نامو س ر سالتﷺ قانون کے غلط استعمال پر سزائے موت کی سفارش
نامو س ر سالتﷺ قانون کے غلط استعمال پر سزائے موت کی سفارش
جھوٹے درخواست گزار کیلئے وہی سزا ہو جو توہینِ رسالت ﷺکے مرتکب شخص کی ہے ۔نظریاتی کونسل
اسلام آباد (رپورٹ/قیصر بٹ)اسلامی نظریاتی کونسل نے سفارش کی ہے کہ تحفظ ناموسِ رسالت ﷺکے قانون کا غلط استعمال کرنے والے فرد کو سزائے موت دی جائے جبکہ توہین رسالت ﷺکے مقدمات کی سماعت صرف وفاقی شریعت کورٹ کرے ۔سخت گیر علماء اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعتیں تحفظ ناموسِ رسالت ﷺکے قانون میں کسی بھی تبدیلی کی مخالف ہیں جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہناہے کہ انتہا پسند اور عام افراد اس قانون کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔اسلامی نظریاتی کونسل کے ایک سینئرافسر نے نام ظاہر ناکرنے پر ایکسپریس ٹریبیون کو بتایاہے کہ اسلامی نظر یاتی کونسل نے مذکورہ صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے تحفظ ناموس رسالت ﷺکے قانون کا غلط استعمال روکنے کیلئے کچھ تبدیلیوں کی سفارش کی ہے ۔یہ سفارشات گزشتہ تین سال سے پارلیمنٹ میں التواء کا شکار ہے ۔یہ سفارشات 2001 ء میں تیار کی گئی تھیں جب اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر ایس ایم زمان اور دو اعلیٰ مذہبی علماء مفتی پاکستان مولانامحمد رفیع عثمانی اور مفتی منیب الرحمن اس کے رکن تھے جبکہ کونسل میں تمام مکتبہ فکر اور عقائد سے تعلق رکھنے والے علماء موجود تھے ۔افسر کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اس وقت تک مؤثر ہیں جب تک پارلیمنٹ اسے مسترد نہیں کر دیتی ۔وفاقی شریعت کورٹ5مستقل ججزاور 3اعلیٰ مذہبی علماء پر مشتمل ہے اس لئے اسلامی نظریاتی کونسل کا خیال ہے کہ وفاقی شریعت کورٹ تحفظ ناموس رسالت ﷺکے غلط استعمال کی روک تھام یقینی بنانے کے لئے توہینِ رسالتﷺکے مقدمات کی سماعت کے لئے موزوں ہے ۔کونسل نے تجویز دی ہے کہ تحفظ ناموسِ رسالت ﷺقانون کا جو شخص بھی غلط استعما ل کرے ۔اسے سزائے موت دی جائے،توہینِ رسالت ﷺکے کیس میں جھوٹے درخواست گزار اور گواہوں کو وہی سزا ملنی چاہیے جوتوہینِ رسالتﷺ کے مرتکب شخص کی ہے ۔اسلامی قوانین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تحفظ نامو س رسالت ﷺکے قانون کا غلط استعمال بھی توہینِ رسالتﷺ کے مترادف ہے اس لیے جو شخص اس قانون کا غلط استعمال کرے اسے بھی اسی قانون کے تحت سزا ملنی چاہیے ۔تاہم اسلامی نظریاتی کونسل نے تحفظ ناموسِ رسالت ﷺکے قانون میں سختی سے کسی ترمیم کی مخالفت کی ہے بالخصوص سزاؤں سے متعلق سیکشن 295-Cمیں ۔افسر کاکہناہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق توہینِ رسالتﷺ کے کیسز کی وفاقی شریعت میں سماعت کے لیے طریقہ کار میں چند تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔سفارشات کو منظر عام پر کیوں نہیں لایا گیا؟کہ سوال پر افسر کا کہنا تھا کہ یہ سفارشات خفیہ ہیں کیونکہ حکومت نے سفارشات کو قانون سازی کے لئے پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا ہے ۔قانون کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پارلیمنٹ میں میں پیش کیے جانے تک خفیہ ہوتی ہیں ۔حکومت نے اب تک کوئی وجہ بتائے بغیر کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد نہیں کیا جب کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے وزارتِ داخلہ ،مذہبی امور اور قانون کو متعدد مرتبہ یاد دہانی بھی کرائی جاچکی ہے ۔افسر کے مطابق کونسل نے تین وزارتوں سے اس وجہ کی وضاحت طلب کی ہے کہ تحفظ ناموسِ رسالت ﷺکے قانون کے سیکشن 295-Cپر اس کی سفارشات پر کیوں عملدآمد نہیں کیا گیا ؟۔کونسل نے انسانی حقوق کے علمبرداروں کی جانب سے تحفظ ناموسِ رسالت ﷺکے قانون کے غلط استعمال کی بڑھتی ہوئی شکایات پر یہ سفارشات تیار کی ہیں ۔ایک اور افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایاکہ ہم وقتاًفوقتاًتحفظ ناموسِ رسالت ﷺکے قانون میں سفارشات مرتب کرکے حکومت کو دیتے رہے ہیں تاکہ قانون کو ہر ایک کے لیے قابلِ قبول بنایاجائے ۔پولیس 1986 ء سے 2010 ء کے درمیان 1274افراد پر توہینِ رسالتﷺ کا الزام عائد کر چکی ہے جن میں 60فیصد غیر مسلم ہیں ۔اگرچہ متعدد ذمے دار افراد مقدمے کے دوران یا اس سے قبل قتل کر دئیے گئے تاہم اب تک ملک میں کسی کو عدالت نے سزا نہیں سنائی ۔