضر ہوئے۔ حج و زیارت سے مشرف ہونے کے بعد پانچ سال تک مدینہ منورہ میں قیام کیا۔ حضرت شیخ کمال الدین محمد ممانی مشہور محدث سے آپ نے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ موصوف شیخ کمال الدین ۵۳ سال تک حرم نبویؐ کے متولی کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ جناب ذکریا ملتانی نے روضہ الرسولؐ کے پاس تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کے لیے مجاہدات شروع کیے۔ اس کے بعد انبیاء علیہماالسلام کی مقابر کی زیارت کے لیے بیت المقدس پہنچے یہاں سے بغداد تشریف لے گئے۔
آپؒ نے سات قرأت کے ساتھ قرآن پاک کو سات سال کی عُمر میں حفظ کر لیا تھا۔ آپ بہاؤالدین فرشتہ کے نام سے بھی مشہور رہے ہیں۔بغداد میں شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہر وردی صاحب عوارف کے ہاتھ پر جناب ذکریا ملتانی نے بیعت کی اور خرقۂ خلافت حاصل کیا۔ حضرت محبوب الہیٰؒ خواجہ نظام الدین اولیاءؒ ذکریا ملتانی کے بارے فوائد الفواید میں رقمطراز ہیں کہ جناب ذکریا ملتانی اپنے مُرشد کامل جناب شہاب الدین سہر وردی کی خدمت میں صرف سترہ روز ٹھہرے اور اتنی قلیل مدت میں خرقۂ خلافت بھی ملا اور روحانی نعمتوں سے بھی فیض یاب ہوئے۔ حضرت شہاب الدین سہر وردی کے دیگر مریدوں کے دل میں ایک خیال پیدا ہوا کہ ہم ایک مدت سے اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہیں مگر ایسے تلطف نہ پہلے کبھی دیکھنے میں آئے نہ آئندہ ہوں گے۔ وہ با قاعدہ جناب ذکریا ملتانی سے حسد کرنے لگے۔ اُن کی اس روش کو دیکھتے ہوئے ایک روز حضرت شہاب الدین سہر وردی نے فرمایا ’’ تم لوگ گیلی لکڑیاں ہو جن کو آگ لگتے ہوئے بہت دیر لگتی ہے اور بہا ؤالدین ذکریا ملتانی خشک لکڑی ہیں جنہوں نے فوراً آگ پکڑلی۔ درویش یہ سن کر بڑے نادم ہوئے۔ جناب ذکریا ملتانیؒ کو خرقہ خلافت پانے کے بعد حضرت شہاب الدین سہر وردیؒ نے حکم دیا کہ ملتان چلے جاؤ۔ چنانچہ آپ نے ملتان پہنچ کر رشد و ہدایت کے نور کو عام کیا۔ آپ کے ایک پیر بھائی جلال الدین تبریزی بھی اُن دونوں ملتان میں موجود تھے اور انہوں نے اشاعت اسلام میں آپ کی معاونت کی۔ ملتان میں آپ کی آمد وہاں کے مقامی درویشوں کو بڑی ناگوار گزری۔ انہوں نے بہت کوشش کی آپ یہاں سے چلے جائیں چنانچہ ایک روز اُن درویشوں نے ایک دودھ کا پیالہ بھر کر آپ کے پاس بھیجا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس شہر میں کسی دُوسرے درویش کی گنجائش نہیں ہے۔ آپ اُن کے کنا یہ کا مطلب سمجھ گئے۔ آپ نے جواباً ایک گلاب کا پُھول اس دُودھ بھرے پیالے پر رکھ کر بھیج دیا اور وہ پیالہ واپس کر دیا۔ آپ کا پُھول رکھنے کا یہ مقصد تھا کہ اُن کی جگہ شہر میں اس طرح ہوگی جس طرح پُھول دُودھ پر ہے۔ ملتان کے درویش آپ کی فہم و فراست پر بڑے متعجب ہوئے اور وہ سارے تائب ہو کر آپ کے حلقہ ارادت منداں میں داخل ہو گئے۔
حضرت بہاؤ الدین ذکریاؒ نے ملتان پہنچ کر اصلاح و تربیت کا کام بڑے پیمانے پر انجام دیا۔ آپ کے فیوض و برکات سے سارا ہندوستان منور ہو گیا۔ ملتان، سندھ اور بلوچستان کے علاقوں کو تو آپ کی روحانی سلطنت کہا جاتا تھا۔ طالبانِ حق کی ہدایت و ارشاد میں آپ اس طرح مشغول ہو گئے کہ ہر طرف آپ کے مرید و معتقد نظر آنے لگے جو آپ کی کرامات و خوارق پر خراج عقیدت پیش کر تے تھے۔ آپ علوم و ظاہری کے عالم اور مشاہد و مکاشفات کے مقامات و احوال میں یکتا تھے ۔اکثر اولیاء کرام نے آپ سے رشد و ہدایت پائی۔ آپ کفار کو ایمان کی طرف، معصیت سے اطاعت اور نفسانیت سے روحانیت کی طرف لائے۔ یہ آپکی اعلیٰ شان تھی کہ بے شمار متمول تاجر اور والیان مُلک آپ کے مرید اور والہ وشید تھے۔ آپؒ کے حالات ومناقب ایسی مشعلِ راہ ہیں جن کی روشنی میں بھٹکنا تو درکنار گمرا ہی کا خیال بھی دل میں نہیں آتا آپ کی شخصیت کے اعجاز نے لاتعداد افراد کو دین مبین سے بہرہ مند کیا اور تبلیغ اسلام میں جتنی سُرعت اور کامیابی آپ کو نصیب ہوئی بہت کم اولیاء کرام کو ملی۔ آپ کے دربار میں ہر وقت شاہ و گدا کی محفل لگی رہتی۔ قوالیاں ہوتیں اور لوگ عبادات و ریاضت کے فوائد سمجھتے اور ان میں مگن رہتے تھے۔
بُغض اور کینہ پروری سے حضرت ذکریا ملتانیؒ کو سخت نفرت تھی۔ آپ فرماتے تھے ’’ اگر تمہارا بدترین دوشمن بھی حق پر ہو تو اُس کے بارے میں سچے الفاظ اور سچی بات کرو اور ذاتی عنادسے کسی کے کردار کو آلودہ نہ کرو۔ ‘‘ حضرت جلال الدین تبریزیؒ آپ کے پیر بھائی دوست اور ہمعصر بزرگ تھے۔ تبلیغ و اشاعتِ اِسلام کے سلسلہ میں بھی وہ آپ کے ساتھی تھے۔ ایک مرتبہ دونوں میں کسی بات پر شکر رنجی پیدا ہو گئی اور جلال الدین تبریزی نیشاپور میں آپ سے علیحٰدہ ہو گئے اور خراسان سے ہوتے ہوئے دہلی پہنچے شہنشاہ وقت سُلطان شمس الدین التمش ان کے استقبال کے لیے شہر سے باہر آیا اور اُن کی گھوڑے سے اُتر کر پذیرائی کی۔ اس وقت کے شیخ الاسلام نجم الدین خضریٰ کو سلطان التمش کایہ تلطف بالکل پسند نہ آیا۔ مگر وہ سلطان کا تو کچھ کر نہ سکتا تھا۔ اس نے جلال الدین تبریزی سے حَسد کرنا شروع کر دیا۔ بُغض و حسد نے انتہائی دُشمنی کی صورت اختیار کرلی اور اسی عناد میں نجم الدین خضریٰ نے انتہائی گھناؤ نا قدم اٹھایا اور جلال الدین تبریزی پر ’’ زنا ‘‘ کی تہمت لگا دی اور جُرم کا ثبوت بہم پہنچانے کے لیے ایک طوائف کو سازش میں شریک کیا۔ مقدمہ سلطان التمش کے دربار میں پیش کیا گیا۔ اگر چہ سُلطان جلال الدین تبریزی کے مرتبہ و مقام سے واقف تھا پھر بھی مدعی اور گوا ہان کی تشفی و تسلی کے لیے عدالتی کارروائی نہایت ضروری تھی۔ اس لیے یہ طے پایا کہ سارے ہندوستان سے چار جید مشائخ و علماء و فضلا کو بُلایا جائے جو اس مقدمہ کی سماعت کر کے فیصلہ صادر فرمائیں۔ جناب ذکریا ملتانیؒ کو بھی ثالثان کے بنچ کا ممبر بنایا گیا۔ آپ ملتان سے دہلی تشریف لائے۔شیخ نجم الدین حضریٰ کو جناب ذکریا ملتانیؒ اور جلال الدین تبریزی کی باہمی چپقلش کا پتہ تھا اس لیے وہ بہت خوش ہوأ کہ اب تو اس کا مقصد ضرور پُورا ہوگا اور جلال الدین تبریزیؒ ضرور رسوا ہوں گے۔ مگر اللّٰہ تعالیٰ اپنے بندوں کو رُسوا نہیں کر تا جب تک خود ان کو لائق سزانہ سمجھے۔ جُمعہ کے روز دہلی کی جامع مسجد میں اس مقدمہ کے فیصلے اور سماعت کا اہتمام کیا گیا۔ اس روز جمعہ کی نماز میں تمام علماء و مشائخ نے شرکت کی شیخ الاسلام نجم الدین خضریٰ نے دانستہ حضرت ذکریا ملتانیؒ کو ثالث مقرر کیا۔ جُمعہ کی نماز کے بعد ’’ طوائف ‘‘ کو منصفین کے سامنے پیش کیا گیا۔ دُوسری طرف جلال الدین تبریزیؒ بھی پیش ہوئے۔ جب آپ رو بہ منصفین آئے تو آپ کی تعظیم میں سب مشائخ اور علمائے ربانی اُٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ آپ کی جُوتیاں حضرت ذکریا ملتانی نے اُٹھالیں اور ایک طرف رکھ دیں۔ سلطان التمش بڑا متاثر ہوأ کہ جس شخص کی تعظیم و تکریم بہاؤالدین ذکریا جیسی جریدۂ رُوزگار ہستی کرے وہ کیونکر گناہگار ہوسکتا ہے مگر اس خیال سے کہ یہ یک طرف حمایت شمار ہوگی اور مخالفِ فریق اس پر اعتراض کرے گا، بادشاہ خاموش رہا بلکہ سلطان نے جناب ذکریا ملتانیؒ کو شیخ جلال الدین تبریزیؒ کے احترام سے باز رکھنا چاہا جس پر آپ نے بادشاہ سے کہا ’’ میں شیخ جلال الدین تبریزیؒ کی خاکِ پا کو سُرمہ بنالوں تو یہ بات میرے لیے فخر کا باعث ہوگی۔ لیکن شیخ الاسلام نجم الدین خضریٰ کی دلجوئی کے لیے میں مقدمہ کی کارروائی اور سماعت کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ مبادا اُن کو یہ خیال گُزرے کہ میں ایسے کلمات کہ کر شیخ جلال الدین تبریزیؒ کے جُرم کی پردہ پوشی کر رہا ہوں۔ ‘‘
جناب ذکریا ملتانیؒ کی گفتگوسن کر طوائف پر آپ کی بزرگی اور عظمت کا ایسا رعب و دبدبہ طاری ہوأ کہ اُس نے مقدمہ کی کارروائی کے آغاز میں ہی اصل حقیقت اُگل دی اور آپ کے قدموں میں گر گئی۔ شیخ الاسلام کی سازش طشت ازبام ہو گئی اور اس طوائف نے شیخ جلال الدین تبریزیؒ سے بڑی توقیر و تعظیم سے معافی مانگی۔ بادشاہ نے بھی دست بستہ ہو کر معذرت کی اور اُسی وقت فرمان کے ذریعہ نجم الدین خضریٰ کو شیخ الاسلام کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا اور یہ عہدہ آپ کو قبول کرنے کی پیش کش کی جس کو آپ نے قبول فرمالیا اور بعد میں یہ عہدہ ایک طویل زمانے تک آپ کے خاندان میں چلتا رہا۔
ایک مرتبہ دریا میں زبردست طغیانی آگئی اور پانی کہساروں اور میدانوں کو چیر تا ہوأ جارہا تھا۔ کئی گاؤں سیلاب کی نذر ہو گئے۔ ایک قیامت برپا تھی۔لوگوں کے گھر، اسباب و اثاثہ بیوی بچے دریا کی لہریں اپنے ساتھ بہاتی جا رہی تھیں۔ حضرت بہاؤ الدین ذکریاؒ کی خدمت میں لوگوں نے عرض کی یا حضرت ’’ خُدا تعالیٰ سے دُعا فرمائیے اور ہمیں اس قیامت خیز سیلاب سے نجات دلائیے ‘‘ جناب ذکریا ملتانیؒ نے خُدا کے حضور دُعا فرمائی۔ سجدہ ریزی کر تے ہوئے آپ کا چہرہ اشکبار ہو گیا۔ طویل دُعا کے بعد آپ نے اپنا لوٹا لوگو ں کو دیا اور فرمایا ’’ یہ لوٹا لے جاؤ اور اس کو دریا میں ڈال دو دریا کا سارا پانی یہ کوزہ اپنے اندر سمیٹ لے گا۔ ‘‘ چنانچہ لوگوں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور دریا میں کوزہ ڈال دیا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی رحمت اور فضل و کرم سے واقعی کوزے میں دریا بند کر دیا اور سیلاب آنِ واحد میں اس طرح ختم ہوگیا جیسے کبھی پانی آیا ہی نہ تھا۔ پھر سیلاب زدگان اور بے گھر لوگوں کی آباد کاری کے لیے آپ نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئیے۔ لاکھوں روپے اور مَنوں اناج متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کیا گیا۔ آپ اپنے خدام سے فرمایا کرتے تھے ’’ گھر میں جتنا روپیہ اور گندم چاول ہوں اُن کو شام سے پہلے پہلے ختم کردیا کرو۔ ایسانہ ہو کہ مال و اسباب ہمارے گھر میں پڑا رہے اور غریب بُھوکے مرتے رہیں۔ ‘‘ اگر ایک شخص بھی میرے علاقے یا اس کے مضافات میں بُھوکا رہا تو خُدا کے آگے میں جواب دہ ہوں گا ‘‘ اور ہوتا بھی یہ تھا کہ آپ اپنا خزانہ شام کو خالی کر واتے اور اللہ کی رحمت سے صبح تک پھر دولت کی ویسی ریل پیل ہوتی۔ لنگر اُسی انداز سے پکتا، پیسہ، کپڑا لتہ اسی سرعت رفتار سے تقسیم ہوتا۔ لوگ دُور دُور سے بہاؤ الدین ذکریاملتانی ؒ کے لنگر سے کھانا کھانے آیا کرتے تھے۔ آپ کا یہ معمول تھا کہ آپ لوگوں کو پیٹ بھر کر اور مختلف انوع کے کھانے کھلاتے مگر خود چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک مرتبہ کھاتے تھے۔
آپ کی طبیعت میں انکساری کا عنصر بہت نمایاں تھا۔ اپنے تمام کام اپنے ہاتھ سے کر لیا کرتے۔ کسی کام کو اس لیے نہ روکے رکھتے تھے کہ خادم آکر کرے گا۔ بعض اوقات خدام کی موجودگی میں بھی اپنا کام خود کر لیا کرتے تھے۔ آپ کو ایسی باتوں جن میں شخصیت پرستی کی جھلک نظر آتی تھی سخت ناپسند تھیں۔ آپ فرماتے ’’ خُد تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جیسا بنایا پھر تفریق کیوں کی جائے۔ فرق مراتب ہم انسانوں کے پیدا کردہ ہیں اس میں خُدا تعالیٰ کی مرضی بالکل شامل نہیں اور جس کام میں اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی و منشا شامل نہ ہو اُن کو کرنا فضول بھی ہوگا اور اُس کی ناراضگی مُول لینے کے مترادف ہوگا اور کس کو مجال ہے جو خُدا کی ناراضگی کا سامنا کرے۔ خدا تعالیٰ کو راضی رکھنے کے لیے انسان جب تک متقی نہ ہو جائے اپنا ہر لفظ محتاط روی سے استعمال نہ کرے وہ کامل بندہ نہیں بن سکتا۔ حقِ بندگی تو اُس وقت ہی ادا ہو سکتا ہے جب تک انکساری اور نفس کشی کے عوامل انسان میں نہ پیدا ہوجائیں۔
ایک روز حضرت ذکریا ملتانیؒ مسجد میں تشریف لائے تو وہاں آپ کے مُرید اور چند درویش وضو کر رہے تھے اور آپ کو دیکھ کر سب کے سب لوگ وضو چھوڑ کر کھڑے ہو گئے۔ مگر ایک درویش بدستور وضو کرتا رہا اور جب وضو سے فارغ ہُوأ تو تعظیم کے لیے کھڑا ہوگیا۔ آپ نے اُس درویش کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ’’ اصل درویش یہ ہے جس نے خدا کے کام کو مقدم جانا اور اُس کے بعد مُرشد کی طرف راغب ہوا۔ ‘‘ یہی دستورِ درویشی ہے کہ مالک کی طرف پہلے جھکو اُس کی بندگی اور عبودیت پہلے کرو، اُس کے بعد اپنے شیخ کے لیے تعظیم بجالاؤ۔ وضو کر کے انسان خُدا کی درگاہ میں جاتا ہے اور خُدا کے گھر جاتے ہوئے راستے میں کوئی انسان مل جائے خواہ وہ کتنا ہی برگزیدہ کیوں نہ ہو اُس کی تعظیم سے زیادہ اپنی منزل کی طرف جانا مقدم سمجھنا چاہئیے۔ آپؒ ہمیشہ انکساری کی تلقین فرماتے تھے اور شخصیت پرستی سے زیادہ خُدا پرستی کو معتبر و مقدم جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انکساری نے آپ کو اوج کمال تک پہنچا دیا تھا۔
ایک مرتبہ ایک بہت بڑا عالم و فاضل اور دانشوربخارا سے دہلی آیا۔ اُس کی عالمانہ شہرت ہندوستان بھر میں پھیل گئی۔ لوگ اُس کو بہت بڑا نقطہ ور سمجھنے لگے۔ ہندوستان میں پھرتا پھراتا وہ ملتان بھی آیا مگر اس نے جناب ذکریا ملتانیؒ سے ملاقات کرنا کسرِ شان سمجھا۔ کافی عرصہ ملتان میں قیام کرنے کے بعد جب وہ وہاں سے واپس جانے لگا تو اُس کے حواریوں اور ساتھیوں نے اُس کو کہا ’’ آپ ایک مرتبہ جناب ذکریا ملتانیؒ سے مِل تو لیں ‘‘ اُس نے بڑی ردوکد کی اور جناب ذکریا ملتانی سے مُلاقات کرنے میں متامل ہوتا رہا مگر اپنے ساتھیوں کے اصرار پر اس کو جناب ذکریاؒ کی خد مت میں نا چار حاضر ہونا پڑا۔
اُس عالم نے لمبے لمبے بال رکھے ہوئے تھے جن کی ایک لمبی سی لٹ اس کے شانوں پر جھول رہی تھی۔ اور سر پر بڑا سا عمامہ باندھ رکھا تھا جس کا شملہ نیچے لٹک رہا تھا جب وہ آپ کی خانقاہ پر پہنچا تو جناب ذکریا ملتانیؒ نے اس کو مسکراتے ہوئے مخاطب کیا۔ ’’ کندھوں پر دو سانپ لٹکا کر آرہے ہو ‘‘ یہ بات کرنے کی دیر تھی کہ اس عالم نے دیکھا کہ اس کے کاندھوں پر واقعی اصلی سانپ لٹک رہے تھے۔ وہ اس قدر دہشت زدہ ہوا کہ اس کی ساری رعونت شیخی اور ڈینگ بازی رفو چکر ہو گئی اور دستار وجبہ ایک طرف پھینک کر آپ کے قدموں میں گر گیا۔ آپ نے اُس کو اٹھایا اور فرمایا ’’ بس اتنی سی بات سے گھبرا گئے یہ تو تمہارا غرور، نخوت اور برتری تھی جو تمہیں اللہ نے سانپوں کی شکل میں دکھائی۔ اُسی غرور کو ساتھ ساتھ لیے پھر رہے ہو اور جب وہ اصلی شکل میں نظر آئے ہیں تو خو فزدہ ہو ئے ہو ‘‘ یہ سُن کر وہ عالم بہت شرمندہ ہوا ار آپ کے قدموں میں گر کر معافی کا خواستگار ہوا۔ آپ سے بعیت ہو کر اس نے جبہ و دستار پر ے پھینکے اور سر بھی منڈ والیا اور آپ کے ساتھ ایک عرصہ تک حُجرے میں بند ہو کر عبادات و ریاضت میں غرق رہا۔ وہ ہر ایک سے یہی کہتا تھا کہ اس نے کسی مدرسہ و مکتب سے علم حاصل نہیں کیا بلکہ اُس نے سب کچھ جناب ذکریا ملتانیؒ کی خانقاہ میں حاصل کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو ہدایت دینا چاہتا ہے تو وہ ایسے حیر ت انگیز اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے متعلق انسان نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا اور جب وہ اسباب و عوامل پیدا ہو جاتے ہیں تو انسان مدتوں حیران رہتاہے مگر اللہ تعالیٰ اس طرح کی مہر بانی و تلطف فرما دیتا ہے جس طرح اس عالم پر فرمائی گئی۔
بیعت لیتے وقت جناب ذکریا ملتانیؒ کا قاعدہ تھا کہ وہ اپنے ارادت مند اور عقیدت مند مریدوں سے کہتے دیکھو تم نے مُجھ سے بیعت کی ہے تو بیعت کے معانی و مطالب بھی سمجھ لو۔ بیعت کا لفظ بیع سے نکلاہے۔ اس کے معنی ہیں فروخت کرنا اور ایک مرید بیعت ہو کر اپنے آپ کو مُرشد کے آگے فروخت کر دیتا ہے۔ اس لیے مرُشد کے آگے ’’ کیوں ‘‘ یا ’’ کیا ‘‘ جیسے لفظ قطعاً استعمال نہیں کرتے اور اس کا ہر حُکم سرِ تسلیم خم کر کے ماننا ضروری ہے۔ کیونکہ ایک باکمال مُرشد کبھی ایسا حکم نہیں دیتا جس میں خدا کے احکام کی نفی اور خلاف ورزی ہوتی ہو۔ دُوسری بات یہ ہے کہ جس کو مُرشد مان لیا جائے پھر اُس کو ہی اپنا سب کچھ سمجھو۔ در بدر بھٹکنے کا سلسلہ مت اختیار کرو کیونکہ ’’ یک درگیر محکم گیر ‘‘ ایک دروازہ پکڑو اور مضبوطی سے پکڑو اسی میں فلاح و بقا ہے۔جناب ذکریا ملتانیؒ اپنے مریدوں اور پیرو کاروں کی معمولی سے معمولی مذہبی و دینی غلطیوں پر نظر رکھتے تھے اور جب بھی کسی مرید میں کوئی کوتا ہی دیکھتے اُس کی فوراً اصلاح فر ماتے۔آپ کا ایک مرید سلیمان نامی بہت ہی عابد و زاہد شخص تھا۔ ایک روز وہ نماز پڑھ رہا تھا تو جناب ذکریا ملتانی اس کو دیکھ رہے تھے جب وہ نماز پڑھ چکا تو آپ نے اُس کو بلایا اور فرمایا ’’ نماز کے دوران قیام کی حالت میں تمہارے دونوں قدموں کے درمیان فاصلہ ٹھیک نہیں تھا۔ نماز کی حالت میں قدموں میں فاصلہ مسنون طریقہ کا رکھنا چاہئیے۔ آپ نے اُس کی اصلاح میں اس کو تین مرتبہ نماز پڑھوائی۔ پھر اُس کو حکم دیا کہ تم اُچ شریف چلے جاؤ اور وہاں نماز اور دیگر احکام اسلامی کی تعلیم حاصل کر کے آؤ تاکہ تمہاری یہ بظاہر معمولی سی خامیاں جو حقیقت میں بہت بڑے نقائص ہیں صحیح معنوں میں دُور ہو جائیں۔ ایک مُرشد حقیقی کے جو فضائل و اوصاف ہوتے ہیں حضرت ذکریا ملتانیؒ اُن کی ہو بہو تفسیر و تصویر تھے۔ آپ اپنے مریدوں کی اصلاح، فلاح اور بقا کے ہر دم داعی رہتے تھے اور عملی صُورت میں اُن کی تربیت اس طرح کرتے جس طرح ایک شفیق باپ کرتا ہے اور یہی وجہ ہے جو دوامی شہرت آپ کی ذات والا کو ملی ہے وہ قابل غور و رشک ہے۔
حضرت بہاؤالدین ذکریا کے یہاں زراعت و تجارت بڑے اعلیٰ پیمانے پر ہوا کرتی تھی آپ کا لنگر عام تھا۔ آپ بہت مخیر تھے مگر اپنے مہمانوں کی جن میں علماء کرام اور مشائخ عظام بھی ہوتے تھے بہت عزت، آؤبھگت اور خاطر تواضح کرتے تھے۔ آپ نے زراعت اور تجارت کے کام کو اتنا بڑھا دیا کہ ملتان کے اطراف میں جہاں بھی آپ کو موقع ملاافتادہ جنگلوں کو آباد کر وایا، نہریں تعمیر کروائیں اور تجارت پر بھی خصوصی توجہ فرمائی کیونکہ آنحضرتؐ کے پسندیدہ پیشہ کو زیادہ سے زیادہ محبت، لگن اور محنت سے اپنائے رکھنے کا آپ کو شوق اور وارفتگی تھی۔ دُوسرے زراعت و تجارت سے کئی ہزار بلکہ لاکھوں افراد کو روز گار کے مواقع میسر آتے جس سے کسبِ کمال کا شوق لوگوں میں پیدا ہوتا تھا۔ لوگوں کو دست سوال کی درازی کے مواقع کم سے کم ملتے۔ یہ ایک طرح کا سماجی بہبود کی اصلاح والا قدم تھا جس سے لوگوں کو بہتر کام اور بہترمعاو ضے ملتے اورانکو عبادت اور ریاضت کے ساتھ رزق حلال بھی میسر آتا تھا۔جناب ذکریا ملتانیؒ فرماتے تھے ’’ دُنیا کا مال جتنا بھی حاصل کر لیا جائے انسان پھر بھی مطمئن نہیں رہتا۔ ہوس مال کی بڑھوتی کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ سانپ کی صحبت اس شخص کو نقصان پہنچاتی ہے جو اُس کے افسوں کو نہ جانتا ہو۔