Sunday, November 17, 2024
تصانیف

تریاق قلب

پیش لفظ
حاضر نظر کتاب تریا ق قلب جو منظومات پر مشتمل ہے حضرت سیدنا ریا ض احمد گوھر شاہی مد ظلہ العالی (سرپر ست اعلیٰ انجمن سر فرو شان اسلام پاکستان)نے تحریر کی ہے۔ حضرت نے یہ منظومات 1976-77 ؁ میں اس وقت لکھیں جب سہون شریف (سندھ)کی پہاڑیوں میں دنیا سے دور عبادات وریا ضت اور مجا ہدات میں مصروف تھے اور اگر یہ کہا جائے کہ حضرت کا یہ کلام الہامی ہے تو بے جا نہ ہو گا ۔اراکین انجمن اور طالبین حق کے لئے مشعل راہ ہے حضرت کا مختصر تعارف ہم مینارہ نوراورروحانی حصول کی یاداشتیں روحانی سفرمیں محفوظ کر کے شائع کر چکے ہیں۔
تا کہعوام الناس بھی حضرت کے روحانی فیوض و برکات سے مستفیض ہو سکیں
مرکزی ناظم اعلیٰ
وصی محمد قریشی

کہاں تیری ثناء کہاں یہ گناہگار بندہ
کہاں لاہوت و لامکاں کہاں یہ عیب دار بندہ

نور سراپا ہے تو مگر یہ نقص دار بندہ
کتنی جرأت بن گیا تیرے عشق کا دعویدار بندہ

مگر عشق تیرا دن رات ستائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کروں

پاک ہے ذات تیری مگر یہ بے نشان بندہ
بادشاہ ہے تو زمانے کا مگر یہ بے اشنان بندہ

مالک ہے تو خزانے کا مگر یہ بے سروسامان بندہ
جتلائے پھر بھی عشق تجھ سے یہ انجان بندہ

مگر اس عشق میں موت بھی نہ آئے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

آئی آواز اے عاشق اپنا گریبان دیکھ
عمل ہیں تیرے روسیاہ اس سیاہی کا نشان دیکھ
لگا نہ دھبہ عشق پر اے نادان دیکھ
گر بننا ہے عاشق پھر نصوحے کی دکان دیکھ

مگر تیرا یہ نصوحہ نہ مل پائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

لگ گئی آگ سینے میں بجھانا بھی مشکل ہو گیا
عشق کہتے کہتے عشق نبھانا بھی مشکل ہو گیا

دیکھا جو دستور یار کو جان بچانا بھی مشکل ہو گیا
جکڑے گئے زنجیروں میں راز بتانا بھی مشکل ہو گیا

گر تو بھی جلوہ نہ دکھائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

نہیں ہوں سوالی فقیری میرا دھندا نہیں ہے
دنیا والو عشق خدا ہے عشق بندہ نہیں ہے

عرصے سے ہوں آوارہ میں کوئی اندھا نہیں ہے
عشق ہے یہ ابدی کوئی پرندہ نہیں ہے

یہ دنیا مجھے پاگل بنائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

خیال آتا ہے مجھے اپنی سیاہ کاری کا
دل روتا ہے دیکھ کر حال اپنی خریداری کا

ہوتی ہے تسلی پھر دیکھ کے حال آہ و زاری کا
ملتا ہے پھر ثبوت مجھے تیری غفاری کا

مگر یہ عشق فلک سے جا ٹکرائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

نکلا جو پنجہ ابلیس سے سمن جاری ہو گیا
ڈالا گھیرا فوج ابلیس نے ملزم باغی ہو گیا

نفس بھی ہوا دشمن دل تھا جو غازی ہو گیا
بچایا جو قلندرؒ نے رب بھی راضی ہو گیا

اب بھی پردہ نہ اٹھائے تو میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

نکلا نالہ جب سینے سے دل سینے میں تڑپنے لگا
غضب عشق میں آ کر سارا جنگل اللہ ھُو اللہ ھُو کرنے لگا

پہنچی آواز جو عرش پر عرش بھی تھر تھر ہلنے لگا
کیسی یہ ھُو تھی کہ زمین و آسمان جلنے لگا

تو پھر بھی سر نہ اٹھائے تو میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

پڑے ہیں ٹیلوں پر یہ بے آب و گیاہی
تعجب ہے کیا یہی ہے قاعدہ فقرائی

نیند گئی لقمہ بھی گیا یہی ہے رضائے الٰہی
پڑے ہیں مستی میں نظریں جمائے ہوئے گوھر شاہی

ان نظروں میں گر تو نہ آئے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

ملتا نہیں خدا بھی محمدؐ کی رضا کے بغیر
ہوتی نہیں رضائے محمدی شریعت مصطفی کے بغیر

پہنچ نہ سکے گا ہرگز تو اس شاہراہ کے بغیر
کہ خدا بھی چلتا نہیں قانون خدا کے بغیر

اس قانون میں بھی تو سامنے نہ آئے تو میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

یوں تو اللہ ھُو ہے جا بجا مگر اک نقطے میں بات ہوتی ہے
مل جائے گر یہ نقطہ پھر نور کی برسات ہوتی ہے

اسی نقطے کی تلاش میں طالبوں کی عمر برباد ہوتی ہے
خدا کی قسم اسی نقطے سے مجبور خدا کی ذات ہوتی ہے

یہ نقطہ پا کر بھی تو نظر نہ آئے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

ہزاروں رستے ہیں عرش بریں تک ابھی تو تو رواں ہے
ہزاروں دشمن ہیں ان راہوں میں تیرا کدھر گماں ہے

گر مقدر ہیں بلند تیرے آشیانہ بہ آسمان ہے
مگر آسماں کے آگے اس عشق کی دکان ہے

ان راہوں میں ہی گر عشق ستائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

آگئے کدھر ہم یہ تو سخی شہبازؒ کی چلّہ گاہ ہے
واہ رے خوش نصیبی یہ ہماری بھی عبادت گاہ ہے

وہ تو کر گئے پرواز اب ہماری انتظار گاہ ہے
اس بھٹکے ہوئے مسافر پر انکی بھی نگاہ ہے

سخی شہبازؒ کی محفل میں جا کر بھی یاد تیری ستائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

اس عشق میں طلعت و بابر کو بھی بھلا بیٹھے
یاد رہی نہ کسی کی اپنا آپ بھی گنوا بیٹھے

عقل تھی جو تھوڑی سی وہ بھی جلا بیٹھے
اے رب تیرے عشق میں ہم یہ دکھڑا بھی سنا بیٹھے

گر تو بھی قدم قدم پر آزمائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

عشق ہوا کیسے کچھ سمجھ میں بھی آیا نہیں
نہ پوچھا کسی سے کسی نے بھی سمجھایا نہیں

مرشد تھا باطنی شائد چراغ اس نے جلایا نہیں
تجھ سے کیا شکوہ مرشد بھی اب تک سامنے آیا نہیں

گر کوئی مرشد کا نام پوچھ پائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

کیا اقرار جب ہم نے جلنا نبی پاکؐ نے تصدیق کی
باھُوؒ بنے ضامن تب اللہ نے نور کی توفیق دی

پھر دھکیلے گئے پل صراط پر یہ بھی بخشش عجیب دی
جان کا خطرہ ایمان کا بھی کتنی کھائی قریب دی

بارہ سال سے پہلے یہ پل نہ ختمائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

کتنا مہنگا ہے عشق تیرا یہ تو کسی نے بتایا نہ تھا
ہو جائیں گے زندہ درگور کوئی اس لئے میں آ نہ تھا

دن رات روتے رہیں گے میں نے اتنا جرم کمایا نہ تھا
جرم ہے تیرے عشق کا جو میری سمجھ میں آیا نہ تھا

عشق کی آگ جلا کے عشق کو رلائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

ہو گئے قیدی ہم جبلوں کے اک دلدار کی خاطر
پی رہے ہیں خون جگر ان دیکھے دربار کی خاطر

سولی پہ لٹکے گئے عشق کی تار کی خاطر
جان بھی نہ نکلے اک تیرے دیدار کی خاطر

روح کو ادھر بھی چین نہ آئے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں

*******

جس ذکر سے دھڑکے نہ دل وہ ذکر کیا
گر آنکھوں سے نکلیں نہ آنسو وہ فکر کیا

دیدار نور ہو نہ میسر وہ شکر کیا
مر نہ جائے تیرے عشق میں خاکی وہ بشر کیا

پہچان نہ سکے جو حق و باطل کو وہ نظر کیا
زندگی گزاری تیرے امتحانوں میں اور صبر کیا

غاروں میں پگھلتے رہے اب خوف قبر کیا
عشق میں عقل ہی نہ رہا پھر حساب حشر کیا

کتنی انمول تھی یہ زندگی جو مدت تک حیوانی میں گزری
پتہ نہ تھا راہ و منزل کا جو بھی گزری پریشانی میں گزری

نفس کی خدمت کرتے رہے دن رات تھی شیطانی میں گزری
کتنے ہوتے ہیں خوش نصیب وہ لوگ جنکی عمر ذکر سلطانی میں گزری

*******

گوھر گر ہر سانس سے نکلے نہ اللہ ھو وہ عبادت کیا
جھک نہ پڑے ریاضتوں کی وہ ریاضت کیا

گھسیٹتا رہے نفس دنیا میں وہ آدمیت کیا
بسا نہ سکے گر دل پہ کعبہ وہ انسانیت کیا

بس جائے جس دل میں کعبہ وہ ملائکوں کا سجدہ گاہ ہے
ہوتا ہے اسی کا عرش پہ ٹھکانہ وہی تو عید گاہ ہے

اسی کی جنبش سے ہلتا ہے عرش معلی وہی اسرار گاہ ہے
جس نے پایا گر نہ یہ رتبہ وہی خام نگاہ ہے

اے دل تو انجانوں کو محرم راز نہ بنا
ان عاقلوں کو یہ بھید نہ سنا

پا نہ سکے اس راز کو عیب کی نظر نہ لگا
یہ تو دل کا سودا ہے ہے جو نصیب اولیاء

*******

نماز و روزوں سے ملتا نہیں یہ ہر گز خام خیالوں کو
چلوں اور وظیفوں سے بھی ملتا نہیں یہ ناسوتی پیالوں کو

دینی پڑتی ہے قربانی مال و جان کی اس راہ پہ چلنے والوں کو
پھر بھی قسمت سے ملتا ہے یہ سودا ان صابرین جیالوں کو

لکھ دل پر اللہ ھو تصور سے سبق سیکھ جلالیت کا
پھر لکھ سینے پر محمدؐ بسا یہ بھی نقطہ جمالیت کا

دل ہو گا تب صدق آئے گا مزہ پھر شریعت کا
ورنہ نہیں ہے ثبوت کچھ تیری نمازوں کی قبولیت کا

*******

پہن کر چوغے و کلاوے فقیر بن گئے تو کیا
پڑھ کر تصوف پیر بن گئے تو کیا

کر کے یاد حدیث فقہ مُلاّ بے تقدیر بن گئے تو کیا
عمل نہ کیا فرعون بے تقصیر بن گئے تو کیا

اسلام عمل سے ہے زبانی قیل و قال نہیں
مریدوں کا کیا پیروں کا بھی کچھ حال نہیں

ڈھونڈ لیں کسی کامل کو اتنی تو مجال نہیں
کر رہے ہیں اسلام کے ٹکڑے اتنا خیال نہیں

دعویٰ پھر بھی ہے ان کو اللہ سے رسائی کا
رہزن بنے بیٹھے ہیں رستہ دکھاتے ہیں شناسائی کا

خود تو بے خبر ہیں پیالہ پلاتے ہیں اولیائی کا
آیا جو ان کے شکنجے لگ گیا ٹیکہ شیطان کبریائی کا

*******

کر کے حج کئی دل قابو میں نہ آیا تو کیا مزہ
پڑھ کے قرآن بھی کچھ عمل میں نہ آیا تو کیا مزہ

کھا کے طمانچہ بھی ہوش میں نہ آیا تو کیا مزہ
پہنچ کر قبر میں بھی فتنوں سے باز نہ آیا تو کیا مزہ

رکھ کے داڑھی عیب چھپایا تو کیا مزہ
رگڑ کر ماتھا مُلاّ کہلایا تو کیا مزہ

کھا کے زہر گر پچھتایا تو کیا مزہ
لٹا کے جوانی خدا یاد آیا تو کیا مزہ

ہو گیا جب دل دو ٹکڑے اس کا جڑ جانا کیا
ہو جائے چھید گر بوتل میں اس کا بھر جانا کیا

ہو گیا بند جب در توبہ پھر دامن پھیلانا کیا
کیا کچھ نہ عمل خالی ہاتھ ادھر جانا کیا

ادھر تو جاتے ہیں اعمال اپنے بے عملوں کی جا نہیں
پاتے ہیں سزا اعمال گندے کس کو یہ پتہ نہیں

پڑھ کے کلمہ بن بیٹھے امتی امتی ہونا سستا نہیں
خواب میں بھی نہ ہو سکے دیدار مصطفی امتی بنتا نہیں

فرض ہے تیرا پیارے محمدؐ کو اک بار تو دیکھ
علم سے دیکھ عمل سے دیکھ سوتے یا بیدار دیکھ

سمجھ میں نہ آئے گر یہ بات کوئی کامل شب بیدار دیکھ
پڑھ علم دیدار اس سے پھر دیدار ہی دیدار دیکھ

آزمایا نہ جس نے پیر کو خود ہی آزمایا گیا
ملا گر نفسی مرشد ایمان کا صفایا گیا

رکھ کے تکیہ مرشد پر بیٹھے رہے وقت سارا ضائع گیا
کہ ہوتے ہیں جن کے خام مرشد ابلیس کے ہاتھ آیا گیا

*******

ہو گئی کمر کبڑی تیری درجہ عبادت نہ ملا
مارے گئے اندھیرے میں درجہ شہادت نہ ملا

بھٹکتے رہے دربدر کمرۂ عدالت نہ ملا
ملا نہ رستہ ہرگز کہ باحضور باارادت نہ ملا

شریعت ہے فرضِ اوّلین اسی سے زندگی بنتی ہے
پھر شریعت تیل ہے طریقت کا جس سے گاڑی چلتی ہے

اسی کے دم سے حقیقت و معرفت کی رحمت برستی ہے
کہتے ہیں جنیدؒ بے شرع پر ابلیس کی جھلک ٹپکتی ہے

معافی ہے شریعت کی اس وقت جب دیدارِ اللہ ہو جائے
اسکی ہر بات اللہ ہر نظر اللہ گھربار اللہ ہو جائے

نظر سے بن جائے مٹی سونا زبان کھولے انتظار اللہ ہو جائے
ہوتا ہے پارس وہی جس کو رگڑے خریدار اللہ ہو جائے

ہوتا ہے وہی دنیا میں نائب اللہ کا چاہے شاہ کو گدا کر دے
جہاں بھی چاہے بلا لے ملائکوں کو چاہے جس کو تباہ کر دے

اسے کیا اہمیت نیک و بد کی چاہے جس کو باخدا کر دے
اسے کیا ضرورت سجدے کی جو روبرو جا کے سجدہ کر دے

یہ تو وہ صدی ہے جہلا بھی علماء بنے بیٹھے ہیں
جسم پر چیتھڑے چل رہی جوئیں اور باخدا بنے بیٹھے ہیں

بہت ہیں ایسے بھی عالمِ سُو جو اولیاء بنے بیٹھے ہیں
یہ تو وہی فرعون ہیں جو خدا بنے بیٹھے ہیں

نہ اٹھا پردہ کہ یہی دورِ یزید ہے
سنبھل جائے یہ مسلم تجھے کیسے امید ہے

پا جائے اسرارِ حق اسکی عقل سے بعید ہے
دلوں پہ لگا کے قفل نفس کا مرید ہے

حُبِ دنیا لذّت دنیا نفس کی یہ غذا ہے
مقام ہے اس کا عالم ناسوت جنّات سے اس کا رشتہ ہے

نور قرآن نور عرفان یہ دل کی غذا ہے
مقام ہے اس کا عالم ملکوت فرشتوں سے اس کا تعلقہ ہے

گر دل کو برباد کیا تو نفس کو شاد کیا
گر نفس کو برباد کیا تو دل کو آباد کیا

پھولا پھالا دل تو روح کو پھر پاک کیا
روح پہنچی عالم جبروت میں جب سینہ چاک کیا

*******

دلوں میں شیطان بسا کے پھر بھی ہے دعویٰ ایمان اللہ
ہو رہی دختر پروشی ادھرِ ادھر سہارا قرآن اللہ

چمگادڑ بنے بیٹھے ہیں پھر بھی تکیہ کہ ہے رحمن اللہ
دنیا کو دھوکہ خدا کو بھی سمجھے ہے شاید انجان اللہ

تکیہ ہے اس کی رحمانی کا نادانوں کو یہ پتہ نہیں
وہ تو قہار ہی قہار ہے جب تک اس کے آگے جھکا نہیں

تجھے کیا خبر اس کی غفّاری کی جب اس راہ پہ چلا نہیں
جائے تو جنت میں یا جہنم میں اسے کچھ پرواہ نہیں

جب منہ موڑا ادھر سے سچ کہا دہریوں نے خدا نہیں
کیسا سمیع و بصیر ہے کچھ بھی سنتا نہیں

قریب ہے شاہرگ کے اسے کچھ بھی پتہ نہیں
بیزار ہوئے محمدؐ کاش تو نے پایا وہ رستہ نہیں

گر جھک جائے تو ادھر تجھ میں اور مجھ میں پردہ کیا
پہنچا جب میرے نشیمن میں پھر میں کیا اور خدا کیا

فَاذْکُرُوْنِی اَذْکُرُکُمْ پھر تجھے اور تمنّا کیا
تب ہی پوچھے گا خدا اے بندے تیری رضا کیا

*******

اے بندے سمجھ تو کیوں ہوا دنیا میں ظہور تیرا
تو وہ عظیم تر ہے خدا بھی ہوا مشکور تیرا

عش عش کرتے ہیں کروّبیاں دیکھتے ہیں جب شکستہ صدور تیرا
فخر ہوتا ہے اللہ کو بنتا ہے جب جسم سراپا نور تیرا

کہتے ہیں پھر اللہ اے ملائیکو میرے بندے کی شان دیکھو
ہوا تھا جسں پہ انکار سجدہ اب اس کا ایمان دیکھو

جنبش پہ ہے جس کا دل ایک سرا ادھر ایک لامکاں دیکھو
ناز ہے تم کو بھی عبادت کا مگر عبادت قلب انسان دیکھو

کاش تو شیطان تو نہ تھا جو شیطان ہوا
آیا اللہ کے امتحانوں میں تو بے ایمان ہوا

پڑا ہوس دنیا کے چکر میں تو بے عرفان ہوا
تو وہ چمکتا ہوا ستارہ تھا جو بے نشان ہوا

( نوٹ: مشکور سریانی میں دوست کو بولتے ہیں )

*******

گیا تھا بیرون ممالک کہ آ کے بنگلے بنائیں گے
بڑی محنت سے کام کیا ورنہ سبھی طعنے بنائیں گے

گئے گر خالی ہاتھ ادھر نبیؐ کو کیا منہ دکھائیں گے
مانگیں گے وہ تحفہ کچھ ہم کیسے نظریں اٹھائیں گے

پچھتائیں گے پھر وہ بھی جو تھے نہ پچھتانے والے
ہو گی ان کو بھی ندامت تھے جو حلوے دنبے کھانے والے

پوچھا جائے گا ان سے بھی تھے جو بے تاج حکومت چلانے والے
ہوئی گر سفارش اعمالوں کے سوا ہوں گے حق پر سر کٹانے والے

اُدھر حسب نسب چلتا نہیں اُدھر تو میزان ہے
اُدھر سیّد قریشی کی کیا پرواہ جو تارکِ قرآن ہے
اہل حرفہ اہل سیاست سبھی کے لئے اک فرمان ہے
تھا جو بھی اس کی یاد سے غافل وہی حیوان ہے

ہوا حیوان جب تو زنجیر لازم ہو گئی
نہ دیکھا گوشت و پوست کو تکبیر لازم ہو گئی

نہ دیکھا اس کا رتبہ شاہی تقدیر لازم ہو گئی
بچا نہ سکے گا کوئی جب تحریر لازم ہو گئی

*******

چھوڑ کے خیال دنیا کا دنیا والوں سے جی بہلانا کیا
پڑیں جہاں ایمان پر چھینٹیں اس کوچے سے گزر جانا کیا

ملا نہ کوئی محرم دلِ انجانوں کو حال سنانا کیا
مر گئے زندگی میں ایک بار اب جینا کیا مر جانا کیا

وہ قلب ہی نہ رہا تن میں پھر طلعت کیا بیگانہ کیا
ہر دم رہے زبان پہ تو ہی تو کملا کیا دیوانہ کیا

جل رہے ہیں جب عشق میں ہم کو اور ستانا کیا
دے کر دیدار دیکھ ہوتی ہے شمع کیا پروانہ کیا

*******

اوّل سے ہی اللہ ہم کو آزماتا رہا
اور خلقت میں بھی نشانہ ملامت بناتا رہا

کیا کوئی بھی دھندا دھندے کو بھی رُلاتا رہا
کیا خبر تھی ہم میں صبر و تحمّل بناتا رہا

دیں اتنی ٹھوکریں کہ زندگی سے بیزار ہوئے
چھوڑ کے بال بچّے اس دنیا سے فرار ہوئے

بنایا بسیرا پھر پہاڑوں میں اور تلاش یار ہوئے
بہت ہی مغلوب تھے ہم جو آج شکن حصار ہوئے

*******

کر لے جب بھی توبہ وہ منظور ہوتی ہے
بندہ بشر ہے جس سے غلطی ضرور ہوتی ہے

کہتے ہیں موسیؑ ٰ اللہ کو وہی عبادت محبوب ہوتی ہے
جس میں گناہ گاروں کی گریہ زاری خوب ہوتی ہے

شکر ہے پروردگار تیرا اس عاصی پر فضل کیا
نکالا دنیا کے کیچڑ سے آشیانہ بہ جبل کیا

ہدایت دے کر قرآن و عرفان کی روانہ بہ منزل کیا
وہ بھی تو ہیں بے نصیب جن کے دلوں کو تو نے قفل کیا

قفلوں والے کریں گے کیسے یقین ہم پر
کہ ہو چکا ہے اتنا مہربان رب العالمین ہم پر

کھول چکا ہے اسرار حور و نازنین ہم پر
کہ بس رہا ہے جُسہ توفیقِ الٰہی زمین ہم پر

حق و نور کی روشنی جب آنکھوں میں آئی
چودہ طبق نظر آئے جیسے اک رائی
اک سے اک کا فاصلہ اتنا چھوٹی سی کھائی
واہ رے نادان نادانوں کو عجب کہانی سنائی

*******

سن اے انجان جس طرح زر و مال کی زکوٰۃ ہوتی ہے
عامل کامل پر بھی واجب یہ بات ہوتی ہے

حق کریں ادا دنیا میں گمنام یہ تو مشکلات ہوتی ہے
برزخ سے آکر کرتے ہیں حق ادا جن پر حاضرات ہوتی ہے

پڑھ کے کلام ہمارا شائد تو بھی ہوش میں آئے
یہ بھی ممکن ہے جو ہوش ہے اس سے بھی جائے

اس کو سمجھیں گے عام کیا خاص کی بھی سمجھ میں نہ آئے
ابھی بھی چھپایا ہے بہت کچھ طعنہ خود فروشی نہ مل جائے

کھولا ہے راز اس لئے حق و باطل کی تمیز کر
کھول آنکھیں اپنی اپنے اندر پیدا یہ چیز کر

یہی ہے مسلم کی وراثت کیوں نہ اس کو عزیز کر
نہ رکھ خیال عالمانہ عمل و یقین بر قلم ناچیز کر

ڈھونڈ کسی پارس کو کہ تو بھی سونا بن جائے
ایسا نہ ہو کہ زندگی تیری رونا بن جائے

گیا وقت یہ بھی پھر کانٹوں کا نہ بچھونا بن جائے
ڈر ہے یہ بھی کسی ناقص کا نہ کھلونا بن جائے

*******

دے رہے ہیں لعنتیں یاران نبیؐ کو ہیں یہ بھی پیر والے
رابعہ بصریؒ پر بھی کستے ہیں آوازیں کچھ شیطانی زنجیر والے

کچھ غوث پاک کو نہیں مانتے ہیں دید و شنید والے
مومن و ولی بنے بیٹھے ہیں یہی ہیں دراصل یزید والے

بھنگ چرس افیون ان کا ایمان ہے
راہبر ہے وہ بھی فارغ سنت و قرآن ہے

حضرت علیؓ کو اﷲ بنا بیٹھے یہی ان کا ذکر زبان ہے
منافق ہے ان کی نظروں میں باقی جو بھی مسلمان ہے

کچھ احمدی بھی ہیں پرویزی بھی نہ جانے کیا کیا
جو بھی بنتا ہے فرقہ وہی ہوتا ہے سنت سے جدا

ان کی چال نئی جماعت نئی اور انداز نیا
نہ سمجھ سکے گا انجان تو کون ہے کیا اور کون کیا

ہم نے تفصیل لکھ دی ان کو آزمانے کے بعد
پائی ہم نے یہ راہ گھربار لٹانے کے بعد

تو بھی پا لے گا کچھ نہ کچھ ٹھوکریں کھانے کے بعد
سیکھا نہ گر یہ سبق پچھتائے گا مر جانے کے بعد

*******

یہ راز چھپا کر کریں گے کیا اب تو دنیا فانی ہے
انتظار تھا جس قیامت کا عنقریب آنی ہے

دجال و رجال پیدا ہو چکے یہ بھی اک نشانی ہے
ظاہر ہونے والا ہے مہدی بھی یہی راز سلطانی ہے

پڑھ کر علم عمل نہ کیا تو عالمیت کیا
کر کے عمل پارس نہ پکڑا تو قابلیت کیا

مل گئے دونوں آزمایا نہ تو صلاحیت کیا
پا نہ سکا پھر بھی خدا کو تیری اصلیت کیا

گر چالیس سال عمر ہوئی ابلیس نے بھی منہ موڑ دیا
پوچھا ابلیس سے کیا قصور کہ تو نے دل توڑ دیا

کہنے لگا کیا ضرورت میری تجھے ہی ابلیس بنا کے چھوڑ دیا
چل نہ سکے گا عمل تجھ پر کہ سارا عمل نچوڑ دیا

لے کر بھید میرا گر کچھ نہ پایا دعویٰ نہ رکھنا مسلمانی کا
ڈھانچہ تو ہے انسانی تیرا روح نہ پایا انسانی کا
جھکڑا ہے زنجیروں سے جسم تیرا غلبہ ہے جس پر شیطانی کا
کیا عجب دل پر بھی لگا ہو قفل تیرے قہر سلطانی کا

*******

نماز بھی پڑھا دی مولانا نے قرآن پڑھنا بھی سکھا دیا
کلمے بھی پڑھائے حدیثیں بھی بہت کچھ مغز میں بٹھا دیا

بتا نہ سکا دل کا رستہ باقی سب کچھ پڑھا دیا
یہی ایک خامی تھی ابلیس نے سب کچھ جلا دیا

کرتا ہے ذکر زبان سے پڑتا ہے جب در ریاضت آدمی
پڑھتا ہے نفل و تہجد آتا ہے پھر در نزاکت آدمی

پکڑتا ہے خناس دل کو اثر نہیں کرتی عبادت آدمی
ہنستا ہے پاس کھڑا ابلیس دیکھ کر حالت آدمی

کر رہا ہے اﷲ اﷲ دل کو کچھ خبر نہیں
ماتھا بھی گھس گیا سجدوں میں مگر کچھ اثر نہیں

ہو گئے پھر باغی اتنی محنت سے بھی پاک ہوا صدر نہیں
یہ نہ سمجھ سکے دل پہنچتا ہے عرش پر بشر نہیں

چھوڑ عبادت ایسی پہلے دل کو صاف کر
لگا کے ٹیکہ نوری نفس کو بھی پاک کر

لکھ دل پر اسم اﷲ انگلی کو قلم خیال کر
آئے جب نظر قلب پہ اسم اﷲ پھر عبادت بے باک کر

پھر ناف پر بھی تصور سے اسم اﷲ جما
کر کے مشق یہ نفس کو بھی مطمئنہ بنا

پھر ہاتھوں پر لکھ ماتھے پر بھی تصور بنا
آنکھوں پہ لکھ کانوں پہ لکھ ناک کو بھی اس میں سما

لکھا جائے گا اک دن تصور سے یہ ضرور
ہو جائے گا ذکر قلب بھی جاری گر کر لے منظور

اسی سے ہو گا حاصل تجھے ذاتی نور
یہی ہے وسیلہ ولیوں کا یہی راہ حضور
*******

آخر جب پھینک کر آئیں گے گھر والے قبر میں تجھ کو
آئیں گے فرشتے سوال کرنے ہوں گے ششدر دیکھ کر تجھ کو

دیکھ کر تاباں اسم اﷲ ماتھے پر دیں گے صدا تجھ کو
جرأت نہیں ہے کچھ پوچھنے کی پھر شاید دے تو دُعا مجھ کو

ہوتا ہے مومن ہوتا ہے جب ذکر قلب جاری
اتنا مشکل تو نہیں ہے گر تو سمجھ نہ بیٹھے بھاری

کرے گر مشق اس کی ثابت ہو تجھ پہ بات ہماری
وگرنہ اے پیارے رگڑتا رہ بے راہر و عمر ساری

آیا جب مسلم کے گھر میں تو اک انسان ہوا
چلا جب دین پر دل سے تو وہ مسلمان ہوا

مومن بنا جب تب اس پہ واجب قرآن ہوا
ورنہ نہیں ہے خبر کچھ یزید ہوا کہ ہامان ہوا

*******

ابلیس سے بچائے مشکل نہیں مگر آدمی ہے امتحان کا
مقابلہ ہے اس کا فرشتوں سے قصہ نہیں یہ زبان کا

اس کا ڈھانچہ اک بوتل ہے بند ہے علم جس میں کون و مکاں کا
بند ہیں اس میں نو جُسّے سات لطیفے بھید ہے یہ قرآن کا

یہ جُسّے جسم میں تیرے ہیں پیوستہ اور روحیں بھی پیوستہ
دیکھ نہ سکے تو ان کو یہی ہے تجھ پہ شیطان کا پردہ

ان کی تربیت تیرے ذمہ ورنہ تو بھی جہل وہ بھی جہلا
تربیت سے نکلتے ہیں جب وجود سے تب ہوتا ہے آدمی باخدا

ایک تو لطیفہ قلب ہے جو نکلے تو عرش سے جا ٹکرائے
دوسرا ہے جُسہّ نفس وہ بھی آدمی کو طیر سیر کرائے

لطیفہ اناّ و خفی بھی ہیں میلوں آدمیوں سے بات کرائے
ملے جب اتنے غیبی لشکر تب ہی آدمی اشرف البشر کہلائے

*******

آ جائے بشر گر تکبیر میں اس کو سمجھا سکتا ہے کون
آ جائے گر ضد پہ اس کو بچا سکتا ہے کون

ہو جائے گر نفس کا قیدی تو اس کو چھڑا سکتا ہے کون
مگر ہو جائے گر اللہ کا تو اس کو مٹا سکتا ہے کون

تو وہ عظیم ہے کہ یہ کون و مکاں بھی تیرے ہوئے
ہوا جب کوہ و پیما زمین و آسماں بھی تیرے ہوئے

پھر بنا گر شہباز لامکانی چودہ جہاں بھی تیرے ہوئے
پڑی دعوت گر زبان قلب سے حوریں کیا کروبیاں بھی تیرے ہوئے

بتاؤں کیا زبان قلب ہے کیا یہ تو لمبا ساز ہے
کیا جانے تو تیرے اس ڈھانچے میں کیا کیا راز ہے

دعوت ہے کیا روحوں اور ملائکوں کو بلانے کی آواز ہے
ہوتا ہے جب عمل دعوت میں کامل بندہ نہیں بندہ نواز ہے

نکلتے ہیں جب جُسّے جسم سے ڈھونڈتے ہیں اپنی تربیت گاہ
سالک سے ہمکلام بھی ہوتے ہیں جس طرح سالک کی شکل و شبہاہ
باطن میں ان کے سکول ہیں ان کی تعلیم جدا زبان جدا
ہوتا ہے کوئی فرش پر عرش پر کوئی کعبے میں کوئی روئے خدا

یہ درجہ پایا تو نے گر مقدر سے پائے گا
کری کوشش گر کچھ نہ کچھ تو ہاتھ آئے گا

مارا گیا اس راہ میں درجہ شہادت تو پائے گا
ورنہ اے بندے وہاں جا کر کیسے گردن اٹھائے گا

اُدھر یہ تو پوچھتے نہیں یہ کرکٹ کا کھلاڑی تھا
کرنل تھا جرنل تھا یا وزن اس کا بھاری تھا

ادیب تھا شاعر تھا مُلّا تھا یا بخاری تھا
دیکھیں گے یہی کتنا نور اس کا جاری تھا

نفس کی تو پرورش کرتا رہا جو شیطان لعین تھا
پایا نہ کچھ قرآن سے جو تیرا فرض اوّلین تھا

فکر مال چکر ذال میں الجھا رہا یہ تو امتحان یقین تھا
اب ڈھونڈتا ہے پروانہ شفاعت کیا تو نہ مسلمین تھا
*******

مسجدوں کی جگہ مے خانے بنائے
لگا کر عَلَم زنا خانے بنائے

لٹکا کر تسبیحاں چہرے معصومانے بنائے
بنے اولیاء کہ کھانے پینے کے بہانے بنائے

یہ دھوکہ اﷲ سے نہیں خود کو دھوکہ دیا
واہ رہے بندے نفس کی خاطر تو نے کیا کچھ کیا

*******

پوچھا موسٰیؑ نے اﷲ سے تجھے کوئی پائے تو پائے کہاں
میں آتا ہوں طور پر وہ جائے تو جائے کہاں

گر ہو کوئی مشرق میں پیدا تو وہ طور بنائے کہاں
آئی آواز ہوتا ہوں ذاکر کے قلب میں زمیں پہ ہو یا آسماں

پھر کہا اﷲ نے میں ناراض ہوں تجھ سے اے موسٰیؑ
میں کل بیمار تھا تو دیکھنے تک نہ آیا

کہا موسٰیؑ نے ہوتا ہے بیمار تو یہ انداز کیا راز کیا
بیمار تھا تیرے محلے میں ذاکر قلبی کیا میں اس میں نہ تھا

پھر کہا موسٰیؑ نے گھس گئے پاؤں میرے اب تو جلوہ دیکھا
یہ راز نہ کھل سکے گا محمدؐ اور اس کی اُمت کے سوا

آئے پھر ضد پہ موسٰیؑ وہ بھی انسان ہوں گے میری طرح
پڑی جب جھلک نور کی موسٰیؑ جلے طور جلا

کتنا خوش نصیب ہے تو کہ امت محمدؐ سے ہوا
کر دیدار خواب میں مراقبے میں یہ روبرُو یہ درجہ تجھے ملا

کل نبی و مرسل ترستے رہے زندگی میں یہ راز نہ ملا
یہ تو وہی راز ہے جس کا میں نے کھل کر ذکر کیا

کہا نبی پاکؐ نے سید پشت حضورؐ سے نکلا
گر کوئی عالم باعمل نکلا تو میرے سینہ ظہور سے نکلا

پایا کسی نے مقام فقر میرے اور اﷲ کے نور سے نکلا
گر ہوا غرق راہ حق میں وہ میرے منشور سے نکلا

کر کے محنت کچھ نہ ملا وہ بھی میری نظور سے نکلا
آیا پاک و صاف ہو کر ادھر وہی راہ صدور سے نکلا

چلا جو بھی اﷲ کے عشق میں وہ بھی طور سے نکلا
شرط نہیں ہے کچھ کعبے سے نکلا یا دور سے نکلا

*******

کرے گا جب تصور دل پر اسم اﷲ تو زمین ہموار ہو گئی
لکھے گا کاتب جب نوری حروف سے پھر کھیتی تیار ہو گئی

پھر ڈالا گر مرشد نے نطفہ عجب بہار ہو گی
اس نطفے سے بنے گا طفل نوری جسکی پرورش زانوار ہو گی

نکلے گا جب بطن باطن سے عرصہ بعد یہ طفل نوری
اسی کو ہو گی حاصل پھر مجلس حضوری

ہو کے حضرت علیؓ کے حوالے کرے گا تعلیم پوری
پا کے تعلیم پھر ہو گی اس کی غوثی یا سلطانی منظوری

ملتا ہے لاکھوں میں ایک کو ہوتا ہے ان لطیفوں کے علاوہ
ہوتا ہے بیابان میں شیر باطنی گر اڑا تو شہباز کہلایا

خوراک ہے اس کی ذکر و فکر کنگرۂ عرش پر آشیانہ بنایا
اس میں ہوتی ہے طاقت اتنی جلے بغیر ہی روبرو ہو آیا

نظر آتا ہے کبھی یہ سالک کی صورت میں کبھی مرشد کی صورت میں
ہوتی ہے اس کی صورت جدا دکھاتا ہے جو بوقت ضرورت میں

سمجھ نہ بیٹھنا کہ تجھ سے کوئی خواب کہہ رہا ہوں
یا نشہ پی کر تجھ سے بے حساب کہہ رہا ہوں

کہانی ہے کسی زمانے کی یا قصہ کتاب کہہ رہا ہوں
جو بھی کہہ رہا ہوں نصاب در نصاب کہہ رہا ہوں

مرتا ہے آدمی چلی جاتی ہے روح عالم برزخ تک
یہی جُسّے ہو کے آدمی رہتے ہیں قبر تک

ناسوتیوں کے جُسّے مر جاتے ہیں عرصہ کچھ خبر نہیں
مرتے نہیں اﷲ والوں کے جُسّے حشر تک

وہ پھر قبروں سے نکل کر دنیا والوں کی امداد کرتے ہیں
پائیں کسی کو مصیبت میں تو اﷲ سے فریاد کرتے ہیں

کر رہے ہیں کام جُسّے ولیوں کے لوگ ولیوں کو یاد کرتے ہیں
آ جاتی ہے روح ولیوں کی بھی جب جُسّوں کو ارشاد کرتے ہیں

*******

ایک عالم آنے والی ایک ہے عالم جانے والی روحوں کا
جُسّوں کو ملتی ہے قبر میں روحوں کو ملتی ہے برزخ میں سزا

پکڑے گئے کہ وہ بھی تھے روحانی کے مشیر و آشنا
اس کو کون پوچھے تھا ڈھانچہ ہڈیوں کا جو گھل گیا

ملا تھا قطرہ نور کا کر کے ترقی لہر بن گیا
آئی طغیانی ٹکرایا بحر سے اور بحر بن گیا

نہ رہی تمیز من و تن کی دل تھا جو دہر بن گیا
بس گیا علم اس پہ اتنا کہ شہر بن گیا

اس نقطہ کی تلاش میں کتنے سکندر عمریں گنوا بیٹھے
خوش نصیبی میں تیری شک کیا گھر بیٹھے ہی یہ راز پا بیٹھے

کہا تھا خاقانی نے جب ہم بھی تیس سال رلا بیٹھے
ہوئے جب یکدم باخدا تخت سلیمانی بھی ٹھکرا بیٹھے

*******

یہی سوچ کر اﷲ نے آدمی بنایا تھا
اسی بے وفا کو پھر سجدہ بھی کرایا تھا

اسی کے لئے لوح و قلم بنایا تھا
مگر اس بے نصیب نے خود کو بھی نہ آزمایا تھا

نماز میں آئے گا نظر جب قلب پہ لکھا اسم اﷲ
بھول جائے گا تو اس وقت دنیا و مافیہا کو قسم اﷲ

کتنے دیئے سجدے رہے گا نہ یاد پا کے رسم اﷲ
پھر ہی ہوگی پرواز کی تیاری کر کے آغاز بسم اﷲ

ملے گا پھر ثبوت تجھے تیری عبادت کا قدم بہ قدم
دیکھ سکے گا پھر تو نور کی لہریں دم بہ دم

عجب نہیں کھل جائے راز مخفی بھی تجھ پہ پیہم
گر ہوش میں رہا پھر یاد آئیں گے تجھ کو ہم

بتایا ہے جو کچھ تجھ کو اس کو عمل اکسیر کہتے ہیں
پڑھتا ہے جب دعوت کوئی اس کو عمل تکسیر کہتے ہیں

آجائے رجعت میں اکسیر و تکسیر سے اس کو بے تقصیر کہتے ہیں
گر نہ پایا کچھ ان سے اس کو بے تقدیر کہتے ہیں

پڑا جس پہ لعنت کا طوق اسے ہی عزازیل کہتے ہیں
پھر خاکی کیا ناری کیا اسے ہی ذلیل کہتے ہیں

وہ صوفی کیا مفتی کیا اسے ہی بے دلیل کہتے ہیں
نکلا پھر زبان سے کچھ لفظ اسے ہی قال و قیل کہتے ہیں

دیکھے سزا گر سجیّن میں روحوں کی زندگی سے بیزار ہو جائے
پھٹ جائے دل تیرا خوف سے شاید مغز بھی بیکار ہو جائے

کھلے راز تجھ پہ آدمیت کا جب یہ دیدار ہو جائے
ڈھونڈ کسی کامل کو کر دیدار شاید پھر تو ہوشیار ہو جائے

بھٹک کے راہ پہ آیا وہ بھی انسان ہوا
ورنہ جانور ہے جو جمعیت پریشان ہوا

دیکھی نہ جس نے راہ قبور وہی انجان ہوا
قبر بھی کرے نہ اسے قبول جو بے اشنان ہوا

*******

روح بھی ایک دل بھی ایک نہیں فرق کچھ انسانوں میں
فرق ہے گر ان کی زبانوں میں اور ایمانوں میں

چلا جو ایمان پر پہنچا وہی خفیہ خزانوں میں
ورنہ اے بندے تو نہ انسانوں میں نہ حیوانوں میں

ہوتا ہے مقام تیرا فرشتوں سے اونچا کہ وہ ناز کریں
کبھی ہوتا ہے مقام تیرا شیاطین سے بھی نیچا کہ وہ عار کریں

کری جس سے شیطان نے بھی نفرت اسے کس نام سے پکار کریں
پھر بھی دعویٰ امتی کا اُف تیری عقل کیسے بیدار کریں

انسان افضل کتا ارذل گر کوئی نہ حقیر ہوتا
ہوتا گر مقابلہ کتے سے تیرا ہر کتا قطمیر ہوتا

دیکھتا گر کتے کو جنت میں تو کتنا شرم گیر ہوتا
سچ بتا تو بہتر ہوتا یا کتا بے نظیر ہوتا

ایسا کوئی کتا ہی نہیں جو مالک کی حفاظت نہ کرے
انسان ہی ہے سرکش جو خالق کی عبادت نہ کرے

نہ جھکائے سر کو قدموں میں نفس کو بھی ہدایت نہ کرے
پھر بھی گلہ ہم سے تیرا کہ ہماری شکایت نہ کرے

*******[

سورج چڑھا تو نکلا پیٹ کے جنجال میں
گھر آیا تو پھنسا بیوی کے جال میں

سویا تو وہ بھی بچوں کے خیال میں
عمر یوں ہی پہنچ گئی ستّر سال میں

ہوا جب کام سے نکمہ لیا دین کا آسرا
اب کہاں ہے خریدار تیرا بیٹھا جو حسن لٹا

بے شک کر ناز نخرے اور زلفوں کو سجا
وقت تھا جو تیرا وہ تو بیٹھا گنوا

کر کے ذکر چار دن بن گیا زنجہانی ہے
دھوکہ ہے تیری عقل کا جو ہو گئی پرانی ہے

اب کچھ توقع اﷲ سے یہ تیری نادانی ہے
قابل تو نہیں گر بخش دے اس کی مہربانی ہے

ڈوبنے لگا فرعون جب وہ بھی ایمان لے آیا تھا
کر کے دعویٰ خدائی وہ بھی پچھتایا تھا
کر لی توبہ آخر میں وہ وقت ہاتھ نہ آیا تھا
جس وقت کا قدرت نے بندے سے وعدہ فرمایا تھا

*******

ہر شجر با ثمر نہیں ہے ہر بوٹی با اثر نہیں ہے
ہر طفل بہ مکتب نہیں ہے ہر بندہ با شر نہیں ہے

ہر پتھر اصل نہیں ہے ہر فقر عطر نہیں ہے
فرق ہے تجھ میں سارا کہ تیری نظر نہیں ہے

شیشے کو تو ہیرا بنائے تو قصور کس کا
ان آنکھوں کا علاج نہ کرائے تو قصور کس کا

میری ان باتوں پہ یقین نہ آئے تو قصور کس کا
خود بھی کعبہ ڈھونڈنے نہ جائے تو قصور کس کا

*******

رکھ کے کفن سر پہ غاروں میں گھر بنائے بیٹھے ہیں
نہ چھیڑ ساقی ہم کو ہم تو جگر کھائے بیٹھے ہیں

نہیں ہے خوف مرنے کا ادھر ہی قبر بنائے بیٹھے ہیں
رکھ کے تکیہ اﷲ پر صبر میں آئے بیٹھے ہیں

نہ سمجھ ہم کو شرابی ہم تو زہر کھائے بیٹھے ہیں
رکھ کر خبر زمانے کی بھی اپنا آپ گنوائے بیٹھے ہیں

اس نازنین کا بھی اﷲ حافظ جو ہمارے حق میں آئے بیٹھے ہیں
قسم ہے رب تیری تیری خاطر سب کچھ بھلائے بیٹھے ہیں

خبر نہیں ہے ان کو ہم کیا راز پائے بیٹھے ہیں
کہاں ہیں کیا ہیں اور کیا حال بنائے بیٹھے ہیں

ہو چکا ہو گا ادھر ماتم میرا یہی سمجھ میں آئے بیٹھے ہیں
کیا خبر ان کو تیرے عشق کی قسم کھائے بیٹھے ہیں

لٹا ہی دی جوانی ہم نے آخر تیرے جبلوں میں
نفس کو مارا ہوس کو بھی ان کھبلوں میں
تھی جتنی بھی طاقت آزما دی ان صدموں میں
پھر بھی شبہ ہے تجھ کو میرے ان قدموں میں

*******

کر کے تمام یہ نقطہ عثمان مروندیؒ بھی شہباز ہوئے
شاہ لطیفؒ بھی بری امامؒ بنے باھوؒ بھی پرواز ہوئے

کر کے آغاز ہم بھی یہ دھندا واقف راز ہوئے
رہا تھا گلہ قسمت کا ہم کو جو آج سرفراز ہوئے

ناز تو ہے مگر منتظر دور و افتاد کے قابل نہ تھے
آ گئے اس کی قید میں جس صیاد کے قابل نہ تھے

چھوڑ آئے یتیم جن کو وہ بیداد کے قابل نہ تھے
رل گئیں وہ معصوم جانیں جو فریاد کے قابل نہ تھے

ڈھل گئے وہ سائے کنول کے جو برباد کے قابل نہ تھے
کیا ہے شکوہ ہم سے ہم ان کی یاد کے قابل نہ تھے

قابل نہ تھے ان کی زلفوں کے ہار و سنگار کے قابل نہ تھے
ڈالا ان کو اس پھاہی میں جس دیوار کے قابل نہ تھے

دن رات بہتے ہوں گے آنسو وہ زار و قطار کے قابل نہ تھے
کاش وہ بے داغ دل فراق یار کے قابل نہ تھے

*******

اِدھر تو سرفراز ہے اُدھر سارا جہاں لٹ گیا
تھیں جن کو وابستہ ہم سے امیدیں انکا سارا ارمان لٹ گیا

لٹ گئی ان کی بھی جوانی اور زمین و آسمان لٹ گیا
تھیں ان کے دل میں بھی تمنائیں بہت جن کا کارواں لٹ گیا

یاد نہ کر ماضی کو اے شکستہ دل جب نام و نشان مٹ گیا
کیا قصہ گل یاسمین کا جب وہ گلستان مٹ گیا

ملے گی تجھے کہاں سے وہ خُو جب وہ پرستان لٹ گیا
کیا ہے تعلقہ انسان سے انسان کا جب انسان مٹ گیا

*******
حقیقت کا نظارہ ان جبلوں اور بیابانوں میں ہے
جو دنیا کے مکتبوں میں ہے نہ عبادت خانوں میں ہے

اِدھر کائنات بھی ڈھلتی کارخانوں میں ہے
نہ ملا ایسا سکون کبھی جو ان زندانوں میں ہے

رہ کے بھوکے و ننگے خوش ہیں اسیری پر
سوتے ہیں پتھروں پر کہ مست ہیں فقیری پر

کھاتی ہے ترس دنیا دیکھ کے حال ظہیری پر
ہمیں تو رشک ہے ہو گئے قربان راہ شبیریؓ پر

راضی ہو نہ ہو ہم نے تو اپنا خون بہا دیا
جس کا گلہ تھا تجھے اس پہ ہم نے سر کٹا دیا

چیرا سینے کو انگلیوں سے اور تیرا کلمہ جما دیا
کر کے ٹکرے ٹکرے دل کے اس پہ کعبہ بسا دیا

مان نہ احسان تو ہم نے تو احسان چڑھا دیا
کہ جھکا ہوا تھا سر تیرے محبوب کا جو بلند کرا دیا
*******

خود کو کسی کے ذمہ کر تیرا ذمہ اٹھائے کوئی
بن کے ذمہ دار تیرا تجھے رستہ دکھائے کوئی

کاش میری ان باتوں کو بھی آزمائے کوئی
دین دنیا میں پھر ہرگز نہ دھوکہ کھائے کوئی

ہر عالم بے عمل نہیں ہے ہر بندہ بے عقل نہیں ہے
لٹکا کر داڑھیاں پھر رہے ہیں کئی ہر کوئی اصل نہیں ہے

پردے میں گھومتے ہیں شیطان بہت ہر کوئی بے شکل نہیں ہے
مگر آ جائے کچھ اس کی عقل میں یہ وہ نسل نہیں ہے

یہ تو وہ عمل ہے عاصیوں کو بھی مجیب مل جاتے ہیں
ہوتے ہیں جو بے نصیب انہیں بھی نصیب مل جاتے ہیں

نہیں ہے فرق خواندہ ناخواندگی کا کہ خطیب مل جاتے ہیں
ڈھونڈتی ہے دنیا جن کو ستاروں میں قریب مل جاتے ہیں

پارس بھی اسی میں کیمیا بھی اسی میں
وفا بھی حیا بھی شفا بھی اسی میں
رضا بھی بقا بھی لقا بھی اسی میں
خدا کی قسم خدا بھی اسی میں

*******

کر پرواز بسم اﷲ کہ تو طائر کمال بن جائے
مل جائیں گے صیاد کئی جب طائر حلال بنا جائے

چل جائے گی تکبیر زکوٰۃ کی گر تو جمال بن جائے
چڑھے نہ سورج جس کی خاطر شاید وہ بلالؓ بن جائے

نکل ناقصوں کے چکر سے کہ تو بھی نہ انگار بن جائے
رہ کے نزد خرمن شُعلۂ بجلی کا نہ شکار بن جائے

دیکھ کے انداز جھوٹے کہیں نہ ان کا ہتھیار بن جائے
عبرت لے کہ تو بھی عقل بیدار بن جائے

سن حال ان جھوٹے پیروں اور فقیروں کا اے نادان
پڑھ کے کتابیں سلوک و ملوک کی بن گئے جب رازداں

کسی نے داڑھی سجائی کسی نے زلفیں کھل گئی پیری کی دوکان
چلانے کے لئے دھندا لیا آسرا کھول بیٹھے قرآن

کوئی تقریر و تحریر سے کوئی عقل و تدبیر سے بن گیا خلق کا نشان
کسی نے منہ پہ چادر چڑھائی لگا لئے پیچھے چند انسان

کوئی دے کے روشنی بلب کی چہرے کو بن بیٹھا کرّوبیاں
کسی کو میسر یہ سہولت کہ تھے باپ دادا اس کے سلطان

لنگر بھی جاری کر دیا جو زمانہ شناس تھے
ہونے لگیں محفلیں پھر عام تھے یا خاص تھے

ہوا شہرت میں ایسے اضافہ سخاوت میں جو پاس تھے
ہو گئی حمایت ان کی بھی کہلاتے جو باس تھے

کوئی طالبی میں مصروف ہوا کوئی مریدی میں مقبول
ہو گئے پھر اس کنویں میں آ کے کئی چشمے حلول

سنی جب شہرت ابلیس نے ہو گیا وہ بھی نزول
سمایا ان کے سینوں میں بڑے سلیقے سے رکھ کے اصول

اب ڈھونڈ کر کوئی نقطہ تکمیل ہوئی
بنا کے فرقہ جدا نام کی تشکیل ہوئی

کمی کیا نادانوں کی جن کی تعمیل ہوئی
نکلا قوم کا جنازہ بگڑی جو اصیل ہوئی

گیا جو بھی اس کو طالبی کا رنگ دکھا دیا
کسی کو لگایا حبس دم پر کسی کو بھنگ پلا دیا

کسی کو بتایا کوئی وظیفہ کسی کو ملنگ بنا دیا
پہنچا سکیں گے کیا خاک کسی کو اک ڈھنگ سکھا دیا

آیا ان کے چنگل میں زندگی سے برباد ہوا
آیا جو بے راہ رجعت میں فریاد کیا بے فریاد ہوا

عمر گزاری پہاڑوں میں لا حاصل کتنا بیداد ہوا
آیا ہوش پھر جو استاد تھا بے استاد ہوا

ہم نے دیکھے ہیں طالب ایسے دشت و بیابانوں میں
کر رہے ہیں عمل پورا سیکھ کے آئے تھے جو دکانوں میں

آئی رجعت کوئی بیمار کوئی بے زار کوئی پڑے چنڈو خانوں میں
کوئی دیوانے کوئی مستانے کوئی ہو کے خوار مل گئے شیطانوں میں

*******

یہ تو حال ہے طالبوں کا سن لو مریدوں کا بھی حشر
دے جایا کرو سال و سال نذرانہ ہیں ہم نجات محشر

ہو سکے تو عمل کرو ورنہ کیا بیٹھے جو ہیں ہم وسیلۂ ظفر
کاش ان کو اپنی ہی خبر نہیں تیری کیا رکھیں گے خبر

ڈھونڈنا ہے پیر کو نہ دیکھ پدرم سلطان بود
یہ بھی نہ دیکھ گھوم گھام کر کہ شکل اُو انسان بود

اس کا بھی نہیں ہے یقین کہ تصنۂ مسلمان بود
کر یقین تب ہوں اس کے اعمال جیسے کروّبیاں بود

حریص نہ ہو نفس کا پجاری نہ ہو
اور نبیؐ کی سنت کا شکاری نہ ہو

جھلک ہو اس میں نور کی ناری نہ ہو
رکھ خبر کہ پریشان عمر ساری نہ ہو

واقف ہو راہ قبور حاصل جسے حضوری ہو
جس کی اک ہی نظر سے حاصل تجھے منظوری ہو

یاد کرے دور سے حاصل جسے صدوری ہو
ورنہ نہیں ہے سمجھ تیری منزل پوری یا ادھوری ہو

میسر نہ ہو گر ایسا انسان شافی
پھر تیرے لئے بس ہے قرآن کافی

یہی شفاعت تیری یہی نشان کافی
یہی راہبر تیرا اور یہی سلطان کافی

*******

ہم پر یقین کر نہ کر کر یقین علم اکسیر پر
کر بھروسہ قرآن پر پھر کر یقین علم تکسیر پر

گر ہے شک یا بغض و عناد کر ماتم اپنی تقدیر پر
کہ رہتے ہیں خالی وہ برتن ہوتے ہیں جو الٹے شہتیر پر

نفس کو نہ پہچانا جو ساتھ تھا تیرے بندۂ خدا کو کیا پہچانا
بندۂ خدا کو نہ پہچانا تو محمدؐ مصطفی کو کیا پہچانا

فناہ کو بقا کو لقا کو نہ پہچانا تو عشق خدا کو کیا پہچانا
پہچان نہ سکا جب ان منزلوں کو تو خدا کو کیا پہچانا

سچ ہے نفس نہ ہوتا تو یہ بازار جہان نہ ہوتا
نہ ہوتی حسن پرستی نہ ناز نخرے اور خریدار کفران نہ ہوتا

نہ آتے فرعون و قارون بھی مغلوں کا دسترخوان نہ ہوتا
نہ بنتی دوزخ نار ہرگز گر تیرا امتحان نہ ہوتا

بنایا تھا آدمؑ کو اﷲ نے پڑا تھا جب بت اِدھر
تھوکا تھا عزازیل نے حقارت سے پڑا تھا جو ناف پر
بن گیا وہ کیڑا باطنی لے کر حسد و تکبر
ہوا پیوست انسان سے پھر بسیرت کفر

*******

لے کر ساتھ مصاحبوں کو سکندر بھی تلاش آبِ حیات ہوے
کی عرض خضرؑ سے وہ بھی تیار در بحرِ ظلمات ہوے

پا کے اندھیرا بحر میں ہو گئے خضرؑ سے جدا
خضرؑ کو ڈھونڈا ادھر اُدھر نہ ملی کوئی راہ

آئے تھے ڈھونڈنے زندگی کو دکھایا موت نے نظارہ
ہو گئے مایوس و مجبور ہونے لگا ختم راشن سارا

بھٹک رہے تھے ہو کے پشیمان وہ بے خبر
پی کے پانی آبِ حیات کا آ گئے واپس بھی خضرؑ

ہوے رنجیدہ دیکھ کے حال بیچاروں کا خضرؑ
کہ پانی تو نہ ملا اٹھا لو پاؤں تلے ہیں جو پتھر

ہم تو تھکے ہارے ہیں رہا نہیں تم پر بھی یقین اے خضرؑ
تھے جن کے یقین محکم لیں پتھروں سے جھولیاں بھر

آئے جب روشنی میں دیکھا سب لعل و جواہر نکلے
ہوئی ندامت ان کو خضرؑ سے ہو کے بھی بیزار نکلے

یقین ہی تو کنجی ہے ایمان و عرفان سے
ہوتا نہیں ہے فائدہ بھی کچھ اس کے بغیر قرآن سے

آبِ حیات کیا تھا تھا عمل اکسیر شائد
بحر ظلمات کیا تھا تھا دنیا کا اسیر شائد

پیا جس نے بھی یہ پانی حیات و ممات برابر ہوے
یہ جہاں کیا وہ جہاں کیا چودہ طبقات برابر ہوے

*******

یہ جائے ارادت نہیں ہے اجازت ہے گر ایقان سے پکڑا
نہ ہاتھوں سے نہ باتوں سے یہ شعلہ ایمان سے پکڑا

ہو جائے گا قلب وہ روشن جس پہ آن گرا
ہو سکے گا واقف اسرار حق گر دھیان سے پکڑا

پائی شفا ہم نے آ کے اس شعلے کی لپیٹ میں
کہ یہ نقطہ مرشد سے اور نسخہ قرآن سے پکڑا

بن گئے شاہ محی الدینؒ بھی دادا میرے
چھوڑ کے خاندان اپنا یہ رشتہ عرفان سے پکڑا

ہم نے بھی گزاری تھی زندگی آغوش دنیا میں
آخر پکڑا جو نفس کو دل ناتواں سے پکڑا

سدھارا پھر اس موذی کو بڑے جتنوں سے
ہوا جب انسان پھر ہم کو گریبان سے پکڑا

رکھا تو نے عرصہ تک اس نعمت سے محروم کیوں
نفس ہم سے شاکی ہم نفس سے جب یہ نقطہ ادبستان سے پکڑا
ہو گئے پاک سب جُسے جل کے بت کے سوا
روٹھا بت جو جلنے سے اس کو قبرستان سے پکڑا

اب آنے لگی آواز ہر رگ سے اللہ ھو کی
کہ یہ سکون ہم نے کچھ زمین سے کچھ آسمان سے پکڑا

کیا بتاؤں تجھے کہ دل کی زندگی ہے کیا
ڈال کر کمند ہم نے اس کو کہکشاں سے پکڑا

بن بیٹھے آج ہم بھی طالب مولا لیکن
سلجھے تھے تب جب یہ رستہ اک انسان سے پکڑا

ہدایت ہے انسان کو انسان سے ہی اے کور چشم
کہ وسیلہ انسان نے انسان سے شیطان نے شیطان سے پکڑا

*******

پڑا ہے بت اِدھر لٹکی ہے جان اُدھر
دے رہے ہیں سجدے اِدھر وہم و گمان اُدھر

لکھتے ہیں سیاہی سے پڑتا ہے لہو کا نشان ادھر
بود و باش اس جنگل میں زندگی کا سامان ادھر

ٹپکے آنکھوں سے آنسو دو چار بن گئے دُرِّ تابان ادھر
پھڑکا جب دل کبوتر کی طرح ہو گئے فرشتے حیران ادھر

آگئے رشک میں کاش ہم بھی ہوتے انسان ادھر
یہ تو وہی خستہ حال تھا جو ہو گیا سینہ تان ادھر

کہا بت کو چل اس دنیا سے کہ بن گیا مکان ادھر
یہ تو اک دھوکہ تھا پڑا ہے جو بے سر و سامان ادھر

نکلی روح سیر کو یہ تو اک ڈھانچہ رہ گیا
نہ ہل سکا نہ جل اک بے بس سانچہ رہ گیا

چلے گئے بیچنے والے یہ تو خالی خوانچہ رہ گیا
تھا یہ بھی کچھ ان کے دم سے جو اک طمانچہ رہ گیا
نہ کر شبہ چور بھی اوتاد و اخیار بن بیٹھے
آئے جو پارس کے ہاتھوں خود ہی سرکار بن بیٹھے

مارا نفس کو اور حق کے خریدار بن بیٹھے
حق نے لیا گر سوکھے کانٹے بھی گلزار بن بیٹھے

*******

فقر میں جو بھی آیا پہلے تو معیوب ہوا
ملا نہ جب تک کچھ درجہ محجوب ہوا

پڑی تجلی گر ٹوٹا عقل تو مجذوب ہوا
گر رہا ثابت قدم اس وقت تو محبوب ہوا

آتا ہے جو بھی پہلے تو وہ بے کار ہوتا ہے
پڑتا ہے جب امتحانوں میں تو وہ خوار ہوتا ہے

گر چل پڑے بے طریقہ پھر وہ بیزار ہوتا ہے
ملتی ہے یہ منزل اسے جو شریعت میں ہوشیار ہوتا ہے

*******

آئے تھے جس طرح اسی پہ گزارہ کر بیٹھے
خریدا نہ سامان کچھ اک سہارا کر بیٹھے

لذت دنیا کو بنایا سامان آخرت بس
نفس کی تمنا میں مسجدوں سے کنارا کر بیٹھے

پوچھا آغا جی سے آتی ہے کوئی صلوٰۃ تمہیں
سمجھے نہ جس قرآن کو اس کا بگاڑا کر بیٹھے

پیٹ بھرنا خالی کرنا کام ہے ان کا اتنا
پوچھی جو مسجد کی بیت الخلا کا اشارہ کر بیٹھے

دل میں ہے یہی تکیہ کہ ہیں ہم مومن و مسلم
ہیں یہ بھولے جانور جو ہڈیوں کا نظارا کر بیٹھے

جی رہے ہیں دیکھ کے ہڈیوں کو جن میں تاثیر نہیں
سمجھیں گے کیا وہ درندے جو مذہب کا پھاڑا کر بیٹھے

جن کی آستینوں میں چھپا ہوا ہے ناگ عزازیلی
نہ چھیڑ ان سپیروں کو جو ماتم گوارا کر بیٹھے
ان کے کیا کہنے مُلّوں کا بھی کچھ حال نہیں ادھر
رہ کے نور خرمن میں خرمن کو انگارہ کر بیٹھے

کہاں سے ملے خوشبو اب ان مسجدوں سے
نمازی کیا مُلاّ بھی جہاں فتنوں پر گزارہ کر بیٹھے

نہیں رہی تاثیر قرآن میں بھی کہ بے زار ہے
جس کے معنوں کو الٹ پلٹ کر کھارا کر بیٹھے

سونپا تھا دین و گھر اللہ نے ان مُلاّؤں کو
یہ ڈوبے حلوے میں اور شیاطین ابھارا کر بیٹھے

کیا رہا شکوہ اللہ کو اس آدمیت سے
جو ہو کے آدمی فرعونیت میں شمارا کر بیٹھے

مسکینوں کی بھی عاجزی کچھ عجیب ہوئی
یہ بھوکے ننگے و پیاسے رب سے تکرارا کر بیٹھے

چھپ گئی کہکشاں بھی اس خاموش آسماں سے
تھے جو مصنوعی سیارے خود کو درخشاں ستارا کر بیٹھے
*******

اس زندگی سے گئے پایا جب سراغ زندگی
پایا پھر وسیلۂ ظفر مٹایا جب داغ زندگی

نکلے پھر دنیا کے اندھیرے سے جلایا جب چراغ زندگی
دھویا آنسوؤں سے قلب کو بسایا جب باغ زندگی

نکلا اس چمن سے طائر لاہوتی اور کیا نباض زندگی
ہوئے جب قبر و گھر یکساں اور کیا فیاض زندگی

زندگی میں ہی دیکھا یوم محشر اور کیا بیاض زندگی
پیا خون جگر خاطر حق اور کیا ریاض زندگی

*******

ہو کے ذبح خون عرش تک پہنچا تحت یثریٰ تک نہ پہنچا
کر کے پرواز یکدم یہ روح کعبے تک پہنچا خدا تک نہ پہنچا

نہیں ہے دل کو تسکین اے ریاض فنا تک پہنچا التجا تک نہ پہنچا
پی کے پانی آب حیات کا بھی قضا تک پہنچا بقا تک نہ پہنچا

ہیں یہ طریقت کے گرداب لمبے ثنا تک پہنچا شنا تک نہ پہنچا
سچ تو یہی ہے تیری سزا تک پہنچا سخا تک نہ پہنچا

نہیں ہے منظور بہشت تیری یہاں بھی تیری بقا تک نہ پہنچا
کیا دلچسپی حور و قصور سے جب یہ دل شفا تک نہ پہنچا

*******

آتے رہیں گے غوث و قطب ہے جب تک یہ جہاں باقی
مٹ نہ سکے گا یہ کارواں ہے جب تک قرآن باقی

رہتے ہیں ہر وقت تین سو ساٹھ یہ اولیاء اللہ
ان ہی کے دم سے ہے اس دنیا میں ایمان باقی

ابدال اوتاد اخیار زنجبا و نقبا بھی ہیں
ان کے ہاتھوں میں ہے اس دنیا کا اجرائے فرمان باقی

یہی ہیں دنیا کا نظام چلانے والے دراصل
ان ہی کی برکتوں سے ہے مہیا قدرت کا احسان باقی

گر ہو زیادتی مجذوبوں کی رہتا ہے دنیا میں فساد جھگڑا
گر آ جائیں سالک پھر رہتا ہے دنیا میں امن و امان باقی

اکٹھے ہوتے ہیں کعبے میں یہ سارے موقع حج پر
آتے نہیں نظر ماسویٰ ہے جن کی نگاہ عیاں باقی

ہے یہ محکمہ باطنی رسولؐ کریم کی پولیس کا
رہتے ہیں انکے علاوہ بھی کئی عاشقان رحٰمن باقی

قسم ہے گر یہ دنیا ہو جائے محروم ان کے قدموں سے
بن جائیں جبلات دھواں نہ رہے اس زمین کا نشان باقی

*******

ہوئی سالاری شمرے کی ہوا پھر نبض مسلمان کو بھی خطرہ
بن گئیں مسجدیں فیشن ایبل ہوا ان کے ایمان کو بھی خطرہ

آگئے پھر خطیب ماڈرن ہوا قرآن کو بھی خطرہ
آگیا گر مہدی کوئی ہوا اس کی جان کو بھی خطرہ

لگ گئے عَلم چنڈوخانوں پر ہوا حسینی نشان کو بھی خطرہ
آئی صدی کیسی ہوا مسلمان سے مسلمان کو بھی خطرہ

کر گئی سائنس ترقی ہوا زمین سے آسمان کو بھی خطرہ
منٹوں میں بدل گئی تقدیریں ہوا خلقت سے سلطان کو بھی خطرہ

چپے چپے پہ راہزن دین کے ہوا نبی کی شان کو بھی خطرہ
نہ لکھ بے دھڑک اے گوھر شاہی ہوا تجھ انجان کو بھی خطرہ

آگئے نشیلے مریض ہوا طبیب کی دوکان کو بھی خطرہ
ہوئے لٹیرے قاضی بھی ہوا امن و امان کو بھی خطرہ

چڑھائی عینک علم کے اندھوں نے ہوا حدیث و قرآن کو بھی خطرہ
بن گئے طبیب پڑھ کر قصے ہوا حکمت لقمان کو بھی خطرہ

دینے لگیں بانگیں مرغیاں ہوا مرغے کی کمان کو بھی خطرہ
ٹوٹنے لگے عہد و پیما ہوا عالموں کی زبان کو بھی خطرہ

بن گئے رسے ریت کے ہوا جادہ پیماؤں کی پروان کو بھی خطرہ
آئی نئی مشینیں نئے انڈے ہوا دین عربستان کو بھی خطرہ

ہو گئیں برہنہ بیبیاں ہوا ان کی آن کو بھی خطرہ
نہ خبر حلال و حرام کی ہوا طفلِ نادان کو بھی خطرہ

ہو گئے منسلک بندے کتوں سے ہوا شیطان کو بھی خطرہ
نفرت ہے اسے کتوں کی بو سے ہوا اس کے امتحان کو بھی خطرہ

*******

جس حال پہ رکھے تو اسی پہ ہیں شاداں ہم
دکھتا رہے فقط نام تیرا ہوئے جس پہ قربان ہم

رل کر اس مٹی میں ہو گا نہ زباں کو شکوہ تیرا
ہو گئے نام لیواؤں میں تیرے اسی پہ نازاں ہیں ہم

نہ کر شبہ اے آسمان ان گیسوؤں پر ہمارے
تمنا نہیں ہے کچھ بھی اسی کے دیدار کو گریاں ہیں ہم

کھا نہ غم تو دیکھ کر خون جگر کو
یہی پیالہ ہے بیٹھے ہیں دینے کو جسے ترساں ہم

قسم ہے تجھے سخی شہبازؒ کی اے لعل باغ
گواہ رہیو بیٹھے ہیں عرصے سے بے گور و کفاں ہم

رس چکا ہو گا پتے پتے میں تیرے سوز عشق
رکھنا سنبھال کے امانت میری بنائیں گے کبھی گور لرزاں ہم

سمجھے گا کیا میری داد و فریاد کو یہ زمانہ
یہ تو اک عجز تھا کر بیٹھے جسے افشاں ہم

آتا نہ تھا دل کو چین کبھی نہ کبھی اے ریاض
یہ بھی اک مرض تھا بنا بیٹھے قلم کو رازدان ہم

*******

جل جائے وہ اناج خرمن ہو نہ میسر جس سے طعام
کیا ناز اس ہم نشین پر ہو نہ سکے جس سے کلام

کیا فائدہ اس طبیب کا کر نہ سکے جو علاج تمام
خطرہ ہے اس مُلاّ سے بھی ہے جو دین میں خام

کم بخت ہے وہ عالم لے نہ سکا جو باطن سے اکرام
کیا ہے عبادت اس متقیٰ کی حاصل نہ ہو جسے زندگی دوام

آیا کوئی جہل فقر میں بے کامل ہوا ابلیس کا غلام
نہیں ہے بھروسہ اس فلسفی کا ہاتھوں میں ہے جس کے جام

ہو جا علیحدہ اس پیر سے کر نہ سکا جو نفس تیرا رام
کہ ہوتے ہیں جو لعل ہیرے رہتے ہیں سمندروں میں گمنام

ہے یہ کلید باطنی اور ظاہری میں ہمارا پیغام
کھل جائیں گے احواس تیرے دیکھتا رہا جو صبح و شام

بند ہے اس میں روح ہماری ہو جائے شائد تجھ سے ہمکلام
گر ہے یقین راسخ تیرا چھٹ جائے گا اک دن قید زمام

*******

کر کے عمر ضائع پوچھتا ہے اب راہ شبیرؓ کیا ہے
کیا ہے جنازہ تقدیر کا اور راہ تکسیر کیا ہے

کون سی وہ زندگی ہے کہ حلال ہو جاؤں
ملتی ہے وہ چھری کس کوچے سے اور تکبیر کیا ہے

کہتے ہیں بازار مصطفی بھی ہے اس جہاں میں
خریدار ہے خدا جس کا بتا وہ عمل اکسیر کیا ہے

ہٹ جاتے ہیں حجاب دل کے جس کی دید سے
ہو گئے نابینے بھی محرم بتا وہ سرمہ ضمیر کیا ہے

جس کی کرن سے ہیں نور افشاں قبریں فقیروں کی
ہیں یہ شاخیں جس شجر طوبیٰ کی بتا وہ بدر منیر کیا ہے

ہو نہ پریشان پیارے ہے کچھ ارادت تو سن
بازار مصطفی یہی عمل تحریر ہے اور تقریر کیا ہے

آزما لے تو بھی گوشت کے لوتھڑے کو ہے جو دل
آئے خبر یہ دل کیا تو کیا اور تقدیر کیا ہے
ہوا نہ جب تک غوطہ زن اس دریائے توحید میں
سمجھے گا کیا شان فقر ہے کیا اور سلسلہ دستگیرؒ کیا ہے

*******

نہ چھیڑ قصہ باد نکہت کا ویرانے میں اے دیوانہ دل
ڈھونڈ نہ تو شہر خموشاں میں وہ شہنشائیاں اے مستانہ دل

رکھ نہ تمنا کچھ ان لاشوں سے ستاروں کے علاوہ
تھا بے شک خاکی تو ہو گیا اب جو عرشیانہ دل

نہ رکھ امید اس ہم سفر سے کچھ اے محبوبہ
تھا جو کبھی شیدائی تیرا تھا وہ پرانا دل

نہ رکھ تو بھی آس کوئی اے میری جنت
پالا تھا تو نے آغوش میں ہو گیا وہ بیگانہ دل

بنا کے لحد میری رو لینا دو چار دن
تھا جو سپوت تیرا مٹ گیا وہ فسانہ دل

کر دینا بھرتی یتیم خانے میں بھی ان کو
کہ مر گیا باپ ان کا ڈھونڈتے ڈھونڈتے خزانہ دل

کیا دیکھو گے میرا حال فقیری اور حال ظہیری
ملتی نہیں بت کو اجازت ہو گیا وحشیانہ دل

ٹک گئی نظر اس کی اک دور دربار پر
مڑے گا نہ کبھی جلے بغیر یہ پروانہ دل

کر بیٹھا عشق اک بے پرواہ سے انجان یہ
تڑپتا رہے گا بھٹی میں برسوں یہ خاقانہ دل

آ جائے باز ضد سے نہیں ہے ممکن اے ریاض
کہ دے چکا ہے تحریر سمیت گواہاں یہ جلالانہ دل

*******

آیا تکبر میں گر کوئی عابد و زاہد ہوا بے شک تباہ
یاد آیا نماز میں گر دنبہ ہے وہ بے راہ

منافق ہے وہی آیا جو بے شرع فقر محمدی میں
ہوا پیر غوثی قطبی کے علاوہ ہے یہ بھی کبیرہ گناہ

الجھا جاہل گر مسئلوں میں گیا دین حق سے
دیکھا نہ قرآن زندگی میں یہی ہے شرک خدا

بنا مرشد کے مولوی ہو نہیں سکتا مولائے روم
کہ باطنی علم کے بغیر مولویت ہے فتنہ بڑا

ہوا جو بھی نفس و زن کا مرید وہ
کچا ہوا زبان کا ہوا ایمان سے بھی جدا

رہا شبہ جس کو اولیاء انبیاء پر
ہوا فیض و رشد سے محروم وہ خیرہ نگاہ

ہوا جو عالموں کا دشمن دین و نبی کا دشمن
نور ہے درخشاں یہ ہو نہ گر باطن سے جدا
کیا عمل گر بقائے دنیا کی خاطر
ہوا محدود دنیا تک مرا خالی گیا

کر عمل وہ ہو جو سہارا آخرت بھی
نہیں ہے بہتر کوئی عمل اکسیر کے سوا

ہے یہ طریقہ محمدیؐ قبضے میں غوث پاک کے
چشتی نقشبندی و سہروردی ہیں سب اس کے تلے سایہ

ہے جہاں سے ابتدا اس کی ان کی وہ انتہا
ہے گر مقصود منزل لے لے اس کی آغوشِ پناہ

ہوتا نہیں وہ خالی ہے جو وابستہ اس سلسلے سے
ابھرے ر پڑھا جب دل نے یا شاہ محی الدین شیاءً للہ

بن بیٹھے ادھر کئی چرا کے راز قادری
پائے گا حق بات میری ملا نصیبے سے کامل رہنما

*******

سوچا تھا اک دن ہم نے یہ وجہ تنزل کیا ہے
رہتے ہیں سرگرداں ہر دم یہ زندگی بے منزل کیا ہے

کون سی خامی ہے وہ رہتے ہیں پریشان ہر دم
سدھر جائے جسں دین و دنیا وہ عمل کیا ہے

جھانکا جو گریبان کو نظر آئیں ہزاروں خامیاں
روئے بہت آیا جو سمجھ میں مقصد اصل کیا ہے

نکلے پھر ڈھونڈنے رہنما کو اس اندھیر میں
بھٹکتے رہے برسوں سمجھ نہ تھی پیر اکمل کیا ہے

لی بیعت پہلی ہم نے بدست پیر دیول شریف
ہوا نہ فیض کچھ نہ سمجھے تھے وہ یہ تمنا دل کیا ہے

لے کر اجازت ان سے کیا رخ پھر گولڑے کا
سمجھ نہ سکے وہ سجادہ نشین یہ نسل کیا ہے

ہوئے بے زار گدیوں سے لیا سہارا خانقاہوں کا
کہا جام داتار نے نچھاور ہیں گل ہزاروں تو گل کیا ہے
ہوئی مایوسی بڑی دیکھا جو تقدیر کو اتنا بے محمل
سوئے ہوئے تھے کہا بریؒ نے اٹھ بتاؤں تقدیر رمل کیا ہے

ڈھونڈ رہا ہے تو جسں نقطے کو تہہ دل سے
چھوڑ دے دنیا یہ کہ بتاؤں اس کا حل کیا ہے

چھپ کے دامن میں باطنیوں کے سیکھا کچھ علم لدّنی
آ بتاؤں تجھے بھی دنیا میں اصل اور نقل کیا ہے

*******

کہا نفس نے کھائیں گے آج چاول کچھ
کہا دل نے اے بیٹے چنوں پہ ہی گزارہ کر

گھومنے دے آج ہم کو پرستان میں کسی
کہا دل نے قبروں میں ہی گھوم گھام کے گزارہ کر

دیکھنے ہی دے کسی حور کو او ظالم
کہا دل نے ان مینڈکوں کا ہی نظارہ کر

ہوا پریشان نفس دیکھی جو حالت ناتوانی
بلایا ابلیس کو کچھ تو مدد دوبارہ کر

دے رہا ہے عذاب مجھے بھوک و پیاس کا یہ
خستہ حالی پہ میری اب ماتم نہ گوارا کر

جلتا ہوں میں نور ایمان سے پھر بھی
نصیحت ہے میری اندر پھر شور شرارہ کر

کروں گا مدد تیری ہوا جب تک ممکن
رکھ کے تلاش موقع کی پھر ہمیں پکارا کر

لگا نہ دھبہ نفسانیت پر ہرگز جانی
ہم تیرے تو ہمارا اس کو بھی ہمارا کر

*******

ملا جس سے ایمان کچھ گرا وہ ثاقب شہاب تھا
لرزی مٹی جس کے خون سے وہ محافظ نور کتاب تھا[
اٹ گیا پھر دھول میں وہ مرغ لاہوتی
کر نہ سکا پرواز پھر تشنہ دنیا و مآب تھا

ہو گئے پھر پیوست اس کے بیضے خاک سے
ہوا پھر وہ بھی خاکستر جو شعلۂ آفتاب تھا

سمائی اس میں وہ بو آئی پھر وہ خو
بھولا سبق وہ لایا جو ٹکڑا نصاب تھا

ڈھونڈ کے آسان حیلہ مذہب میں ترمیم کی
نکلے پھر حیلے کئی ملا و مفتی بے حساب تھا

کچھ اہل سنت سے جدا کچھ شریعت سے دغا
اکھاڑ پھینکا ان شاخوں کو کہ ان میں حجاب تھا

کہا جہلوں کو پھر ہیں ہم ہی شافعی امت
آئے ریا کار کئی کہ عمل مسلم جو کمیاب تھا
وہ مذہب ہوئے تھے حسینؓ قربان جس کی طرح
ہو گیا مدفون اب شناس حق جو نایاب تھا

*******

کہا سائنس نے میں عقل و تدبیر تیری اے بے ریا
بولی روحانیت میں قسمت و تقدیر تیری اے ناخدا

یہ رفتار دنیا میرے دم سے ایٹمی دور میرے قدم سے
یہ ٹیلی سلاسل یہ کاریں اور سیارے میرے رزم سے

سکھائی میں نے انسان کو تہذیب اور سکھایا علم جہاں
سکھایا پھر اس کو ہنر میں نے پہنچا یہاں سے وہاں

حکمت میں ہاتھ میرا سپاہت تک میرا ہاتھ ہے
لے کر جراحی سے تیری سلطنت تک میرا ہاتھ ہے

کاشت کی زمین میں بھی لیتے ہیں کام مجھ سے
گدا سے لے کر شاہ تک ہیں سبھی غلام مجھ سے

بنایا فضا کو پاؤں تلے چاند کو بھی پاؤں تلے
رہا روشن نام اس کا آیا جو میرے پرچم تلے

نسواں کو بھی دی آزادی اور کلبوں میں نچایا
پڑھ کے سبق میرا اس نے تجھے الو بنایا

میں ہوں رواں دواں اس دنیا کی تقدیر بیشک
ہوا جو بھی منکر میرا پڑی اس کو دنیا کی زنجیر بیشک

ہے بیشک زنجیر تو تدبیر تو ہیں جو روحانیت سے خالی
رہتا ہے اس کا قدم سر تو ہوتا ہے جو میرا سوالی

تیرا نشانہ چاند تک بحر تک یا زمین تک
میرا مرغ رہتا ہے سدا عرش بریں تک

مشرق و مغرب میرے قدموں میں جب بھی چاہوں
چودہ طبقوں کا کشف میری نظر میں تجھے کیا بتاؤں

تیرا سیارہ گر مریخ پر میری نظر لوح محفوظ پر
تیرا رابطہ برقی رو سے میرا سلسلہ تجّلئ نور پر

تیری یہ بتیاں زمین پر جن کی روشنی پائے گل تک
میری کہکشاں آسمان پر پڑے تو تہہ دل تک

ہے تو محتاج میری گر ایمان و انصاف سے سوچے
پانی سے رو تیری تیل سے سیارہ ہوا سے آواز روکے

پلا جو تیری آغوش میں بے شک دنیا میں شاہ ہوا
ہوا جو وابستہ مجھ سے وہ اک دن باخدا ہوا

*******

نہ تاثیر گفتار نہ طاقت رفتار نہ عروج کردار تیرا
نہ خوف قبر نہ یاد خدا تیری یہ مسلمانی کیا ہے

پڑھ کے کافر اک ہی بار لاالہ ہو گیا خلدی
نہیں اثر دھڑا دھڑ لاالاؤں سے یہ ناتوانی کیا ہے

مال مست حال مست ذال مست بن نہ سکا لعل مست
بیٹھے ہو آڑ میں دین کی یہ سبق بے ایمانی کیا ہے

نہ شب بیدار تو نہ پرہیز گار تو نہ حق دار تو
سمجھتا ہے خود کو مومن اور نادانی کیا ہے

شکم سیری میں دعویٰ فرعونی فاقہ کشی میں ہوسگانی
فریاد نکلی مصیبت میں بھی نہ اور کبر نفسانی کیا ہے

کھاتا ہے بیل بھی سوتا ہے بیل بھی طرز تو
نہ وہ نمازی نہ تو نمازی پھر فرق جسمانی کیا ہے

مارا گیا ابلیس اک سجدہ نہ کرنے سے
منکر ہی منکر تو سجدوں کا پھر تکیہ رحمانی کیا ہے

پڑھا کلمہ رسماً ہوا مسلمان رسماً آیا ایمان رسماً
نہ مانے احکام فرقانی پھر یہ ورق گردانی کیا ہے

بہلاوہ ہے دل کو یارو دھوکہ مذہب کو یارو
مانی نہ گر تاج پوشی پھر گل افشانی کیا ہے

کہا یاروں نے نہیں فائدہ کچھ مُلاّ سی عبادت کا
نبیڑ اپنی تو ان سے کیا یہ بہانہ شیطانی کیا ہے

کہتے ہیں پھر ہے عبادت دلوں میں ہمارے پوشیدہ
ہیں جو پوشیدہ دل تو کیا جانے ان کی زندگانی کیا ہے

کہا دل نے اللہ ھو ملا ثواب بہتر ہزار قرآنوں کا
ہوا ھُو سے پھر باھُو کاش سمجھے تو ذکر سلطانی کیا ہے

دل تو ہے اک لوتھڑا ہو نہ گر لطیفۂ قلب زندہ
باہر ہے عقل سے بات تیری کہ لطیفۂ انسانی کیا ہے

آتا ہے جب حرکت پہ یہ سینے میں ذکر سے
عش عش کرتے ہیں کرّوبیاں کہ مقام لامکانی کیا ہے

*******

کہا اقبالؒ نے درد دل کے واسطے آیا آدمی
سمجھے تھے ہم شائد اقبالؒ سے کچھ بھول ہوئی

گومتے رہے ہم بھی عرصہ تک ان گردابوں میں
ہوا جب دل کو درد پھر زندگی کچھ حصول ہوئی

یہ حیلۂ نفس تھا بت میں بھی ہمارے
سمجھا جب نفس کو دل کو تازگی قبول ہوئی

آگئے تھے اول اول رجعت میں پا کر یہ سبق
سمجھایا جو حق باھُوؒ نے کچھ عقل دخول ہوئی

نہ خدمت سے نہ سخاوت سے ہوا کوئی تغیر
ہوا جب ذکر قلب جاری کچھ روشنی حلول ہوئی

*******

رکھا جس نے بھی صبر اس کا مقام انتہا ہوتا ہے
کہ نہیں ہے جن کا آسرا کوئی ان کا خدا ہوتا ہے

ہوا گر برباد راہ حق میں وقت جوانی
وہی ہے بایزیدؒ جو پتلا وفا ہوتا ہے

مارا گر ہوس و شہوت کو رہ کے دنیا میں
وہی ہے طالع قسمت جو اک دن باخدا ہوا ہے

کی گریہ زاری گنہگار نے کسی وقت پیشمانی
کبھی نہ کبھی وہ بھی کعبے میں سجدہ گراں ہوتا ہے

ہوا گناہ سرزد غلبۂ نفس سے اگر
ہے وہ قابل بخشش جب آدمی فنا ہوتا ہے

مگر نہیں ہے ہرگز وہ عابد لائق جنت
جس میں غیبت بغض یا کبر و اَنا ہوتا ہے

ہوا تھا ابلیس بھی ملعون اسی کبر و اَنا سے
دشمن ہے وہ ناسمجھی میں بندہ اس کی رضا ہوتا ہے

ہوتی ہے اس کی ہاتھا پائی ہیں جو عالم و عابد
ڈال کر چپکے سے نفاق ان میں پھر فرار راہ ہوتا ہے

بڑھتا رہتا ہے نفاق بھی ساتھ ساتھ نمازوں کے
آخر بن کے کوئی غلام احمد یا غلام اللہ رونما ہوتا ہے

ایک لاکھ اسی ہزار زنّار ہیں اس کے نفس پر
ٹوٹتے نہیں وظیفوں چلوں سے بیشک کبڑا ہوتا ہے

ٹوٹ سکتے نہیں زنّار یہ کامل کے علاوہ
ملی جس کو یہ نعمت وہی نورالہدیٰ ہوتا ہے

ملے کوئی خالص کود جا بیشک بحر فقر میں
ورنہ شریعت سے بھی کچھ نہ کچھ دل صفا ہوتا ہے

پکڑا شریعت کو کر کے پاک قلب آلود زدہ
مل جاتا ہے در توبہ جب آدمی بانگِ درا ہوتا ہے

سکونِ قلب خواب جنت خیال حوراں شریعت میں
طریقت میں آدمی قبل از موت سوئے خدا ہوتا ہے

سستا نہیں ہے مقام یہ حاصل ہو جو اس زندگی میں
ہوا جو مر کے زندہ وہی قبور شنا ہوتا ہے

یہی ہے طریقت میں پہلا قدم بزور شرع بغور اکمل
لگتے ہیں پھر بارہ سال اور تب حدود لاانتہا ہوتا ہے

رب اس سے راضی وہ رب سے ہوا نہ گر ساکن راہ
کہ مقام فقر ہے دور بہت جو نورِ خدا ہوتا ہے

اڑنا حجاب ہوا پے چلنا حجاب فرشتوں سے ملنا حجاب
ہیں یہ سب ہیچ مراتب فقر کا روبرو لقا ہوتا ہے

اس کی نظر نظر خدا اس کا فرمان بھی فرمان خدا
خدا نہیں جدا بھی نہیں کہ وہی نائب خدا ہوتا ہے

کود کے اس بحر میں پائے یہ اسرار ہم نے
کہ رہتا ہے جوبن میں وہ شیروں کا بھید پا ہوتا ہے

ہو جائے گر اس کی دوستی شیروں سے زور قسمت
ہر محفل میں ہر منزل میں ان کے ہمراہ ہوتا ہے

*******

جب کوئی سالک جنون عشق میں مبتلا ہوتا ہے
کر دیا جاتا ہے قتل جب عاشقِ خدا ہوتا ہے

ہو جاتی ہے اس کی جزا لازم جو خون بہا ہوتا ہے
فرماتے ہیں رب پھر میں اس کا وہ میرا دلربا ہوتا ہے

*******

اب سن قصہ شیطان کا ہے جو تجھ پہ غلبہ جما
روکتا ہے اس قلم کو بھی کہ میرا پردہ نہ اٹھا

عقل میں تجھ سے ابتر علم میں عیاری میں بھی
پل رہا ہے تیرے شکم میں جس کا جاسوس بچہ

کرتا ہے گر اس کا مقابلہ تو راہ حق میں
تجھ میں بھی ہو علم کچھ نہ کچھ تو اس سا

ہو تجھ میں بھی پہچان حق و باطل کی وگرنہ
ہو گئے خاکستر اس کی ایک پھونک سے کئی سورما

کبھی تو آئے گا بن کے پیر تیرا یا فقیر کوئی
کہ تو ہے منظورِ نظر تجھے نمازوں سے کیا

کبھی کہے گا پی لے بھنگ ہے یہ شراب طہورا
دے کے عجیب و غریب چکر کرے گا تجھے گمراہ

روکے گا اس عبادت سے ہے جو تاثیر دل
لگ جاتی ہے آگ اس کو کرتا ہے کوئی اکسیر روا

آتی ہے پھر فوج در فوج ہنود کی بندش کے لئے
آیا نہ باز ان سے ہوتا ہے پھر بذات خود رونما

کسی کو ڈالا رجوعات خلق میں ہو گئی برباد محنت
کسی کو دیا شریعت سے چھڑا دکھا کے مصنوعی خدا

دیکھا کئی طالبوں کو اس رجعت میں ہم نے
جو دیکھ کے مصنوعی نظارے بیٹھے ایمان گنوا

نہ دیکھی اوقات اپنی نہ دیکھا وہ خاکی جُسہّ
نہ سمجھی بات یہ بن گئے شباشب اولیاء

آسکتا ہے شکل میں درباروں اور ستاروں کے بھی
نہ سمجھ سکے جسے وہ کہ ہے یہ حقیقت کیا

پہلے تو پکڑ اس جاسوس کو کہتے ہیں جسے نفس
آ نہ سکے گا گرفت میں نہ کر فقیری میں عمر تباہ

ادھر تو چاہیے علم و حلم اور دل کشادہ جانی
پھر صبر و رضا اور مرشد جو ہو راہوں سے آگاہ

تین شکلوں میں آسکتا نہیں نبی کعبہ اور قرآن کی
ہو گر ایسا نہ رہے پہچان حق و باطل کی راہ مصطفی

*******

آئی غنودگی جب عشق میں گرے زمین پر
پایا بے حس کوؤں نے آئے دیدار آدم

کہا ایک نے ہے کوئی اسیر محبت
یا موالی ہے یا کوئی بیمار آدم

پیاسا ہے یا مر گیا مسافر شاید
کہا دوسرے نے ہو گا کوئی مکار آدم

بنایا ہے بہانہ اس نے طائروں کو پکڑنے کا
پاس نہ جانا اس کے کہ ہے ہوشیار آدم

کیا کہے گا ہمیں پاسباں ہیں لال باغ کے
کرتا ہے حرام یہ ہوتا ہے جدھر نمک خوار آدم

مرتے مرتے بھی باز نہیں آتا یہ حرکتوں سے
بستے ہیں درندے کئی ہے عجب خونخوار آدم

کر رہا تھا یہ اﷲ اﷲ سویرے سویرے
کہا دوسرے نے اﷲ اﷲ ہی ہے شکار آدم

داڑھی ہے اس کے منہ پر شکل مومنانہ
آئی آواز یہی ہے ترقی رفتار آدم

تھے ہوش میں ہم سن رہے تھے بات ان کی
ہوئے حیران بہت کہ ہیں مردار بھی بیزار آدم

*******

چاند ابھرتا ہے ہمیشہ ڈوب جانے کے بعد
آیا دل کو سکون خون جگر پلانے کے بعد

بہشت بھی ملی دل کے بجھ جانے کے بعد
پایا اک نقطہ کتنے نقطے مٹانے کے بعد

کہا مرشد نے خام ہے گھر بار چھڑانے کے بعد
آئی دل میں پختگی اپنا کفن اٹھانے کے بعد

رلتے رہے ویرانوں میں ہوش و حواس گنوانے کے بعد
کبھی شاداں کبھی نالاں عشق کی مار کھانے کے بعد

ہم عشق میں برباد وہ برباد ہمارے جانے کے بعد
ہوئی عشق کو تسلی کتنی جانیں رلانے کے بعد

آئے یاد بچے آیا صبر آنسو بہانے کے بعد
نہ رہی طاقت گفتار اب یہ دکھڑا سنانے کے بعد

بہتر ہیں جو بن گئے اولیاء کچھ خواب آنے کے بعد
کر دی تحریر ہم نے دین دنیا آزمانے کے بعد
ہو جائے شائد پاک دل تیرا یہ دوا کھانے کے بعد
ہے جو تریاق نوری سمجھے گا شفا پانے کے بعد

پچھتائے گا اک دن ضرور یہ تصنیف ٹھکرانے کے بعد
ہے جو منظور نظر و اذن محمدؐ حال پیمانے کے بعد

نہ رہے گی حاجت کسی کامل کی یقین جمانے کے بعد
کیا عمل جاری پہنچ جائیں گے بلانے کے بعد

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *