مینارہ نور
کتاب ہذا کے جملہ حقوق محفوظ ہیں
٭ نام کتاب مینارہئ نور
٭ مصنف حضرت سیّد نا ریاض احمد گوھر شاھی مدظلّہ العالی
٭ تعداد دو ہزار
٭ سینتیسویں بار جون ۹۰۰۲ء
٭ ناشر سرفروش پبلیکیشنزپاکستان
کمپوزنگ یا پرنٹنگ کی کسی بھی غلطی کیلئے پیشگی معذرت خواہ ہیں
غلطیوں کی نشاندہی کریں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی اصلاح کی جاسکے
نہ دیکھ نظر عیب سے یہ تصنیف مقام الہامی ہے
پا یا جس نے بھی راز اس سے ملی زندگی دوامی ہے
نوٹ۔ تین شخص اس باطنی نعمت سے محروم رہیں گے
ایک ازلی منافق
دوم جھوٹا کاذب
سوم بے ایمان
تین شخص صرف تنقید و تکرار سے وقت ضائع کریں گے نہ خود کوئی فیض حاصل کر سکیں گے نہ دوسروں کو کرنے دیں گے
ایک عالم بے عمل
دوم مرشد خام نگاہ
سوم فقیر بے شرع
بسم اللہ الرحمن الرحیم
عرض حال
یہ کتاب کئی صد لوگوں کے مشاہدات یعنی مشاہدہ کشف القبور اولیا ٰ ء اللہ ومشاہدہ اشکال قلبی، نفسی روحی اور مشاہدہ جنات ارواح وغیرہ اور تجربات یعنی ذکر اللہ سے دل میں جنبش آنا لطائف کا اپنے اپنے مقام پر ذکر کرنا اور مراقبہ و کشف ہوجانا اور تحقیقات یعنی پھر ان کا ثبوت قر آن مجید احادیث شریف اور اولیائے عظام کی تصانیف سے مہیا کرنے کے بعد خلق خدا کے فیض اور پہچان کے لئے یہ سلسلہ جاری کیا گیا اس سلسلہ کو عام کرنے کے لئے ایک انجمن ۰۸۹۱ میں تشکیل دی گئی بحمد اللہ خاطر خواہ کامیابی سے ہمکنار ہوئے، ہر کام کے لئے عمل کی ضرورت ہے اسی کمی کوانجمن سرفروشان اسلام پاکستان نے پورا کیا۔
گوھر شاہی حیدر آباد
1402 ہجری
تعارف
سرکار شاہ صاحب (حضرت سید نا ریاض احمد گوہر شاہی) ضلع راولپنڈی تحصیل گوجر خان میں ڈھوک گوہر شاہ سے تعلق رکھتے ہیں اور سید گوہر علی شاہ کی اولاد میں پانچویں پشت سے ہیں جو آگے چل کر خاندان مغلیہ میں پیوند ہوگئے۔ کیونکہ سید گوہر علی شاہ سادات بخاری ہیں جو کشمیر سری نگر میں رہتے تھے ایک دفعہ کچھ غنڈوں نے ایک مسلمان لڑکی کو اغوا کر لیا، آپ نے تلوار اٹھائی اور سات غنڈوں کو جہنم واصل کردیا۔ انگریز حکومت نے آپ کو گرفتار کرنا چاہا لیکن آپ وطن چھوڑ کر راولپنڈی آگئے اور کچھ عرصہ نالہ لئی کے پاس بیٹھے رہے جب یہاں پر پولیس کا خطرہ ہوا توآپ تحصیل گوجر خان کے ایک جنگل میں بیٹھ گئے اور ریاضت و عبادت شروع کردی۔
کئی سال کے بعد فیض شروع ہوگیا۔ اس جنگل کا رقبہ جو گوجر برادری کے پاس تھا انہوں نے آپ کووقف کردیا۔جو اب ڈھوک گوہر شاہ کے نام سے منسوب ہے آپ نے کشمیری مغل خاندان میں شادی کی بیٹیاں اور بیٹے ہوئے۔ اس لئے سرکار شاہ صاحب کی والدہ سید گوہر علی شاہ کے پوتوں سے ہیں اور والد بابا صاحب کے نواسوں سے ہیں۔ او ر آپ کے دادا مغلیہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے، بابا صاحب آخری ایام میں کسی ناراضگی کے سبب بکرا منڈی میں گوشہ نشین ہوگئے تھے اور وہیں آپ کا وصال ہوا۔ جہاں اب دربار بنا ہوا ہے۔کہتے ہیں آپ کی گدڑی اور عصا وغیرہ کو وہیں دفنایا گیا اور آپ کے جسم اطہر کو آپ کے آبائی گاؤں لایا گیا اس لئے وہاں بھی آپ کا دربار موجود ہے چونکہ آپ نے کافی عرصہ اسی مقام پر ریاضت و عبادت میں گذارا۔ اس لئے آپ کا زیاد ہ فیض بکرا منڈی کے دربار میں ہے۔ جبکہ ڈھوک گوہر شاہ میں بھی دربار سے فیض جاری ہے۔
قبلہ سرکار شاہ صاحب(حضرت سیدنا ریاض احمد گوہر شاہی) راولپنڈی میں ایف۔کیو۔ اسٹیل انڈسٹریز (رجسٹرڈ) کے مالک تھے۔ جہاں سوئی گیس کے چولہے اور بجلی کا سامان بنتا تھا۔۰۲ سال ہی کی عمر میں پیروں فقیروں سے روحانیت کی تلاش میں نکلے۔ لیکن کہیں سے بھی دل کو تسکین نہ ہوئی۔آخر پیروں فقیروں سے بیزار اور مزاروں سے مایوس ہوکر دنیاوی کاروبار میں لگ گئے اور شادی کرلی۔شادی کے بعد آپ کے تین بچے ہوئے جب عمر تقریباً۴۳ سال کے لگ بھگ ہوئی تو حضرت امام بری سرکارؒ سامنے آئے اور کہا کہ بیٹااب تیرا وقت آچکا ہے علوم باطن کے لئے حضرت سخی سلطان باہو ؒکے دربار پر چلا جا۔ آپ کاروبار،بیوی بچے اور ماں باپ چھوڑ کر شورکوٹ آئے حضرت سخی سلطان باہو ؒ کی نظر کرم سے آپ کی تصنیف” نورالہدی“ آپ کی منزل کا ساتھی بن گئی۔ اور پھر آپ مجاہدہ نفس اور سکون قلب کے لئے سہون تشریف لے گئے۔تین سال سہون کی پہاڑیوں اور لعل باغ میں مجاہدہ کیا اور پھر باطنی حکم کے تحت جامشورو ٹیکسٹ بک بورڈ کے عقب میں چھ ماہ تک جھونپڑی ڈالے بیٹھے رہے۔آخر کار منشاء ایزدی کے تحت مخلوق خدا کو آپ کے وسیلے سے فیض ہونا شروع ہوگیا۔جب زائرین کی زیادتی ہوگئی توآپ لطیف آباد بریلی کالونی منتقل ہوگئے اور فیض اور رشدو ہدایت کا سلسلہ جاری کردیا۔ آپ کے سلسلہ میں یہ فیض عام ہے کہ لوگوں کے قلبوں کا ذکر اللہ سے حرکت میں لانا، لطائف کے ذکر میں یعنی قلبی،روحی
سری وغیرہ جاری کرنے کا طریقہ سکھانا۔طالبوں کو کشف القبور اور کشف الحضورؐ تک پہنچانا۔ جو لوگ وظیفوں چلوں سے رجعت،سکر یا حالت جذب میں آگئے ان کو حالت صحو میں لانا،سفلی عاملوں کے عمل کا توڑ اور جنات یا آسیب زدہ مریضوں کا علاج کرنا، الحمد اللہ ہزاروں مرد و زن آپ کی تعلیم سے فیض یافتہ ہوئے۔یعنی ذکر سلطانی کے علاوہ کشف القبور اور کشف الحضورؐ تک پہنچے۔ کئی فارغ التحصیل عالم دین بھی آپ کی نظر سے کشف اور قلب کی منزلیں عبور کر رہے ہیں۔بعض دفعہ دیکھنے میں ایسا بھی آیا ہے کہ آپ نے جب کسی کو اسم ذات کا اذن دیا۔ اس کا قلب فوراً ذکر اللہ سے جاری ہوگیا۔ بعض کو اپنے دل پر لفظ”اللہ“ نظر آیا۔ بعض کو محفل غوثیہؒ اور بعض کو محفل حضور ﷺ نصیب ہوگئی۔
انہی وجوہات سے نوجوان طبقہ اس سلسلے میں داخل ہورہا ہے اور اس سلسلے کو برقرار رکھنے اور پھیلا نے کے لئے انجمن سرفروشان اسلام پاکستان وجود میں آئی۔
از
ڈاکٹر عبدالقیوم شیخ