Monday, October 14, 2024
تصانیف

تحفۃ المجالس

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ابتدائی کلمات
اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے کہ جس نے ہماری رہنمائی کے لئے مرشدِ حق حضرت سیدنا ریاض احمد گوھر شاہی مدظلہ العالی جیسی ہستی عطافرمائی ،جن کی نظرکیمیا نے ہم جیسے ہزاروں نوجوانوں کی زندگی میں روحانی انقلاب برپاکردیا۔خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے دل ہمہ و قت اللہ کے ذکرمیں مشغول ہوچکے ہیں اور یہی دنیا وآخرت کا بیش بہاخزانہ ہے جودرحقیقت ہمارے لئے ذریعہ نجات ہی نہیں بلکہ معرفتِ خداوندی کاذریعہ بھی ہے ۔اسی کے طفیل انسان فنافی الشیخ، فنافی الغوث ؒ ،فنافی الرسول ﷺ اور فنافی اللہ جیسے اعلیٰ منصب پر فائزہوتاہے۔
انجمن کا ہر رکن سرکارشاہ صاحب کی گفتگو سننے کو بے تاب رہتاہے۔ تحفتہ المجالس میں سرکار شاہ صاحب کے ان ’’ خطابات یا گفتگو‘‘ کو قلم بند کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو آپ نے مختلف مقامات پر کانفرنسوں اورروحانی نشستوں میں طالبینِ حق کیساتھ فرمائیں ۔اس کی تدوین میں جن اصحاب نے معاونت کی اللہ تعالیٰ ان کو اسکا اجرِ کثیر عطا فرمائے ،ادارہ اس سلسلہ میں ان کا تہہ دل سے ممنون ہے۔
اس سے پیشتر تحفتہ المجالس چار حصوں پر مشتمل تھی اب ان حصوں کو یکجا کرکے کتاب کی شکل دی گئی ہے۔امید ہے کہ طالبینِ حق بالخصوص اور عوام الناس بالعموم ان روحانی ملفوظات سے بھرپور استفادہ فرمائیں گے۔اگر ان ملفوظات میں کتابت یاپرنٹنگ کی غلطی ہو توادارہ کو مطلع کریں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی تصحیح کر دی جائے ۔
اللہ تعالیٰ تحفتہ المجالس کی تدوین کے لئے ہماری کوشش کو قبول فرمائے!آمین

خیر اندیش
چیئرمین سرفروش پبلیکیشنز پاکستان

بسم اللہ الرحمن الرحیم
درود شریف اور ذاکرِقلبی
صحابہ اکرامؓ کا واقعہ ہے کہ جب ہم پر کوئی مصیبت آتی توہم درودشریف پڑھتے تھے۔ اس سے پہلے آپ کیا کرتے تھے؟ اس سے پہلے آپ ہر وقت اللہ اللہ کرتے رہتے تھے ۔اگر اللہ اللہ میں رکاوٹ ہوتی تو درودشریف پڑھتے ،اس طرح وہ رکاوٹ دورہو جاتی ۔
اب لوگ کہتے ہیں کہ دل سے درود شریف پڑھنا چاہیے ۔ابتدا ء میں دل سے درود شریف نہیں پڑھا جاسکتاکیونکہ دل کی دھڑکن ٹک ٹک کرتی ہے۔آپ ٹک ٹک کے ساتھ کس طرح درود شریف پڑھ سکتے ہیں۔ٹک ٹک کے ساتھ تو اللہ اللہ ہی ہوسکتی ہے۔یعنی کہ جب دل کی دھڑکن کی ٹک ٹک اللہ اللہ کرے گی تو انسان کامیاب ہو جائے گا ۔ اسی طرح کئی ٹک ٹک مل کر بڑی مشکل سے لاالہ الااللہپڑھیں گی اورپھراسی طرح مزید کئی ٹک ٹک مل کر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺپڑھیں گی۔اس وقت ہم کہیں گے کہ اب یہ شخص دل سے مسلمان ہوگیاہے۔اس وقت جب تم نماز پڑھوگے توساتھ وہ قلب بھی نماز پڑھے گا۔تم درود شریف پڑھو گے تو ساتھ قلب بھی درودشریف پڑھے گا ۔اس وقت درود شریف کے صحیح فیض کا علم ہوگا۔ایسے لوگ جو ذاکرِ قلبی ہوتے ہیں جب وہ درود شریف پڑھتے ہیں تو قلب بھی درود شریف میں لگ جاتاہے۔جب وہ نعت شریف پڑھتے ہیں تو قلب بھی نعت شریف میں لگ جاتا ہے۔ ایسے لوگ جب را ت کو سوتے ہیں تو قلب کبھی نعتیں پڑھتا رہتاہے۔کبھی درود شریف پڑھتاہے اور کبھی اللہ ھُو کرتارہتاہے ۔گھروالے کہتے ہیں کہ تم نعت پڑھ رہے تھے ،یا درودشریف پڑھ رہے تھے یا اللہ ھُو کررہے تھے تو وہ کہتاہے کہ میں توسورہا تھا مجھے پتہ ہی نہیں۔
رب کی تلاش
آج کل کسی کو رب کی تلاش ہی نہیں ،بندہ نمازبھی پڑھتاہے تو کسی لالچ اور غرض و غایت کے سبب ،ورد و وظائف بھی کرتاہے تو کاروبار کی ترقی کے لئے یا بیماری سے شفاکے لئے۔(اور نمازیں بھی جنت میں جانے کے لئے پڑھتاہے۔)رب کو پانے کے لئے کوئی عمل نہیں کرتا۔اگر رب کو پانے کے لئے عمل کرتاتورب ضرور ملتا۔
حضرت بایزید بسطامیؒ سے رب نے کہا اے بایزید اتنا کچھ جو تو کرتاہے کیا جنت کے لئے کرتاہے؟انہوں نے جواب دیا کہ میں لالچی نہیں ہو ں ۔رب نے پھرفرمایاکہ کیا تودوزخ سے بچنے کے لئے کرتاہے۔بولے کہ دوزخ تو منکروں کا ٹھکانہ ہے اور میں منکر نہیں ہو ں ۔پھر رب نے سوال کیا کہ کیا تو عرش و کرسی کے لئے کرتاہے۔جواب دیا کہ عرش و کرسی تو فرشتوں کا مقام ہے اورمیں فرشتہ نہیں ہوں ۔ رب نے کہا کہ اے بایزید پھر یہ سب کچھ کس لئے کرتاہے؟عرض کی کہ اے رب میں سب کچھ تیرے لئے کرتاہوں۔رب نے فرمایاکہ اگرمیں نہ ملوں تو حضرت بایزید ؒ نے عرض کی کہ اگرتُونہیں ملتاتومیراجینابے کار ہے آہ بھری اور جان دیدی ۔
بچے بچے کو پتہ ہے کہ اگر دل خراب ہے تو نماز کا کوئی فائدہ نہیں۔یہی بات ہے ناں۔جس طرح کسی کادماغ خراب ہے اور آپ حفظ کے لئے اس کو بٹھا دیں۔ قرآن پاک بار بار پڑھنے کے باوجود اس کو یاد نہیں ہوگا ۔آخر کار آپ سب کہنے پرمجبو ر ہوجائیں گے کہ پہلے دماغ کا علاج کراؤتب حفظ ہوگا۔
اس طرح عبادت کا تعلق دل سے ہے اگر دل خراب ہوگاتو عبادت صحیح نہیں ہوگی۔ یعنی صحیح عبادت کے لئے دل کا صاف کرنابہت ضروری ہے۔ نماز اداکرنے میں ہم زبان سے نوری الفاظ پڑھتے ہیں قل ھواللہ احد مگر دل میں خیال یہ ہے کہ گھر وچ آٹا کوئی نہیں اس طرح قل اللہ ھواحد کا نور آٹے میں چلا گیا اور آٹے میں برکت ہوگئی ۔آٹاکہیں سے آگیا۔
ساری نماز میں جہاں جہاں دھیان جاتاہے ادھرنور چلاجاتاہے اور ہمارے دنیاوی امورسنورتے چلے جاتے ہیں۔ ہم حقیقت نہیں سمجھتے بلکہ خوش ہوتے ہیں کہ ہماری نماز قبول ہورہی ہے حالانکہ ہماری نمازتو کاروبارمیں گھومتی رہتی ہے، یہ تو ہماراحال ہے۔اوردوسرافرقہ خاص کر دیوبندی ہے۔ ان لوگوں کا کہناہے کہ وہ لوگ ایسی نمازپڑھتے ہیں کہ جس میں کوئی خیال ہی نہ آئے ،وہ رب کو ڈھونڈنے کے لئے آسمانوں کی طرف دھیان کرتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے عمل میں کامیاب ہوتاہے کیونکہ نمازمیں اس کادھیان آٹے اور دال کی طرف نہیں جاتابلکہ رب کی طرف جاتاہے ۔اس بے چارے کوپتہ نہیں کہ رب تووہاں ہے جہاں توفرشتے بھی نہیں پہنچ سکتے تو ا س کا خیال کیسے پہنچے گا۔ یعنی ان صاحب کی نماز خلاؤں میں گھومتی رہی۔یعنی پہلادوسرے سے بہترہے کیونکہ اس کے کاروبار میں توبرکت ہورہی ہے ۔
لیکن رب کس طرح ملے گا نماز تو رب کے لئے ہے اورآپ نے نمازکوکاروبارمیں لگالیااورخلاؤں میں لٹکالیا۔اب دیکھیں کہ رب کس طرح ملتاہے۔
سب سے پہلے رب کے اسمِ ذا ت اللہ کو پکڑناپڑتاہے ۔اس کو پکارتے ہیں پھرا س کو دل میں جماتے ہیں۔پھر جب نماز پڑھتے ہیں تونظرسے قلب پر اسمِ اللہ جماتے ہیں۔یہ نماز خالصتاًاللہ کے لئے ہوتی ہے۔عرشِ معلی تک پہنچ جاتی ہے۔عرشِ معلی سے بیت المعمور اوربیت المعمور سے اللہ تک پہنچ جاتی ہے۔یعنی ایسی نماز سیکھنے اور ادا کرنے کے لئے سب سے پہلے اللہ اللہ سیکھنی پڑے گی۔
ایک شخص تھا اسے ضرورت پڑی کہ رب کو ڈھونڈوں ۔پانچ چھ سال تک اپنے گھر میں عبادت کرتارہا۔وردو وظائف کرتارہا۔اس کے چہرے پر نور آگیااورکہنے لگا کہ لوگ مجھے ولی سمجھنے لگے ۔مگر میں اندر سے کالاہی تھا۔خیال آیارب شاید مسجد میں ملتاہے اورمیں گھرعبادت میں لگارہاوہ پھر مسجد میں چلاگیاوہاں پھرپانچ چھ برس گزارے۔ عبادت کرتارہالیکن جب اندر جھانکا توخالی پایا۔اس نے سوچا کہ رب شاید جنگلوں میں ملتاہے ۔جنگلوں میں جاکربھی پانچ چھ سال عبادت و ریاضت سب کچھ کرتارہالیکن جب اندردیکھاتوخالی پایا۔سچاعاشق تھاسوچا رب شایددریاؤں میں ملتاہے دریاؤں میں تلاش کرناشروع کردیاپانچ چھ سال گزاردیئے مگر پھر اندردیکھاتوخالی سوچنے لگارب پھرکہاں ملتاہے؟ذہن میں خیال آیاموسیٰؑ کو کوہِ طورپرملاتھا شاید مجھے مل جائے کوہِ طورپرجاکر بھی پانچ چھ سال گزارے مگررب کا کہیں بھی نام و نشان نہ پاسکا۔آخرکار اس کے مرنے کا وقت قریب آگیا دل میں افسو س تھا کہ میں نے گھر بار چھوڑا، مٹی کھائی، پتے کھائے مگر رب نہیں ملا۔ناجانے رب کہاں ملتاہے؟آوازآئی اے نادان میں توتیرے گھرمیں موجود تھا۔وہ بولا اے اللہ تُو کس کونے میں تھا؟جواب آیامیں تیرے دل میں تھا اگرگھرمیں بیٹھ کر دل سے مجھے یاد کرلیتاتو مجھے پالیتا۔
حدیث احیاء علوم الدین:
لا یسعن ارض ولا سمائی ولکن یسعن قلب عبدی المومن o
ترجمہ: مجھے زمین اورآسمان کی وسعتیں اپنے اندرنہیں سمو سکتیں لیکن میں اپنے بندۂ مومن کے دل میں سماجاتاہوں۔(حدیث قدسی)
اب دل کیاہے؟رب کا تعلق دل سے ہے ۔جس طرح خانہ کعبہ آسمان پر بیت المعمور کی نقل ہے اسی طرح عرشِ معلی کی طرح تمہارا دل ہے ۔لوگ کہتے ہیں کہ دل کو بڑی فضیلت ہے دل کواس وقت فضیلت ہے جب اس میں اللہ بس جاتاہے اوریہ اللہ اللہ میں لگ جاتاہے اور اس کی اس اللہ اللہ کی حرکت سے عرشِ معلی ہلنے لگتاہے ۔فرشتے عرض کرتے ہیں کہ پروردگارِ عالم یہ کیاہورہاہے ؟رب فرماتاہے کہ وہی انسان جسے انکارِ سجدہ ہواتھا آج و ہ سورہا ہے مگراس کا دل اللہ اللہ کررہاہے جس کی وجہ سے عرشِ معلی ہل رہاہے۔ فرشتے کہتے ہیں کہ کاش ہم بھی انسان ہوتے اورہمارے اندربھی ایسادل ہوتا ۔
اب تم جو اس کی عبادت کرتے ہووردووظائف کرتے ہو۔زیادہ سے زیادہ 60,50 یا 100 سال گزارلوگے۔ مگرفرشتے توہزاروں سالوں سے عبادت کررہے ہیں ان سے کیسے بازی لے جاؤ گے؟کچھ جنات میں سے صحابہ جنات بھی ہیںیعنی کہ وہ حضورپاک ﷺسے بیعت ہیں مگراب بھی موجودہیں فرق صرف اتناہے کہ ان بیچاروں میں دل نہیں ہے اورتم میں دل موجود ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے سات جنتیں بنائیں اور تمہارے اندرسات مخلوقیں رکھیں۔تمہیں توصرف اتنا علم ہے کہ تمہارے اندرایک روح موجود ہے حالانکہ تمہارے اندرایک نہیں بلکہ سات روحیں موجودہیں۔جوانڈوں میں بند ہیں جن کے گرد جالے بنے ہوئے ہیں اگرایک مخلوق کا تعلق قلب کی عباد ت سے ہوجائے تو وہ جنت خلدکاحقدارہے روح کی عباد ت کرلے تو اس سے اگلی جنت یعنی دارالسلام ملے گی ۔سری کی عبادت کرے تواس سے اگلی جنت کے مستحق پھر اسی طرح ایک لطیفہ انّا دماغ میں موجود ہے اگراس کی عبادت کروگے تو جنت الفردوس کے حقدارٹھہروگے۔کئی عابد جن حضورپاک ﷺ سے بیعت ہیں ابھی تک موجودہیں لیکن ان میں قلب موجودنہیں ہیں ۔اس لئے وہ جنت میں نہیں ر ہ سکتے بلکہ ان کو جنت کے باہر مقامات ملیں گے۔وہ لوگ صرف جنت کی سیر کو جاسکیں گے لیکن وہ انسان جن کے اندردل موجود تھالیکن انہوں نے ختم کردیاتوانکے بارے میں قرآن پاک ارشاد فرماتاہے’’ کہ یہ چوپائے ہیں بلکہ اس سے بھی بدتر۔‘‘
ہوسکتاہے کہ ایماندار کلمہ گویا جوحضورپاک ﷺسے محبت رکھتاہوبخش دیاجائے لیکن یہ جنت میں اُن لوگوں کے برابرتونہیں ہوسکتا جن لوگوں نے لطائف کی عبادت کی ہو ں۔ایسے لوگ جودوزخ سے بچ توجائیں گے مگرجنت میں ان عبادت گزاروں کے غلام بن کر رہیں گے۔اس وقت کتنے پچھتائیں گے کہ یہ سب ہم میں بھی موجودتھامگرہم تومحروم رہے۔
انسان کے دماغ پر ایک پردہ ہوتاہے۔اگرتمہیں کہاجائے کہ ایک ماہ کے لئے مری چلے جاؤ ۔تم پہلے پوچھوگے کہ وہاں کا موسم کیساہے؟وہاں کے لئے کمبل خریدوگے۔پیسے وغیرہ اوردوسری تمام ضروریات کا انتظام کروگے تاکہ وہاں کسی قسم کی تکلیف نہ ہو ۔یعنی صرف ایک ماہ کی تاریخ اور اتناانتظام موت کا توکوئی پتہ نہیں ہے نہ جانے کس وقت آجائے۔شاید کل ہی آ جائے مگر وہاں کے لئے تم سامان کیوں نہیں کرتے؟اس کی وجہ کیا ہے؟اس کی وجہ یہ ہے شیطان انسان کے د ماغ پرایک پردہ ڈال دیتاہے ۔اب وہ کیسے ہٹتاہے ؟وہ اس وقت ہٹتاہے جب انسان مرنے لگتاہے۔عزرائیل ؑ جب آتے ہیں توشیطان وہ پردہ ہٹالیتاہے تواس وقت آدمی یہ کہتاہے کہ مجھے اب موقع ملے تاکہ کچھ کرلوں لیکن اب توملک الموت آگئے ہیں اب کیاموقع ملے گا ۔حدیث شریف میں ہے :
موتوا قبل انت موتوo
’’مرنے سے پہلے ہی مرجاؤ‘‘
سب سے پہلے ذکرِ قلب، پھر روح اس طرح ساتوں لطائف چلتے ہیں۔جب دماغ کا لطیفہ یا ھُو کا ذکر کرے گا تواس کی گرمی سے وہ پردہ پھٹ جائے گا اورپردہ پھٹنے کے بعد آپ کو مرنے سے پہلے ہی علم ہوجائیگا کہ آپ دنیامیں کیوںآئے ہیں ۔اس وقت لوگ کہیں گے کہ یہ دیوانے ہیں لیکن آپ کہیں گے ۔کہ لوگ دیوانے ہیں۔اس طرح انسان دنیامیں اپنی آمد کا مقصدسمجھ جاتاہے۔
اگراللہ تعالیٰ اوپرہی سے ہماری روحوں کو جنت یا دوزخ میں ڈال دیتاتودوزخ میں جانے والی روحیں اعتراض کرتیں کہ اے اللہ ہم نے کیا قصورکیاتھا؟اس اعتراض کو ختم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان روحوں کو جسموں میں ڈالا اورجنت دوزخ کی بنیاداعمال پررکھ کرانہیں دنیامیں بھیج دیا۔اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تمہیں چند سال کے لئے دنیامیں بھیجاتھاوہاں سے کیاکرکے لائے ہو۔تم تومجھے بھول ہی گئے تھے اوردنیامیں لگ گئے تھے۔
اب دنیاوی زندگی ختم ہونے والی ہے۔ اصل زندگی مرنے کے بعد شروع ہوگی جوکبھی ختم نہ ہوگی۔تمہاری اس ساری زندگی کا نچوڑ 60,50 یا 100 سال ہے ۔اگرتم نے انہیں ضائع کردیاتوگویاساری زندگی ضائع کردی ۔لیکن نمازپڑھو، وردووظائف کرو جوکچھ بھی کرواللہ کے لئے کرو۔لیکن افسوس کی بات تویہ ہے کہ تم یہ سب کچھ دنیاوی فوائد کے لئے کرتے ہو۔تم یہ چاہتے ہو کہ کاروبارمیں ترقی ہو۔بیماری سے نجات ہواس طرح تمہاری تمام حاجات پوری ہوجائیں۔یہ سب کچھ دنیاکے لئے ہے اس لئے دنیامیں رہ جائے گا آخرت میں خالی ہاتھ جاؤ گے ۔دنیامیں جس اصل کاروبار کے لئے آئے ہو وہ یہ ہے کہ ایسی کمائی کروکہ آخرت کے لئے جمع ہوجائے۔قول غوث پاکؓ ہے۔
’’دنیا ایک بازارہے اس میں سے وہی چیزخریدواور بیچوجوکل بازارِآخرت میں تم کونفع دے۔‘‘
قرآن پاک میں ارشادہے ۔
ولتنظرنفس ماقدمت لغد
ترجمہ:انسان دیکھے کہ آئندہ کے لئے آگے کیابھیجا؟ (سورۃ الحشر آیت نمبر18 )
تم نے دنیاوی کاروبار کو اتناافضل سمجھ لیاہے کہ اگرتم سے کہاجائے کہ نماز پڑھو کہوگے کہ مجھے فرصت ہی نہیں ملتی حالانکہ تمہیں دنیامیں عبادت کے لئے بھیجا گیا۔قرآن پاک میں ارشادہے۔
وماخلقت الجن والانس الالیعبدون
ترجمہ: اور میں نے جن اور آدمی اس لئے بنائے کہ میری بندگی کریں۔ (سورۃ الذاریت آیت نمبر56 )
تم کہتے ہو کہ عباد ت کے لئے فرشتے موجود ہیں اورہم دنیاوی کام صرف پیٹ کے لئے کرتے ہیں۔ہمارے پیٹ میں کیاہے؟نفس ہے، شیطان ہے۔یعنی ہم شیطان کے لئے تو دن رات لگے رہتے ہیں۔اوررحمن کے لئے توکچھ بھی نہیں کرتے۔
اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت ہوجائے تو ہر وقت اللہ اللہ کرتے رہو۔یقین کرو اگر کوئی شخص لندن میں بیٹھاہے تو تم اسے چالیس روز تک یاد کرو۔تواس کے دل کو حرکت ہوگی اورتم کو خط لکھ کر بھیجے گا کہ دل سے دل کو راہ ہوتی ہے۔اگر تم چالیس روز تک دل سے اللہ کو یاد کروگے تو وہاں بھی حرکت ہوگی وہ پوچھے گا کہ یہ بندہ کون ہے۔جوہروقت ہمارے ذکر میں مشغول رہتاہے۔تب ہی اس نے فرمایاہے۔
فَاذْکُرُوْنِی اَذْکُرْکُمْ
ترجمہ :تم میراذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔(سورۃ البقرہ آیت نمبر152 )
عبادت چاہے کم کرو مگر دل سے کرو۔ایسی عباد ت ہی اچھی ہوتی ہے۔مگرایک شخص عباد ت میں دھڑادھڑلگاہواہے مگر جتنی عباد ت کرتاہے اتنا ہی دل سیاہ ہوتاہے۔ایسی عبادت کا کیافائدہ۔ایسی عبادت تو شیطان بھی کرتاتھا۔لوگ سمجھتے ہیں کہ عبادت سے رب ملتاہے اگر ایسا ہوتاتو رب سب ہی کو مل جاتا۔رب عبادت سے نہیں بلکہ دل سے ملتاہے عبادت تودل کو صاف کرنے کاذریعہ ہے۔عباد ت سے توجہ دل کی طرف ہوجاتی ہے۔اور دل کی صفائی ہو جاتی ہے۔تب ہی حدیث شریف میں ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’ میں شکلوں اور عملوں کو نہیں دیکھتامیں نیّتوں اور قلوب کو دیکھتاہوں۔‘‘
جب قلب صاف ہوگاتو نیت بھی صاف ہوگی پھر جب اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت پڑے گی تو سمجھ لیں کہ رب بھی مل گیا۔
ہر وقت اللہ اللہ کرنے سے تمہیں اس نام سے محبت ہو جائے گی ۔پھر یہ محبت آہستہ آہستہ عشق میں تبدیل ہو جائے گی۔اس کے بعد اگر تم کو رسّوں سے باندھ کر بھی گھسیٹا جائے تب بھی تم کہو گے کہ ہم تو اللہ ھُو ہی کریں گے ۔بعض لوگوں کو گھروں میں باندھ دیا جاتاہے مگر پھر بھی وہ عشقِ خداوندی کی وجہ سے اللہ ھُو کرنے سے بازنہیں آتے صحابہ کرامؓ کو رسّوں سے باندھ کر گرم ریت میں گھسیٹاجاتاتھامگر پھر بھی وہ اللہ کے عشق سے باز نہ آئے ۔جب اللہ سے عشق ہوگیا تو سمجھ لو حضورپاک ﷺسے عشق ہوگیایعنی اللہ ھُو پڑھنے سے اللہ سے عشق ہوجاتاہے اور اللہ سے عشق ہوجائے تو حضورپاک ﷺ سے بھی عشق ہوجاتاہے ۔نعت خوانی اس لئے کرتے ہیں کہ حضورپاک ﷺ سے عشق ہو جائے اورحضورپاک ﷺ سے عشق ہوجاتاہے۔تو اللہ تعالیٰ سے بھی عشق ہو جاتا ہے یعنی یہ دونوں چیزیں اللہ اور اسکے حبیب ﷺ سے محبت اور عشق پیداکرنے والی ہیں اگر کوئی نہ اللہ ھُوکرے اورنہ یہ درود شریف یانعت خوانی کرے تووہ بھلااللہ اور اس کے محبوب ﷺ سے کیسے عشق پیداکرسکتاہے۔وہ توصرف وقت پوراکررہاہے۔حدیث شریف میں ہے
ذکر اللہ فرض من قبل کل فرض
ترجمہ :تمام فرضوں سے پہلا فرض ذکرالٰہی ہے۔(کلیتہ التوحید)
ہمارے علماء اکرام نمازپربہت زور دیتے ہیں لیکن نمازسے زیادہ سخت حکم جو ہے وہ ذکر ہے ذکرکا اس حد تک حکم ہے کہ خریدوفروخت میں بھی اس سے غافل نہیں رہناچاہیے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے ۔
الذین یذکرون اللہ قیاماً وقعوداًوعلی جنوبھم (سورۃ آل عمران آیت نمبر 191)
ترجمہ: وہ لوگ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اوراپنی کروٹوں کے بل ۔
سوچو!کتنا سخت حکم ہے اور ہم نے اس کو چھوڑ دیا ۔کیا یہ قرآن مجیدسے باہر ہے؟حدیث شریف میں حضورپاک ﷺفرماتے ہیں ’’ہم سوتے ہیں ہمارادل نہیں سوتا۔‘‘
توہم اس ذکر کی طرف کیوں نہیں جاتے ؟یہ جواللہ کاذکرہے نفس کے لئے قاتل ہے ۔آپ نمازیں پڑھتے ہیں ،عبادت کرتے ہیں۔مگرآپ کا نفس اندرہے اس لئے اسکی صفائی نہیں ہوتی آپ باہرہی لگے ہوئے ہیں مگر آپ کا نفس اندر گھساہواہے ۔جب تمہاراذکراسی نفس کے ذریعے اس تک پہنچے گا ۔تب ہی اس کی صفائی ہوگی اوریہ نفس مسلمان ہوگا۔یہ نفس ہی ہے جو تم کو ذکراللہ کی طرف آنے نہیں دیتاوہ کہتاہے باہر لگارہ اندرنہیں آنا اس طرح وہ ذکرکی طرف آنے نہیں دیتااورنتیجتاًیہ نفس موٹاہوجاتاہے۔پھرکچھ عرصے بعد نفس تم پر سوار ہوجاتاہے۔
جب باطنی مخلوق آتی ہے تووہ ہمیں دیکھتی ہے۔ لوگوں کو ہم انسان نظر آتے ہیں مگرباطنی مخلوق ہمیں ہمارے نفسوں کے مطابق دیکھتی اورپہچانتی ہے جوملائکہ آسمانو ں سے آتے ہیں توانہیں ہم نظرنہیں آتے بلکہ ہمارے نفس نظرآتے ہیں۔ نفس جس شکل کا ہوگاانسان بھی اسی شکل کانظرآتاہے۔ جس طرح ایک واقعہ ہے کہ حضرت شاہ عبدالعزیز ؒ کے زمانے میں ایک عورت ننگی گھومتی تھی ۔ان کے خلیفہ نے پوچھا کہ یہ عورت ننگی گھومتی رہتی ہے مگر آپ کو دیکھ کرکونے میں کیوں سمٹ جاتی ہے؟جبکہ آپ ؒ بوڑھے ہیں اوربزرگ ہیں آپ ؒ نے فرمایا یہ ایک رازہے ۔انہوں نے خلیفہ کو ایک انگوٹھی دی اورکہا جیسے ہی یہ عورت آئے پہن لینا۔ عورت کے آنے پرخلیفہ نے انگوٹھی پہن لی ۔آگے پیچھے دیکھاتوکوئی گدھاہے کوئی کتاہے۔ کوئی ریچھ ہے اورکوئی بندرہے۔اپنے آپ کو دیکھا توبکرانظرآیا ۔صرف وہ عورت اور شاہ عبدالعزیز ؒ انسان نظرآئے اس پر شاہ عبدالعزیز ؒ نے فرمایا کہ وہ عورت کہتی ہے کہ مجھے توسارے ہی جانورنظرآتے ہیں اس لئے پردہ کس سے کروںآپ انسان نظرآتے ہیں اس لئے چھپ جاتی ہوں ۔
حضرت رابعہ بصری ؒ نے اپنے ایک غلام کو سرکا بال دیا کہا کہ اس کی گولائی میں سے دیکھنا جو انسان نظرآئے اس سے تیل لے آنا۔غلام سارادن گھومتارہا مگراسے کوئی بھی انسان نظر نہ آیا ۔کوئی کتا،کوئی گدھا،بڑی مشکل سے آخرمیں ایک انسان نظرآیا اوراس سے تیل لیا۔اس طرح جب فرشتے دنیامیں تشریف لے کرآتے ہیں تونہ جانے ہم دنیامیں اس وقت کیا کچھ کررہے ہوتے ہیں۔ہوسکتاہے ہم تلاوت کررہے ہوں اوران کو نہ جانے کیا نظرآرہے ہوں کچھ لوگ تلاوت کرتے ہیں اور قرآن ان پر لعنت کرتاہے۔نفس اگرکتاہے توہم ناپاک ہیں ۔باہر سے چاہے مومن ہوں مگراندر سے ناپاک ہوتے ہیں ہم قرآن کو ہاتھ لگاتے ہیں توناپاک ہوتے ہیں ۔مجدد صاحب ؒ نے فرمایا ہے کہ مبتدی کو چاہیے کہ پہلے ذکراللہ کرے اس طرح اپنے نفس کو پاک کرے پھرفرماتے ہیں جب منتہی ہوجائے نفس پاک ہوجائے تب قرآن پاک پڑھے اس وقت ایک لمحہ فکر ہزاروں سال کی عباد ت سے بہترہے اور ہم اس کے برعکس عمل کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم قرآن پڑھتے ہیں توہماراسرچکراتاہے کچھ کو الفاظ نظرنہیں آتے اور کچھ پرگھبراہٹ طاری ہوتی ہے یعنی قرآن پاک چاہتاہی نہیں کہ ایسے لوگ اس کو پڑھیں توسب سے بنیادی اورپہلی چیزجوہے وہ ذکروفکرہے پہلی والی مائیں ذاکرہ ہواکرتی تھیں۔ذکرفکرکرتی تھیں اوربچہ پیٹ میں اللہ ھُو کی آوازسنتاتھااورپیداہوتاتومائیں اللہ ھُو کی لوریاں دیتی تھیں اور جب تھوڑاسابڑاہوتا توجہاں اللہ ھُو کے ذکرکاحلقہ ہوتا،وہ وہاں بیٹھتااسی طرح جب وہ نمازکے قابل ہوتااس کا نفس پاک ہوچکاہوتا اور وہ ولی بنتاتھا۔
ہماراپہلا رکن جوہے وہ ذکرہے یعنی کلمہ طیبہ ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ کلمہ پہلا رکن ہے،بنیادہے کلمہ پاک کے بارے میں حدیث پاک میں آتاہے کہ کلمہ طیب افضل الذکرہے۔
افضل الذکرلاالہ الااللہ محمد رسول اللہ (ترمذی شریف )
اوراب ذکر کے بارے میں قرآن مجید میں آتاہے کہ
فاذکرواللہ قیاماًوقعوداًوعلی جنوبکم
ترجمہ :اللہ کویادکروکھڑے ،بیٹھے اورکروٹوں کے بل لیٹے ہوئے(سورۃ النساء آیت نمبر103 )
یہ پہلااور بنیادی رکن تھا اور ہم نے اس کو چھوڑ دیا بنیاد چھوڑکرہم مکان بنارہے ہیں جب ہم نے بنیاد چھوڑدی تومکان کیسے بنے گا جب مکان نہیں بنا توکوئی مرزائی ،کوئی دیوبندی ،کوئی قادیانی ،کوئی اہلحدیث اورکوئی پتہ نہیں کیا بن گئے اگرمکان بن جاتاتوپھرکیوں دوسرے فرقوں میں بٹتے ۔توسب سے پہلے اپنی بنیاد مضبوط کرو یہ بنیاد ذکر ہی سے مضبوط ہوگی ۔
سرکار فرماتے ہیں کہ ہمیں بھی رب کی بڑی تلاش تھی ڈھونڈتے ڈھانڈتے رہے ایک دن باباگوھرعلی شاہؒ کے دربارشریف پرتلاوت کررہے تھے (باباگوھر علی شاہ ؒ سرکار شاہ صاحب کے اجدادمیں سے تھے ،دربارشریف ڈھوک گوھر شاہ ،گوجرخاں اور بکرامنڈی راولپنڈی میں ہے )یہی پتہ تھاکہ تلاوت سے رب ملتاہے اتنے میں ایک فقیر لمباسا چغہ پہنے ہوئے آئے فرمانے لگے کیاچنے چبارہے ہومجھے بہت غصہ آیاکہ میں تلاوت کررہاہوں اوریہ بزرگ کہہ رہے ہیں کہ میں چنے چبارہاہوں میں نے پرواہ نہ کی اور اپنی دھن میں لگارہااورخیال کیا کہ ہوسکتاہے یہ شیطان ہو بڑے عرصے بعد لال باغ جنگلوں میں چلاگیا اللہ ھُو کرتارہا پھر ایک وقت آیا کہ جب زبا ن کے ساتھ تلاوت کرتاتودل بھی تلاوت کرتاایک مرتبہ صبح کے وقت زبا ن سے تلاوت کررہاتھا اس کے ساتھ دل بھی تکرار کررہاتھا ۔پھر وہی درویش آئے جسے دس بارہ سال پہلے دیکھا تھا کہنے لگے کہ اب صحیح تلاوت کررہے ہو۔تویہ بات کوئی مشکل نہیں ہے ۔صرف طلب کی ضرورت ہے مگرطلب سچی ہونی چاہیے۔اگرتمہیں صحیح طلب ہوگی توکوئی وجہ ہی نہیں کہ اللہ تمہیں راستہ نہ دکھائے۔سچی طلب رکھو اوردنیاداری چھوڑدو ۔
افریقہ کے چند لوگوں نے بتایا کہ ہمارے پاس مسلمانوں کی ایک جماعت آئی انہوں نے قرآن و حدیث کی باتیں بتائیں ہماراقصبہ مسلمان ہوگیاہم میں سے ایک آدمی کو انہوں نے امامت بھی سکھا دی ۔نمازروزہ سب کچھ سکھادیا ہم قرآن و نماز سب کچھ پڑھنے لگے سال ڈیڑھ سا ل گزراپتہ چلا کہ مسلمانوں کی ایک اور جماعت آئی ہے انہوں نے آتے ہی پوچھا کہ کونسے مسلمان ہو؟ہم نے کہا کہ مسلمان توایک ہی ہوتے ہیں وہ کہنے لگے کہ بتاؤکونسے فرقے کے مسلمان ہو۔ ہم کہنے لگے بس اتنا جانتے ہیں کہ ہم احمدی مسلمان ہیں ۔وہ کہنے لگے کہ تم توکافر ہو کیونکہ اسلام میں پہلے ہی احمدی لوگوں کو کافر قرار دیا جاچکا ہے انہوں نے کوئی لیکچر دیا ہم میں سے آدھے احمدی اورآدھے ان جیسے مسلمان بن گئے اب ہم اصلی مسلمان بن گئے اور وہاں دوفرقے بن گئے ان کی مسجد علیٰحدہ بن گئی بڑے عرصے بعد پتہ چلا کہ اورمسلمان آگئے انہوں نے مسجدوں کے دورے کیے پوچھا تم کون ہو ؟ہم احمدی ۔اورتم؟ہم دیوبندی بولے تم دونوں ہی کافر ہو کیوں کہ اعلٰحضرت نے ان کو بھی کافرکہاہے۔کہنے لگے کہ ہم پھر چپ کرکے سبھی عیسائی بن گئے کہ کہنے لگے ہم کوپتہ ہی نہیں کہ مسلمان کون ہے ؟اب جوپہلا فرقہ گیاتھااس کی بھی محنت رائیگاں گئی اوردوسرے اورتیسرے فرقوں کی بھی محنت رائیگاں گئی اوربہت سے لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ مسلمان کون ہے سب اپنی اپنی جگہ خوش ہیں کہ ہم صحیح ہیں اوردوسرے غلط ہیں ۔آپ ان سے مناظرہ کرلیں ساری زندگی گزرجائے گی نہ آپ ہاریں گے نہ وہ ہاریں گے ۔
اب ہم کو صراطِ مستقیم بھی اور دین بھی چاہیے اورہم کو پتہ بھی نہیں کہ صحیح کون ہے اور غلط کون ہے بہتر تہتر فرقے ہیں صحیح کی پہچان کیاہے ۔
1 ۔ ان میں ایک قسم ان لوگوں کی ہے جن کے ظاہر اورباطن دونوں خراب ہیں ۔نہ ظاہر میں نماز روزہ اورنہ ان کا دل اللہ اللہ کرتاہے۔قرآن مجید فرماتاکہ یہ لوگ چوپایوں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی بد ترہیں۔وہ خواہ کسی کے بھی بیٹے ہوں یہ صراطِ مستقیم پرنہیں ہیں۔
2 ۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جن کے ظاہر خراب اور باطن اچھے ہیں ۔ظاہرمیں کوئی نماز،روزہ نہیں مگردل اللہ اللہ کررہے ہیں۔یعنی باطن درست ۔یہ وہ لوگ ہیں جومجذوب کہلاتے ہیں ۔اب ان کی تصدیق ہے کہ وہ پاگل تھے اگرہم نے ایساکیا توہم زندیق ہوجائیں گے۔اگرہم زندیق ہوگئے توفقرمیں ان کی وجہ سے بدعت پیداہوجائے گی ۔اس لئے آگے سلسلہ نہیں چلتا۔یہ بھی صراطِ مستقیم نہیں ہے ۔
3 ۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جن کے ظاہر درست ہیں اورباطن خراب ہیں ۔یہ ہمارے علماء ،ظاہرمیں سب کچھ جانتے ہیں ۔داڑھی ،نماز،روزہ ،تلاوت و تسبیحات اوروظائف وغیرہ ،مگر اندرسے سیاہ ۔یہ بھی صراطِ مستقیم پرنہیں ہیں اگریہ صراطِ مستقیم ہوتاتوبہترتہترفرقے کیوں بنتے ۔پھرصراطِ مستقیم کیاہے؟جن کے ظاہر کے ساتھ ساتھ
باطن بھی درست ہوں۔زبان بھی نماز،روزہ کرے اوردل بھی اللہ اللہ کرے یہ ہے اصل صراطِ مستقیم ۔
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ دل اللہ اللہ کس طرح کرتاہے یہ توگوشت کا لوتھڑاہے۔ زیادہ ترلوگ یہ کہتے ہیں کہ گوشت کا لوتھڑا کس طرح اللہ اللہ کرسکتاہے۔یہ صرف لوگوں کی قیاس آرائیاں ہیں کہ انہیں یہ نہیں معلوم کہ ہمارے اندر سات مخلوقیںآبادہیں۔ان میں صرف ایک مخلوق ’’روح‘‘ کا پتہ ہے۔باقی چھ مخلوقوں کے بارے میں بالکل معلوم نہیں جوانڈوں میں بند ہیں ۔تم رات کو سوتے ہو اور خواب میں دوسری جگہ دیکھتے ہو۔کوئی چیزہے تم میں بند ۔وہ روح نہیں ہے ،روح اگرجاتی توتم فوراًختم ہوجاتے ۔وہ ایک مخلوق ہے ۔ جوانڈوں میں بند ہے ۔ان پر زنار کے چھلکے ہیں ۔حضرت سلطان باھوؒ فرماتے ہیں تمہارے قلب پرشیطان نے سوالاکھ جالے لپیٹے ہوئے ہیں ۔بلکہ سوالاکھ سے بھی زیادہ ۔اب اگرکسی نے مرغی کا انڈہ نہ دیکھا ہواورتم اس کو کہو کہ یہ چوں چوں کرے گایا ہوامیں اڑے گا وہ کہے گاکہ تُوغلط کہتاہے نہ اس کی ٹانگیں ہیں اورنہ اس کا منہ اور نہ اس میں حرکت ہے ۔کیسے اڑے گااورکیسے چوں چوں کرے گا ۔اسی طرح ہمار ے اندروہ انڈہ ہے جو گوشت کے لوتھڑے کے اوپر ہے اس میں بھی کوئی حرکت نہیں،بس خاموش ہے ۔اس مرغی کے انڈے میں اتنی طاقت ہے کہ اس کو چالیس روزتک گرمی نہ پہنچائی جائے توزندہ رہ سکتاہے اوراس قلب میں اتنی طاقت ہے کہ اگرچالیس سال تک اس کو گرمی نہ پہنچائیں تو وہ زندہ رہ سکتاہے ۔انڈے کو ظاہری گرمی کی ضرورت ہے۔ اگرظاہری گرمی دیتے ہیں ۔توچوزہ نکلتاہے۔دل کو ’’اللہ ھُو‘‘ کی گرمی کی ضرورت ہے یہ جواللہ اللہ کرتے ہیں اللہ کے نام کی ضربیں لگاتے ہیں یہ اس کو گرمی دیتے ہیں پھریہ’’ اللہ ھُو‘‘ کی گرمی سے پھٹ جاتاہے۔وہ انڈہ جب گرمی سے پھٹتاہے تواس میں سے چوزہ نکلتاہے اس کو کسی نے سکھایا نہیں وہ بغیر سیکھے چوں چوں کرتاہے اور یہ انڈہ جسے بیضہ ناسوتی کہتے ہیں یہ پھٹنے پر بغیرسیکھے اللہ اللہ کرتاہے ۔آدمی دیکھتاہے کہ یہ میرے اندراللہ اللہ کون کررہاہے مگراس کے قلب نے بے اختیاراللہ اللہ کرناشروع کردیا۔اب آدمی چاہتاہے کہ پورے جسم میں اللہ اللہ سرائیت کرجائے مگرجسم میں اللہ اللہ کیسے سرائیت کرے گا آپ ذکرِخفی ،ذکرِ جہر اورذکرِ انفاس کریں ۔مگر وہ ذکرجوجسم کے اندرجاتاہے تمہارے دل کی دھڑکن ٹک ٹک کرتی ہے توتمہارے خون کو دھکیل کرسارے جسم میں پھیلادیتی ہے پھروہ سالک اس دھڑکن کو اللہ اللہ کے ساتھ ملاتاہے ۔اس کا کام اللہ اللہ کرنا اورآدمی کا کام اللہ اللہ کودھڑکن کے ساتھ ملاناہے ۔جب دھڑکن کیساتھ اللہ اللہ مل جاتاہے تو اس دھڑکن کے ساتھ پورے جسم میں سرائیت کرجاتاہے اورنس نس میں پہنچ جاتاہے ۔اس وقت شاہ ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ تُو ایک دفعہ اللہ اللہ کرے گا تجھے ساڑھے تین کروڑ اللہ اللہ کرنے کا ثواب ملے گا ۔پھر فرماتے ہیں کیسے ملے گا ۔تیرے اندرساڑھے تین کروڑ نسیں ہیں ۔ دل نے ایک دفعہ اللہ اللہ کی ساڑھے تین کروڑ نسیں حرکت میںآگئیں۔
سلطان صاحبؒ فرماتے ہیں تجھے بہتر ہزار ظاہری قرآنوں کا ثواب بھی ملے گا ،پھرفرماتے ہیں کیسے ملے گا ۔یہ تیرے اندر جو مسام ہیں یہ بہترہزارہیں دل ایک دفعہ اللہ کہے گا ۔یہ بہتر ہزارآوازیں یہاں سے بھی نکلیں گی دل ایک گھنٹہ میں چھ ہزاردفعہ اللہ اللہ کرتاہے اورچوبیس گھنٹوں میں سوالاکھ سے بھی بڑھ جاتاہے ۔پھر علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں ’’خدابندے سے خود پوچھے بتاتیری رضاکیاہے۔‘‘
پہلے تم رات کو سوتے تھے اورخواب میں شیطانی محفلوں میں جاتے تھے وہ ’’نفس‘‘ یعنی شیطانی چیز ہرشخص کی آزاد ہے ۔اب تمہاری روحانی چیزآزادہے۔یہ بھی طاقتور ہوگئی ۔تم نے سوچاحضورپاک ﷺ کیا کررہے ہیں ادھر تم نے سوچا اوریہ حضورپاک ﷺ کے قدموں میں پہنچ گئی۔
بلھے شاہؒ فرماتے ہیں ۔
’’لوکی پنج ویلے عاشق ہر ویلے لوکی مسیتی عاشق قدماں‘‘
یعنی یہ لوگ جوپانچ وقت نماز پڑھتے ہیں ان کی انتہا مسجد ہی ہے۔وہ زیادہ سے زیادہ یہ کریں گے کہ باجماعت ہوجائیں گے۔ لیکن وہ جو ہر وقت اللہ اللہ کرتے ہیں ۔انکی انتہاحضورپاک ﷺکے قدموں میں ہے اور وہ حضورپاک ﷺ کے قدموں تک پہنچ گئے اب سالک نے سوچاکہ چلیں دیکھیں اوپرکیاہورہاہے ۔اس نے سوچااوریہ چیز پروازکرگئی ۔فرشتوں نے سوچا کہ شاید کوئی جن یا شیطا ن آرہاہے انہوں نے منتر پڑھا ۔گرزمارے ۔کوئی اثر نہ ہوا۔انہوں نے سوچاکہ جوچیز بھی ہے بیت المعمور میں جل جائے گی وہاں سے آگے توفرشتے بھی نہیں جاسکتے ۔یہ بیت المعمورسے بھی آگے نکل گئی اوروہاں پہنچ گئی جہاں رب کی ذات ہے ۔اس وقت فرشتوں نے کہاواقعی انسان اشرف المخلوقات ہے۔پھروقت آنے پر وہ شخص مرگیا۔روح چاہے نیک ہے یا بد دوزخی ہے یابہشتی سب اوپر چلی جاتی ہیں۔اور وہ چیزجسے چھوڑ گیاتھا یہ قبرمیں بیٹھ جاتی ہے اورقبرمیں بیٹھ کر’’اللہ اللہ‘‘ کرتی ہے نمازپڑھتی ہے اور لوگوں کو فیض پہنچاتی ہے۔ جب شبِ معراج آپ ﷺ موسیٰؑ کی قبر سے گزرے تودیکھا موسیٰؑ نمازپڑھ رہے ہیں ۔آپ ﷺ جب اوپر پہنچے دیکھا موسیٰؑ وہاں بھی موجود ہیں۔یہاں کیاتھا؟حضورغوث پاکؓ کی نو لوگوں نے ایک ہی وقت میں دعوت کی ۔آپ نے ایک ہی وقت میں نو لوگوں کی دعوت کھائی ۔یہ کیاتھا؟مجددالف ثانی ؒ کو لوگوں نے کہاہم نے آپؒ کو خانہ کعبہ میں دیکھا آپ نے فرمایا میں نہیں گیا ۔دوسرے نے کہامیں نے حضورپاک ﷺ کے روضے پردیکھا ،آپؒ نے فرمایا میں نہیں گیا ۔تیسرے نے کہا میں نے آپ کو حضورغوث پاکؓ کے روضے پردیکھا فرمایامیں نہیں گیا توپھروہ کیاتھا؟آپ بولے وہ میرااندر تھا ۔تب حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ تمہارے اندر ایک جہاں چھپاہو اہے تمہیں اس کی خبرہی نہیں۔ہرشخص کے اندر یہ چیزیں ہوتی ہیں لیکن جب علم نہیں ہوتاتویہ چیزیں ضائع ہوجاتی ہیں۔اسی لئے علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ا س نسل کے انڈے ہیں گندے۔جب یہ گندے ہوگئے پھر ہزار’’اللہ ھُو‘‘ کہو پھر بھی وہ چیز نہیں بنتی۔یہ چیز جوانی میں ملتی ہے۔جب بچہ نیکی کی طرف رجوع کرتاہے ۔نماز، روزہ کرتاہے ذکرکی محفلوں میں جاتاہے ۔گھر والے،دوست سب ہی کہتے ہیں کہ یہ بڈھوں کا کام ہے توابھی جوان ہے ۔جب داڑھی رکھتاہے ذکرکی محفلوں میں جاتاہے گھروالے ضرورکہتے ہیں کہ توابھی جوان ہے یہ توبڈھے لوگوں کا کام ہے ۔پھر اس میں بھی یہ بات پیداہوجاتی ہے کہ میں ابھی جوان ہوں۔شادی ہوگئی ،بچے ہوگئے میں ابھی جوان ہوں ۔پھربال سفید ہوں گے توسب سے پہلے بیوی کہے گی کہ تیرے بال سفید ہوگئے۔وہ کہے گا کہ نزلے سے ہوگئے ویسے تومیں جوان ہوں۔ادھرفرشتوں کوحکم ہوتاہے کہ جب کوئی چالیس سا ل کاہوجائے تواس کے اعمال کی کتاب میرے پاس لے آنا۔تاکہ میں اس کو نوازوں اب فرشتے اس کی کتاب لے کرجاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ دیکھتاہے تواس میں لکھاہوتاہے کہ میں توابھی جوان ہوں ۔اب تودینے کا وقت تھا اور اس نے کچھ نہیں کیا ۔اس لائن میں چالیس سا ل سے پہلے جو لوگ لگتے ہیں وہ دل کو تسبیح بنالیتے ہیں۔یہ خاص لائن ہے۔
در جوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری
وقت پیری گرگ ظالم مے شود پرہیزگار
جوانی میں دل کی دھڑکن کو وہ ٹک ٹک محسوس ہوتی ہے۔وہ مادہ زندہ ہوتاہے۔وہ اسکے ساتھ اللہ اللہ میں لگ جاتاہے۔لیکن چالیس سال کے بعد کوئی خوش نصیب ایساہوگا جس کی یہ چیززندہ ہوگی۔ورنہ چالیس سال کے بعد وہ دل تسبیح نہیں بنتا۔پھر وہ پتھر کی تسبیح لے کر بیٹھ جاتاہے ۔چالیس سال کے بعد پھراللہ تعالیٰ کہتاہے کہ اس کی کتاب پھر لانا جب یہ ساٹھ سال کا ہوجائے ۔چالیس سال تک راہِ خاص اور ساٹھ سال تک راہِ عام ہو تی ہے۔اگر ساٹھ سال تک بھی کچھ نہ کیا تواللہ تعالیٰ اس شخص سے بیزار اور حضورپاک ﷺ اس کو امت سے خارج کردیتے ہیں۔
اب ہمیں دین کی طلب ہوتی ہے تو ہم دھڑا دھڑ نمازیں پڑھتے ہیں۔لیکن سب سے پہلے ہمیں اپنی نمازیں درست کرنی چاہئیں نماز میں تین شرائط ضروری ہیں۔ (1)زبان اقرار کرے(2)دل تصدیق کرے(3)جسم عمل کرے۔
قل ھو اﷲ کی بڑی اہمیت ہے۔اﷲ تعالیٰ نے حضور پاک ﷺ سے کہا تھا کہہ دو اﷲ ایک ہے۔حضور پاک ﷺ نے مسلمانوں کو کہا اﷲ ایک ہے۔ انہوں نے آمین کہا۔ اب ہم نماز پڑھتے ہیں۔قل ھواﷲکس کو کہتے ہیں۔ہم جو آہستہ آہستہ قل ھواﷲ کہتے ہیں۔ہم اپنے دل کو کہتے ہیں۔کہہ اﷲایک ہے وہ آگے سے جواب دیتا ہے کہ گھر وچ آٹا کوئی نہیں ۔اﷲالصمد،بیوی بیمار ہے ،لم یلد۔ڈیوٹی سے لیٹ ہوگیا۔یعنی اس کے دل نے تصدیق ہی نہیں کی۔اس کو مانا ہی نہیں۔ایسی نماز قبول نہیں چاہے ساری عمر پڑھتے رہیں۔اس کو نماز صورت کہتے ہیں۔مجدد صاحب فرماتے ہیں کہ عام لوگوں کی نماز،نماز صورت ہے۔حقیقت کی تلاش میں نکلو جب تک نماز حقیقت نہ ملے نماز صورت کو نہ چھوڑو۔
اب وہ نماز حقیقت کیا ہے؟قرآن مجید فرماتاہے۔
فویل للمصلین o الزین ھم عن صلاتھم ساھون o الزین ھم یراؤن o
ترجمہ:پس خرابی ہے ان نمازیوں کیلئے جو اپنی نماز (حقیقت)سے غافل ہیں۔وہ جو دکھاوا کرتے ہیں۔(سورۃالماعون آیت 6-5-4)
اس کا مطلب نماز بھی ہے اور تباہی بھی۔تباہی کیسے ہے۔ پانچ وقت نماز پڑھی لوگوں نے کہانمازی ہے۔رب فرماتا ہے نہ میں عملوں کو دیکھتا ہوں۔اور نہ شکلوں کو دیکھتا ہوں۔میں نیتوں اورقلبوں کودیکھتاہوں جس کورب دیکھتاہے۔اس میں آٹا،بیوی ،بچے اور کاروبار ہے۔جس کو دنیا دیکھتی ہے اس میں ہم اٹین شن (Attention) کھڑے ہیں۔یہ نماز رب کیلئے تھی لیکن دل میں اب رب کا نام و نشان ہی نہیں ہے۔اس میں تو دنیا ہے سو یہ نمازدکھاواہوئی ،تو تباہی کیسے ہے؟پانچ وقت کی نماز پڑھی لوگوں نے کہا بڑااچھاآدمی ہے۔پانچ وقت کا نمازی ہے تواس کے دل میں تکبر پیدا ہو گیا۔پھر لوگوں نے کہا بڑاتہجد گزار ہے اور عزت کی تو اور تکبر پیدا ہو گیا۔بے نمازی کو بڑی حقارت سے دیکھا کہ یہ بے نمازی ہے میں اس سے اچھا ہوں کہ میں نماز پڑھتا ہوں۔اب یہ پتہ نہیں کہ یہ تکبر عزازیل(شیطان)کی راہ ہموار کر رہا ہے۔حدیث شریف میں ہے کہ’’ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائیگا۔‘‘
جب تم اپنی دھڑکنوں کو اللہ اللہ میں لگا لو گے۔ تم کام کاج کرو گے دل کہے گا اللہ اللہ ۔ نماز پڑھو گے دل کہے گا اللہ اللہ ۔ زبان کہے گی قل ھو اللہ احددل کہے گا اللہ اللہ یعنی اللہ ایک ہے۔زبان کہے گی اللہ الصمد دل کہے گا اللہ اللہ زبان اقرار ،دل تصدیق اور جسم عمل کرے گا اس وقت بھی لوگ کہیں گے کہ بڑا اچھا آدمی ہے۔ پانچ وقت کا نمازی ہے۔ اس وقت بھی تکبر آیا ۔ جب دل میں آیا تو اس وقت دھڑکن اللہ اللہ نے اس کو نکال دیا ۔ اس کا سینہ تکبر سے محفوظ رہا۔
اب نماز مومن کی معراج کیسے بنے گی؟ جس طرح اوپر بیت المعمور ہے اسی طرح تمہارا یہ خانہ کعبہ ہے جس طرح اوپر عرش معلی ہے اسی طرح ہمارا یہ دل ہے۔ جب بی بی سی والے بولتے ہیں تو ہم یہاں سنتے ہیں۔ جب دل یہاں ہلتا ہے تو عرش والے سنتے ہیں۔ اس کا تار عرش معلی سے ملا ہو اہے اور یہ دل ہماری نمازکو عرش معلی تک بھیجے گا تو یہ نماز مومن کی معراج ہے۔ یہ نماز حقیقت ہے ہم کہتے ہیں جب تم نماز پڑھتے ہو۔ سب کچھ کرتے ہو تو نماز حقیقت کی طرف جاؤ ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سارے دن میں نماز پڑھتے ہیں۔ اگر ساری زندگی ہی میں دو رکعتیں نمازحقیقت مل جائے تو پھر بھی کچھ بخشش کی امید ہے۔ ان نمازوں کا کیا ہے ۔ یہ تو سب ہی پڑھ لیتے ہیں ۔ کئی ہندو اور سکھ آئے اور تمہاری امامت کر کے چلے گئے ۔ اگر یہ ہی نماز یں بخشش کا ذریعہ ہیں تو پھر وہ بھی بخشے گئے ۔ اللہ تعالی سے بات کرنے کے لئے رب نے ہمارے اندر ٹیلی فون لگا رکھا ہے۔ اگر بات کرنا چاہو تو صاف کر لینا ۔ حدیث شریف میں ہے :
من صلی رکعتین لم یحدث نفسہ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ
ترجمہ : جس نے دو رکعت ادا کی ان میں دنیا کی کوئی بات دل میں نہ لایا اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے گئے ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اعمال ،ایمان ،عشق
پہلے اعمال ہیں،پھر اس کے بعد ایمان ہے۔اعمال اور چیز ہیں ایمان اور چیز ہے۔بس دل کے ساتھ جو اعمال ہوں گے وہی اعمال صالح ہیں اور اس کے بغیر جو اعمال ہیں وہ رسم ،ریاء اورلالچ جنت سے متعلقہ ہیں۔ ایمان کے بعد پھر عشق ہے ،پھر جب عشق آتا ہے تو اس میں ایمان بھی آجاتا ہے اور اعمال بھی۔عام لوگوں کا اعمال سے ،مومنوں کا ایمان سے ا ورولیوں کا عشق سے تعلق ہے۔عشق کادرجہ اعمال اورایمان سے آگے ہے۔تب ہی توسلطان باھوؒ فرماتے ہیں۔
؂ جس منزل نوں عشق پہنچاوے ایمان نوں خبر نہ کوئی ھو
بعض ولیوں کی باتیں ایسی ہوتی ہیں اگر آدمی پوچھے نہیں توپریشان ہو جاتا ہے۔سلطان باھوؒ نے ایک جگہ فرمایا حبس دم بڑی اچھی چیز ہے۔سالک کو حبس دم کرنا چاہیے۔دوسری جگہ فرمایاکہ حبس دم بے کار ہے۔ایک آدمی متنفر ہو جاتا ہے کہ دو باتیں کیوں کرتے ہیں لیکن حبس دم اس وقت صحیح ہے جب سالک مبتدی ہو اس کے دل کی دھڑکن ابھارنے کے لئے حبس دم درست ہے۔جب سالک منتہی ہو جائے اس کے لئے حبس دم بے کار ہوجاتاہے۔منتہی سےُ مراد وہ سالک ہے جس کا قلب جاری ہو جائے اوراس کے دل کی دھڑکن میں اﷲ اﷲ شروع ہوجائے۔
ذاکرین کئی قسم کے ہوتے ہیں۔کوئی نظر سے چلتا ہے ،کوئی قلب سے ،کوئی کسب سے۔وہ جو نظروالے ہوتے ہیں ان کو شروع میں نظر سے چلایا جاتا ہے اسمیں ان کااپناکوئی اختیار نہیں ہوتا پھر جب نظر ہٹالی جاتی ہے کہ اب یہ خود چلیں کسب کے ذریعے۔جب تک نظر تھی ان کا ہر وقت سلسہ جاری رہا،جب نظر ہٹی اب وہ کسب کے ذریعے چل رہے ہیں۔مزہ تو تب ہی ہے جب کسب کے ذریعے وہاں تک پہنچے۔
نوافل کا مطلب یہ ہے کہ جو اضافی نمازیں ہیں وہ اضافی چیزجیسے نفلی روزہ،جوروزے رمضان کے علاوہ رکھیں گے وہ نفلی کہلائیں گے۔اسی طرح آپ کی جو عبادت ہے وہ پانچ ہزار کا ذکر ہے اس سے جو زیادہ کریں گے وہ نوافل کہلائیں گے۔اب یہ ذکر ایسا ہے کہ جیسے آپ اضافی نمازیں پڑھیں گے وہ نوافل کہلائیں گے۔لیکن نماز تو ہر وقت نہیں پڑھ سکتے نا!سوتے میں نہیں پڑھ سکتے۔لیکن یہ جو ذکر ہے یہ سوتے میں بھی کر سکتے ہیں،ہر وقت کر سکتے ہیں۔عبادت تو وہ ہے جو ہر وقت ہو،یہ پانچ ہزار کے علاوہ ہے۔وہ تمہارے لئے اضافی ہے۔پانچ ہزار تم پر فرض ہے،اس کے بعد نوافل ہیں۔
علماء نے اس کی تشریح یوں کی ہے کہ آدمی بس نماز کے نوافل پڑھتا رہے۔علماء نے ہم سب کو الجھا دیا۔قرآن پاک میں ہے۔
فاذاقضیتم الصلوۃفاذکرواﷲ قیاماو قعوداوعلی جنوبکم o
پس جب تم اپنی نمازوں سے فارغ ہوجاؤتواﷲکا ذکر کروکھڑے،بیٹھے حتیٰ کہ کروٹوں کے بل بھی۔(سورۃالنساء آیت نمبر103)
شروع شروع میں ایک عالم نے بتایا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ جب تم نماز پوری پڑھ لو تو اس کے بعد ذکر میں مشغول ہو جاؤ،اب ذکر کونسا ہو؟مسجد سے باہر نکلو تو یہ دعا پڑھ لو،جب اٹھوتویہ دعاپڑھ لو۔اس عالم نے یہ کہا اور ہر وقت کے ذکر کومانا ہی نہیں۔دوسرے عالم سے اس آیت کامطلب پوچھا اس نے کہا کہ اس کا یہ مطلب ہے کہ جب تمہاری کوئی نماز قضاہوجائے تو ذکر کرو اس نے کہا نہ ہم نمازیں قضا کرتے اورنہ ذکر میں جاتے ہیں۔تو اس طرح انہوں نے معنی میں تبدیلی کر دی ہے۔اس لئے قرآن مجید میں ایک آیت اتری ہے کہ
فسئلوااہل الذکران کنتم لاتعلمون o (القرآن)
’’جب تم کسی معاملے میں پریشان ہو جاؤتو ذکر کرنے والوں سے پوچھ لینا‘‘(سورۃالانبیاء آیت نمبر7)
کیونکہ ذکر اسی کو عطا ہوتا ہے جس کو رب چاہتا ہے۔ذکررب کی مرضی کے بغیر عطا نہیں ہوتا۔باقی علوم ہر مکتب کاآدمی سیکھ سکتاہے۔لیکن یہ ذکر ہرکسی کے لئے نہیں۔جسے اﷲچاہتا ہے عطا ہوتا ہے۔
ظاہری مرشد
اگر تمہارا ظاہری مرشد ہوتاتو تم کو اتنا فیض نہیں ہوتا۔ہم بھی تمہیں ظاہری تسبیحوں اور درود و وظائف میں لگاتے ۔یہ باطنی مرشدوں کا کمال ہے کہ آج جیسابھی ہے اس کا قلب چل پڑتاہے ۔ہمیں جو فیض ہواوہ ’’بری امام سرکارؒ ‘‘سے ہو ا۔انہوں نے’’ پھر داتا صاحب ؒ ‘‘اور انہوں نے پھر ’’سلطان باھُو ؒ ‘‘کے پاس بھیجا ۔سلطان باھُوؒ نے پھر قلندر پاک ؒ کے پاس بھیجا ۔۔۔۔ ادھر سے بھی فیض ہوتارہا۔لیکن جب ہم قلندرپاکؒ کے پاس تھے اس وقت تک ہمیں کسی نے بیعت نہیں کیا تھا۔تم نے تریاقِ قلب میں پڑھا ہوگاکہ
مرشد بھی اب تک سامنے آیا نہیں
ان لوگوں سے فیض ملتارہا لیکن کسی نے بیعت نہیں کیاتھا ۔اس وقت یہی دل میں تمنا تھی کہ کوئی بیعت توکرے۔یہ اسی طرح فیض پہنچارہے ہیں۔پھر قلند رپاک ؒ نے حضورپاک ﷺ کے حوالے کیا تو حضور ﷺ نے ہمیں بیعت کیا۔کیونکہ ہماراایمان ہے کہ آپ ﷺ حیاتُ النبیؐ ہیں ۔اگرآپ ﷺ حیات النبی ؐ ہیں توہمارے لئے باعثِ شرم ہے کہ ہم کہیں اور جاکربیعت ہوں۔ہم نے ماناکہ بیعت کے بغیر فیض نہیں ہوتااگرفیض ہوتاہے توپھر بیعت ہوچکی ہوگی۔
ایک سلسلہ اویسیہ ہوتاہے۔یہ کبھی کبھی آتاہے۔یہ حضرت اویس قرنی ؓ سے چلاآرہاہے ،جبکہ وہ حضورپاک ﷺ سے ملے بھی نہیں ہیں۔لیکن ان کو باطن کافیض ہے۔حضورپاک ﷺ سے جب باطنی فیض تھا توان کا مرشد کون تھا؟حضورپاک ﷺ ہی تھے ۔باطنی فیض بڑازبردست ہوتاہے۔اورکسی صحابی نے اپنے دانت نہیں توڑے مگراویس قرنیؓ نے توڑ دیئے تھے کیونکہ باطنی فیض عشق میں روحو ں اور قلبوں کو تڑپادیتاہے۔
اس کے بعد حضرت ابوبکر حواری ؒ جن کو باطن میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بیعت کیااور بایزید بسطامیؒ کو باطن میں حضرت امام جعفر صادقؓ نے بیعت کیااوراس کے بعد امام غزالیؒ کو باطن میں حضرت بایزیدبسطامیؒ نے بیعت کیا۔
سخی سلطان باھو ؒ کو بچپن میں ہی مختلف اولیاء سے فیض ہوتارہابعدمیں والدہ کے ا صرار پر حضرت عبدالرحمنؒ سے بیعت ہوئے مگر آخرمیں حضورپاک ﷺ نے بیعت کرلیا۔آپ فرماتے ہیں کہ
دست بیعت کردمارامصطفےٰؐ
اب نور محمد سروری قادریؒ ہیں جن کو سلطان باھوؒ نے باطنی بیعت کیا۔پھر لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تو ان کے لئے ہے جب ان کے لئے ہے تو سب کیلئے ہے اور ان کیلئے نہیں تو کسی کیلئے نہیں ۔یہ سلسلہ اویسیہ ہوتا ہے۔ اس میں کسی ظاہری مرشد کی ضرورت نہیں ہوتی یہ بلاواسطہ حضور پاک ﷺ کی محفل تک پہنچاتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک رہے گا ۔ حضرت امام مہدی علیہ السلام بھی اسی سلسلے سے ہوں گے۔
حضرت بہا ؤالدین نقشبندؒ ہر وقت اللہ اللہ میں رہتے تھے۔انہوں نے شادی کر لی اوردو تین دن شادی میں مصروف رہے۔ان کے دور میں ایک بزرگ اور تھے،انکے دوست اور ہم پلہ بھی تھے۔جب وہ دربار رسالتؐ میں گئے وہاں ان سے پوچھا گیا کہ بہاؤالدینؒ زندہ ہے کہ مر گیا ؟کیونکہ اسکی آواز پہلے یہاں گونجا کرتی تھی۔ انہوں نے آ کر بہاؤالدین نقشبند ؒ سے پوچھا کہ مجھے دربار رسالتؐمیں ایسا واقعہ پیش آیاہے۔ آپؒ رو دیئے اور بتایا کہ مجھے تین دن ہوئے ذکر سے محروم ہو گیا۔ انہوں نے کہا شاید وہ مر گیا۔ اسی وقت انہوں نے بیوی کو حق مہر دے کر طلاق دے دی ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ادھر ذکر چھوڑا تو رب کی طرف سے پوچھ ہوئی کہ وہ بندہ کدھر گیا۔
ذکر فکر کی راہ میں چلتے ہوئے ایک اسٹیج ایسا بھی آتا ہے کہ جب ذکر پختہ ہوجاتا ہے تو پھر بند نہیں ہوتا۔بس یہ قسمت ہوتی ہے کہ اللہ کسی کا ذکر بہتر ہزار کر دے یا کسی کا سوا لاکھ تک کر دیتا ہے اور جو سوا لاکھ کا ذاکر ہے اس کا ذکر کبھی بند نہیں ہوتااور جو بہتر ہزار کا ذاکر ہے اس کا ذکر بند بھی ہوتا رہتا ہے ۔ اب تم سوچتے ہو کہ کیا وجہ ہے کہ میرا ذکر بہتر ہزار پر روک دیاسوا لاکھ نہیں کیاجبکہ میرا قلب بھی زندہ ہے ۔چونکہ سوا لاکھ میں اس کا درجہ آگے چلا جاتا ہے ہو سکتا ہے اللہ تعالی اس کو اتنا ہی دینا چاہے۔اس لائن میں چلنے والوں کو اللہ تعالیٰ آزماتا بھی ہے اور اس کو پکا کرتا ہے ۔ عشق کی بھٹی میں ڈالتا ہے اور اس کوتکلیفیں دیتا ہے پھر اس کو پارس بنا کر دنیا میں بھیج دیتا ہے ۔ پھر دنیا اس کو بجا بجا کر دیکھتی ہے۔
ذکر کی قسمیں
ذکر کئی قسم کا ہوتا ہے۔ ایک قسم پاس انفاس ہے، جس میں سانس اندر لیا تو کہا ’’اللہ‘‘ باہر نکالا تو ’’ ھو‘‘ پڑھتے ہیں۔ اس میں اگر کامیاب ہو بھی گئے اور چوبیس گھنٹے کرنے لگ گئے تو چوبیس گھنٹے میں چوبیس ہزار سانس آتے ہیں اور پاس انفاس کی وجہ سے اس کا ہر سانس تیز ہو جاتا ہے تو آپ چوبیس ہزار سے پچیس ہزار تک ذکر پاس انفاس کر سکتے ہیں۔
دوسرا ہے ذکر جہر وہ آپ کام کاج میں تو نہیں کر سکتے، سوتے میں بھی نہیں کر سکتے۔صرف مخصوص وقت میں تھوڑی دیر کے لئے کر سکتے ہیں۔ اس میں ذکر بلند آواز سے کیا جاتا ہے۔
تیسرا ہے ذکر خفی۔وہ یہ ہے کہ آپ دھیان دیں گے تو ہو گا اور دھیان آگے پیچھے ہو گا تو ذکر نہیں ہو گا۔
چوتھا ذکر حبس دم کا ہے ۔ وہ سانس روک کر کرتے ہیں وہ بھی دھیان دیں گے تو ہو گاورنہ وہ بھی بند ہوجائے گا۔
ایک ذکر تسبیح کا ہے جو آپ تسبیح سے کریں گے۔ لیکن تسبیح رکھ دی تو ذکر ختم ، اگر آپ کام کاج کر رہے ہیں تو تسبیح کا ذکر ختم ہو جائے گا ۔
یہ تمام اذکار عمل میں ہیں ۔ ان سب میں فضیلت ذکر پاس انفاس کو ہے۔یہ سب ایسے عمل ہیں اگر آپ کو کہا جائے تو آپ یہ ذکر کر لیں گے یہ آپ کے اختیار میں ہیں۔
لیکن ایک ذکر ایسا بھی ہو تا ہے اگر آپ کو کہا جائے تو آپ نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ وہ عمل نہیں ہے بلکہ وہ رب کی عطا ہے ۔ اسی ذکر کے لئے جگہ جگہ جانا پڑتا ہے۔ اگر آدمی سارے کام خود کر سکتا ہے تو کیا ضرورت ہے جگہ جگہ جانے کی؟ اگر آپ نماز خود پڑھ سکتے ہیں تو بغیر پیر و مرشد کے بھی پڑھ سکتے ہیں۔ لوگ تہجد تک بھی ادا کرتے ہیں۔وہ ذکر پھر کون سا ہے ؟ اگر میں کہوں کے آپ اپنے دل کی دھڑکن کے ساتھ اللہ اللہ ملا لیں، آپ کہیں گے کہ بڑا ہی مشکل ہے۔ یہ عمل نہیں ہے بلکہ یہ رب کی عطا ہے، رب چاہے گا تو یہ ذکر ملے گا ورنہ کسی صورت میں بندہ دل کی دھڑکن کے ساتھ اللہ اللہ نہیں کر سکتا۔
جب یہ ذکر دل کی دھڑکن کے ساتھ ملے گا تو سائنس کہتی ہے کہ انسانی دل ایک گھنٹہ میں چھ ہزار مرتبہ تک دھڑک سکتا ہے۔ جب اس میں اللہ اللہ مل جائے گی تو ایک گھنٹہ میں چھ ہزار مرتبہ اللہ اللہ کرلیا۔ اسی طرح چوبیس گھنٹہ میں آدمی سوا لاکھ کے ذکر سے بھی بڑھ جائے گا۔ اب اس ذکر کے مقابلے میں پاس انفاس کا ذکر کیا ہے ۔ وہ چوبیس گھنٹے میں پچیس ہزار کی تعداد ہے اور یہ سوا لاکھ سے بھی آگے ہو جاتا ہے ۔ وہ ذکر انفاس تمہار ے پھیپھڑوں صفائی کرے گا اور عبادت کے مرتبہ تک پہنچائے گا،لیکن یہ ذکر قلبی روحانیت کا مرتبہ عطا کرتا ہے جب یہ تمہارے دل کی دھڑکن میں مل جائے گا تو دھڑکن کا کام ہے خون کو دھکیلنا ، یہ دل سے خو ن د ھکیل کر پورے جسم میں پہنچا دیتی ہے۔ اب دھڑکن کے ساتھ اللہ اللہ مل گئی اور اس طرح ذکر نس نس میں پہنچ گیا تو اس وقت شاہ ولی اللہ ؒ فر ماتے ہیں کہ ایک باراللہ کہے گا تو تجھے ساڑھے تین کروڑ اللہ اللہ کا ثواب ملے گا ، وہ کیسے؟ فرماتے ہیں کہ تیرے جسم میں ساڑھے تین کروڑ نسیں ہیں ۔ دل نے ایک دفعہ کہا اللہ ساڑھے تین کروڑ نسیں حرکت میں آئیں اور اللہ اللہ وہاں بھی گونجی۔ پھر سخی سلطان باھو ؒ فرماتے ہیں کہ تجھے بہتر ہزار ظاہری قرآن پڑھنے کا ثواب اوربھی ملے گا وہ کیسے؟ تیرے جسم میں بہتر ہزار مسام ہیں۔ دل ایک دفعہ کہے گا اللہ مساموں سے بھی آواز باہر آئے گی۔ ایک دفعہ ذکر قلبی کرنے سے اتنا بڑا ثواب، جبکہ ایک گھنٹہ میں چھ ہزار اور چوبیس میں سوا لاکھ سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ تب علامہ اقبال ؒ نے فرمایا!
؂ خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہ ہے ذکر قلبی ۔اب کہیں سے بھی تم کو عطا ہوجائے ،کسی ولی سے ہو جائے ،کسی د رویش سے مل جائے ،تمہیں تو یہ چیز چاہیے ۔یہ ذکر ایسا ہے کہ باقی ذکر کرو تو رات کو سوتے میں بند ہوجائیں گے لیکن یہ ذکر قلبی ایسا ہے کہ رات سوتے میں بھی بند نہیں ہوگااور اگر تم نے یہ چاہا کہ میں اسے بند کروں لیکن وہ توٹک ٹک کے ساتھ مل گیاہے دھڑکن توبند نہیں ہوسکتی ،یہ ایساذکر ہے۔
اب عباد ت کا مطلب ہے نفس کوپاک اور قلب کو صاف کرنا ،یہی اس کا مقصدہے ۔اب ظاہری عباد ت سے تم نہ نفس پاک کرسکتے ہو اور نہ قلب صاف کرسکتے ہوچاہے ساری عمر لگے رہو بے کا ر ہے۔
لیکن جب ذکرقلبی نس نس میں جائے گا تو تمہارا نفس جو مقام ناف میں ہے اس کو ہوا کے ذریعے غذا ملتی ہے اور ہم اناج کھاتے ہیں اس کے ذریعے اسے ناری غذا ملتی ہے ۔اب جب اس کو ناری غذا پہنچتی ہے تو تمہاری نس نس کی اللہ اللہ اس ناری غذا کو جلادیتی ہے ۔جب ناری غذا جل جاتی ہے تووہ بھوکا رہ جاتاہے۔یہ ایک مخلوق ہے اس کی کُتے کی طرح شکل ہو تی ہے پھر یہ دوسری مخلوق یعنی قلب کو کہتاہے کہ میں مررہاہوں مجھے غذا دو۔وہ اس کو تھوڑاسانوردیتے ہیں اور اس نے موت سے بچنے کے لئے نور حاصل کیا دوسرے دن پھر کہتاہے تھوڑی اور غذادو وہ پھر اسے نوردیتے ہیں۔تیسرے دن پھر کہتاہے تھوڑی اور غذا دو وہ پھر اسے نور دیتے ہیں ۔پھر کہتے ہیں پہلے کلمہ پڑھ پھر غذا دیں گے اب وہ مرنے سے بچنے کے لئے کلمہ پڑھتاگیا ۔اب کہتے ہیں کہ کلمہ پڑھتارہ اسی کا نور تیری غذابنتارہے گا ۔اب وہ زندہ رہنے کے لئے کلمہ پڑھتارہتاہے۔بعض ذاکرکہتے ہیں کہ ہمیں مقام ناف سے بھی کلمہ پڑھنے کی آواز آتی ہے۔اس کی وجہ ہے کہ نفس مجبوری سے کلمہ پڑھ رہاہے ابھی مسلمان نہیں ہو الیکن کلمہ کی تاثیر سے کچھ دنوں میں کیا ہوتاہے کہ وہ کالے سے سفید ہوجاتاہے پھر بیل یا اونٹ کی شکل میں تبدیل ہوجاتاہے۔پھر وہ بکرے کی صورت میں آتاہے ۔بکرے کے بعد وہ تمہاری شکل اختیا رکرلیتاہے۔پھر حضورپاک ﷺ کی محفل میں لے جایاجاتاہے ۔اس وقت حاضرین اور حضورپاک ﷺ عش عش کرتے ہیں کہ ایک کُتے کو پاک وصاف کرکے انسان بناکرلایا ۔آفرین ہے ا یسے مرشدپر جس نے کُتے کو انسان بنادیا۔
ذکرقلبی کی اجازت
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ ھُو کا ذکر جلادیتاہے اور کچھ لوگوں سے یہ بھی سنا ہے کہ وہ اللہ ھُو کاذکرکرتے ہیں کچھ کہتے ہیں کہ جلادیتاہے،پاگل کردیتاہے ۔لیکن بہت سے لوگ اللہ ھُوکا ذکر کررہے ہیں انہیں کچھ نہیں ہوتا؟آخر رازکیاہے؟کبھی سوچا!
یہ ہے ذکرقلبی ،اسے بغیر اجازت کے نہیں کیاجاسکتا۔آپ سارے اسماء کا ذکر بغیر اجازت کے کرسکتے ہیں لیکن اسم اللہ ذات کا ذکر بغیر اجازت کے نہیں کرسکتے ۔آپ تہجد کی نماز پڑھ رہے ہیں لیکن شیطان ایک طرف کونے میں کھڑا ہنس رہا ہوتاہے۔کیونکہ وہ کہتاہے اس کا دل تومیرے ہاتھ میں ہے ۔جب چاہوں گاموڑدوں گا ۔اورایک دن آپ کو شکایت ہوئی کہ میں پنجگانہ نمازی تھا ،تہجد گزارتھامجھے پتہ نہیں کیاہوگیاہے اب فرض نماز بھی نہیں پڑھ سکتا۔یہ سب اس لئے ہواکہ شیطان نے تمہارا دل موڑدیاہے لیکن جب تم دل کی عبادت کرنے لگوگے توتم چاہوگے کہ یہ اللہ ھُو کا ذکر تمہارے دل میں چلا جائے ۔اب شیطان سوچتا ہے کہ اللہ ھُوکا ذکر اس کے دل میں چلاگیاتومیراہاتھ کدھرپڑے گاکیونکہ نور سے شیطان جلتاہے۔اس کے پاس ہندو فوج ہے ان کو حکم دیتاہے جاؤ اس کو برباد کرو ،تباہ کرو،کچھ بھی کرولیکن اللہ ھُو نہ کرنے دو تاکہ اللہ ھُو اس کے اندرنہ جائے۔سب سے پہلے وہ شیطان تمہارے گھروں میں گھسے گا اورتمہارے گھر والے یہ سنیں گے کہ یہ اللہ ھُو کا ذکر کرتاہے تو وہ تمہارے خلاف ہوجائیں گے ،ڈرائیں گے اورجب شیطان اس میں کامیاب نہ ہو اتویہ شیطان پھر کسی مولوی میں گھس جائے گا پھروہ مولوی تمہیں ڈرائے گا کہ اللہ ھُو میں لگ گئے تو تباہ ہو جاؤگے جب اس پربھی باز نہ آئے تو شیطان کی فوج تمہارے کاروبارخراب کرے گی ۔اس پربھی بازنہ آئے توپھر وہ تم کو پاگل کرجائیں گے ۔لوگ کہیں گے کہ یہ اللہ ھُو کرتاتھا پاگل ہو گیالیکن اگرآپ نے ذکر قلب کی باقاعدہ اجازت کسی کامل سے حاصل کی ہے توجہاں سے آپ کو ذکرعطاہوگاان کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک رحمانی فوج عطا ہوگی ۔شیطانی فوج جب تم پرحملہ کرے گی تورحمانی فوج اس پرٹوٹ پڑے گی وہ آپس میں مقابلہ کرتے رہیں گے اور آپ اللہ ھُو میں کامیاب ہوجائیں گے ۔اس طرح اگرکوئی شخص اجازت میں کمزورہوتو وہ اللہ ھُو میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
اب یہ ذکرہر کسی کو عطانہیں ہوتا۔حضورپاک ﷺ کو عطاہواپھر نواصحابؓ کوپھربارہ اماموں کوعطاہوا،پھرغوث پاکؓ کو عطاہوا،اب قلب کی کُنجی غوث پاکؓ کے پاس ہے۔
آپ کو ذکرقلب خواہ خواب کے ذریعے مل جائے یہی سمجھیں کہ غوث پاکؓ کی جانب سے عطاہواہے۔یہ اسم اس وقت غوث پاکؓ کے پاس ہے جب تک امام مہدی ؑ نہیں آجاتے ۔اور جس کوذکر قلب عطاہوتاہے وہ شخص حضورغوث پاکؓ کے داخلی مریدوں میں ہوجاتاہے ۔یہ اس شخص کو نہیں عطاہوتاجو غوث پاکؓ کو نہیں مانتاجس کی حرام مال سے پرورش ہو یا دیوبندی ہو۔اور گستاخان رسول ؐ بھی اس سے محروم رہتے ہیں۔یہ انہیں ملتاہے جوحضورپاک ﷺ سے محبت رکھنے والے ہیں۔
بہرحال یہ ذکرکرکے دیکھو اس سے تمہاراسینہ کھل جائے گا اگراللہ نے چاہااور سلسلہ چل پڑا توسمجھنا کہ رب مہربان ہوگیاہے ورنہ کوئی اور طریقہ ڈھونڈلینا۔لیکن طریقہ یہی ہے کہ دل کی دھڑکن کے ساتھ اللہ اللہ مل جائے ۔بس ذکر میں اسی کوفضیلت ہے آدھی رات کے بعد آسمان سے فرشتوں کی ایک خاص جماعت آتی ہے اور کراماًکاتبین سے ہرشخص کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ رات کو سوتے وقت اس کا آخری عمل کیاتھا۔وہ کہتے ہیں کہ بھوکے کو کھاناکھلاکرسویا تھاوہ جواب دیتے ہیں کہ اللہ اس کو خوش رکھے ۔دوسرے کے متعلق پوچھتے ہیں یہ کیاکرکے سویا تھا وہ جواب دیتے ہیں کہ عشاء کی نماز پڑھ کرسویاتھافرشتے کہتے ہیں اللہ اسے بھی خوش رکھے ۔تیسرے شخص کے بارے میں پوچھتے ہیںیہ کیاکرکے سویاتھا وہ کہتے ہیں کہ یہ آیت الکرسی پڑھ کر سویاتھا ،فرشتے کہتے ہیں کہ آیت الکرسی کی لاج رکھنا اور اسکی حفاظت کرنا۔پھر چوتھے شخص کے بارے میں پوچھتے ہیں یہ کیاکرکے سویا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ ھُو، اللہ ھُو پڑھتے اسی کے تصّور میں سوگیا تھا۔فرشتے کہتے ہیں کہ شاید اس کی یاد میں آنکھ لگ گئی ہو، آہستہ بات کرو۔
یہ فضیلت ہے ان لوگوں کی جو دل سے اللہ کا ذکرکرتے ہیں۔ہم توبس یہی کہتے ہیں کہ اپنے دل میں اللہ اللہ بسالو۔باقی کام کاج بھی کرو ،نمازبھی پڑھو،سب کچھ کرولیکن یہ جو تمہارے دل کی دھڑکنیں خالی جارہی ہیں اس میں بھی اللہ بسالوتوحرج کیاہے۔حدیث میں آیاہے کہ جس کی زبان پرمرتے وقت کلمہ طیبہ ہوگا وہ بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوگا۔لیکن آپ نے دیکھا ہوگاکہ زیادہ ترمرنے سے پہلے زبان بندہوجاتی ہے،کلمہ کیسے پڑھے گا۔کوئی لاکھوں میں ایک آدھ ہوتاہے جو کلمہ پڑھتے پڑھتے اس دنیا سے رخصت ہوجاتاہے ۔اکثر کی زبان بند ہوجاتی ہے لیکن وہ لوگ جن کے دل کی دھڑکنیں اللہ اللہ کررہی تھیں ،مربھی رہے تھے اور کلمہ بھی پڑھ رہے تھے۔حتیٰ کہ مربھی گئے اور ڈیڑھ سیکنڈتک اللہ اللہ کرتے رہے۔جبکہ دل کی زبان کو ظاہری زبان سے ستر گنا فضیلت ہے۔سلطان باھُو ؒ فرماتے ہیں کہ توساری عمرلگارہے لیکن مرنے سے تھوڑی دیرقبل اسم ذات نصیب ہوجائے توخوش نصیب ہے۔جائے گاتوایمان کے ساتھ جائے گا ۔اسی لئے غوث پاکؓ فرماتے ہیں کہ میرامرید ایمان کے بغیر نہیں جائیگا۔آپ نے ستردفعہ اللہ سے وعدہ لیااورآپ نے فرمایاکہ ’’میرامرید وہی ہوگاجوذاکر ہوگااورفرمایا میں ذاکراسی کو مانتاہوں جس کا دل اللہ اللہ کرے اور وہی میرامرید ہے جسے کوئی خوف و ڈرنہیں۔ ‘‘(مزید تفصیل کتاب’’ اعجاز غوثیہ ‘‘میں منقول ہے۔)
جب اسم اللہ ذات سے آپ کا ذکرچل جائے تو آپ کے ورد ووظائف میں خود ہی کمی آجائے گی ۔اس کے علاوہ جب آپ کو اللہ اللہ کی لذت آ رہی ہے اور آپ وردو وظائف میں لگ جائیں تو ذکرمیں کمی ہوجائے گی ،آپ اسے خودبخود محسوس کرلیں گے ۔اس لئے اسم اللہ ذات مل جائے تو سب ورد و وظائف چھوڑ دو ،اگراسمِ ذات نہ ملے تووردووظائف جاری ہی ہیں ۔اگرذکرقلبی مل جائے تو اس طرح وردووظائف کی ضرورت نہیں پڑتی،کیونکہ قلب کا درجہ زبان سے ستر گنازیادہ ہے۔آپ سترگھنٹے وظیفہ پڑھتے رہیں ،لیکن آپ ایک گھنٹہ دل سے اللہ اللہ کرلیں سترگھنٹے وردووظائف سے بھی اس کو فضیلت حاصل ہے ۔زبانی عبادات میں سب سے افضل درودشریف ہے ۔لیکن جب ذکرعطاہوجاتاہے تودرودشریف اس کا وسیلہ بن جاتاہے ۔صحابہ اکرامؓ فرماتے ہیں جب ہمیں کوئی مصیبت آتی تو ہم درودشریف پڑھتے ۔باقی وقت وہ کیا کرتے تھے ،بس ہر وقت اللہ اللہ کرتے تھے ۔اب لوگ کہتے ہیں ہم تووہ کام کرتے ہیں جو اللہ کرتاہے۔اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں کریں گے ۔وہ کیاکہتے ہیں؟ہم درود شریف پڑھتے ہیں ،اللہ بھی پڑھتاہے لیکن درود شریف کا فائد ہ تو اس وقت ہوگا جب تمہارے دل میں اترے گا ۔اس لئے دل کی صفائی کے لئے پہلے تمہیں ذکر قلبی کرناپڑے گا۔
خانہ کعبہ
بعض ولی ہوتے ہیں کہ کسی کے دل میں خانہ کعبہ بس جاتاہے ۔کسی کے دل میں اسمِ ذات کسی کے دل میں حضورپاک ﷺ کا روضہ بس جاتاہے۔ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ مجددالف ثانی ؒ نے دیکھا کہ باطنی مخلوقات جنات وغیرہ انہیں سجدہ کررہے ہیں،پریشان ہوئے کہ انسان کوسجدہ جائزہی نہیں ۔سجدہ تواللہ کو ہوتاہے ۔غیب سے آوازآئی یہ سجدہ تمہیں نہیں بلکہ تمہارے دل میں جوخانہ کعبہ بس گیاہے اسے سجدہ کررہے ہیں۔وہ خانہ کعبہ جس کی بنیاد حضرت ابراہیم ؑ نے رکھی اور یہ خانہ کعبہ جو دل میں بس جاتاہے اس کی بنیاد خوداللہ تعالیٰ رکھتاہے ۔اسی لئے اس خانہ کعبہ کو اس کعبہ سے فضیلت ہے ۔بعض لوگ درود شریف پڑھتے ہیں کچھ دنوں کے بعد چھوڑ دیتے ہیں کہتے ہیں ہمیں توفیض ہی نہیں ہوتا۔فیض توتب ہوگا جب تمہارادل منور ہوگا۔
بعض لوگ اسم اعظم کا ذکرکرتے ہیں تھک جاتے ہیں توکہتے ہیں کہ پتہ نہیں اسم اعظم کس میں ہے ،کچھ اثرہی نہیں ہوتا۔لیکن یہ پتہ نہیں کہ اسم اعظم اس وقت اثردکھاتاہے جب جسم اعظم ہوجائے ،جب تمہارے جسم کی نس نس میں اللہ اللہ بس جائے گا توجسم اعظم ہوجائے گا ۔پھر اللہ بھی اسم اعظم اوریارحمن بھی اسمِ اعظم ۔حتیٰ کہ قرآن مجید کی ہرآیت میں اسم اعظم دکھائی دے گا۔
عبادت کی قِسمیں
عباد ت کے اعتبارسے مسلمانوں میں چار قسم کے لوگ ہیں۔کوئی اہل کان ،کوئی اہل زبان،کوئی اہل دل اور کوئی اہل نظر ہوتاہے۔
1 ۔ اہل کان بے شمارلوگ ہیں ۔ساری رات وعظ سنتے رہیں گے ،تقریریں سنتے رہیں گے ،ان کو سننے میں مزاآتاہے ۔ساری رات قوالی بھی سنتے ر ہیں گے لیکن صبح کوئی نماز روزہ نہیں ۔یہ کان کی عبادت ہے ۔ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے علماء بنا دیئے جو ان کو تقاریرسناتے رہیں ،نعت خواں اور قوال بنادیئے ،حافظ قرآن بھی بنادیئے کہ ان کو قرآن بھی سناتے رہو۔
2 ۔ دوسرے اہل زبان جنہیں سننے میں مزہ نہیں آتابلکہ جب تک کچھ زبان سے پڑھتے نہیں ،ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے کامل شریعت بنادیئے،ان کو وردووظائف بتادیئے کہ بس یہ پڑھتے رہیں اور دن رات وہ زبان سے تسبیحات پڑھتے رہتے ہیں ،ان کو اسی میں مزہ آتاہے۔یہ اہل کان کی عباد ت سے زیادہ بڑی عبادت ہے ،کیونکہ اسکے ساتھ کان بھی ہیں اور زبان بھی ہے۔
3 ۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو اہل دل ہیں ۔وہ یہ کہتے ہیں کیاکان سے سنناکیازبان سے پڑھناجب تک دل اللہ اللہ نہ کرے ۔ان کے لئے کامل طریقت بنادیئے وہ انکے دلوں کو اللہ اللہ میں لگادیتے ہیں۔وہ بس اسی اللہ اللہ میں مست رہتے ہیں کہ ان کے درجات بہت زیادہ ہوجاتے ہیں ان کا دل بھی عبادت کررہاہے،زبان بھی کررہی ہے اور کان بھی سن رہاہے۔
4 ۔ چوتھے اہل نظرہیں اہل نظروالے کہتے ہیں کیادل سے اللہ اللہ کرناکیازبان سے پڑھنا ،کیاکان سے سننا جب وہ اللہ ہی نظرآجائے ۔ان کے لئے فنافی اللہ بقاباللہ والے بنادیئے گئے۔وہ اگرکسی سے ٹکراجائیں تووہ کہتے ہیں کہ بس اوپر ہی دیکھتارہ اوریہ باقی تمام درجوں سے بڑی عبادت ہے۔
اب جو جس طبقہ کا ہے وہ اسی میں جاکر فٹ ہوگا۔ اب اگر اہل زبان ہے اہل دل کیسے بنے گا ،اگر اہل دل ہے زبان میں چلا گیا تو اس کو وہاں سکون نہیں ملے گا۔ جو سب سے بڑی عبادت ہے وہ اہل نظر لوگوں کی ہے لیکن اہل نظر کوئی کوئی ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ پورے زمانے میں ایک یا دو صاحب نظر لوگ ہوں،اب ایک یا دو اس مرتبہ تک پہنچے باقی کیا کریں۔اہل دل زیادہ ہوتے ہیں، اہل زبان اور زیادہ ہوتے ہیں اور اہل کان سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔انہیں کے لئے قرآن کہتاہے کہ وہ جانوروں کی مانند ہیں۔
نعت خوانی بھی عبادت ہے،قوالی بھی،لوگ اس کو حرام کہتے ہیں،حرام نہیں ہے جس سے اللہ اور اس کے حبیب کا عشق پیداہوجس سے اس کی یاد ستائے وہ چیز حرام نہیں ہوسکتی ۔لیکن اس سے جو زیادہ فضیلت ہے وہ حافظوں کو ہے۔جو قرآن مجید سناتے ہیں۔اس سے زیادہ فضیلت اس کو ہے جو ہروقت اللہ اللہ کرتے ہیں۔ان سے زیادہ ان کو جو رب کو دیکھتے ہیں اور ان سے زیادہ فضیلت ان کو ہے جن کو رب دیکھتاہے۔
اب چونکہ یہ سب مراحل ہم کو طے کرنے ہیں اور ہم ایک ہی جگہ پر ڈٹے ہوئے ہیں آگے بڑھتے نہیں ہیں۔اب دنیاوی لحاظ سے کسی کے پاس جھونپڑی ہے ،وہ کوشش کرتاہے مکان بن جائے ،مکان ہے توکوشش کرتاہے کہ بنگلے کا مالک بن جائے ،کاربھی ہوجائے ،کوٹھی بھی ہوجائے ،کتنی تمناہے ۔اسی طرح دین کا بھی سلسلہ ہے ۔ہم سوچتے ہیں اتنے ہی میں بخشے جائیں۔ٹھیک ہے سب امتی بخشے جائیں گے۔لیکن کیاہوگا قرآن مجید کی ایک آیت ہے کہ ’’کیاان لوگوں نے سمجھ لیاہے کہ ہم نیک کاروں کے برابر کردیں گے ؟‘‘۔اب تم بخشے توگئے اگر صرف بخشش جنت کی چاہیے تھی توایک جنت ہوتی،سات جنتیں کیوں بنائی گئیں اور وہ بھی ایک سے بڑھ کرایک اعلیٰ ،اب سب سے اعلیٰ جو جنت ہے وہ عاشقوں کے لئے ہے۔جس طرح سات جنتیں بنائیں اس کے ساتھ ہی تمہارے اندرسات مخلوقیں رکھ دیں۔جو قلب کی مخلوق سے عبادت کرے گا توخلد کاحقدارہوگااگرانّا کی مخلوق سے عبادت کرے گا توفردوس کا حقدارہے۔اگر ان کے بغیر ہے کیاخبر تُوبخشابھی گیاکہ نہیں۔اگربخشابھی گیاتب بھی تو ان کے برابر نہیں بیٹھ سکے گا،ان کا غلام بن کررہے گا۔دوزخ کی آگ سے بچ توجائیگا لیکن اہل جنت کا غلام بن کررہا۔کتناپچھتائے گا ،کاش!یہ دل میرے اندربھی تھا اگردل سے اللہ اللہ کرلیتاان کے برابرہوجاتااورجو قلب کی عبادت کرنے والاہے وہ کہے گا کاش میں بھی روح کی عبادت کرلیتاکیونکہ روح مجھ میں بھی تھی تودارالسلام میں چلاجاتا۔ایک سے بڑھ کرایک درجہ ہے۔اب یہ جو زندگی ہے جس کو ہم زندگی سمجھتے ہیں یقین کروایک کھلونا ہے۔جس طرح بچوں کے ہاتھ میں ایک کھلونا دے دیاتوتھوڑی دیرکے بعد وہ توڑپھوڑدیا اسی طرح یہ دنیاایک کھلوناہے ۔اصل چیز وہ ہے جواس کے اندرہے وہ ہے روح یہ جسم اس کامکان ہے ا ب اس کاجو بچہ ہے وہ روح کا نہیں ہے جسم کاہے،مٹی سے ہے اورنہ روح کا کوئی باپ ہے نہ بیٹا ان سب کو ایک ہی دن اللہ تعالیٰ نے پیداکردیاتھا۔یہاں جوباپ بیٹاہے وہ روحیں وہاں کہیں گی ہم مکانوں میں ایک جگہ اکٹھے رہتے تھے ۔جب صورپھونکا جائے گا توسب رحم کے رشتے ختم ہوجائیں گے (القرآن)
قیامت کے بعد ان روحوں کو ایساجسم ملے گا کہ جلایاجائے گا،تکلیف توپائے گا لیکن مرے گا نہیں ۔یہی ایک راز ہے جس کوبہت کم لوگ جانتے ہیں۔اگرزیادہ لوگ جانتے تو بہتر فرقے نہ بنتے ۔اب یہی ہے کہ کیاخبر کون اہل کان ہے،کون اہل زبان ہے یا اہل دل یا اہل نظرہے۔کوشش کرے قسمت کو آزمائے کیاخبر وہ اہل نظرہی ہو۔
کتاب غوثیہ میں مذکورہے کہ جب حضرت غوث الثقلین سیّد محی الدین ابو محمد عبدالقادر جیلانیؓ اس جہان فانی سے عالم جاودانی کی طرف تشریف لے گئے ۔اس وقت کے اولیاء میں سے ایک ولی اللہ صاحب مقامات و درجات نے عالم خواب میں شیخ عبدالقادرجیلانیؓ کی زیارت کی اور دریافت کیایاسیّد عالی نسب اورشیخ والا حسب یہ فرمائیے کہ منکر نکیر کے سوالوں سے آپ نے کیونکرفرصت فرمائی۔آپؓ نے فرمایایوں پوچھو کہ انہوں نے میرے سوالوں سے کس طرح رہائی پائی ۔پھر فرمایاسن اے اہل اللہ!جس وقت دونوں فرشتے میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھ سے پوچھا من ربکیعنی تیرارب کون ہے ،میں نے کہاکہ اسلا م کا یہ طریقہ ہے کہ پہلے سلام اور مصافحہ کرتے ہیں بعد میں کلام ومکالمہ کرتے ہیں ۔بغیر سلام و مصافحہ کے باتیں کرنے کی کہاں رسم ہے ۔پھر وہ دونوں فرشتے نادم ہوئے پھر سلام وعلیک کرکے مصافحہ کو اپنے ہاتھ بڑھائے میں نے دونوں ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیئے او ر کہاکہ پہلے میرایک سوال تم سے ہے ۔جب اس کا جواب دے دوگے تب میں تمہارے سوال کا جواب دوں گا ۔فرشتوں نے کہافرمائیے آپ کا کیاسوال ہے۔ میں نے کہا کہ جب خداوندتعالیٰ نے چاہا آدم کو پیداکرکے زمین پراس کو اپنا خلیفہ مقرر کرے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔انی جاعل فی الارض خلیفہ (سورۃ البقرہ آیت نمبر 29)یعنی میں پیدا کرتاہوں زمین میں خلیفہ اپنا،اللہ تعالیٰ کا یہ کلام سن کرتمام فرشتے بلا تامل بول اُٹھے ۔اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدماء ونحن نسبح بحمدک ونقدس لک(سورۃ البقرہ آیت نمبر 29 )یعنی پیداکرتاہے اس شخص کو جوفساد کرے گا زمین پر اور خونریزی کرے گا اورہم لوگ تیری تسبیح کرتے ہیں ساتھ حمد اور پاکی تیری کے۔پس تمہارے اس قول پر کئی اعتراض لازم آتے ہیں ایک تویہ کہ تم نے خداتعالیٰ کو اپنے سے مشورت طلب ٹھہرایا حالانکہ وہ بے نیاز اور منزہ ہے اس سے کہ کسی سے صلاح اورمشورہ چاہے۔دوسرے یہ کہ تمام بنی آدم کی طرف نسبت فساد اور خونریزی کی اور یہ نہ جانا کہ اس میں کتنے بند�ۂ خداایسے ہونگے کہ جو تم فرشتوں سے بھی افضل واعلیٰ ہوں گے ۔تیسرے یہ کہ تم ایک بڑی گستاخی کربیٹھے کہ اپنے علم کو اس عالم الغیب کے علم سے زیادہ سمجھے۔جب حق تعالیٰ سبحانہ نے انی اعلم مالاتعلمون (سورۃالبقرہ آیت نمبر 29)کا تازیانہ تم کو ماراجب تم ٹھیک ہوئے یعنی اس نے فرمایا کہ تحقیق میں جانتاہوں وہ باتیں جو تم نہیں جانتے ہو۔
اب میرے اعتراض کا جواب دے دو جب میں تمہارے سوالوں کا جواب دوں گاجب تک تم میری مکمل باتوں کا جواب نہ دو گے تب تک میں نہیں چھوڑوں گا۔اب راوی کہتاہے حضرت غوث الثقلین کے یہ اعتراض سن کر منکر نکیر کے چھکے چھوٹ گئے اور ہکابکا سے کھڑے ہوئے آپس میں ایک دوسرے کامنہ تکنے لگے ہرچند کہ غورو تامل کیا بہت کچھ سمجھامگر جواب نہ بن پڑا توچاہا کہ بقوت طاقت ملکوتی کے اپنے ہاتھوں کو چھڑا کرغائب ہوجائیں تاکہ حضرت محبوب سبحانیؓ کے اعتراض کی جواب دہی سے بچ جائیں۔مگر اس دلاور یکتائے میدان جبروت اور غواص بحرلاہوت کے سامنے قوت ملکوتی ان کے کیا کام آسکتی تھی۔بغیر جواب دیئے رہائی ممکن نہ تھی ۔آخرمجبور ہوکرکہنے لگے کہ ہم دونوں ہی نے یہ بات نہیں کہی تھی بلکہ کُل فرشتے اس قول کے شرکاء تھے اس لئے آپ کے اعتراض کا جواب سب ہی کی طرف سے ہوناچاہیے۔آپ ہمیں چھوڑدیں توہم آپ کا جواب فرشتوں سے پوچھ کر آئیں ۔آپ نے فرمایا کہ اگر تم نہ آئے تومیں کیا کروں گا ۔لہٰذا تم میں سے ایک کو چھوڑ دیتاہوں۔کہ وہ جاکراب میرے سوالوں کے جواب فرشتوں کے گروہ سے پوچھ آئے اور دوسرایہاں جواب کے آنے تک حاضر رہے چنانچہ ایک کو چھوڑ دیا۔اس نے جاکرفرشتوں سے یہ حال بیان کیا مگرسب فرشتے حضور غوث پاکؓ کے سوال کے جواب سے عاجز رہ گئے ۔اس وقت باری تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو حکم پہنچا کہ تم نے جو آدم پر اعتراض کیاتھا وہ سب آدم کے فرزندوں پر عائد ہوتاہے بس تم کو چاہیے کہ تم میرے محبوب کی خدمت میں حاضرہوکر اپنی خطا معاف کراؤ ۔جب تک وہ معاف نہ کردے گا تم کو رہائی نہ ہوگی۔الغرض تمام فرشتے حضرت محبوب سبحانیؓ کی جناب میں حاضرہوکر اپنی تفسیر کے عذر خواہ ہوئے اور حضرت صمدیت سے بھی شفاعت کا اشارہ ہوا۔اس وقت غوث الاعظمؓ نے جناب باری تعالیٰ میں عرض کی کہ اے خالق کل رب اکبر اپنے رحم و کرم سے میرے مریدین کو بخش دے اور ان کو منکر نکیر کے سوالوں سے بری فرمادے تومیں ان فرشتوں کا قصور معاف کرتاہوں۔فرمان الٰہی آپہنچاکہ میں نے تیری دعا قبول کی توفرشتوں کو معاف کرتب جناب غوث پاکؓ نے فرشتوں کو چھوڑ دیا اور وہ عالم ملکوت چلے گئے۔ (گلستانِ اولیاء)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
عبادات کی اقسام
عبادت دو قسم کی ہیں ایک ظاہری عبادات جس کے متعلق توبچہ بچہ واقفیت رکھتاہے دوسری باطنی عبادت جس کو آج کل عمررسیدہ افراد(بوڑھے لوگ بھی بھول چکے ہیں)انہیں اس عبادت کا علم نہیں ہے آج کے اس افراتفری کے دورمیں ہرشخص ایک دوسرے کا دشمن نظرآرہاہے جبکہ اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے کہ مسلمان مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ان بھائیوں میں تفرقہ کس طرح پڑا؟اور اب تفرقہ سے کس طرح نجات حاصل ہوسکتی ہے ؟آیئے ان دوپہلوؤں پرغور کرتے ہیں!شیطان جوکہ ہماراازلی دشمن ہے اسے یہ قدرت بھی حاصل ہے کہ وہ انسان کے خون میں سرائیت کرجائے ۔آنحضرت محمد ﷺ کے فرمان کے مطابق شیطا ن تمہاری نسوں میں دوڑرہاہے ۔دوسری جانب انسان میں روحیں ہیں ان کا تعلق بھی انسان کی نسوں سے ہے ۔جب انسان زبان سے ظاہری عبادت کرتاہے تو وہ عبادت کا اثر ان روحو ں اور انسانی نسوں میں گردش کرنے والے خون تک نہیں پہنچتاکیونکہ یہ دونوں انسان کے اندرہیں۔ایسے شخص کی ظاہری عبادت اس مثال کی طرح ہے کہ کسی بل میں سانپ بیٹھاہے اور وہ باہر سے زمین پرڈنڈے ماررہاہے بھلا اس سانپ کو ڈنڈو ں کاکیا اثرہوگاوہ تواندرسے محفوظ ہے ۔ہم زبان سے ظاہرمیں تلاوت توکررہے ہیں،ذکرکررہے ہیں ،نمازیں پڑھ رہے ہیں لیکن شیطان جو ہماری نسوں میں موجود ہے ۔اسے ظاہری عبادت سے کوئی اثرنہیں پڑرہاجب تک ہماری نسوں میں خون کے ذریعے نورسرائیت نہیں کرے گااور انسان میں موجود روحیں نورسے منورنہ ہوجائیں۔شیطان انسانی نسوں سے نہیں بھاگے گا۔
ولایت وراثت نہیں
اب انسانی رگوں میں خون کس طرح سرائیت کرے اور کس طرح انسان میں موجودروحیں منورہوں اور شیطان انسان میں سے نکل کر بھاگے ۔اس کے لئے لوگ اہل سلاسل سے رجوع ہو کر طالب یا بیعت ہوتے ہیں اور ہم نقشبندی اورچشتی ، سہروردی اور قادری کہلاتے ہیں لیکن افسو س آج کل بے شمار لوگوں نے مندرجہ بالاسلاسل میں سے کسی نہ کسی سلسلے کے پیرومرشد سے طالب یا بیعت ہوکراپنی نسبت اسی سلسلے سے قائم کی لیکن ان میں سے اکثریت اس راز کو پانے میں محروم رہی،محروم کیوں رہی؟اس لئے کہ یہ راز اور یہ دولت تواللہ کے کامل ولیوں سے حاصل ہوتی ہے جوکہ اللہ کے ولی سے وابستہ ہوئے وہ پاگئے۔ان کے بعد ان کی اولادوں نے کہاکہ ہماراباپ ان کے باپ سے مرید تھا لہٰذا ہم ان کے بیٹے سے مرید،ان کا بیٹاان کے بیٹے سے اور یہ سلسلہ پھر اسی طرح چلتارہایاد رہے کہ ولایت وراثت نہیں اگروراثت ہوتی تو نبوّت ہوتی جو عرفہ واعلیٰ ہے جب ہرنبی کابیٹانبی نہیں ہوسکتااسی طرح ہرولی کابیٹاولی کس طرح ہوسکتاہے۔لہٰذاجولوگ جدی پشتی ولایت والی نام نہادگدیوں سے وابستہ ہوئے وہ خالی ہی رہے۔
ولایت کیاہے
لوگ کہتے ہیں وہ بھی تو بزرگ ہے اس کی داڑھی ہے وہ نماز بھی پابندی سے پڑھتاہے اس کا والد جو کہ کامل ولی تھا اس کی اور اس کے بیٹے کی نمازوں میں زمیںآسمان کا فرق ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو اپنا ولی چن لیتا ہے تو اس کے اوپر وہ ایک دفعہ تجلی ضرور ڈالتا اور اسے پیارسے دیکھتاہے اسی میں یا تو اس اﷲ کے ولی کا شیشہ عقل ٹوٹ جاتا ہے اگر شیشہ عقل ٹوٹ گیا تو وہ مجذوب ہو گیا اور یہ تجلی برداشت نہیں کر سکا تو ہلاک ہو گیا اگر اس نے اس تجلی کو برداشت کر لیا تو محبوب ہو گیا۔اب روزانہ اس کے اوپرتین سو ساٹھ(360) مرتبہ نظر رحمت پڑنا شروع ہو گئی اگر وہ مجذوب ہو گیا ہے تو لوگوں کو پتھر مار ے گا،ڈنڈے مارے گا،گالیاں دے گاوغیرہ وغیرہ اور اس کی ماراورگالیوں سے فیض شروع ہو جاتا ہے۔ایسی تجلی برداشت کر کے اگر کوئی ولی محبوب ہو گیا تو اﷲ کی نظر رحمت اس کے جسم پرپڑتی رہتی ایک نظر رحمت انسان کے سات کبیرہ گناہ کو جلاتی ہے گویااس کے ایک دن میں اس محبوب ولی اﷲ کے دوہزار پانچ سو بیس (2520)گناہ کبیرہ جل کر خاک ہو گئے۔ایک وقت آتا ہے کہ اس کے تمام گناہ اﷲ تعالیٰ اپنی نظر رحمت کے ذریعہ جلاکر خاک کر دیتا ہے۔اب اس کے نامہ ا عمال میں گناہ نہیں اوروہ گناہوں سے محفوظ ہوگیا۔نظر رحمت اس پر مسلسل پڑتی رہتی ہے اس کے بعد یہ نظر رحمت اﷲ کے فضل سے اس ولی کے پاس بیٹھنے والے طالبین،مریدین،معتقدین کے گناہ جلانے شروع کر دیتی ہے اس طرح ایک دن اس ولی کی نسبت سے اس کے ساتھ بیٹھنے والوں کے گناہ بھی جل کر خاک ہو جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ صحابہ اکرام نبی کریم ﷺ کی زیادہ سے زیادہ صحبت میں بیٹھتے۔ان کی اس صحبت میں بیٹھنے کے سبب ہر صحابی نے بغیر چلوں اور وظیفوں کے ولیوں سے اعلیٰ مقام حاصل کیا کیونکہ حضور پاک ﷺ کے اوپر تو وہ نظر رحمت چوبیس گھنٹے رہتی تھی اس طرح ان کی صحبت میں بیٹھنے کے سبب بغیرچلوں اوروظیفوں کے صحابیت کے عرفہ و اعلیٰ مرتبہ پر فائزہو گئے اور جو لوگ آپ کی صحبتوں سے دور رہے نماز تہجدبھی پڑھتے رہے لیکن منافق و خوارج ہو گئے۔دوسرے جب اصحاب کہف کے اوپر نظر رحمت پڑی اس وقت کوئی بھی ساتھی نہ تھا اس وقت ان کے قریب ایک کتا تھا اﷲ کی نظر رحمت کے سبب وہ کتا بھی حضرت قطمیررضی اﷲتعالی عنہ بن گیا۔
یہ ہی وہ نظر رحمت ہے جو انسان کے اندر کو جگاتی ہے اس وقت حضو ر ﷺکی وہ صحبت توہمیں ایک نظر رحمت سے دیکھیں اور صحابہؓ کی طرح ہمارے اندرکو جگا دیں تو پھر ہم کیا کریں؟اﷲ کے بندوں اﷲ جل جلالہ ٗمیں اور اس کے رسول ﷺ کے نام میں نور اور برکت ہے اس کے نور کو اپنی نس نس میں اور رگوں میں سرائیت کر لو!

نور کو سرائیت کرنے کا طریقہ
تسبیحات دو طرح کی ہوتی ہیں ایک پتھر کی تسبیح جو ظاہر میں نظر آتی ہے اس کا کام ٹک ٹک کرنا ہے اس کے ساتھ زبان بھی اﷲاﷲ کرتی ہے درود شریف پڑھتی ہے اس تسبیح کا تعلق ظاہری انگلیوں سے ہے اس کا انسان کے اندر سے تعلق نہیں۔دوسری تسبیح اﷲتعالیٰ نے تمہارے اندر رکھ دی ہے جو اسی طرح ٹک ٹک کررہی ہے اس کو دل کی تسبیح کہتے ہیں جس طرح پتھر کی تسبیح کی ٹک ٹک کے ساتھ زبان اﷲاﷲ کرتی ہے اسی طرح اس دل کی ٹک ٹک کے ساتھ اﷲ اﷲکو ملایاجاتا ہے۔کچھ دنوں اﷲ اﷲ کی مشق کے بعددل کی خالی ٹک ٹک اﷲاﷲ میں تبدیل ہو جاتی ہے دل کی ٹک ٹک تو چوبیس گھنٹے چلتی رہتی ہے پتھر کی تسبیح کو چوبیس گھنٹے نہیں چلاسکتے لیکن دل کی تسبیح تو 24گھنٹے چلتی رہتی ہے اور جب دل کی ٹک ٹک اﷲ اﷲ میں تبدیل ہو گئی تو بندہ اس وقت کھاتا پیتارہے دل اﷲاﷲکرتا رہے گاباتیں کرے کام کاج کرے، خرید و فروخت حتیٰ کہ سوتا رہے تو بھی یہ دل اﷲاﷲکرتا رہے گا اب اس ٹک ٹک کا کام ہے خون کو آگے دھکیلنا ایک (ٹک)اﷲ دوسری ٹک (اﷲ) تیسری چوتھی یہ سلسلہ 24گھنٹے جاری رہتا ہے گویا 24گھنٹے دل کی یہ ٹک ٹک اللہ ھُو کے نورکو خون کی نسوں میں دھکیلتی رہتی ہے اسی طرح اب اللہ اللہ کا نور ٹک ٹک کے ذریعہ نسوں میں چلاگیااور شیطان جو انسان میں پوشیدہ تھا اس انسان کی رگوں سے اس وقت نکل کربھاگ جاتاہے اور روحیں جاگ اٹھتی ہیں جب روحیں جاگ اٹھتی ہیں تو اللہ ھُو کا نور ان کی غذابن جاتاہے اللہ ھُو کے نور کے ذریعہ ان روحوں کی نشوونماہوناشروع ہوجاتی ہے۔
ترجمہ:۔کچھ لوگ ایسے ہیں جوجاگ کرعبادت کررہے ہیں لیکن انکا شمارسوئے ہوئے لوگوں میں ہوتاہے اورکچھ لوگ بستروں پرسورہے ہیں لیکن ان کا شمار زندہ لوگوں میں کیاجاتاہے کیونکہ بظاہرتووہ سورہے ہیں لیکن ان کے دل تواللہ اللہ (عبادت)کررہے ہیں۔
ایسے ہی بندوں کے لئے اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے کہ ’’میرے کچھ بندے ایسے ہیں کہ اُٹھتے بیٹھتے حتیٰ کہ کروٹوں کے بل بھی میرا(اللہ کا)ذکرکرتے ہیں(سورۃالنساء آیت نمبر 120 )۔نیزفرمایا کہ اللہ کے ذکر کرنے والوں کو نہ خرید غفلت میں ڈالتی ہے اور نہ فروخت ‘‘اب ایسے شخص جس نے اپنے دل کی ہرٹک ٹک کو اللہ اللہ میں تبدیل کرلیا اس کا اٹھنا ،بیٹھنا،چلنا،پھرنا،باتیں کرناحتیٰ کہ سونا تمام کے تمام اعمال اور ہر گھڑی بارگاہِ رب العزت میں عبادت کا درجہ رکھتے ہیں ایسے ہی لوگوں کی نسبت سلطان العارفین حضرت سلطان حق باھوؒ فرماتے ہیں۔کچھ جاگدیاں سُتے ہو تے کچھ سُتیاں جاگدے ہُو۔حضورپاک ﷺ فرماتے ہیں کہ ہم سوتے ہیں مگرہمارے دل نہیں سوتے بقول بابابلھے شاہؒ
لوکی پنج ویلے عاشق ہر ویلے لوکی مسیتی عاشق قدماں
ترجمہ :۔ جولوگ پانچ وقت رب کویاد کرتے ہیں ۔(نمازبھی رب کا ذکرہے)ان کی انتہامسجد ہے وہ پانچ وقت باجماعت نماز پڑھتے ہیں لیکن جو ہروقت اللہ اللہ کرتے ہیں ان کی منز ل ہروقت حضورپاک ﷺ کے قدم (مجلسِ محمدی ﷺ )ہے اور وہ حضور ﷺ کے قدموں یعنی مجلسِ محمدی ﷺ میں پہنچ جاتے ہیں حضور ﷺ کی مجلس تک پہنچ گئے تووہ رحمت اللعالمین ہیں وہ اس شخص کو نوازہی دیتے ہیں اس وقت ایساشخص سوچتاہے کہ دیکھیں اوپر کیاہورہاہے اس نے سوچا اوروہ چیزاوپرپرواز کرگئی فرشتوں نے روکنے کی کوشش کی نہیں رکی فرشتوں نے کہا جوچیز بھی ہے بیت المعمو ر سے آگے جل جائے گی جہاں فرشتے بھی نہیں جاسکتے مگرفرشتے دیکھتے ہیں کہ یہ چیز بیت المعمورسے بھی آگے نکل گئی وہاں پہنچ گئی جہاں رب کی ذات ہے ،جہاں حضورپاک ﷺ شبِ معراج کواپنے ظاہر ی جسم کے ساتھ پہنچے اور اللہ کے ولی حضو ر ﷺ کے صدقے روحانیت اور (اپنے اندرچھپی ہوئی چیزوں )کے ذریعہ وہاں پہنچتے ہیں ۔اس وقت فرشتوں نے کہا کہ واقعی انسان اشرف المخلوقات ہے۔ ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ہر انسان کو موت کا مزہ چکھناہے نیک ہو یا بد ہر انسان کو ایک نہ ایک د ن مرناہے ہمار ے عقیدے کے مطابق ہرانسان کی روح مرنے کے بعد آسمانوں پرچلی جاتی ہے توکبھی سوچا کہ ہم مزارات یا درباروں میں کیو ں جاتے ہیں اوراگرروح اوپرچلی گئی توپھر ان درباروں میں کیاہے؟ہاں وہی چیزیں جو آپ نے اللہ ھُو کے ذکرسے جگالی تھیں وہ اضافی ہیں وہی ولی بن کر درباروں (مزارات)پربیٹھ جاتی ہیں اور خلقِ خداکو فیض پہنچاتی ہیں۔قبرمیں نمازپڑھتی ،تلاوت اور ذکرالٰہی کرتی ہیں اس طرح یہ چیزیں قیامت تک ذکرالٰہی کرتی رہتی ہیں اور اس طرح اس کا ثواب ا س کی روح کو ملتا رہے گا شبِ معراج جب حضوراکرم ﷺ حضرت موسی ٰ ؑ کی قبر مبارک پرسے گزرے تودیکھاکہ حضرت موسیٰ ؑ قبرمیں نمازپڑھ رہے ہیں آپ جب فوراًاوپرپہنچے تودیکھاکہ موسیٰ ؑ وہاں بھی موجودہیں۔
لوگوں کی اقسام
لو گ دوقسم کے ہوتے ہیں ایک کو عارف اوردوسرے کو معارف کہتے ہیں عارف وہ ہے جو سخت عبادتیں ،ریاضتیں کرتاہے اپنے معدے کو چالیس چالیس دن طعام سے خالی رکھتاہے اللہ تعالیٰ اس کے اندر بھی اپنا نوربھردیتاہے۔دوسرے معارف وہ ظاہر میں اتنی ہی نماز،روزہ اداکرتارہتاہے جتنا فرائض میں شامل لیکن وہ اپنے اندر کو جگالیتاہے اس کااندرچوبیس گھنٹے اللہ کا ذکرکرتاہے ۔اس طرح جب تجلّی پڑتی ہے تومعارف کی کسی مخلوق پرپڑتی ہے اسطرح اس کی وہ مخلوق روح ولی ہوجاتی ہے ۔عارف کو جسمانی ولایت ملتی ہے اس طرح وہ جسم سمیت حضورپاک ﷺ کی مجالس میں شرکت کرتاہے جبکہ معارف کو کسی اندرونی مخلوق کے ذریعہ ولایت حاصل ہوتی ہے معارف عارف کو جسم سمیت مجلسِ محمدی ﷺ میں دیکھتاہے توکہتاہے کہ یہ کتناخوش نصیب ہے کہ ظاہری جسم سے حضورپاک ﷺ کی محفل میں موجودہے اتنے میں حضورپاک ﷺ کسی سے بات کرتے ہیں عارف پوچھتاہے آقاآپ کس سے بات کررہے ہیں ہم کو توکوئی نظرنہیں آرہاہے جواباً حضورپاک ﷺ فرماتے ہیں کہ میں اس شخص سے بات کررہاہوں جس کا جسم دنیامیں اور روح میرے پاس ہے۔اس وقت عارف اس پررشک کرتے ہوئے بے ساختہ کہتے ہیں کہ کتنے خوش نصیب ہیں وہ (معارف ) جسم سے دنیامیں بیٹھاہے اور یہاں (مجلسِ محمدی ﷺ میں )بھی موجودہے اسی اثناء میں نمازکا وقت آجاتاہے حکم ہوتاہے کہ جتنے عارف ہیں(جو جسم سے مجلسِ محمدی ؐمیں موجودہیں)ظاہرمیں جاکر نمازپڑھیں جبکہ معارف کی نماز اپنی باطنی مخلوق کے ذریعہ حضورپاک ﷺ کی اقتداء میں ہوتی ہے حتیٰ کہ معارف مرنے کے بعدبھی حضورپاک ﷺ کے پیچھے نمازیں پڑھتارہتاہے جسم کی ولایت جسم کے ساتھ ختم ہوگئی معارف کو اندرونی مخلوق کے ذریعہ ولایت حاصل ہوتی ہے لہٰذامرنے کے بعد معارف کی اندرونی مخلوق قبر میں بھی بیٹھ کر فیض خلق خداکوتقسیم کرتی ہے ۔
دین اسلام کی گارنٹی
ایک انگریزنے گوجرانوالہ میں سوال کیاکہ مذہب اسلام کو سچا دین تسلیم کرتاہوں اسلام کہتاہے شراب چھوڑ دومیں شراب چھوڑنے کے لئے تیارہوں،نمازیں پڑھنے کے لئے تیارہوں غرضیکہ اپنے ہرعمل کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے تیارہوں مگرپھر بھی گارنٹی نہیں دیتے کہ دوزخی ہوں یا جنتی کیا میری تمام عبادتیں بارگاہِ رب العزت میں مقبو ل بھی ہورہی ہیں یا نہیں۔اس کا جواب ہم دیتے ہیں کہ وہ عمل ہی کیا جس کی گارنٹی نہ ہو یعنی وہ نمازیں ہی کیاجن کی قبولیت کی گارنٹی نہ ہوپچیس تیس سال نمازیں پڑھتے رہنے کے باوجود انسان گمراہ کن فرقوں دیوبند یا مرزائیوں میں شامل ہوجائے ایسی عبادت کا فائد ہ لیکن یقین کریں دین اسلا م گارنٹی ہی گارنٹی ہے دن رات میں پتہ لگ جاتاہے کہ انسان کیا ہے اور اس کی حقیت کیاہے یہ گارنٹی ذکرقلب کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔جب کسی شخص کو ذکرقلب دیا جاتاہے توفرشتے اس شخص کو بیت المعمورپرلے جاتے ہیں بیت المعمور کی مخلوق سے اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اس شخص کو کون لے کرآیاہے عرض کرتے ہیں باری تعالیٰ فلاں شخص اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ کیوں لے کرآیاہے فرشتے عرض کرتے ہیں کہ باری تعالیٰ تیرے حضوردوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لئے خداتعالیٰ فرماتاہے کہ اس کا کوئی ضامن ہے اس وقت غوث الاعظم دستگیرؓ کام آتے ہیں اور جولوگ غوث الاعظمؓ سے عقیدت و محبت رکھتے تھے گیارہویں شریف کی فاتحہ کا اہتمام کرتے تھے ان لوگوں کایہ عمل کام آتاہے اور پھر غوث الاعظمؓ اس شخص کے ضامن ہوجاتے ہیں ۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اب اس شخص کی گواہی کون د ے گاتووہ اولیاء کرام اوربزرگان دین کہ جن کے مزارات پر وہ محبت و عقید ت کے گلدستے لے کرجایاکرتاتھااس شخص کی گواہی دیتے ہیں اور آخر میں سرکارِ دوعالم ﷺ اس کی تصدیق کرتے ہیں پھرکہیں جاکروہ شخص ذاکرِ قلبی کے مقام پرپہنچتاہے۔ پس اس بات کی گارنٹی ہے کہ اس کی عباد ت قبول ہورہی ہے ۔
اللہ کا خاص کرم
ہر آدمی یہ گمان کرتاہے کہ مجھ پراللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے اگراس سے پوچھا جائے کہ کیسے ؟تو جواب دیتا ہے کہ میرے پاس گاڑی ہے بنگلہ ہے دولت کی ریل پیل ہے یہ سب کچھ اللہ ہی کا تو کرم ہے۔ دوسرے شخص سے پوچھتے ہیں کہ بھئی تو جو دعوی کر رہا ہے کہ تجھ پر خدا کا بڑا کرم ہے تو آخر کیا کرم ہے تو جواب دیتا ہے کہ میرے تمام بچے آج اچھے عہدوں پر فائز ہیں فلاں بچہ میرا بیرون ملک ملازم ہے وہاں سے خوب رقم بھیج رہا ہے میری زمینیں اور جائیدادیں ہیں یہ کرم نہیں تو کیا ہے۔
تیسرے سے پوچھتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے کہ بڑھاپے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ہمت اور طاقت دے رکھی ہے یہ کرم نہیں تواور کیا ہے ہم کہتے ہیں کہ اگر تم ان تمام دنیاوی آسائشوں کو اللہ کا کرم سمجھتے ہو تو یہ کافروں کے پاس بھی ہیں بلکہ تم سے زیادہ ہیں پھر تمہارے اوپر خدا کا کیاکرم ہوا ؟ جو چیزیں اس نے کافروں کو دے رکھی ہیں وہی تم کو بھی دے رکھی ہیں ہم کہتے ہیں کہ اگر تم نے اس کا کرم دیکھنا ہی ہے تو کسی مرشد کامل سے ذکر قلب کا اذن لے، ذکر اللہ کو اپنا شعار بنا لو او ر جو طریقہ بتایا جائے اس پر عمل کرو پھر اگر دو چار یا سات دن کے بعد تمہارا قلب ذکر اللہ سے دھڑکنا شروع کر دیتا ہے تو سمجھ لو کہ تم پر اللہ کا خاص کرم ہو گیا ہے۔
(اس لئے کہ دنیاوی تمام آسائشوں کا اختیار دنیا اور اہل دنیا کے سپرد کر دیامگر قلب کا اختیار اس ہی کے پاس ہے جسے وہ چاہتا ہے اس سے اپنا ذکر کرا لیتا ہے۔ )
اللہ تعالیٰ کا کرم اس پر ہی بس نہیں ہو تا بلکہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
فَاذْ کُرُوْنِی اَذْکُرْکُمْ
ترجمہ: تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔
یاد رکھیے ذکر اسی کا کیا جاتا ہے کہ جس سے دوستی ہو جائے اگر کوشش کے باوجود کچھ بھی نہیں ہو تا وحشت ہونے لگتی ہے یا مخالفت کی طرف ذہن دوڑتا ہے تو سمجھ لیں کہ تمہارے اوپر رب کا کوئی کرم نہیں ہے اگرکرم ہوتا تو وہ تم کو اپنے نام لیواؤں میں شامل کرتا۔
دل کی دھڑکن کے ساتھ ذکر
ہمارا طریق ذکر دل کی دھڑکن والا ہے ہم دل کی ہر دھڑکن کے ساتھ اللہ اللہ کو ملاتے ہیں لیکن دل کی یہ تسبیح بھی چالیس سال تک اس قابل رہتی ہے کہ اس ذریعے ذکر اسم ذات (اللہ) کر سکیں کیونکہ چالیس سال کی عمر کے بعد انسان کے دل کی دھڑکنیں کم ہو جاتی ہیں پھر ان دھڑکنوں کے ساتھ ذکر اسم ذات کو ملانا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے مگر جو لوگ جوانی میں ذکر کی جانب رجوع کرتے ہیں تو ان لوگوں کو جلد کامیابی نصیب ہوتی ہے کیونکہ ان کی دھڑکنیں زیادہ ہوتی ہیں اس طرح یہ نوجوان ذکر و فکر کی لائن میں کامیاب ہو جاتے ہیں ان نوجوانوں کو دیکھ کر بوڑھے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بھئی ہمارے قلب کیوں نہیں جاری ہوتے یہ تو بچے ہیں اور جب ان بچوں کا قلب جاری ہو سکتا ہے تو ہمارا کیوں نہیں ہوتا۔
دراصل ان نوجوانوں کا ابھی وقت تھا اور جولوگ وقت پر کسی کام میں لگ جاتے ہیں انہیں جلد کامیابی ہوجاتی ہے اور جو لوگ وقت گزرنے کے بعد کسی کام کو شروع کرتے ہیں تو پھر ان لوگوں کے سا تھ دو صورتیں ہوتی ہیں پہلی یہ کہ ان لوگوں کو کامیابی ہو سکتی ہے مگر بہت زیادہ محنت کے بعد اور ناکامی بھی کیو نکہ وقت گزرچکا ہوتا ہے ایسے لوگوں کو زیادہ محنت کی ضرورت ہے وہ تصور زیادہ کریں پانچ ،سات دن خلوت میں گزاریں اورتصور اسم ذات کریں اسی طریقہ سے انہیں کا میا بی ہوسکتی ہے۔
ذکر کبروبخل کو ختم کرتا ہے
صر ف ظاہری عبادتیں بھی بعض اوقات انسان کیلئے مشکل کاسبب بن جاتی ہیں آپ پانچ وقت کے نمازی ہیں لوگوں نے کہابہت اچھا آدمی ہے پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے تو آپ میں تھوڑاسا تکبر آگیا۔ دوسرے نے کہا بھئی یہ تہجد بھی پڑھتا ہے تعریف کی اور تعظیم کی اور تکبر آگیاتیسرے نے کہا بہت ہی اچھا آدمی ہے ہاتھ پاؤں عقیدت میں چومے تو اور بھی تکبر آگیا اب تکبر کواندر سے کون نکالے یہ تمہارے اختیار میں تو نہیں ہے اور اسی تکبر نے عزازیل کوخوارکیا۔
تکبر عزازیل راخوار کرد
مگر جب تمہارے دل کی دھڑکنوں میں ذکراسم ذات شامل ہو جائے گا تو پھر اگر تمہارے اندر تکبر آتا ہے تو یہ ذکر اﷲ اس کو باہر نکال دے گاپھر کہیں گے بہت اچھا آدمی ہے پانچ وقت کا نمازی ہے تکبر آیا وہ اﷲاﷲ نے نکال دیا اب تمہاراسینہ محفوظ رہا۔
حدیث شریف میں ہے ’’جس شخص میں ذرابھی کبر و بخل ہوگا وہ جنت کے قابل نہیں ‘‘کبر وبخل کونکالنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ذکراسم ذات عطاکیاہے اور اس کو ہروقت کرتے رہناچاہیے باقی عبادتوں میں ،وضو ،جمالی ،جلالی پرہیز ہے مگراس میں کوئی پرہیزنہیں ہے وضو ہے یانہیں بسترپرلیٹے ہوئے ہیں یا چل پھر رہے ہیں، کسی کام میں مصروف ہیں یاکھاناوغیرہ کھارہے ہیں غرضیکہ ذکرقلبی کو آپ ہر وقت کرسکتے ہیں باقی عبادتوں میں اگرآپ سے چھوٹی سی بھی غلطی ہوجاتی ہے وہ عبادت ختم ہوجاتی ہے بغیروضوکے کچھ کھالیاوظیفہ ختم ہوگیاغرضیکہ ہرعبادت کے ساتھ کچھ نہ کچھ شرائط ہیں۔ مگر ذکراسم ذات ہرچیز پر قادرہے آپ اللہ ھُو کرتے ہیں غلطی ہوگئی وظیفہ توجاسکتاہے مگر ذکر کا فیض ضائع نہیں ہوسکتابلکہ اسم ذات انسان کی غلطیوں او رکوتاہیوں کاازالہ کردیتاہے ۔قرآن پاک میں ہے ۔
ترجمہ : بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں۔
ذکر کی برکت
ایک کسان ذکرقلبی (اللہ ھُو )کرتاتھا اسکو پیشاب کی حاجت ہوجاتی ہے تواس نے اپنے بیل کھڑے کردیئے ایک نوجوان نے کہاکہ تمہیں تقریباًآدھ گھنٹہ تولگ جائے گا جب تک بیل مجھے دے دو میں چلالیتاہوں کسان نے منع کردیا جب کسان رفع حاجت سے فارغ ہوکرآتاہے تووہ نوجوان کسان سے پوچھتاہے کہ کیا وجہ تھی جو تم نے مجھے اپنے بیل چلانے کے لئے منع فرمایااور آدھاگھنٹہ ضائع کردیا۔
کسان نے کہا کہ میں ہروقت اللہ ھُو کا ذکرکرتاہوں جب میں اللہ ھُو سے ہل چلارہاتھا تو ہل میں بھی برکت ہوگی دانہ ڈالوں گا اس دانے میں بھی برکت ہوگی پھر وہ فصل منڈی میں جائے گی منڈی والوں کو بھی برکت پھر جن گھروں میں جائے گی اس گھر میں بھی برکت ہوگی۔
یقین کریں کہ جب آپ ذکر اللہ ھُو کثرت سے کریں گے توآپ کے ایمان میں بھی برکت ہوگی آپ کے رزق میں بھی برکت اور آپ کے کاروبار میں بھی برکت ہوگی۔
نماز عشق کیاہے؟
ایک مرتبہ حضرت جنید بغدادی ؒ اور ایک بزر گ جنگل میں جارہے تھے کہ نماز کا وقت آجاتاہے دونوں بزرگ ایک دوسرے کونمازپڑھانے کے لئے اس طرح اصرارکرتے ہیں کہ آپ کادرجہ زیادہ بلند ہے آپ امامت فرمائیں ابھی دونوں بزرگ ایک دوسرے کو امامت کے لئے راضی کررہے ہوتے ہیں کہ اسی اثناء میں ایک لکڑہاراآتاہے یہ اس لکڑہارے سے پوچھتے ہیں کیاتونمازپڑھاسکتاہے وہ لکڑہاراکہتاہے یہ کونسا مشکل ہے لکڑہارے نے لکڑیاں رکھ کرنمازپڑھاناشروع کی دوران نمازلکڑہارے نے کسی سجدے کو بہت زیادہ طویل کردیااور کسی سجدے میں جلدی سے سراٹھالیانمازختم کرنے کے بعد دونوں بزرگوں نے لکڑہارے سے اس کی وجہ پوچھی تولکڑہارے نے کہاکہ جب میں سجدے میں ’’سبحان ربی الاعلی‘‘کہتاتھا توجواب آتاتھا ’’لبیک یا عبدی ‘‘جب تک جواب نہیں آتاتھا میں سرنہیں اُٹھاتاتھا یہ نمازِ عشق ہے ہم ابھی تک اسی ظاہری نمازمیں لگے ہوئے ہیں عمرگزاردی مگرآگے نہیں بڑھ سکے(جہاں سے نمازکی ابتداء کی تھی وہیں نماز کی انتہاپرہیں) جبکہ حدیث شریف میں آتاہے ’’کہ مومن کاکسی مقام پر رک جانا حرام ہے۔‘‘
مومن کا کسی مقام پررک جانا حرام ہے بڑھتے رہو اس کی طلب میں بڑھتے رہوحتیٰ کہ اس کی طلب میں جان چلی جائے اگراس کی طلب میں جان جائے گی توہم شہیدوں میں شمارکئے جائیں گے ۔
محبت اور عشق کا تعلق دل سے ہے
دراصل اللہ اور اسکے رسول ﷺ سے محبت کرنے کا ذریعہ اللہ کاذکرہے کیونکہ محبت اور عشق کاتعلق دل سے ہے زبان سے نہیں اگرآپ زبان سے ساری عمر اللہ اللہ کرتے رہیں تویہ عبادت ہوسکتی ہے مگرمحبت نہیں کیونکہ محبت کا تعلق تودل سے ہے جب آپ کا دل اللہ اللہ کرنے لگے گا توپھریہی ذکر اللہ ھُو محبت کا رنگ لائے گا اور یہ اسم ذات اللہ تعالیٰ نے حضورپاک ﷺ کے علاوہ کسی نبی کو عطانہیں کیایہی وجہ تھی کہ بنی اسرائیل کے نبی اللہ کادیدارنہیں کرسکے اور حضور ﷺ کے امتیوں نے اللہ تعالیٰ کادیدارکرلیاحضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ کے دیدارکی خواہش ظاہر کی تواللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم ہمارے دیدارکی تاب نہیں لاسکتے موسیٰ ؑ نے عرض کی کہ یارب العالمین تیرے دیدارکی تاب کون لاسکتاہے تواللہ ہے توموسیٰ ؑ نے جب اصرارکیا تواللہ تعالیٰ نے اپناجلوہ دکھایاجسے موسیٰؑ برداشت نہیں کرسکے اور بے ہوش ہوگئے اور جب ہوش آیا توزبان پریہی تھا کہ کاش مجھے نبی نہ بناتااپنے محبوب کاامتی بنادیتاکیاوجہ ہے کہ موسیٰ ؑ بے ہوش ہوگئے اورحضور ﷺ مقام قاب قوسین پرپہنچ کربھی مسکرارہے تھے یعنی موسیٰ ؑ زمین پر بے ہوش ہوگئے اورآپ ﷺ ڈیڑھ کمان کے فاصلے پرپہنچ کربھی مسکرارہے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ موسیٰؑ کو صفاتی اسم یارحمن کا ذکرملاتھا آپؑ صفاتی اسم کا ذکرکرتے تھے جس کی وجہ سے آپؑ کے جسم میں یارحمن کا نور تھا صفاتی نور ذات کی تاب نہ لاسکا جبکہ حضور ﷺ کے جسم میں اسمِ ذات کا ذاتی نورتھالہٰذا نور ذات ذات کے سامنے مسکرایا اورحضور ﷺ کے طفیل وہ اسم اس امت کو ملا تب اس امت کو دوسرے نبیوں کی امت پرفضیلت ہوئی اگرتم کو فضیلت ہے توصرف اسم ذات کی وجہ سے ورنہ تم (امتِ محمدی ﷺ )سے بہتر وہ یارحمن والے ہیں جن میں صفاتی نور توہے۔
اگرآپ باقی اسماء کا ذکرکرتے ہیں مثلاًیارحمن کاذکرکرتے ہیں ہوسکتاہے بے خودی میں یاحمان نکلناشروع ہوجائے حامان ایک شیطان تھا ،یارحیم کا ذکرکرتے ہوئے یاحیم نکلناشروع ہوجائے توحیم ایک دیوی تھی لیکن صرف لفظ اللہ ایک ایسااسم ہے کہ اگراللہ نکلے ،للہ نکلے ،لہ نکلے ،ھُونکلے پر بگڑتانہیں یہ سب اس کی طرف اشارہ ہے صفاتی اسم کے لئے حصار کھینچنا پڑتاہے وضومیں رہناپڑتاہے مگرذکراللہ اسمِ ذات ہرچیزپرقادرہے پوری مخلوق پرقادرہے غرضیکہ کہ ہراسم پر قادرہے اسکے لئے وضو ہویانہ ہو ضروری نہیں ہروقت آپ اسے کرسکتے ہیں ۔
ذکر کی دولت کا حصول
اس دورمیں اللہ تعالیٰ نے یہ اسم تمہارے شہروں میں بھیج دیاہے کہ جاؤ اس کو پھیلاؤ ،کرو،دیکھواور اسکا مزہ لوٹوورنہ پہلے یہ اسم بڑی مشکلوں سے ملاکرتاتھا اس کے لئے گھر بار چھوڑناپڑتاتھا پتے کھانے پڑتے تھے پھر کہیں جاکریہ اسم ملتاتھامگرآج طالب ہی نہیں ہے اب ان کو طالب بنایاجارہاہے اس ذکرکوکرنے کا انتہائی آسان طریقہ ہے اگرکوئی اسکو کرناچاہے۔ جب آپ کے دل کی دھڑکن اللہ اللہ میں لگ جائے تووہ ایک گھنٹے میں 6000 تک چلی جائے گی چوبیس گھنٹے میں سوالاکھ125000 سے بھی بڑھ جاتی ہے ادھر فرشتے بھی حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا ہورہاہے اوراسکے بعد فرض کیا آپ نمازنہیں پڑھتے ہیں یہ گناہ کبیرہ ہے لیکن اگرآپ ذکرمیں لگ جاتے ہیں اورکثرت سے اللہ کاذکرکرتے ہیں تواسی ذکرکانورآپ کے جسم میں پھیل جائے گا دل میں داخل ہوجائے گا پھرآپ کا دل کہے گاچلو اب مسجدمیں نمازبھی پڑھو وہ دل آپ کونمازپڑھائے گا پھردل کہے گا اب داڑھی بھی رکھ لو غرضیکہ آپ کو گناہوں سے نفرت ہوناشروع ہوجائے گی وہ بھی ایسی نماز پڑھتے ہیں اچھی ہے مگرجولوگ نمازسے غافل ہیں نمازنہیں پڑھتے وہ لوگ کثرت سے ذکرکریں اللہ پاک کرے گا وہ ذکرکے طفیل نمازمیں بھی لگ جائیں گے ہمارا یقین ہے کہ اگرکوئی طالب صحیح نیت سے صحیح طریقے سے چالیس دن بھی اگراس کو یادکرے توباری تعالیٰ ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے اس پراپنی رحمت کے دروازے کھول دیتاہے۔
مگرشرط یہ ہے کہ ذکرالٰہی کے درمیان میں کسی اور چیزکونہ لائے یہ سوچے کہ اگرمیں ذکرکروں گاتومیراکاروبارچمک جائے گا میری بیماری دور ہوجائے گی صرف خالصتاًاسی کے لئے اس کا ذکرکرے بیماری آتی ہے توآئے،کاروبارخراب ہوتاہے توہونے دیں لیکن اللہ کاذکرصرف اللہ کے لئے کریں اگرہمارے کچھ لوگ ناکام ہوجاتے ہیں تووہ درمیان میں کسی اورکولے آتے ہیں کاروبار کوبیماری کولے آتے ہیں اسی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہوتے ہیں تمام تفکرات سے بالاترہوکر اس کی یاد میں لگ جائیں ضرور کامیاب ہوجائیں گے اور پھراللہ تعالیٰ ذکرکے صدقے میں کاروبارمیں بھی برکت دے گاصحت بھی دے گا غرضیکہ سب کچھ ان کو دے دیگا سوچنے کی بات ہے کہ جب وہ کافروں کودیتاہے توکیاان کونہیں دے گا جوا س کے دوست ہیں۔

بسم اللہ الر حمٰن الرحیم
گنہگار اور پارسا
ایک نشست میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ زاہد وپارسا شخص کی نماز و عبادات اور عمل صالح کو کراماًکاتبین اس کے نامہ اعمال میں درج کرتے رہتے ہیں۔لیکن زہد وعبادت سے انسان کے اندر تکبر و انا بھی پیدا ہوتی رہتی ہے۔اگر زاہد وپارسا شخص نے خود کو عبادت گزار سمجھ کر کسی بے نمازی کو کمتری اور نفرت سے دیکھاتو وہ ایسا تکبر شمار ہوگا۔جس سے اس پارسا کا سینہ سیاہ ہوتاجائے گا۔اس شخص کاحا ل اس طرح ہوگا کہ رسمی رواجی طور پر نماز و عبادت کر کے ظاہری حالت تو درست کر لی لیکن وہ طریقہ نہیں سیکھا جس سے باطن کی صفائی ہو۔سینہ کینہ اورتکبر سے پاک ہو جائے ۔پارساشخص کے اندر زہدو عبادت کا تکبر بڑھتا رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ کبھی کبھی اپنے بندوں پر نظر خاص فرماتا رہتا ہے۔اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نامہ اعمال کو نہیں بلکہ اپنے بندوں کے قلوب پر نظر فرماتا ہے لیکن جب زاہد و پارسا کا دل دیکھتاہے تو وہ انانیت و تکبر سے بھرا ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ اس کی جانب سے توجہ ہٹا لیتا ہے اس طرح زاہد وپارسا کا تکبر اس کی نیکیوں کو بربادکر دیتا ہے۔
اب آئیے گنہگار کی جانب ،انسان جب گناہ کرتا ہے تو کراماً کاتبین اس کی بدی کو تحریر کر دیتے ہیں اور اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ بھی لگ جاتا ہے اس طرح گنہگار کا نامہ اعمال بھی سیاہ اور دل بھی سیاہ ہوتا رہتا ہے لیکن اگر گنہگار شخص کو حدیث شریف کا وہ نسخہ عطا ہو جائےً ًٍ’’کہ ہر چیز کو صاف کرنے کا کوئی ذریعہ ہوتا ہے اوردلوں کی صفائی کا ذریعہ اﷲ کا ذکر ہے‘‘۔(مشکوۃ شریف)گنہگار جب ذکر الٰہی میں مصروف ہو کر دل کی دھڑکنوں میں اﷲ اﷲ بسا لیتا ہے تو اس کا د ل شفاف اور منورہو جاتا ہے اس کے سابقہ گناہوں کی کتاب تو سیاہ رہتی ہے لیکن دل چمک اٹھتاہے۔ اﷲتعا لیٰ کی نظر خاص کا سلسلہ بندوں کیلئے جاری رہتا ہے جب اس گنہگار پر رب کی نظر ہوتی ہے تو اس کے دل کی چمک دیکھ کر اﷲ تعالیٰ اس پر مہربان ہو جاتا ہے اس کے اندر اپنی محبت ڈال دیتا ہے جب اﷲ کی محبت داخل ہو جاتی ہے تو اس کے محبوب کی محبت بھی پیداہو جاتی ہے اس لئے کہ ’’محبوب خدا خدا نہیں لیکن اس سے جدا بھی نہیں ‘‘اسی طرح ولیوں کی محبت بھی پیداہو جاتی۔اس لئے کہاجاتاہے
گناہ گار پہنچے در پاکؐ پر
زاہد و پارسا دیکھتے رہ گئے
پارساؤں کا تکبر ان کی نیکیوں کو ختم کر دیتا ہے اور گنہگاروں کاذکر و فکر ان کی سیاہ کاری کو نور میں تبدیل کر کے انہیں بارگاہ الٰہی کا قرب عطا کر دیتا ہے۔
حقیقی تعلیم
سرکارشاہ صاحب نے مختلف علاقوں میں روحانی نشستوں میں خطاب کرتے ہوئے باربار یہ فرمایا کہ ہر شہر ہر علاقے اورہر گھر میں اہل دل موجود ہیں ہم ان اہل دل لوگوں کو غفلت و دنیا پرستی سے نکال کر دل کی درستگی کی تعلیم دے رہے ہیں ہمیں افسوس ہے کہ حضورپاک ﷺ کے دین میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے لوگوں کے دل جو بیت اﷲ،عرش اﷲ بن سکتے ہیں وہ دل برباد ہو رہے ہیں امت مصطفی ﷺ حقیقی علم سے بے بہرہ ہو کر صرف ظاہری اور کتابی علوم میں پھنس کر رہ گئی ہے۔اگر حقیقی علم اور حقیقی عبادت کی جانب رجوع کرنا چاہتے ہو تو آؤ اورحقیقت کو سمجھو حضور پاک ﷺ کے زمانے سے دو علم اور دو عبادات رائج رہی ہیں۔ایک زبانی علم اور ظاہری علم وعبادت دوسرے باطنی علم اور باطنی عبادت حضور پاکؐکے دور میں جن لوگوں نے صرف ظاہری علم وعبادت کو سب کچھ جانااور قرآنی تعلیم کو ہی صرف معیار ہدایت جانتے ہوئے حضور پاکؐ کی صحبت اور توجہ کو اہمیت نہ دی وہ لوگ منافق اورخوارج ہوئے دین میں فساد پھیلاتے ہی رہے علاوہ ازیں جن لوگوں نے حضور پاک ﷺ کی ذات کومرکزایمان تصور کیا اور زبانی علم و عبادت کے ساتھ حضور پاک ﷺ کی مجلس میں بیٹھ کر دل کی صفائی کا علم اوردل کی عبادت کاطریقہ بھی حاصل کیاوہ لوگ صحابی رسول اﷲ ﷺ کے منصب پر فائزہوئے اور ان کے ذریعے دین کو فروغ حاصل ہوااس علم کوباطنی اور طریقت کا علم کہا جاتا ہے،یہی علم حقیقی اور نفع مند ہے۔قرآن پاک میں اس علم کے اشارے موجودہیں کہ حضرت خضرعلیہ السلام کو علم لدنی حاصل تھا اور اﷲ تعالیٰ جسے چاہتا ہے تو اپنے رسولوں کو علم غیب عطافرماتا رہتاہے۔اس طرح حدث شریف میں بھی اس علم کے اشارے ملتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲتعالیٰ عنہُ فرماتے ہیں کہ ہمیں حضور پاک ﷺ سے دو علم عطا ہوئے ایک تمہیں بتادیا دوسرا بتائیں تو تم ہمیں قتل کر دو ۔(بحوالہ اسرارحقیقی)حضور پاک ﷺ نے فرمایا ہمیں اﷲتعالیٰ سے تین علم حاصل ہوئے ایک عوام کے لئے ،ایک خواص کے لئے ،اور ایک صرف ہماری ذات کے لئے ۔ امت مصطفی ﷺ کے اولیاء کرام ؒ کے اقوال و واقعات سے بھی علم باطن اور ظاہر کافرق ثابت ہوتا رہا ہے حضرت ابراھیم بن ادھم ؒ فرماتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے مجھے ستربار اپنا دیدارکرایا اور ہر مرتبہ میں نے سو سے زائد مسئلے سیکھے لیکن ان میں سے صرف چار مسئلے ہی لوگوں کو بتائے تو وہ بھی لوگوں نے ماننے سے انکارکر دیا۔
حضرت مولانا روم ؒ اپنے وقت کے بڑے عالم تھے ایک روزو ہ اپنے مکتبہ میں بیٹھے تھے کہ ایک درویش حضرت شمس تبریزی ؒ مکتب میںآئے اور کتابوں کی جانب اشارہ کرکے فرمانے لگے کہ یہ کیاہے ۔مولانارومؒ نے کہایہ وہ علم ہے جسے تم نہیں جانتے ۔حضرت شمس تبریزی ؒ نے ایک قلمی کتاب اٹھاکرپانی میں پھینک دی،مولانارومؒ بڑے پریشان ہوئے حضرت شمس تبریزی ؒ نے پانی میں سے کتاب کو خشک حالت میں نکال لیا۔مولانارومؒ نے حیرت سے معلوم کیایہ کیاہے؟حضرت شمس تبریزیؒ نے فرمایا یہ وہ علم ہے جسے تم نہیں جانتے ۔ان حوالوں سے علم باطن کی اہمیت اور حقانیت واضح ہوتی ہے لیکن امت مصطفی ﷺ صرف کتابی اور ظاہری علم میں پھنس کرباطن کی حقیقی تعلیم سے دور ہوگئی ہے جس کی بناپرامت انتشاراورتفرقہ کا شکارہوتی جارہی ہے ۔
اصلی شیطان
عام طورپر لوگ غافل وگنہگارلوگوں کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ یہ بڑے شیطان ہیں جبکہ یہ بیچارے گنہگارتودرحقیقت نقلی شیطان ہیں اصل شیطان تووہ ہے جوعلم میں اتناکامل تھاکہ معلم ملکوت ہوا۔عبادت میں بھی تمام فرشتوں سے زیادہ عبادت گزارتھالیکن عبادت و علم کے فخر میں آکر اور حضرت آدم ؑ کی فضیلت کو تسلیم نہ کرکے وہ غرورو تکبراورحسدمیں مبتلاہوگیاپس اصل شیطانی اوصاف تویہ ہیں۔جولوگ نمازتسبیح میں ہوشیارہیں ،لیکن غرورو تکبراور حسد و بخل ان کا شعارہے تووہی لوگ اصل شیطان ہیں انہی لوگوں نے فرقے پھیلائے ،ولیوں کوستایا،ہردورمیں یہ لوگ موجود رہے۔حضورغوث پاکؓ جیسی عظیم ہستیوں پر انہی لوگوں نے فتوے لگائے۔
ظاہری اور باطنی بیعت
ایک نشست میں کسی طالب کے اس سوال کے جواب میں کہ ظاہری بیعت کے بغیر سلسلہ روحانی چل سکتاہے؟سرکار شاہ صاحب نے فرمایاکہ بیعت دوطرح کی ہوتی ہے ایک ظاہری بیعت اور دوسری باطنی بیعت ۔باطنی بیعت کو اویسی بیعت بھی کہاجاتاہے۔حضورپاک ﷺ نے حضرت اویس قرنیؓ کو دست بیعت فرمایااس سلسلے میں بیعت الرضوان معروف ہے۔ اویسی بیعت کی ابتداء حضرت اویس قرنیؓ کے ذریعے ہوئی چونکہ حضرت اویس قرنیؓ سچے عاشقِ رسول ؐ تھے لیکن ظاہری طورپرحضورپاک ﷺ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکے اس لئے حضورپاک ﷺ نے انہیں باطنی طورپربیعت فرمایا۔ظاہری بیعت والوں کوجسم سے فیض ہوتاہے جبکہ باطنی بیعت میں روح سے فیض حاصل ہوتاہے ۔اس طرح حضرت اویس قرنیؓ کو بھی روح مبارک کا فیض حاصل ہوا۔روحانی سلسلوں میں ظاہری بیعت کے ساتھ باطنی بیعت اور اویسی فیض کا طریقہ بھی جاری و ساری رہاحضورپاک ﷺ کو حیاتُ النبیؐ تسلیم کرنا اہل ایمان کے لئے لازم ترہے ۔جب حضورپاک ﷺ حیات ہیں توآپ کے بیعت کرنے اور فیض عطاکرنے کی حقیقت کو بھی تسلیم کیاجاناضروری ہے۔
حضرت غوث پاکؓ اور حضرت سلطان باھُو ؒ کے اقوال و ابیات سے ثابت ہے کہ انہیں حضورپاک ﷺ سے باطنی بیعت اور فیض حاصل ہوا۔اسی طرح حضرت ابوبکرؓ نے حضرت ابوبکرحواریؒ کو ڈکیت کی حالت سے نکال کر انہیں بیعت فرما یااوراپنا خرقہ بھی عطافرمایا اورحضرت ابوبکرحواریؒ سے سلسلہ حواریہ جاری ہوا۔حضرت امام جعفر صادقؓ نے حضرت بایزید بسطامی ؒ کو باطنی طورپربیعت کیا۔حضرت فقیر نورمحمد سروری قادریؒ کو حضرت سلطان باھُوؒ نے باطنی فیض عطافرمایا۔سرکارشاہ صاحب نے مزید فرمایا کہ ظاہری بیعت میں جسم کی تربیت کی جاتی ہے جبکہ باطنی بیعت میں دل کو بیعت کیاجاتاہے ۔ظاہری بیعت میں آجکل ہزاروں ایسے لوگ ہیں جوکہ بیعت ہورہے ہیں لیکن گستاخِ رسول بھی ہیں صحابہ اکرام اور اولیا اللہ کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں۔لیکن باطنی بیعت میں چونکہ جسم کے ساتھ دل کوبھی بیعت کیاجاتاہے ۔اس لئے دل نورانیت کی راہ اختیار کرلیتاہے جب دل درست ہوجائے تووہ جسم کو بھی درستگی کی جانب لے آتاہے۔یہ باطنی بیعت اور باطنی فیض آج بھی جاری ہے۔کوشش کرناچاہیے کہ باطنی فیض کا حصول کیاجائے ۔ظاہری طور پرہزاروں پیروں سے مرید ہوجائیں لیکن اگرباطنی فیض حاصل نہ ہوتوکچھ حاصل نہیں ہے ۔راہ سلوک میں مرشد سے بیعت کرکے مرشد تک پہنچنامقصودنہیں ہے بلکہ بیعت کرنے کا اصل مقصد رب کی ذات تک رسائی حاصل کرناہے۔
حصول فیض روحانی
سرکار شاہ صاحب نے روحانی نشست میں طالبانِ حق سے فرمایا کہ آپ کسی بھی مرشد سے بیعت ہوں فیض روحانی حاصل کرنے کے لئے دوسری جگہ جایاجاسکتاہے۔جیساکہ حضرت لعل شہبازقلندرؒ مرید تھے حضرت ابراہیم قندوزیؒ سے لیکن آپ فیض کے لئے سکھرمیں حضرت صدرالدین ؒ کے پاس گئے اسکے بعد آپ حضرت بُوعلی شاہ قلندرؒ کے پاس بھی فیض کے لئے گئے ،پھراس کے بعد آپ ملتان میں حضرت بہاؤالحق ؒ کے پاس بھی فیض کے لئے گئے ۔مگر جب قلندرپاکؒ واپس تشریف لائے توسب کے سرداربن گئے اسی طرح حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ مریدتوحضرت عثمان ہارونی ؒ کے تھے بعدمیں حضرت داتاگنج بخش ؒ سے اکتسابِ فیض کیااورغوث پاکؓ سے بھی فیض حاصل کیااورداتاگنج بخش علی ہجویری ؒ کے دربارپر فیض روحانی کے بعد بے ساختہ یہ شعر فرمایا۔
گنج بخش فیض عالم مظہر نورِ خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
لہٰذابیعت کسی بھی جگہ سے ہوں فیض کے لئے دوسری جگہ جاسکتے ہیں۔ہم بھی آپ کو بیعت کرنے پر اصرارنہیں کرتے ۔باطنی و روحانی فیض کا ایک راز ہمیں حاصل ہواتھا یہ رازہم نے بڑی ریاضتوں اور مشکل سے پایا تھا۔رب کی رضایہ ہے کہ دیگرمسلمان بھائی بھی اسی فیض روحانی سے مستفیض ہوجائیں ۔ہماری تعلیمات میں قلب کو ذکر سے جاری کرناہے ۔جب قلب جاری ہوجاتاہے توفیض کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے ۔جن لوگوں کا قلب جاری ہوجائے وہ غوث پاکؓ کے مریدوں میں شامل ہوتے ہیں کیونکہ غوث پاکؓ فرماتے ہیں کہ’’ذاکرمیرامرید ہوگااورمیں مرید اسی کومانتاہوں جس کا قلب ذکرکرے۔‘‘
ہم خلوصِ نیت اور بغیر کسی لالچ کے ذکر قلب کوعام کررہے ہیں اگرآپ لوگوں کو یہ نعمت ذکر قلب حاصل ہوجائے تودعادے دینا اور اگریہ چیز حاصل نہیں ہوتی توجودوچاردن اللہ اللہ کی ہے اس کا ثواب آپ کو حاصل ہوجائے گا آپ کا کچھ بگڑے گاتونہیں آپ اپنے گھر خوش ہم اپنے گھر خوش۔
دلو ں پر ایمان لکھ دیاگیا
قرآن کی آیات مسلمانوں کو غوروفکر کی دعوت دیتی ہیں ایک آیت میں فرمان رب کریم ہوتاہے کہ ’’کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے دلوں پرایمان لکھ دیا جاتاہے(سورۃ المجادلہ آیت نمبر 21 )۔‘‘اس آیت کی تلاوت توکثرت سے کی جاتی ہے لیکن اس کے حقیقی معنی اور اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی ۔آئیے ہم دلوں پر ایمان نقش کرنے کے طریقے کی وضاحت کرتے ہیں۔انسانی دل پرایمان کسی لمبی چوڑی عبارت اوراحکامات کی صورت میں نہیں لکھاجاتابلکہ اسمِ اللہ کا دل پر نقش ہوجاناایمان کہلاتاہے۔اسم اللہ دل پر کس طرح نقش ہو،اس کا طریقہ یہ ہے کہ روزانہ جب بھی وقت ملے خصوصاًفجرکی نمازکے بعد سفید کاغذپر کالی سیاہی سے 66مرتبہ اسمِ ذات اللہ خوشخط الفاظ میں لکھیں جس طرح 786کو بسم اللہ شریف سے نسبت ہے اسی طرح 66کے عددکو اسم ذات سے نسبت ہے۔اسی طریقے سے بار بار اسم ذات لکھتے رہنے سے ایک روز یہ اسم آپ کی آنکھوں میں تیرنا شروع ہوجائے گا پھر اسم ذات کو آپ دل پر نقش کرنے کی کوشش کریں ۔آنکھ بند کرکے دل کو کاغذاورانگلی کو قلم تصورکرتے ہوئے دل پراسم ذات لکھتے رہیں دل کی کشش آنکھوں سے زیادہ ہوتی ہے کچھ عرصہ بعد انشااللہ یہ اسم پاک دل میں قرارپاجائے گا۔کچھ لوگوں کوتوذکر قلب عطاہوتے ہی اسم ذات دل پر نقش نظرآجاتاہے اورکچھ لوگوں کو کچھ عرصہ بعد نظرآتاہے یہ اپنی قسمت اور نصیب ہے ۔اسمِ ذات جب دل میں بسنا شروع ہوتاہے تودل کی دھڑکن ابھر کر تیزہوجاتی ہے اس دھڑکن میں اللہ اللہ ملانا چاہیے ۔دل پراسم اللہ نظرآجائے توآپ کا شمار اہل تصور میں ہوجائے گا ۔اسکے بعد آپ چلتے پھرتے رہیں،کاروبار کام کاج کرتے رہیں لیکن تصوراسم ذات کا قائم رکھیں اس ضمن میں یہ خیال رکھیں کہ کسی کودل پراسم اللہ لکھاہوانظرآتاہے لیکن دھڑکن محسوس نہیں ہوتی جبکہ کسی کودھڑکن محسوس ہوتی ہے اسمِ ذات نظرنہیںآتاان دونوں حالتوں میں اگرایک بھی میسر آجائے توشکر اداکرناچاہیے اس لئے کہ ہرکسی کی قلبی کیفیات مختلف ہوتی ہیں کوئی جلالی ہوتاہے کوئی جمالی اور کوئی معتدل مزاج کا حامل ہوتاہے ابتدا ء میں درج بالاطریقے پرہی عمل کرناچاہیے اس سے بہت جلدی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
نمازمیں یکسوئی
سرکارشاہ صاحب نے فرمایاکہ یہ شکایت عام ہے کہ ہم نمازپڑھتے ہیں لیکن ہمارے دل و دماغ میں دنیاوی خیالات گردش کرتے رہتے ہیں اس شکایت کاواحد حل ذکر الٰہی ہے ۔ذکر کرنے والوں کے تصور،فکر اورسوچ میں بھی اللہ اللہ بس جاتی ہے پھر وہ چلتے پھرتے کاروبارکرتے رہتے ہیں لیکن ان کا د ل اللہ کی یادمیں مشغول رہتاہے۔ایسے لوگ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں توانکی سوچ اور دھیان اللہ کی جانب ہی مبذول رہتی ہے یوں نمازمیں دل و دماغ ادھر ادھردنیاوی خیالات میں نہیں بھٹک سکتے اس بات کو یوں سمجھیں کہ انسان پر کوئی ایک اہم بات اور سوچ غالب ہو تووہ دنیامیں چلتاپھرتاتوہے لیکن اس کا دھیان اسی بات کی جانب مبذول رہتاہے ۔مثلاًآپ کا بچہ بیمار ہو اور ہسپتال میں داخل ہو لیکن آپ کو دفتر سے فرصت نہیں مل رہی ہو توآپ دفترمیں ہوتے ہوئے بھی ہسپتال میں بچے کی طرف متوجہ رہیں گے یا آپ نے سفر کے لئے جہازیا ٹرین کی بکنگ کرائی ہے اوریہ بکنگ شام کے اوقات میں ہے لیکن آپ تمام دن لوگوں سے ملتے جلتے رہیں گے دیگرمصروفیات میں رہیں گے لیکن ذہن میں سفر کا خیال اور وقت ہی مقدم رہے گا۔اسی طرح جب آپ ذکر و فکر اور تصوراسم اللہ ذات کو پختہ و قوی کرلیں گے تووہ تمام حواس پر حاوی ہوجائے گاآپ کی حالت اس طرح ہو جائے گی’’دست بکار دل بیار‘‘ہاتھ کام میں ہے اور دل یار کی یاد میں مشغول ہے۔ایسی نماز جس میں زبان اور جسم کے ساتھ دل و دماغ بھی اللہ کی جانب متوجہ ہوں وہ بارگاہ الٰہی میں رسائی حاصل کرلیتی ہے ۔اس کے برعکس وہ نماز جس میں جسم حاضر ہو اور توجہ دنیاوی و شیطانی خیالات میں الجھی ہوئی ہوتباہی اور خرابی بن جاتی ہے۔
وہ صراطِ مستقیم سے نہیں بھٹک سکتا
سرکار شاہ صاحب نے ایک نشست میں خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ ذکر قلب کے یوں توبے شمار فوائد اوربرکات ہیں لیکن سب سے اہم چیز یہ ہے کہ جس شخص کا قلب ایک بار اللہ اللہ سے جاری ہوجائے وہ صراط مستقیم سے کبھی بھی نہیں بھٹک سکتا۔یہ اور بات ہے کہ ذاکرقلبی دنیاوی ماحول ،شیطانی رکاوٹوں اور آزمائشوں کے سبب کچھ سست ہوجاتے ہیں۔لیکن کچھ عرصہ بعد دوربارہ سرگرمِ عمل ہوجاتے ہیں ۔جس طرح موج کبھی نیچے اور کبھی اوپر ہوتی رہتی ہے لیکن اس کا سفر اسی نشیب و فرازمیں جاری رہتاہے مرشد کامل سے ذکرقلب عطاہونے کے بعد کم ازکم تین سال تک مرشد کی رہبری میں ذکر و فکر کرنالازم ہوتاہے ۔اگر اس عرصہ سے پہلے ادھر ادھر ہوگئے توپھرقلب بندہوسکتاہے ۔کیونکہ نفس اورشیطان جیسی دشمن طاقتیں کبھی نہیں چاہتیں کہ کسی کا ذکرقلب جاری ہوجائے۔اس لئے مخالف طاقتیں ذاکرقلبی کو نقصان پہنچانے کی فکر میں رہتی ہیں ۔
جس کو اللہ چاہے
سرکار شاہ صاحب نے ایک نشست میں ایک طالب کو جواب دیتے ہوئے فرمایاکہ مختلف لوگوں کی خواہشات اور چاہتیں الگ الگ ہوتی ہیں بعض چاہتے ہیں کہ راتوں رات امیربن جائیں،کچھ چاہتے ہیں کہ تھوڑی بہت عبادت کرکے درجہ ولایت حاصل کرلیں،بعض لوگ ہمارے پاس اس لئے آتے ہیں کہ ذکر لیتے ہی کشف اور مشاہدات شروع ہوجائیں۔لیکن لوگوں کو نہیں معلوم کہ جو اللہ چاہے وہ ہوتاہے۔جسے اللہ چاہے اسے لمحات میں بہت کچھ عطاہوجاتاہے۔ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں کہ ذکر لیتے ہی بے ہوش ہوگئے ہوش میں آئے توکہنے لگے ہم تو خانہ کعبہ دیکھ رہے تھے۔ہم تومدینہ شریف میں تھے غرضیکہ جس کو رب چاہے اسے ہرچیز عطاہوجاتی ہے ہم ذکر قلب کا اذن دیتے ہیں ،دعوے نہیں کرتے اگررب نے چاہاتوتمہیں باطنی چیزیں نظرآناشروع ہوجائیں گی اور رب نے نہ چاہا تو تم ساری عمر بھی کوشش کرتے رہو توکچھ نظرنہیں آئے گا ۔ہم نے تمہاراتعارف اللہ سے کرادیااب قبول کرنانہ کرنایہ اللہ کا کام ہے۔
جسم میں اللہ اللہ ہونا
بعض اوقات ایسابھی ہوتاہے کہ ذاکرقلبی کے دل میں جس طرح دھڑکن سے جنبش پیداہوتی ہے اسی طرح کی جنبش اس کے جسم کے مختلف حصوں میں بھی ہوناشروع ہوجاتی ہے ،بازو ، آنکھ ، کمر وغیرہ میں پھڑکن محسوس ہوتی رہتی ہے ۔اس احوال کی حقیقت یہ ہے کہ دل میں جب اللہ اللہ جاری ہوجاتاہے توانسانی خون میں بھی رچ بس جاتاہے۔چونکہ دل کے ذریعہ ہی سارے جسم کو خون پمپ ہوتاہے اس لئے خون کا ہر قطرہ اللہ اللہ کی جذب و مستی میں سرشار دل سے نکل کرجسم کے ہر عضومیں جاتاہے ا س لئے جسم کے مختلف حصوں میں ذکر قلب کی برکت سے جنبش پیداہوجاتی ہے۔
ذاکرکی حفاظت
ایک نشست میں خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ ذکرقلب کے ذریعے انسان شیطان اور نفس سے جہادکرسکتاہے اوربدی کی طاقتوں پرحاوی ہوسکتاہے اس لئے شیطانی قوتیں کبھی نہیں چاہتیں کہ کوئی شخص ذاکرقلبی بن جائے اس لئے جب کوئی شخص ذکر قلب کی طرف رجوع کرتاہے توشیطان اپنے تمام کارندوں کو حکم دیتاہے کہ اسے پریشان کرو،بیمارکرو،تباہ کرو،بربادکرولیکن اسے ذاکرقلبی نہیں بننے دواس لئے کہ اگریہ ذاکرقلبی بن گیاتواس کے نس نس میں نور بس جائے گا اورہمارا شیطانی تسلط اس پرکبھی قائم نہ ہوسکے گا ۔اس لئے جو مرشد کامل ذکرقلب عطاکرتے ہیں اس کو منجانباالٰہی ایسی رحمانی مخلوق عطا ہوتی ہے جو شیطانی مخلوق سے مقابلے کرتی رہتی ہے۔ ہم بھی جسے ذکر قلب دیتے ہیں اس ذاکر کے ساتھ دو موکلات کر دیتے ہیں جو اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ ہم جس کو ذکر دیتے ہیں اس کی سرپرستی بھی کرتے ہیں۔
پچاس ہزار اور لاکھ گنا ثواب
سرکار شاہ صاحب نے فرمایا کہ عموماً یہ بات عام ہے کہ خانہ کعبہ میں نماز پڑھو تو ایک لاکھ گنا ثواب اور مسجد نبوی میں نماز ادا کرو تو پچاس ہزار نمازوں کا ثواب حاصل ہوتا ہے لیکن عموماً دیکھا جاتا ہے کہ ہر سال لاکھوں لوگ حج کے دوران بے تحاشہ نمازیں مکہ شریف اور مدینہ شریف میں اداکرتے ہیں اس طرح وہ کروڑوں نمازوں کے ثواب کے حقدارہوجاتے ہیں۔لیکن جب یہ حاجی واپس آتے ہیں تواکثریت میں غفلت اور دنیاداری کاشکارہوتے ہیں جبکہ قرآن پاک کے بقول نماز توبرائیوں اورخواہشات سے نجات دلاتی ہے اس طرح معلوم ہواکہ اس بابت حقیقت کچھ اور ہے ۔ایک لاکھ اور پچاس ہزار گناثواب اصل میں ان نمازیوں کو حاصل ہوتاہے جن کے دل پرخانہ کعبہ اور روضہ رسول ﷺ نقش ہوجاتاہے ۔ جس کے دل پر خانہ کعبہ بس گیاوہ کہیں بھی نمازاداکرے لاکھ گناثواب حاصل ہوگا اسی طرح جس کے دل پرروضہ رسول ﷺ نقش ہے وہ جہاں بھی نمازاداکرے پچاس ہزار گناثواب کے حقدارہوں گے۔یہ ثوا ب مومنین کے لئے ہے نہ کہ عام حاجی کے لئے اس غلط فہمی کی بناپر تمام حاجی اپنے آپ کو کروڑوں کے ثواب کا حقدار جانتے ہیں کہ اس ثواب کے غرورمیں مبتلاہوکراپنے آپ کو بہت کچھ خیال کرتے ہیں اگرحقیقت میں انہیں کروڑوں نمازوں کی حقیقت حاصل ہوجائے تو وہ غفلت گمراہی اور بدعقیدگی میں مبتلانہیں ہوسکتے ۔
اسم ذات ہرچیز پر قادرہے
اسم ذات اللہ کی اجازت بڑی مشکلوں اور پریشانیوں کے بعد حاصل ہوتی ہے اولیا اللہ بڑی ریاضت مجاہدوں اور محنت و مشقت کے بعد طالبین حق کو اللہ ھُو کے ذکرکی اجازت عطافرماتے تھے اور یہ اجازت بھی محدودتعدادمیں ہوتی تھی اگرآج بھی کسی بزرگ اور درویش سے قلب کے ذکرکے بارے میں دریافت کریں تووہ یہی کہتے نظرآتے ہیں کہ یہ بہت بڑی نعمت ہے اور بڑی مشکلوں سے کسی کسی کوعطاہوتی ہے لیکن دورِ حاضرمیں اللہ تعالیٰ کا بہت بڑاکرم ہے کہ اسمِ ذات اللہ ھُوکی یہ نعمت عام تقسیم کی جارہی ہے آج تم لوگوں کونہ گھر بار چھوڑ کر جنگل میں جاناپڑتاہے نہ ریاضت و مجاہدات کرنے پڑتے ہیں عین جوانی کے ایام میں یہ نعمت تمہیں گھرمیں بیٹھے بٹھائے حاصل ہورہی ہے۔اگر اس آسانی کے دورمیں بھی کوئی اس نعمت سے محروم ہے یا ذکر قلب کی عطاکا سن کربھی وہ اس کے حصول کے لئے کوشش نہیں کرتاوہ بڑابدنصیب ہے کچھ لوگ وظیفوں کے ذریعے رب کو پانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وظیفہ تودل کو صاف کرنے کا ذریعہ ہے عرفان الٰہی کے لئے اللہ ھُو کی طرف پھر بھی آناپڑتاہے وظائف کے طریقے میں بڑی مشکلات ہیں دوران وظیفہ بغیر وضو کھانا کھالیاوظیفہ ختم،جھوٹ بول دیا وظیفہ ختم ،نیند آگئی وظیفہ ختم۔ اس طرح وظائف میں عمر کا بڑاحصہ صرف ہوجاتاہے پھر بھی کامیابی نہیں ہوتی اور پھر انجام کاروظائف کرنے والے بیزار اور بد عمل ہوجاتے ہیں لیکن اگر اسم ذات کی طرف توجہ دی جائے تواللہ ھُو کے ذکر کے ذریعہ دنیاوی کاموں میں مشغو ل رہتے ہوئے تمام پابندیوں سے آزاد رہتے ہوئے قرب ربانی حاصل ہوسکتاہے۔اسم ذات ہر چیز پر قادرہے وہ خودہی انسان کے اندرموجود خرابیوں اور برائیوں کو ختم ڈالتاہے۔اگرانسان کوئی غلطی اور غفلت بھی کرجاتاہے تواپنی منزل سے دورنہیں ہوتابلکہ اسم ذات ان غلطیوں کواپنے نورسے ختم کردیتاہے ۔اسم ذات کسی کے قابو میں نہیں آتابلکہ وہ خود انسان کو قابو کرلیتاہے۔اسم ذات ہرچیزپر قادرہے وہ تم پرقدرت حاصل کرکے تمہیں اپنابنالیتاہے۔
مشرب محمدی ﷺ میں رہبانیت
دنیامیں ہروقت بہت سے اولیا کرام موجودہوتے ہیں ہرولی کا قدم کسی نبی کے قدم پر ہوا کرتاہے جس ولی کا قدم جس نبی کے قدم پر ہوتاہے وہ اسی مشرب اور طریقے کا حامل ہوتاہے کوئی عیسوی مشرب ہوتاہے اس کا قدم حضرت عیسیٰ ؑ کے قدم پر ہوتاہے اس کی زندگی معاملات اور وصا ل حضرت عیسیٰ ؑ کی طرح ہوتاہے کوئی موسوی کوئی سلیمانی اور کوئی داؤدی مشرب رکھتاہے۔لیکن بعض کا قدم حضورپاک ﷺ کے قدم مبارک پرہوتاہے اوروہ محمدی ؐ مشرب کہلاتے ہیں۔ عیسوی مشرب کے ولی گھر بار چھوڑدیتے ہیں مجذوبوں کی طرح کبھی ایک جگہ کبھی دوسرے علاقے میں زندگی گزارتے ہیں لیکن محمدی ؐمشرب میں یہ طریقہ رہبانیت نہیں ہے بلکہ وہ دنیامیں رہتے ہیں کاروبارکرتے ہیں گھربار کانظام چلاتے ہیں اور اللہ اللہ بھی کرتے رہتے ہیں وہ اپنے راز کو پوشیدہ رکھتے ہوئے دیگرلوگوں کوبھی اللہ اللہ کی جانب رغبت دلاتے رہتے ہیں عیسوی مشرب میں تارک الدنیاہوکررہاجاتاہے جبکہ محمدی ؐمشرب میں تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے لئے غارحراکی سنت اپناتے ہوئے کچھ عرصے خلوت نشینی اختیارکرناپڑتی ہے پھرمنازل روحانیت حاصل کرنے کے بعد دنیامیں آکرلوگوں کو تلقین و ہدایت میں مصروف ہوجاتے ہیں محمد ی ؐمشرب والے حقوق العبادبھی اد اکرتے ہیں اور حقوق اللہ میں بھی مصروف رہتے ہیں اس طرح اس مشرب میں رہبانیت کا تصورنہیں ہے ۔
منفرد ،مفیداور مستفید
سرکار شاہ صاحب نے فرمایاکہ راہ سلوک میں ایک وقت ایسا آتاہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر اپنی تجلی ڈالتاہے توکوئی منفردہوجاتاہے کوئی مفید بن جاتاہے اور کوئی مستفید کہلاتاہے ۔منفرد لوگ وہ ہوتے ہیں جن کو نہ فیض لینے کی حاجت ہوتی ہے نہ فیض دینے کی اور نہ ہی ان کی ایسی کوئی ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ ہدایت و رہبری کا کام سرانجام دیں اس لئے وہ لوگ ایک کونے میں پڑے رہتے ہیں ان کا دنیاداری میں رہناحرام ہوتاہے ۔جبکہ مفید لوگ فیض دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس لئے لوگوں کی ہدایت پر معموررہتے ہیں ان کا تارک الدنیا ہوناحرام ہے اسی طرح مستفید لوگ فیض دے بھی سکتے ہیں اور لے بھی سکتے ہیں اس لئے یہ بھی دنیامیں مصروف عمل رہتے ہیں ان کا تارک الدنیا ہونابھی حرام ہے یہ ترقی کرتے ہوئے ابدال و قطب کے درجے پربھی فائز ہوسکتے ہیں۔
فقر بہ کرم فقر بہ کمالیت
راہ فقرمیں بھی ولیوں کے دوسلسلے ہوتے ہیں ایک فقربہ کرم ایک فقر بہ کمالیت ہوتے ہیں ۔فقربہ کرم والے ولی یہ ہوتے ہیں کہ ان کو فیض یا مرتبہ کسی ولی کے ذریعے سے ملا اور ولی تک رہا۔فنافی الشیخ،فنافی الغوثؓ ، فنافی الرسولؐ میں ہوتے ہیں۔ان کا فیض کوئی دوسراچاہے توچھین بھی سکتاہے یعنی فنافی الشیخ والے کاکوئی دوسراشیخ ،فنافی الغوث والے کا غوث پاکؓ اور فنافی الرسول ؐ والے کا حضورپاک ﷺ چھین سکتے ہیں ان کے اوپر رب کی تجلی نہیں پڑتی بلکہ یہ دوسرے ولیوں کے وسیلے سے حاصل کرتے ہیں لہٰذاکوئی دوسراچھین بھی سکتاہے جب کہ فقر بہ کمالیت والے ولی پراللہ تعالیٰ کی تجلی پڑتی ہے ۔وہ فنافی اللہ میں چلے جاتے ہیں اللہ کی تجلی میں آجاتے ہیں پھران کا فیض کوئی چھینتانہیں ہے کیونکہ ان کو ڈائریکٹ اللہ سے ملاہے بعض ولی ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نائب رسول اللہ ﷺ یعنی غوث و قطب ،ابدال ہوتے ہیں یہ 360ولیوں میں سے ہوتے ہیں۔مگریہ رب کی تجلی میں نہیں ہوتے ہیں یہ فقربہ کرم والے ہوتے ہیں ۔جبکہ فقربہ کمالیت والے رب کی تجلی میں ہوتے ہیں فقربہ کرم کا درجہ نیچے ہوتاہے جبکہ فقربہ کمالیت کا تعلق رب سے ہے آپ نے دیکھاہوگاکہ بعض ولیوں کا شریعت پر بڑازورہوتاہے جبکہ بعض اتنازورنہیں دیتے ،مگران کی کرامت اور فیض ان سے زیادہ ہوتاہے۔امام بری سرکارؒ پہلے شریعت کے بڑے پابندتھے بہت وردووظائف میں رہتے تھے پھر ایک وقت ایساآیاکہ وہ پہلے جیسی بات نہیں رہی ایک بار شاہ جہاں بادشاہ نے آپ کو بلوایاآپ نہیں گئے اس نے آیت لکھ کربھیجی ’’اللہ کی اطاعت، شیخ کی اطاعت، رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ‘‘آپ نے جواب میں لکھا کہ ’’میں اس وقت اطیعو اللہ میں اتنا مصروف ہوں کہ اطیعوالرسولؐ سے بھی شرمندہ ہوں باقی عملوں کی بعد کی بات ہے۔‘‘ ان کے د رجے ہوتے ہیں کوئی شریعت میں کوئی طریقت میں کوئی حقیقت میں کوئی معرفت میں کوئی فنافی اللہ میں لیکن اس کو وہی سمجھ سکتاہے جس کو یہ درجہ مل جائے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *