Monday, October 14, 2024
میگزین

مسجد نبویﷺ

جناب سرور کائنات ﷺنے اپنے دست مبارک سے مسجد نبوی ﷺ کا سنگ بنیاد رکھا۔ اپنے حسن و جمال ، خوبی و محبوبی، زیبائی و دلکشی کے لحاظ سے کراہ ارض پر اس مسجد کا جواب نہیں۔ جی چاہتا ہے کہ صحت مسجد میں بیٹھ کر گنبد خضرا کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہیں۔ اللہ اللہ یہ کس محبوب کی مسجد ہے کیسے کیسے محبوبوں نے اپنے ماتھے یہاں ٹیکے ہیں۔ منبر ٹھیک اسی جگہ ہے جہاں عہد نبوت میں تھا۔ اس کا چپہ چپہ مقدس ہے۔مسجد کے ہال میں داخل ہونے کے لئے چالیس ابواب ہیں۔ جن میں سڑک پر بنے ہوئے بیرونی گیٹ شامل نہیں۔ چھ خود کا زرینے علیحدہ ہیں جن پر نام اور نمبر لکھے ہوئے ہیں۔ باب السلام، باب جبرائیل، باب مکہ، باب جنت البقیع، باب الرحمن، باب بدر، باب احد، قبا، باب الہجرہ ، ہر خلیفہ کے نام پر کئی کئی باب ہیں۔ پھر سلطان عبدالمجید (ترکی) ملک السعود، ملک فہد، ملک عبدالعزیز ، باب ابوذر، باب بلال اور باب النساء ہیں۔ سب سے قریب ترین باب جو روضہ رسول ﷺ کی جانب ہے وہ باب جبرئیل ہے۔ متعدد روایات میں آیا ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی لیکر اسی باب سے آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ روایات کے مطابق مسجد نبوی ﷺ میں داخلے کے لئے اگر باب السلام کو استعمال کیا جائے تو زیادہ افضل ہے خواتین صرف باب النساء میں داخل ہوتی ہیں جو انہیں ریاض الجنتہ تک پہنچاتا ہے۔مسجد کے صحنوں میں اکثر درس و تدریس کا سلسلہ مختلف زبانوں میں چلتا رہتا ہے۔ ان میں پاکستانی علما بھی شرکت کرتے ہیں۔ مسجد کے اندر ایک عظیم الشان لائبریری بھی ہے جہاں نادر اور نایاب قلمی نسخے دستیاب ہیں۔ جنہیں دیکھ اور پڑھ کر ایمان کو تازگی اور روح کو سرور ملتا ہے۔
یوں تو اس مسجد کا چپہ چپہ مقدس و محترم ہے۔ مگر جن مقامات پر آپ ﷺ نے خود عبادات کی ہوں، نمازیں پڑھی ہوں اور جہاں آپ ﷺ کے سجود کے نشان ثبت ہوں۔ ان مقامات کی عظمت و رفعت کا کیا ٹھکانا؟ مسجد نبوی ﷺ کی مقدس اور بمتبرک جگہ ’’ریاض الجنتہ‘‘ کہلاتی ہے۔حضرت ابو ہریرہؓ کے مطابق آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ یہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر حوض پر ہے‘‘۔
حضور ﷺ کے زمانے کے یہاں سات ستون ہیں۔ جنہیں سنگ مر مر اور سنہری مینا کاری سے نمایاں کیا گیا ہے۔ جو دور ہی سے پہچانے جاتے ہیں ۔
ستون حنانہ
یہ محراب النبی ﷺ کے قریب ہے۔ حضور ﷺ اس ستون کے پاس کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ روایت میںآیا ہے کہ جب تک مسجد نبوی میں منبر تیار نہیں ہوا تھا تو آپ ﷺ اس سے ٹیک لگا کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ یہ کھجور کے تنے کا تھا۔جب منبر تیار ہو گیا اور آپ ﷺ خطبہ دینے کے لئے نئے منبر پر چڑھے تو اس ستون سے آپ ﷺ کی جدائی کی وجہ سے بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے کی آواز آئی۔ آپ ﷺ اس کے قریب گئے اس پر ہاتھ رکھا اور دعا فرمائی’’اے اللہ! جنت میں یہ میرا ساتھی ہو‘‘ تب وہ خاموش ہوا۔ پھر اس تنے کو یہیں دفن کر دیا گیا۔
ستون عائشہ صدیقہ
ایک مرتبہ حضور ﷺ نے فرمایا’’ میری مسجد میں ایک ایسی جگہ ہے کہ اگر لوگوں کو وہاں نماز پڑھنے کی فضیلت کا علم ہو جائے تو وہ قرعہ اندازی کرنے لگیں۔‘‘اس جگہ کی نشاندہی حضرت عائشہؓ نے فرمائی تھی اس لئے اس کا نام استوانہ عائشہ پڑ گیا۔
ستون ابی لبابہ
ایک صحابی حضرت ابی لبابہؓ سے ایک بھول ہوئی تو انہوں نے اس کی سزا کے طور پر از خود اپنے آپ کو اس ستون میں باندھ لیا تھا اور توبہ استغفار کرتے رہے، آخر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی تو حضور ﷺ نے انہیں کھول دیا۔ اس مقام کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ آپ ﷺ پر جتنا قرآن نازل ہوتا رہتا تھا ، وہ اسی مقام پر سناتے تھے، آپ ﷺ نوافل بھی یہیں ادا فرماتے تھے۔
ستون سرپر
یہاں سرکار دو عالم ﷺ اعتکاف فرمایا کرتے تھے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ ﷺ کا بستر بھی یہیں لگا ہوتا تھا۔ یہ ستون نظر نہیں آتا شاید جالی کے اندر ہے۔
ستون علیؓ
اس استوانہ حرس بھی کہتے ہیں۔ یہاں حضرت علیؓ نماز پڑھتے تھے اور حضور اکرم ﷺ کی پاسبانی یہیں سے کرتے تھے کہ کوئی دشمن آپ ﷺ کو گزند نہ پہنچا سکے۔

ستون وفود
باہر سے آنے والے وفود یہاں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضری دیتے تھے، آپ ﷺ ان سے تبادلہ خیال فرماتے ان میں سے اکثر یہیں مسلمان ہوتے تھے۔
ستون تہجد
نبی کریم ﷺ اس مقام پر نماز تہجد ادا فرماتے تھے۔
حضور ﷺ کا منبر
حضور ﷺ اس پر کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، یہ غالبا آٹھ یا نو ہجری میں بنایا گیا تھا اور آج تک اسی مقام پر قائم ہے اس کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے’’میرا یہ منبر حوض کوثر پر ہے اور یہ جنت کے زینوں میں سے ایک زینہ ہے۔‘‘
محراب النبی ﷺ
ریاض الجنتہ میں ہی سرور کونین ﷺ کا مصلیٰ بھی ہے، اس مقام پر کھڑے ہو کر آپ ﷺ امت مسلمہ کی امامت فرمایا کرتے تھے، یہاں ایک محراب بھی ہے جو محراب النبی ﷺ کہلاتی ہے۔ ولید بن عبدالملک کے دور میں ولید کے حکم سے حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے جب مسجد نبوی ﷺ کی توسیع فرمائی تو ٹھیک مصلیٰ کی جگہ پر یہ محراب بھی تعمیر کرا دی۔
حضور ﷺ کے دنیا سے وصال کر جانے کے بعد مصلیٰ رسول ﷺ جیسی متبرک جگہ کی تعظیم کو برقرار رکھنے کی غرض سے حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اس مقام پر قدم مبارک کی جگہ چھوڑ کر باقی جگہ پر دیوار بنوا دی تھی۔ تاکہ آپ ﷺ کے سجدے کا مقام لوگوں کے قدموں تلے آنے سے محفوظ رہے۔
آ ج کل بھی یہ جگہ محفوظ ہے اور سجدہ گاہ کے مقام پر کئی رلوں میں قرآن حکیم رکھے ہوئے ہیں اورقدموں کی جگہ خالی ہے۔ عقیدت مند قطار لگا کر آپ ﷺ کے قدموں کے نشانات پر اپنے ماتھے ٹیک کر نوافل ادا کرنا عظیم سعادت سمجھتے ہیں۔
ستون سے قریب ترین وہ جگہ بھی محفوظ ہے جہاں حضرت بلال حبشیؓ کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا ہے کہ انہوں نے حرمین شریفین دونوں جگہ اذان کہی۔ اس طرح کہ مسجد نبوی ﷺکے تویہ موذن تھے ہی مگر جب مکہ فتح ہوا تو حضور ﷺ کے حکم پر وہاں بھی اذان آپؓ نے ہی کہی۔مسجد نبوی ﷺ میں وہ جگہ جہاں سے پنج وقت نماز کی اذان بلند ہوتی تھی آج بھی حضرت بلالؓ ہی کے نام سے منسوب ہے۔
باب جبرائیل سے مسجد میں داخل ہوں تو دائیں ہاتھ کی جانب سے زمین سے تقریبا دو فٹ اونچا چبوترہ بنا ہوا ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں نبی کریم ﷺ کے زمانے میں وہ صحابہ رہتے تھے جنہوں نے اپنے آپ کو تعلیم کے لئے وقف کر رکھا تھا۔ حضور اکرم ﷺ اس جگہ بیٹھ کر ان مثالی طالب علموں کو قرآن و حدیث کے علاوہ دیگر علوم و فنون سے بھی آراستہ فرماتے تھے۔ ان جید طلبہ کی تعداد ستر تھی، ان میں حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت عبدالہ ابن مسعودؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ جیسے اکابر شامل تھے۔ انہیں لوگوں میں سے حضور ﷺ عامل گورنر، حاکم اور معلم مقرر فرمایا کرتے تھے۔صفہ کا چبوتہ اس وقت مسجد سے باہر تھا۔ صفہ کے معنی گھر کے باہر بنی ڈیوڑھی کے ہیں۔ مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کا یہ چبوترہ تیس فٹ لمبا اور بیس فٹ چوڑا ہے یہ تین اطراف سے کھلا ہے اور ایک سمت دیوار ہے جس کے ساتھ جالی دار شیلف رکھے ہوئے ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں قرآن حکیم رکھے ہوئے ہیں۔ اس چبوترے پر پہلی صف میں علما ہوتے ہیں جو مختلف زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ یہ عوام کو درپیش مسائل کا حل پیش کرتے ہیں اور فارغ وقت میں قرآن شریف ترتیب اور سلیقے سے شیلف میں رکھتے ہیں۔ اصحاب صفہ کے چبوترے کے بالکل سامنے باب جبرائیل کا دولت خانہ ہے جس کے گرد جالی لگی ہوئی ہے۔ اس پر آپ کانا م کندہ ہے یہ حجرہ بھی مستقل بند رہتا ہے۔ دائیں جانب دیوار پر ایک کتبہ لگا ہوا ہے جس سے حضرت صدیقؓ کے دروازے کا پتا چلتا ہے ۔ یہ وہی دروازہ ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے آخری دنوں میں کھلا رکھنے کی اجازت دی تھی اور باقی جتنے دروازے مسجد کی جانب کھلتے تھے ، بند کروا دیئے تھے۔
روضہ اقدس ﷺ کو پیتل کی جالیوں سے اور دیگر اطراف کو لوہے کے جالی دار دروازوں سے بند کیا ہوا ہے۔ مواجہ شریف کی طرف ہرسہ مزارات متبرکہ کے مقابل گول گول سے تقریبا چھ انچ قطر کے سوراخ ہیں۔ اس میں ایک دروازہ بھی جو تمام دروازوں کی طرح بند رہتا ہے ، اسی عمارت کو ’’ مقصورہ شریف‘‘کہتے ہیں۔
اس متبرک مقام پر حضرت ابو بکر صدیق کا سر حضور ﷺ کے سینہ مبارک کے برابر ہے اور حضرت عمر فاروقؓ کا سر حضرت ابو بکر صدیق کے برابر ہے۔ روضہ اقدس(مقصورہ شریف) کی لمبائی ہاون(52)فٹ اور چوڑائی انچاس فٹ ہے۔ جس کے چاروں جانب سنگ مر مر کے ستون ہیں۔ جو چھت تک بلند ہیں۔ سب سے پہلے678ہجری میں ملک منصور قلدون نے روضہ اقدس پر ایک گنبد بنوایا تھا جو نیچے سے مربع اور اوپر سے آٹھ کونوں کا تھا۔ یہ لکڑی کے تختوں اور سیسہ پلیٹ سے بنوایا گیا تھا۔
866ہجری میں ملک اشرف قائت بانی نے روضہ اقدس اور مسجد کی تعمیر و توسیع کی خدمت پر سفر جمالی کو مامور کیا جس نے تعمیر کے بعد گنبد کا رنگ سفید رکھا جسے ’’قبتہ البیضا‘‘ کہا جاتا تھا۔ دوسال بعد ملک قائت بانی نے روضہ اقدس میں پیتل کی جالیاں بنوائیں اور اس باب الرحمت قبلے کی جانب روضہ اقدس میں ایک جھروکہ باب فاطمہؓ اور باب تہجد بنوائے لیکن فرش کو کچا رکھا۔ دسویں ہجری کے وسط میں سلطان سلیمان رومی نے روضہ اقدس کا فرش سنگ مر مر کا بنوایا جو آج تک موجود ہے980ہجری میں سلطان سلیم ثانی نے روضہ اقدس کا قابل رشک گنبد تعمیر کروایا ہے جسے رنگین پتھروں سے مزین کیا اور گنبد کی پشت پر اپنا نام بھی لکھوایا۔1233ہجری میں سلطان محمود نے گنبد نبوی کو از سر نو تعمیر کروایا، پہلے گنبد کا رنگ سفید تھا مگر 1255ہجری میں اس کا رنگ سبز کرا دیا۔ تب ہی سے اسے گنبد خضرا کہا جاتا ہے۔عہد رسالت اور خلفائے راشدین کے دور میں مسجد نبوی ﷺ کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ یہ جہاں خدا کی عبادت کا کام انجام دیتی ، وہیں مسلمانوں کی تربیت کا عظیم مرکزی بنی رہی، اس مسجد میں مجلس شوریٰ قائم ہوتی تھی۔ یہی جگہ عدالتی مرکز تھی، نبی کریم ﷺ یہیں سے سزا و جزا کے فیصلے صادر فرماتے تھے۔ دارالتبلیغ کے علاوہ مسلمانوں کے لئے یہ مہمان سرائے کا، کام دیتی تھی ، مہاجرین کے لئے قیام گاہ بھی یہی تھی، جنگ کی صورت میں یہ ضروریات جنگ کا سامان فراہم کرتی، اور زخمیوں کے لئے دارلشفا کا، کام بھی یہیں ہوتا تھا۔ حکومت کا دیوان خانہ یعنی بیت المال بھی اسی جگہ ہوتا تھا۔حکومتوں کے لئے سفیر و ایلچی یہیں سے بھیجے جاتے تھے اور اگر کسی ملک سے سفیر یا ایلچی آتے تو وہ یہیں ملتے تھے یہ تھی اسلام میں مسجد نبوی ﷺ کی غرض و غائیت جس کی بنا پر مسلمانوں کو دوسرے مذاہب و ملت پر خصوصی امتیازی حیثیت حاصل رہی۔

حضرت آدم علیہ السلام
سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کادن جمعتہ المبارک ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام کوابوالبشرکہاجاتاہے۔
حضرت حواعلیہاالسلام کوحضرت آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کیا گیا۔
سب سے پہلے بیت اللہ کی تعمیر حضرت آدم علیہ السلام نے کی۔
حضرت آدم علیہ السلام کی زبان عربی تھی۔
حضرت آدم علیہ السلام نے دنیا میں سب سے پہلی غذاگندم کی روٹی کھائی۔
حضرت آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے کا نام قابیل تھا۔
دنیا میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے اپنا سرمنڈوایا۔
دنیا میں سب سے پہلے پرندہ حضرت آدم علیہ السلام نے پالا۔
حضرت آدم علیہ السلام پردس صحیفے نازل ہوئے۔
دنیا میں سب سے پہلے روزہ حضرت آدم علیہ السلام نے رکھا۔
حضرت آدم علیہ السلام ہر مہینے میں تین روزے رکھتے تھے۔
حضرت آدم علیہ السلام کا قد ساٹھ (۶۰) گز تھا۔
حضرت آدم علیہ السلام نے دنیا میں پہلا پھل بیر کھا یا۔
جنت میں حضرت آدم علیہ السلام کی داڑھی ناف کے برابر لمبی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *