پروفیسرعجیب و امیر
شاعروں سے ہمیں ایک شکایت تو یہ ہے کہ وہ بڑے عجیب ہوتے ہیں اوریہی نہیں اس سے بڑھ کر یہ کہ ساتھ غریب بھی ہوتے ہیں، یاد رہے یہاں غریب کا تصور وہ نہیں جو ’’تیلی‘‘ عرب ممالک میں ہے، وہاں غریب وہ کہلاتا ہے جس کے پاس ایک ہی گھر ایک ہی گاڑی اورا یک ہی بیوی ہو۔ بہر حال پروفیسر ڈاکٹر زاہد امیر صاحب ہمارے پہلے عجیب و امیر شاعرہیں۔ جیسے اجمل نیازی صاحب کے چہرے پر ایسا صوفی پن(Pun)ہے کہ وہ پلے بوائے بھی پڑھ رہے ہوں تو لگتا ہے کہ گرونتھ پڑھ رہے ہیں۔ طاہر اسلام گورا صاحب ہمارے بڑے خوبصورت افسانہ نگار ہیں جسے اعتبار نہ آئے وہ دوسرے افسانہ نگاروں کی تصویریں دیکھ لے۔ایسے ہی ڈاکٹرزاہدامیر صاحب کے چہرے پر اتنی ڈاکٹری ہے کہ وہ شاعری بھی سنا رہے ہوں تو یہی لگتا ہے کہ اردو میں کسی بیماری پر لیکچر دے رہے ہیں۔ شاعری ان کی پسندیدہ ان ڈورگیم ہے ۔ ہمارے ایک شاعر دوست اشرف جاوید بڑے توانا شاعر ہیں یقین نہ آئے توان کی کشتی دیکھ لیں ویسے کشتی اور شاعری میں یہی فرق ہے کہ کشتی میں لڑنے والا اپنے کپڑے خود اتارتا ہے۔ شادی کے ایک سال بعد بیوی بیمار ہوئی تو کشتی کی بجائے بیڈ منٹن کھیلنے لگے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ واحد کھیل ہے جس کے شروع میں بیڈ آتا ہے شرع اور شاعری میں کیا شرم۔ ڈاکٹر زاہد امیرجس تیزی سے شاعری کر رہے ہیں اس تیزی سے شاعری ہی کی جا سکتی کوئی اور کام نہیں کیا جا سکتا۔ ہم شاعر نہیں مگر ان کی شاعری پر رائے دے سکتے ہیں کیونکہ ایک نقاد کے بقول ٹھیک ہے میں نے کبھی انڈا نہیں دیا مگر میرے سامنے آملیٹ ہوتو مرغی سے بہتر رائے دے سکتا ہوں۔ بچپن میں گھر کی دیواروں پر شعر لکھ دیا کرتے جسے سال بعدسفیدی کرنے والا مٹا دیا کرتا اس سے قبل ہم اردو ادب میں سفیدی کرنے والے کے مقام و مرتبے سے آگاہ نہ تھے۔رقص اعضاء کی شاعری ہے شاید رقص کو شاعری کے خانے میں اس لئے شامل کیا گیا ہو کہ رقص میں بھی سر سے زیادہ پاؤں کا استعمال ہوتا ہے۔ ان کا دماغ ہر وقت شاعری کے لئے چلتا رہتا ہے صرف اس وقت نہیں چلتا جب وہ شاعری کر رہے ہوتے ہیں۔ جیسے ہمارے ٹی وی پروڈیوسرز حضرات جب صبح اٹھتے ہیں تو ان کا دماغ چلنا شروع ہوتا ہے اور اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک وہ ٹی وی اسٹیشن کے اندر داخل نہیں ہو جاتے۔ڈاکٹر صاحب بڑے پرفیکشنسٹ ہوتے ہیں ہمارے ایک استاد پروفیسر ڈاکٹرجوابھی’’حیات‘‘ ہیں خدا انہیں’’منور‘‘ رکھے۔ انہوں نے اپنی لیڈی سیکرٹری کو نکال دیا تھا کہ اسے کچھ آتا نہیں سوائے ’’ٹائپنگ، ڈرافٹنگ اور شارٹ ہینڈ کے۔ اسی لئے شعبہ طب کے لوگ دوسرے شعبوں میں شعبہ بازی دکھا رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ ایک دن محکمہ ڈاک بھی ڈاک کی فوری اورمحفوظ ڈلیوری کے لئے گائنا کالوجسٹ رکھ لے گا۔ ہم خود ڈاکٹر ہیں مگر ایسے کہ اگر کوئی جاننے والا کسی بڑی بوڑھی کے لئے ہمارے پاس دوائی لینے آئے تو ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ یہ اس کی ساس ہے ۔ لیکن ڈاکٹرزاہدامیرصاحب اپنے فیلڈ کے اتنے بڑے ڈاکٹر ہیں کہ ای این ٹی کے ڈاکٹر بھی ان کا نام سنتے ہی اپنے کانوں کو ان کا ہاتھ لگواتے ہیں۔ وہ ماہر امراض کان، ناک اورگلہ ہیں۔ کان گلہ تک بات ٹھیک تھی ناک والی بات خطرناک ہے۔ ہمارے ایک معروف آئی سرجن نے ایک مصور کا علاج کیا۔ مصور نے ایک تقریب میں خوش ہو کر آئی سرجن کو ایک تصویر دی۔ تصویر میں ایک بڑی سی آنکھ میںآئی سرجن کی تصویر بنائی ہوئی تھی۔ تقریب میں مہمان خصوصی پروفیسر خواجہ صادق حسین تھے۔ انہوں نے تصویر دیکھ کر آئی سرجن سے کہا اس پر خوش ہونے کی بجائے تمہیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ تم گائنا کالوجسٹ نہیں تھے۔جہاں تک گلے کی بات ہے ڈاکٹرصاحب کئی گلوں کے گلوں میں راگ رنگ بھر رہے ہیں ان کے پاس کوئی گلوکار آئے کہ میرے گلے کے لئے کچھ دیں تو یہ فوراً غزل لکھ دیتے ہیں کہ صبح نہار منہ غزل سے غرارے کرنا افاقہ ہو گا۔ گلوکاری کا ہمیں تو اتنا ہی پتہ ہے کہ جوبات دوسرے کوکہتے ہیں شر م آئے اسے گا دو۔ اردو ادب میں گلے کے زور پر کئی شاعرات ہوئیں گوہر بائی بھی گلے کے زورپرشاعرہ کہلائی یہ تو بعد میں عورتوں میں بند گلے کا ڈیزائن رواج پایا۔ پھر بھی آج کل خوبصورت شاعری وہ شاعری ہے جسے کوئی خوبصورت کرے۔ ایک شاعرہ نے کہا لگتا ہے کہ اب میں بڑی موٹی اوربھدی ہو گئی ہوں پوچھا’’آپ کیسے کہہ سکتی ہے؟‘‘ کہا ’’اب نقاد میرے شعروں میں وزن کی غلطیاں نکالنے لگے ہیں‘‘پروفیسر صاحب شاعری کو کام سمجھ کر کرتے ہیں۔ اس پر ہمیں اعتراض نہیں مسئلہ یہ ہے کہ وہ جب کام شروع کرتے ہیں تو پھر کام تمام کر کے چھوڑتے ہیں۔
رنگ ایسا کہ موٹے ہوتے تو اپنی ذات میں’’انجمن ہوتے‘‘۔ گفتگو میں اکثر اٹک جاتے ہیں ہم تو ٹرین پر اٹک جاتے ہیں۔ کار اس قدر احتیاط سے چلاتے ہیں کہ ٹریفک کانسٹیبل کو یقین ہوجاتا ہے کہ ان کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہو گا۔ طبیعت میں اس قدر حلیمی کہ رستہ بھی مانگ رہے ہوں تو لگتا ہے رشتہ مانگ رہے ہیں۔ کسی پر احسان کریں تو بتاتے ہوئے شرماتے ہیں جیسے انہوں نے احسان نہیں کیا احسان نے کچھ کیا ہے؟غصہ اورتھوک تھوکتے نہیں۔ کوئی دوست پریشانی میں فون کرے تو کہیں گے:مجھے آیا سمجھیں ۔ سنا ہے ان کے بچے انہیں آیا سمجھتے بھی ہیں۔ہر کام محنت سے کرتے ہیں آرام بھی کر رہے ہوں تو لگتا ہے محنت کر رہے ہیں۔ پوچھا’’طالب علمی میں کبھی کلاس میں لیٹ گئے؟‘‘ کہا‘‘ ہمارے زمانے میں کلاس میں طلبہ آپ کی طرح لیٹ نہ جاتے تھے، بیٹھے رہتے تھے۔‘‘ موصوف امتحان کے دنوں میں نہانا اور کمرے سے نکلنا بند کر دیتے یوں طلبہ انہیں سونگھ کر اندازہ لگا لیتے کہ امتحان میں کتنے دن رہ گئے ہیں۔ ان دنوں پروفیسر صاحب صفائی کا اس قدرخیال رکھتے کہ تولیے سے منہ تک نہ پونچھتے کہ کہیں تولیہ میلا نہ ہوجائے۔ چارپائی پر بیٹھے رہتے جب تک چارپائی نہ بیٹھ جاتی۔ فائنل کے امتحان کے بعد جب کمرے سے نکلے توا ن کا بیس پونڈ وزن کم ہوچکا تھا، بعد میں جب نہائے تو وزن مزید پانچ پونڈ کم ہو گیا۔
بحیثیت ڈاکٹر انہوں نے سگریٹ ختم کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ اب تو اتنے ماہر ہو گئے ہیں کہ بیس پچیس سگریٹ منٹوں میں ختم کرسکتے ہیں۔ شکر ہے ملک سے شراب ختم کرنے کا ادارہ نہیں کر لیا۔ویسے شراب پینا چھوڑنے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ شراب کو فریز کرلیا جائے۔ اور پھر اسے پینے کی بجائے کھایا جائے۔ ایک پنجابی فلم’’رقعہ‘‘ لکھی پنجابی فلموں میں اچھل کود اتنی ہوتی ہے کہ ہماری فلمی ہیروئنوں کا دیوار دیکھتے ہی کود نے کو دل چاہنے لگا۔ مگر فلم میں وہ کوانٹٹی کے بجائے کوالٹی کے قائل ہیں اگر کوانٹٹی کے قائل ہوتے تو ان کی فلم کی ہیروئین ’’انجمن ‘‘ہوتی۔
کہتے ہیں کہ میری دو کتابیں آ گئی ہیں دو اور آ رہی ہیں۔ مگر اس اندازے سے کہتے ہیں جیسے اطلاع نہیں دے رہے دھمکی دے رہے ہیں۔ ڈاکٹری میں انہوں نے نام ہی کمایا دام کے دام میں نہ آئے سو اب دوسرے پروفیسر ڈاکٹروں کے پاس شوگرفیکٹری ، سوپ فیکٹری ، وولن فیکٹری بلکہ پتہ نہیں کون کون سی فیکٹری ہے ان کے پاس کوئی فیکٹری ہے تو وہ ہے