Monday, November 18, 2024
میگزین

ایک اچھا استاد وقت کی اہم ضرورت اداریہ

بدلتے زمانے کے ساتھ دنیا کی ہر چیز میں تغیر آ رہا ہے مگر جس تبدیلی سے انسانیت قوم و ملت اور کل عالم کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے وہ ہے استاد کی تبدیلی ۔کہاں گئے وہ ساتذہ جن کی تعظیم کے لئے شہنشاہ وقت اپنا تخت چھوڑ کر تعظیم کے لئے جھک جایا کرتے تھے۔ جن کا رتبہ ہمارے دین اسلام نے دنیا کے سب سے بڑے رتبے ماں باپ تک بلند کر دیا تھا جن کے سینوں میں ایک درد مند دل ہوتا تھا۔ جو اپنے طلبہ کے لئے دھڑکتا تھا۔ نام نمود سے بے نیازسادگی انکساری اور عاجزی کی تصویر ان کی صحبتیں تربیت کے گہورے حسب نسب اور ماں باپ کے عہدے کی وجہ سے کیس طالب علم کو دوسرے پرفوقیت نہیں علم کا سمندر جو نہایت ایمانداری کے ساتھ طلبہ کو فیضیاب کرنے میں مشغول یہی وجہ تھی کہ بڑے بڑے بزرگاندین اوراولیاء اللہ اپنے استادوں کو مثالی قدر و منزلت دیتے تھے۔ مگر آج کے استاد!کیو جہ سے سر ندامت سے جھک جاتا ہے اور کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوتی اگر میں نہ بھی کہوں تو ہر ذی شعور انسان یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ آج کل کا استاد وہ استادہرگز نہیں ہے جو ایک صدی یا نصف صدی پہلے ہوتا تھا میںآگے بڑھنے سے پہلے ایک بات کی وضاحت کرتاچلوں کہ آج بھی کچھ ایسے اساتذہ موجود ہیں جو دیانتداری اورخلوص کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے میں مصروف ہیں۔اور آج بھی ان کے شاگرد اور دیگر افراد ان کی ویسے ہی عزت کرتے ہیں جیسے پہلے کی جاتی تھی مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے یہاں بات ہو رہی ہے عام استادوں کی جو سرکاری اداروں اور کچھ نجی اداروں میں کام کر رہے ہیں، اساتذہ سے جب بھی بات کریں طلبہ کی شکایتوں کا پلندہ کھول دیتے ہیں کہ آج کل کے طالب علم نہایت نالائق و بدتمیز ہوگئے ہیں ان کو علم حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اساتذہ کی عزت کرنا تو جانتے ہی نہیں ان سے گستاخی کرنے سے گریز نہیں کرتے ہر برُے کام میں ملوث ہیں۔ سگریٹ نوشی، دنگا فساد ، چرس گانجے کا استعمال ان کا شیوہ ہے، جامعات اور کالجوں میں سیاسی اغراض کی وجہ سے داخلہ لیتے ہیں۔ انگریزی یا اردو میں ایک صفحہ کی درخواست کو نہیں لکھ سکتے۔ پھر بھی جامعات تک  ہنچ جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ کیا میں پوچھنے کی جرات کروں کہ ان کو اس حال تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے؟ ماں باپ معاشرہ یا استاد ۔یوں تو جامعات تک پہنچ جاتے ہیں اور انگریزی یا اردو میں ایک صفحہ بھی نہیں لکھ سکتے تو ان کو یہاں تک پہنچانے والا کون ہے خود استاد؟ اگر تعلیمی اداروں میں اچھا خاصا وقت گزارنے کے باوجود ان کی تربیت ہیں ہوتی تو اس کا ذمہ دار کون ہے کیا کبھی نصاب کے علاوہ استاد ان کی تربیت پر دھیان دیتا ہے۔ ایک بچے کو دوسرے بچے پر فوقیت دیکر خود ہی استاد ان کے اندر بغاوت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ دراصل بیچارہ استاد بھی تو اسی معاشرے کی پیداوار ہے۔ جہاں نقل کر کے سفارش سے اورپیسے دیکر ڈگریاں اور سر ٹیفکیٹ لے لیے جاتے ہیں۔جو استاد خود نقل کر کے پاس ہوتا رہا وہ کبھی بھی اپنے طلبہ کو نقل کرانے میں عار محسوس نہیں کرے گا کچھ اسکولوں میں طلبہ کو اگلی کلاس میں ترقی دیدی جاتی ہے۔ کہ اسکول چلتا رہے آمدنی ہوتی ہے بچے کو کتنا آتا ہے اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں غیر تعلیم یافتہ ماں باپ خوش ہوتے رہتے ہیں کہ ان کا بچہ دو سو روپیہ دیکر پرائیویٹ سکول میں پڑھتا ہے اور ہر سال پاس ہو جاتا ہے۔ ظاہری شان و شوکت، نام و نمود اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ بڑے سے بڑے ادارے کے استاد وزیر اعلیٰ کے ساتھ تصویرکھنچواتے ہیں اور اس کو اپنی بیٹھک کی زینت بناتے یں کچھ استاد غیرمہذب زبان استعمال کرتے ہیں اورکبھی کبھی گالیاں دینے سے بھی گریز نہیں کرتے بچے ایسی زبان سن کر کیا سیکھیں گے۔اکثر استاد کلاس میں آنے کے لئے وقت کی ابندی نہیں کرتے وہ بچوں کو کیا وقت کی پابندی سکھائیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *