روشناس
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تعار ف
اس دورِابتلا میں جبکہ نوجوان طبقہ دین سے ناآشنا ہوگیا۔اور پھر سمت ظریفی یہ کہ روحانیت کا منکر ،علماء کا دشمن اور پیروں فقیروں سے بد ظن ہوتاچلاگیا ۔یہ قصور ان نوجوانوں کا ہی نہ تھا بلکہ ان کو نہ ہی اکثر علماء میں وہ عمل مل سکا اور نہ ہی اکثر پیروں فقیروں میں وہ روشنی نظر آئی جنکے قصے کرامتیںیہ کتابوں میں پڑھتے تھے ،اس پر مستزاد یہ کہ چندظاہر بین علماء اور خالی مشائخ نے بھی ان کرامتوں کو بے بنیاد اور ناممکن کہہ دیا ،لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ہر وقت اور ہر دور میں تین سو ساٹھ(360) اولیاء اللہ نہ صرف موجود رہتے ہیں بلکہ خدمتِ انسانی کے لئے ہمہ تن مصروف رہتے ہیں ،جن کی وجہ سے دنیا قائم اور پُر رونق ہے ۔یہ صرف ہماری نظر کا قصور ہے۔
اب بھی ہزاروں بندگانِ خدا روحانیت میں موجود ہیں ،اور ان میں کافی روشن ضمیر بھی ہیں،لیکن وہ نسخہ عام دوکانوں میں نہیں ملتا۔اس بھری دنیا میں اب بھی ذاکرِقلبی ،ذاکر روحی ،ذاکرِسلطانی ،ذاکرقربانی،ہمارے ساتھ روزمرہ کے کاموں میں مگن ہیں لیکن ہمیں کچھ خبر نہیں ،انہی چیزوں کی شناخت اور اس نسخہ کو عام کرنے کے لئے ہم نے یہ سلسلہ تبلیغی و روحانی شروع کیا ہے۔اللہ تعالیٰ ہماری مددو اعانت فرمائے ۔اور ہماری اس سعی کو قبول فرمائے۔
والسلام آپ کا نیاز مند
صدر انجمن سرفروشان اسلام پاکستان(رجسٹرڈ)
اسلام میں پانچ رکن ہیں ۔کلمہ ،نماز ، روزہ ، حج ،زکوٰۃ
پہلا اسلامی رکن یعنی کلمہ دائمی ہے اور بنیادی بھی اور باقی چار وقتی ہیں ایک حدیث شریف میں ہے (بحوالہ محک الفقراء کلاں صفحہ 225 )
من لم یؤدالفرض الدائم لن یقبل اللہ فرض الوقت
یعنی جو شخص فرضِ دائمی ادا نہیں کرتا تواللہ تعالیٰ اس کے فرض وقتی کو بھی قبو ل نہیں کرتا۔ایک اور حدیث میں ہے کہ
افضل الذکر لاالہ الااللہ (ترمذی شریف )
ترجمہ: سب سے افضل ذکر لاالہ الااللہ یعنی کلمہ طیبہ ہے۔
زبانی مسلمان اقرار زبان سے ہے اور حقیقی مسلمان تب ہوگا جب تصدیق قلب بھی ہو ۔زبانی کلمہ پڑھنے والے تو لاکھوں کروڑوں ہیں لیکن زبان قلب سے پڑھنے والے چند ہی ہیں کیونکہ زبانی کلمہ پڑھنے والوں کو تہہ دل سے پڑھنے کا پتہ نہیں ،یہی ایک نسخۂ روحانیت ہے ۔یہ نسخہ سستا نہیں کیونکہ تہہ دل میں پہنچانے کے لئے نفس سے مقابلہ ضروری ہے ۔جب قلب کا منہ ایک دفعہ کھل جائے توپھر بند نہیں ہوتا۔اور وہ ہر وقت کلمہ پڑھتارہتاہے چونکہ پورے کلمے کا مغز اسم ذات ہے ،اس لئے کچھ سلسلے والے اسم اللہ ہی سے چلتے ہیں ۔جب لطیفۂ قلب ہر وقت یا زیادہ وقت ذکر کرتاہے تو دل گناہوں سے دُھلنا شروع ہوجاتاہے ،اور جب دل ذکر اللہ کے نو ر سے صاف وشفاف ہوجاتاہے ،تب وہ اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت کے قابل ہو جاتاہے۔
حدیث شریف میں آیاہے کہ : ان اللہ لا ینظر الی صورکُم ولا اعمالکُم ولکن ینظر الیٰ قلُوبُکم و نیاتکُم
ترجمہ:۔ اللہ تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتاہے اور نہ ہی تمہارے اعمال کولیکن دیکھتاہے توتمہارے قلوب کو اور تمہاری نیّتوں کو ۔
(بحوالہ نورالہٰدی صفحہ 60 )
جب کو ئی شخص نظررحمت میں آتاہے تودن بدن برائیوں سے دور اور نیکیوں میں سرور حاصل کرتاہے ،اور نیکی کی طرف رغبت بڑھتی ہے ،اور اس وقت یا اس سے قبل اللہ تعالیٰ اسے صراطِ مستقیم کے لئے کسی کامل سے ملا دیتاہے ،جیسا کہ سورۃ کہف میں ہے ’’جس کو گُمراہ کرے ہرگز نہ پائے گا کوئی ولی مُرشد‘‘ یا د رہے کہ دل اور قلب میں بڑافرق ہے ،دل ایک گوشت کاٹکڑا (لوتھڑا)ہے جو جانوروں میں بھی عا م ہوتاہے۔ لیکن قلب ہفت لطائف میں سے ایک لطیفہ ہے جس کا تعلق روحِ انسانی کی طرح مخلوق سے ہے یہ محا فظِ دل ہے ۔جب اسے جگایا جاتاہے تو یہ طاقتور ہو کر جسم انسانی سے باہر نکل کر ارواح اور ملائکہ کی صفوں میں جا کر اس انسان کی صورت میں نمو دار ہوکر اپنی زبان سے کلمہ پڑھتاہے، جسے انسان حالت خواب یا مراقبہ یامکاشفہ کے ذریعے دیکھتاہے ،یہ ہے تصدیقِ قلب کا رازاور اسی لطیفہ قلب کے ذریعے حضور پاک ﷺ کی محفل پاک نصیب ہوتی ہے،ذکرکے حلقے اور ضربیں اسی قلب کو جگانے کے لئے لگائی جاتی ہیں۔
جولوگ اس علم سے بے بہرہ یا ذکر کے مخالف ہیں وہ کبھی بھی ظاہر ی عباد ت یا ظاہر ی علم سے قلب تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ ظاہری علم کی انتہابحث و مباحثہ و مناظرہ ہے جو مقامِ شر بھی ہو سکتاہے کیونکہ بہتر(72) فرقے اسی ظاہری علم کی پیداوارہیں اور باطنی علم یعنی قلبی عبادت کی انتہا محفلِ حضوری ﷺ ہے ۔جو ہر قسم کے شر سے محفوظ اور منزّہ ہے ۔
اس وقت مسلمان چھلکا کی مانند رہ گئے ہیں اور سینوں میں جو مغز تھا،وہ اس سے محروم ہوگئے ہیں۔وہی مغز اصل ہے ،جس سے نماز میں لذت ذکر میں جنبش سخاوت میں پہل اور آپس میں اخوت و محبت تھی ،اور دین کو پھیلانے کا مجاہدانہ جذبہ تھا۔لیکن اس مغز کے ضائع ہونے سے یہ تمام چیزیں سینوں سے نکل گئیں۔اور ان کی جگہ حسد،تکبر ،بغض ،کینہ ،عداو ت اور بخل نے لے لی ،اب وہی مسلمان ایک دوسرے کا ان کی وجہ سے دشمن ہوگیا حتیٰ کہ وہی مسلمان جو کافروں ،عیسائیوں کو مسلمان بناتاتھا۔اب ان کا جاسوس اور آلہ کا ربنا ہو اہے،اور بہت سے مسلمان اپنامذہب چھوڑ کر کیمونسٹ اور عیسائی بن چکے ہیں اس لئے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اسمِ ذات کا مغز مسلمانوں کے سینوں میں دوبارہ پہنچانے کی کوشش کی جائے،اور اس کام کو انجام دینے کے لئ ایک انجمن 1980 ء میں تشکیل دی گئی وللہ الحمد ۔انجمن سرفروشان اسلام پاکستان میدانِ عمل میں نکلی تو لٹریچروں ،لائبریریوں کے ذریعہ اولیاء کاملین کی تعلیم کو روشنا س کرانے کے لئے محافل ذکر و فکر کا انتظام و انصرام کیا گیاہے۔
ذراسابقہ حالات کی طرف توجہ دیجئے کہ زیادہ تراسمِ اللہ کا مغز کسی کامل کے ذریعہ ہی عطاہوتاہے بعض کو اویسی طور پر بھی نصیب ہوجاتاہے ۔دونوں طرح حاصل کرنے کا طریقہ پیشِ خدمت ہے بہترہے کہ سب سے پہلے کسی کامل کو تلاش کرے یا اگرکہیں مُرید ہے تو ان سے اسمِ ذات کا قلبی ذکر مانگے ،کامل ذات ایک ہی نظر سے ،کامل ممات زیادہ سے زیادہ تین دن میں اور کامل حیات سات دن تک قلب کا منہ کھول کر ذاکرِقلبی بنا دیتے ہیں ۔اگر کوئی مرشدسات دن سے زیاد ہ ٹال مٹول سے کام لے تو بہتر ہے اس سے جُدا ہوجائے اور اپنی عمر عزیز بربادنہ کرے ،یا مرشد ناقص ہے یا اس کی اپنی زمین ناقابلِ کاشت ہے یااس کانصیبہ کہیں اورہے ۔
ذکر کی زکوٰۃ
ایک عام مسلمان کے لئے پانچ ہزار روزانہ اور امام مسجد کی زکوٰۃ پچیس ہزار ہے تب اس کو مقتدیوں پر فضیلت ہے ،غوث و قطب کا درجہ حاصل کرنے کے لئے بہتر ہزار کی زکوٰۃ ہے تب اس کو اماموں پر فضیلت ہے ۔اور فقیر کی زکوٰۃ سوالاکھ روزانہ ہے، تب اسے غوث و قطب پر فضیلت ہے ۔
جب قلب کا منہ کھل جائے تو وہ ایک گھنٹہ میں چھ ہزار دفعہ اسمِ اللہ کا ذکر کرلیتاہے،بعض کا بوقتِ تصور اور بعض کا بغیر تصور بھی ہو جاتاہے ظاہری عبادت سکھانے ،اور ظاہر میں چلانے کے لئے علماء ہی کافی ہوتے ہیں پیروں فقیروں کا کام باطنی محفلوں میں پہنچانا اور باطنی عبادت ،یعنی قلبی ،روحی ،سری، نفسی وغیر ہ سیکھا نا ہے، اگر کوئی کامل نہ مل سکے تو اپنی قسمت کو آزمانے کے لئے کسی غوث ،قطب یا شہید کے مزار پر جائے،پاک و صاف ہوکر ذکر انفاس یعنی سانس اندر لیتے وقت اللہ اور نکالتے وقت ھُو کی مشق کرے اور دل پر تصور کے ذریعے اسمِ اللہ جمانے کی کوشش کرے ذکرِ انفاس ، حبسِ دم، ذکرِ خفی،ذکر جہر کی ضربیں یہ سب وسیلۂ ذکر قلبی ہیں ،جب قلب جاری ہوجائے تو اتنی محنت کی ضرورت نہیں رہتی قلب کے جاری ہونے کی پہچان یہ ہے کہ ذکر کے وقت قلب میں جنبش ہوگی ،ذکر میں لذت آئے گی ممکن ہے کسی مقام کا دورانِ ذکر کشف بھی ہوجائے طبیعت خوش و خرم رہے گی ،بغیر دھیان دیئے یا دھیان سے دل میں اللہ اللہ شروع جائے گی ،سکونِ قلب میسر ہوگا ،دنیا وی و نفسانی خیالات کم ہونا شروع ہو جائیں گے، اگر با ت اس کے برعکس ہوجائے تو ذکر کی مشق ترک کر دینی چاہیے ،جب تک کسی کامل سے اجازت نہ ہو جائے ۔کیونکہ ہر بوٹی لائق کیمیا ء نہیں ہے۔تنہا مقام پر بھی یہ مشق کی جاسکتی ہے لیکن اس کے حصار ضروری ہے۔
لطیفۂ نفس
سلسلہ نمبر1 :میں قلب کی وضاحت کی گئی ۔اب لطیفۂ نفس کی وضاحت پیش خدمت ہے۔
لطیفۂ نفس ساتواں اور سب سے ادنیٰ لطیفہ ہے اس میں تاثیرآب ،ہو ا ،خاک اور آگ کی ناسوتی ہے اس کی شکل جنات جیسی ہے۔اور اس کی غذابھی انہی کی طرح ناری ہے ،اور یہ سوتے میں انسان کے جسم سے نکل کر (جسے خواب کہتے ہیں)،اپنے ہم جنسوں کی محافل میں گھومتا رہتاہے ۔یہ انسان کی ناف میں مقیم رہتاہے اور پیشانی تک اس کا تسلط ہو تاہے ۔
کلمہ طیبہ ….. آدم ؑ اور انکی اولاد کے لئے وسیلہ معافی سزا ، وسیلہ تصفیۂ قلب اور تزکیۂ نفس ہے۔گو ایک دفعہ کلمہ طیبہ پڑھنے سے مسلمانوں کے زمرہ میں آگیا لیکن ناسوت کی نار سے بچنے اور قلب ،روح، نفس کو پاکیزہ کرنے کے لئے اس کا یا اس کے مغز اسمِ ذات کا ذکر دائمی ہے ۔جس کی کم سے کم رعایت روزانہ پانچ ہزار ہے قرآن مجید میں ہے ۔
قالت الاعراب امنا قل لم تومنو اولکن قولو ااسلمناولما ید خل الایمان فی قلوبکم
ترجمہ :اعراب نے کہا کہ ہم ایمان لائے ہیں ،اللہ نے جواب میں فرمایااے محمد ﷺ ان سے کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے ہو ،یوں کہو ہم اسلام لائے ہیں تب مومن کہلانے کے مستحق ہو ں گے ،جب ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہو گا ! (سورۃ الحجرات آیت 14 )
جس اسم کے وسیلہ سے آدم ؑ کو معافی ہوئی وہ اسم آدم ؑ سے پہلے ہی کا تھا یعنی ابتدا اسم محمد ﷺ کے دیکھنے سے اور انتہا جسمِ محمد ﷺ کے آنے سے ہوئی تھی ۔تبھی توآپ ﷺنے فرمایا تھا کہ ہم دنیا میں آنے سے پہلے بھی نبی ہی تھے،سخی سلطان باہُوؒ نے بھی رسالہ روحی شریف میں لکھا ہے کہ آپ ﷺکی روح مبارک آدم ؑ سے بھی 70 ہزار سال پہلے وصلِ یا ر تھی ۔
لاالٰہ الااللّہسے نبوت چلی یعنی آدم ؑ سے لے کر آپ ﷺ کے آنے تک نفی اثبات اور صفاتی اسماء کے ذکر تھے اور محمدرسول اللہ ﷺ پر نبوّت ختم ہوگئی ۔یعنی اس کے آگے اورکچھ نہ تھا تبھی تو قرآن مجید کی سورۃ احزاب میں ہے ۔
ولکن رسول اللَّہ و خاتم النبین اب جن لو گو ن نے آپ ﷺ کے بعد کو ئی دوسرا نبی مانا یا اس کلمہ میں رد و بدل کیا وہ کافر ہو گئے ……. اور جھوٹے نبی کو مان کر اصل کی شفاعت سے محروم ہو گئے !جیسا کہ کچھ انسان شیخ صنعان اور کچھ مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہیں۔
حضرت آدمؑ اور باقی انبیاء علیہم السلام کے علاوہ حضور پاک ﷺ نے بھی غاروں کی سنت اداکی ،معدہ طعام سے خالی رکھا اور ذکر ذات سے نفس کی سرکوبی کی تبھی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ جب انسان پیدا ہو تاہے تو اس کے ساتھ شیطان جن بھی پیدا ہو تاہے ،صحابہ اکرامؓ نے پوچھا کہ کیا آپ ﷺ کے ساتھ بھی پیدا ہو ا تھا فرمایاپیدا ضرور ہوا تھا لیکن وہ میری صبحت سے مسلمان ہو گیاہے۔‘‘ یہ اشارہ اس نفس کی طرف تھا ۔ایک حدیث میں ہے کہ ’’ تم نفسوں سے جہاد کرو یہ جہادِ اکبر ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان بھی ہے ۔’’فاقتلوا انفسکم‘‘۔ترجمہ یعنی اپنے نفسوں کو قتل کرو ۔
ایک جگہ فرمایا قدافلح من تزکہا وقد خاب من دسہا ۔یعنی جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ خلاصی پا گیا ۔ (سورۃ الشمس آیت 8 )
ان آیات واحادیث سے ظاہر ہوتاہے کہ خلاصی پانے کے لئے نفس سے جہاد ضروری ہے ،اور اس دور میں جبکہ نفس نے انسان کو حیوان (گدھا) بنایاہواہے اس سے جہاد ناممکن ہے خلاصی کیسے ہوگی۔ جب آدمی عالمِ ناسوت میں ہو اور کوئی گناہ نہ بھی کرے یعنی اسی طرح دن رات سوتا رہے تب بھی اس ناسوت کے اثرسے اس کا نفس قوی ہو جاتاہے،اور وہی نار اس کے قلب کا منہ بند کر دیتی ہے ۔یعنی جالے بُنے جاتے ہیں،حتیٰ کہ ایک دن لطیفۂ قلب باہر سے نوری غذانہ ملنے کی وجہ سے مرجاتاہے اور نفس مکمل طاقت اوربغیر قلبی مداخلت کے اس کو اپنا غلام بنا لیتاہے وہ نفسِ عمارہ کہلاتاہے چونکہ نفس کا تعلق شیطان سے ہے ۔ اور پھر وہ جسم بھی انکا ہو جاتاہے ،اس وقت کسی کو کشف و الہام کی صورت پیدا ہوسکتی ہے ۔جسے استدراج کہتے ہیں ۔اس لئے اس کی بچت کے واسطے حکمِ خداوندی ہے ۔فاذکرواللہ قیاماوقعوداوعلی جنوبکم ترجمہ :اللہ کا ذکر کرتے رہو کھڑے بھی ،بیٹھے بھی ،کروٹیں لیتے بھی۔(سورۃالنساء آیت 102 )
جب آدمی ہر وقت ذکرِانفاس،ذکر خفی یا ذکر قلبی یا سلطانی وغیرہ کرتاہے تو جو ناری غذا ،ہوایا پانی کے ذریعے جسم میں داخل ہوتی ہے ذکرکے نو ر کی گرمی سے جل جاتی ہے اور وہ امانتیں جو اس ڈھانچے میں بند ہیں نار سے محفوظ رہتی ہیں حتیٰ کہ زیادہ ذکر سے وہ لطائف جاگ کر خود ہی ذکر کرنا شروع کردیتے ہیں۔اس طریقہ سے نفس کو ناری غذاپہنچنا بند ہو جاتی ہے جب وہ بھوک سے مجبور ہوتاہے تو باقی لطائف سے خوراک طلب کرتاہے وہ اسکو اس وقت تک نوری غذا نہیں دیتے جب تک وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان نہ ہو جائے جب وہ مسلمان ہو جاتاہے تو خود بخود ذکرمیں لگ جاتاہے۔اور پھر نفس امارہ سے لوامہ پھر ملہمہ پھر مطمئنہ کے درجے تک پہنچ جاتاہے نفس امارہ کا حامل کافر ہوتاہے ،لیکن اگر کسی مسلمان کا نفس امارہ ہے، توا س پر افسو س کہ نفس کی اصلاح نہ کرے کیونکہ وہ ظاہر میں مسلمان اور باطن میں کافروں کا ہم جلیس ہے ۔بے شک نفسِ امارہ والا مسلمان کافر تو نہیں لیکن ناپاک ضرورہے اور انہی کے لئے حدیث شریف میں ہے کہ ’’ کچھ مسلمان ایسے بھی ہیں جو قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں لیکن قرآن ان پرلعنت کرتاہے۔‘‘ ا ورقرآن مجیدمیں ہے ’’ان نمازیوں کے لئے خرابی ہے جو نماز( حقیقت) سے غافل ہیں ۔ ‘‘ تبھی تو حضرت مجددالف ثانی سرہندی فاروقیؒ بھی اپنی مکتوبات میں لکھتے ہیں کہ قرآن ان لوگوں کے پڑھنے کے لائق ہے جن کے نفس ہواو ہوس سے پاک ہوگئے !مقتدی کے واسطے ذکرافضل ہے اور منتہی کے واسطے قرآن پاک پڑھنا افضل ہے(ازمکتوبات شریف)اس لئے ضروری ہے کہ پہلے نفس کی اصلاح کرے جو غارمیں چھپا بیٹھا ہے اسے باہر کے ڈنڈوں یعنی عبادت سے کچھ اثرنہیں ہوتا،ظاہری عبادت سے قالب اور باطنی عبادت قلب اور نفس پاک ہوتے ہیں قالب کو سدھارنے اور غیب کی باتیں سنانے کے لئے علماء شریعت موجود ہیں۔لیکن قلب کو سدھارنے اور غیب کی محفلوں تک پہنچانے کے لئے علماء طریقت ہوتے ہیں،یہ دونوں ایک دینِ اسلام کے دو بازو تھے ،کچھ عرصہ علماء اور مشائخ دین کو اکٹھا چلاتے رہے ،علماء درویشوں کے بیعت ہوئے اور درویش علماء کے شاگرد بنے ۔لیکن آہستہ آہستہ علماء بے عمل ہوگئے اور اکثر شیخ باپ داداکی وراثت سمجھ کر بغیر عبور خالی ہوگئے دین کھوکھلا ہونا شروع گیا ،علماء ناقص پیروں سے بیزار اور پیر بے عمل علماء سے نالاں اور امت دونوں سے بیزار ہوگئی۔خالی پیروں نے غوث و قطب کے دعوے کیے بے عمل علماء مجدداور نبوّت کے جھوٹے دعویدار ہوئے۔ہر دوخالی نے کشف و کرامات کا انکا ر اور اس کو بے اہمیت قراردیدیا ،لیکن درحقیقت کشف وکرامات ہی ولی،غوث ،قطب و مجددکی پہچان ہے جوگاہے بگاہے اللہ تعالیٰ انکی تصدیق اور امت کے یقین کے لئے ظاہر فرماتارہتاہے۔ولی کی پہچا ن یہ ہے کہ ظاہر میں لوگوں کو ذکر و فکر میں مشغول کراتاہے ا ور باطن میں نوری محفلوں میں پہنچاتاہے،اللہ اس کے طفیل بیماروں کو شفاء اور حاجت مندوں کی حاجتیں پور ی فرماتاہے نیز بیمار قلوب کا منہ کھول کر کشف القبور حتیٰ کہ کشف الحضور تک لے جاتاہے مسئلہ یہ ہے کہ نبی کونہ ماننے والا کافر ہے اور جھوٹی نبوت کا دعویدار بھی کافراور اس کا متبع بھی کافر ہے ،لیکن ولی کونہ ماننے وا لابے نصیب اور ،کم بخت، اور فیض سے محروم ہے۔جھوٹی ولایت کا دعویداربھی کم بخت اورسخت گناہ کا مرتکب ہے،جنہوں نے بغیر راہ سلوک یا بغیر اجازتِ محمدی ﷺکے غوث وقطب بن کر پیری مریدی شروع کردی وہ لوگ سخت گمراہی میں ہیں۔اور مسلمانوں میں بہتر(72) فرقے بنانے اور تخمِ روحانیت ضائع کرنے کے ذمہ دار ہیں ،آج اس دور میں ظاہری علم کی انتہا ہوچکی ہے، جس کا نتیجہ بحث و مباحثہ، مناظرہ و مجادلہ وفرقہ بندی نکلا ،لیکن باطنی علم جس کی انتہا محفلِ حضور پاک ﷺتھی ناپید ہوگیاحضور پاک ﷺ کے زمانہ ظاہری میں مسلمان اس علم کو جانتے اور کرتے تھے ،مائیں ذاکرہ ہواکرتی تھیں بچہ پیٹ ہی سے ذکر کااثرلے کر آتاتھا ،مائیں بچوں کو دودھ پلاتے ،سلاتے وقت لوریاں اللہ ھُو سے دیتی تھیں اور اس بچے کے نازک اندام اس اسم کو جذب کرلیتے تھے ،جب بچہ ہوش و حواس میں آتاتو ذکر کے حلقوں میں خود بخود کھینچتا چلا جاتااور ساتھ ساتھ تزکیۂ نفس ہوتارہتا،آج حقیقت اس کے برعکس ہے ۔گانا، سازوغیرہ جن میں نفس کی غذاہے کے ذریعے بچے کو سلایا جاتاہے۔اور سینماؤں ،تھیٹروں میں بچوں کولے جایا جاتاہے۔ اورپھر وہ بڑے ہوکر اپنی نفسانی محفلوں کی بدولت شیطان کے مرید اور آلہ کا ربن جاتے ہیں۔اور اپنی ساری عمر جانوروں کی طرح گزار کر چلے جاتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے لئے ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’وہ چوپاؤں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر! ‘‘ (اولئک لا نعام بل ھم اضل)لیکن شیطان کا مریدہونے کے باوجود پھر دعویٰ امتی کرتاہے چونکہ جس طرح نافرمان بیٹے کو باپ جائیدادسے لاتعلق کردیتاہے۔ اسی طرح نافرمان امتی کوبھی حضور ﷺبے تعلق کردیتے ہیں۔ایسے نفسانی لو گ نفس کی اصلاح میں اگر لگتے بھی ہیں تو کامیاب نہیں ہوتے، کیونکہ نفس ان پر مکمل سواررہتاہے جب تک کسی کامل کا سہارااللہ تعالیٰ کا خاص فضل شامل نہ ہو توکچھ نہیں بنتا۔
نفس نتواں کشت الاظل پیر
دامن ایں نفس کش راسخت گیر
نفس امارہ والے کی نشانی یہ ہے کہ گناہ صغیرہ اور کبیرہ سے بھی کسی طرح کا رنج و ملال نہیں ہوتابلکہ وہ خوشی اورفخر محسوس کرتاہے۔ اورنفس لوامہ کاحامل گناہ کے بعد افسو س کرتاہے اور آیئندہ گناہ نہ کرنے کا ارادہ کرتاہے۔
نفس ملہمہ کے حامل سے اگر اتفاقاً کوئی گناہ سرزدہونے لگے تواللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے مقدس ارواح یا ملائکہ کے ذریعہ ڈرایا،یاپھر اشارہ دیا جاتاہے۔نفس مطمئنہ کے حامل انبیاء و اولیاء ہیں۔نفس امارہ انسان کے اندر کُتے کی شکل میں ہوتاہے۔نفس لوامہ گھوڑے کی شکل میں اور نفس ملہمہ بکرے کی شکل میں اور نفس مطمئنہ اسی انسان کی شکل اختیار کرکے حضورپاک ﷺکی محفل میں شامل ہوجاتاہے ،تب وہ مرتبہ ارشاد پرفائز ہوتاہے۔جب کوئی شخص اپنے نفس کی اصلاح میں لگتاہے تویہ شکلیں نفس کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اسے حالتِ خواب،مراقبہ یا مکاشفہ کے ذریعے دکھائی جاتی ہیں۔
لطیفۂ روح
سلسلہ نمبر2 :لطیفہ نفس کے متعلق تھااب لطیفۂ روح کی وضاحت کی جارہی ہے۔
ایک دن اللہ تعالیٰ کو خیال آیاکہ میں خود کو دیکھوں سامنے جو عکس پڑاتوایک روح بن گئی، اللہ اس پر عاشق اور وہ اللہ پرعاشق ہوگئی،یہ واقعہ آدم ؑ کا جسم بنانے سے 70 ہزارسال پہلے کا ہے، تبھی آپ ﷺنے فرمایا تھا کہ میں دنیامیں آنے سے پہلے بھی نبی تھا ۔اور اس وقت بھی نبی تھا جب آدم ؑ کا وجود نہیں تھا۔
پھراللہ نے اس روح کی تعظیم اور خودکی پہچان کی خاطر زمین و آسمان بنائے ،حوریں،فرشتے سجائے لولاک لما خلقت الافلاک ’’اگرآپ نہ ہوتے تومیں زمین و آسمان پیداہی نہ کرتا۔‘‘
پھر امرربی ہو ا اور عالم عنکبوت میں بے شمارروحیں پیداہوگئیں پھراللہ ان روحوں سے مخاطب ہوا۔
الست بربکمکیا میں تمھارارب نہیں ہوں؟سب نے کہا ’’بلیٰ‘‘ یعنی ہاں۔(سورۃ الاعراف آیت نمبر171 )
پھر ان کو دنیااور اس کی لذات دکھائی گئیں،بہت سی روحیں دنیاکی لذات کی طلبگار ہوئیں،اور بہت سی اللہ کی طلبگارہوئیں۔
ان کا اقرارانکی تقدیر ازل بن گئی ،اب روحوں کو دنیامیں ظاہر کرنے اور ان کے اقرارکا امتحان لینے کے لئے مٹی کا بت بنایاگیا،اس میں روح ڈالی حرکت شروع ہوگئی اور اس کے ذریعہ انسانوں کے روپ میں روحیں زمین پرآنا شروع ہوگئیں۔
جب آدم ؑ کی روح جسم میں داخل ہوئی تواس نے ’’ یا اللہ‘‘ کہا تھا اور سینے کے دائیں جانب اس نے اپنا مسکن بنا لیا ۔اوریہی ذکرروحوں کے لئے مخصوص ہوگیا۔جب ماں کے پیٹ میں نطفہ پڑتاہے تو اس کے خون کو اکٹھا رکھنے کے لئے روح جمادی پڑتی ہے۔اور پھرخون کو بڑھانے کے لئے روح نباتی پڑتی ہے چھ ماہ کے بعد روح حیوانی پڑتی ہے جس کے ذریعے بچہ پیٹ میں حرکت کرتاہے ،ان روحوں کا تعلق ناسوت سے ہی ہے،جب بچہ پیداہوتاہے تو روح انسانی نظام قدرت کے تحت عالم عنکبوت سے لا کر بمعہ لطائف جسم میں ڈال دی جاتی ہے اس کا رنگ سرخ ہوتاہے انسانوں اور حیوانوں میں فرق صرف انہی روحوں سے ہے۔
جسم چلنے پھرنے کے لئے روح کا محتاج تھا۔اورروح خوراک کے لئے جسم کی محتاج ہوگئی عالم ناسوت صرف جنات کے لئے تھا ۔یہاں کی آب و ہوامیں ان کے مزاج کے مطابق نار تھی وہی نار غذااور سانس کے ذریعہ جسم میں داخل ہوئی،عرصہ بعد لطیفۂ قلب کو کمزوریا ختم کرنے کے بعد روح تک پہنچی اورایک دن روح بھی سراپانار یعنی شیطان بن گئی،اس کے معاون لطائف مرگئے اور لطیفۂ نفس کے جُسے طاقت پکڑگئے۔مرنے کے بعد روح تو برزخ میں چلی گئی لیکن وہی نفس کے جُسے شیطان کے ٹولے میں مل کر مخلوق خدا کو نقصان پہنچانے لگے جن کو بد روحوں کے نام سے پکا را جاتاہے۔ناری غذا کے ساتھ جب ناری کلمات کو بار بار پڑھا جاتاہے،تووہ جادوگربن جاتے ہیں،ان کے اند رکی تمام رحمانی صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں اور شیطانی اور حیوانی طاقتیں اجاگرہوتی ہیں۔اس وقت اس کی نسبت اور دوستی ابلیس اوراس کی قوم سے ہوجاتی ہے جنکے ذریعہ وہ عجیب عجیب تماشے دکھاتاہے۔لوگوں کو نفع و نقصان پہنچاتاہے کئی ہوامیں اڑتے ہیں اور کئی پانی پہ چل سکتے ہیں ان کا نفس امارہ بن جاتاہے ۔نفس امارہ کافروں میں ہوتاہے اور یہ بھی مثل کافر ہی کہلاتے ہیں ان لوگوں میں خوف خدا،خوف قبرسب ختم ہوجاتاہے ،گناہِ کبیرہ اورمخلوق کو ستاکر خوش ہوتے ہیں۔
دوسری قسم کے جسم جونہ ناری کلمات پڑھتے ہیں۔اور نہ ہی نوری کلمات پڑھتے ہیں ان کی روح بھی دن بدن کمزور ہوتی رہتی ہے ،اس کے معاون لطائف بھی بے جان ہوجاتے ہیں،نتیجہ یہ کہ نفس کا تسلط ہو جاتاہے،چونکہ ان میں کچھ رحمانی طاقتیں دبی ہوئی ہوتی ہیں اس لئے کبھی کبھی خوف خدا بھی آتاہے،عبادت کا خیال بھی آتاہے،لیکن غلبہ نفس کی وجہ سے ارادے کی تکمیل نہیں ہوتی ۔اگر کچھ عبادت کر بھی لیں تو قلب کامنہ بند ہونے کی وجہ سے روح تک نہیں پہنچتی ان کی عبادت بھی بے لذت اور بے کیف ہی ہوتی ہے ،انہیں اگر کوئی کامل مل جائے توان کی تقدیر پلٹ سکتی ہے۔
جمادی ،نباتی اور حیوانی روحوں کا تعلق اسی ناسوت سے ہے ،یوم محشر اور حساب کتاب سے انہیں کوئی واسطہ نہیں ہوتا،دنیامیں گھومتی رہتی ہیں۔ایک جسم کو چھوڑادوسرے میں داخل ہوگئیں،لیکن روحِ انسانی ایک ہی جسم کے لئے مخصوص ہے،ملائکہ کے ذریعہ جسم میں داخل کی جاتی ہے ۔پھر کراماًکاتبین اس کی دیکھ بھال اور حساب کتاب کے لئے جسم کے دائیں بائیں ہوجاتے ہیں ملائکہ ہی اسے اپنی تحویل میں برزخ لے جاتے ہیں،اگرروح صالح تھی تو وہاں آزاد رہتی ہے ،بارہ سال تک دنیامیں گاہے بگاہے آتی رہتی ہے اس کے بعد دنیاسے سلسلہ منقطع کرکے علیین سے ہی مانوس ہوجاتی ہے ۔البتہ کسی کامل کی طلب پر اسے ملائکہ کے ذریعہ حاضرکیا جاتاہے۔
تیسری قسم کے لوگ خواص سے تعلق رکھتے ہیں،انکی روحوں نے وہا ں اللہ کی محبت کا اقرار کیا ،دنیامیںآکر وہی اقرار ان کی طلب بن گیا اور وہ اللہ کے لئے وسیلہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے۔ ایک وسیلہ قرآن پاک سے ہے جو علم ظاہری ،قالب اور نفس کو سدھارنے سے متعلق ہے،’’ذالک الکتا ب لاریب فیہ ھدی للمتقین‘‘ ( سورۃ بقرہ آیت نمبر1 ) اس کتاب میں کوئی شک نہیں ،پرہیز گاروں کو ہدایت کرتی ہے۔
یہ علماء کے حصے میں آئی ،اور علماء کی زبان سے ہی لوگوں کو ہدایت ہوئی اس کو مقام شنیداور شریعت کہتے ہیں۔
دوسراوسیلہ حضورپاک ﷺ کی صحبت اور محبت ہے ۔چونکہ محبت کا تعلق دل سے ہے دل سے دل کو راہ ہوتی ہے۔آپ ؐکے دل کا نو ر اس کے دل میں داخل ہوا اور وہ نور سے ہی ہدایت پاگئے ،چونکہ دل کا تعلق باطن سے ہے اور وہ باطنی اسرار کے واقف ہوئے اس کو طریقت کہتے ہیں اور اس کا مقام دیدہے یہ لوگ اولیاء اللہ کہلائے اور ان کی صحبت میں بیٹھنے والوں کو بھی نور سے ہی ہدایت ہوئی جیساکہ ’’ یھدی اللہ لنور من یشاء ‘‘ترجمہ:اللہ تعالیٰ جسے چاہتاہے نور سے ہدایت دیتاہے۔
ایک بستی میں کچھ لوگ شریعت کے اور کچھ لوگ طریقت کے حامی تھے ،حضرت عبداللہ ابن مبارک مروزی جنہیں ظاہری اور باطنی علوم پر عبور تھا شریعت والوں کو علم القرآن سے سدھارااور طریقت والوں کو ذکراللہ سے پہنچایا تب سے آپ کو راضی الفریقین کہا جاتاہے۔
لیکن اکثر شریعت کے علماء اور طریقت کے فقیروں کا آپس میں اختلاف ہی رہا ،ایک دوسرے کے اوپر نقطہ چینی ہی کرتے رہے،عالم نے کہا کہ علم فقہ و حدیث یاد کر دین اسی میں ہے فقیر نے کہا اللہ کا ذکر بے شمار کر ورنہ نادانی ہے۔عالم نے کہا فقیر دیوانہ ہے فقیر نے کہا عالم رب سے بیگانہ ہے علم ظاہری اور باطنی کا ایک ثبوت قرآن مجید میں خضرؑ اور موسیٰؑ سے متعلق ہے۔
ایک اور روایت ہے کہ مولاناجلال الدین رومی ؒ سے قلمی کتاب کے متعلق جب شمس تبریزؒ نے پوچھا،یہ کیا ہے مولانا نے فرمایا یہ وہ علم ہے جسے تم نہیں جانتے جب شمس تبریزؒ نے وہ کتاب پانی کے حوض میں پھینک دی تو مولانا برہم ہوئے ،انہوں نے کہا گھبراؤ مت میں ابھی نکالتاہوں ،جب پانی سے کتاب نکالی تو وہ خشک تھی ۔تب مولانانے حیرت سے پوچھا یہ کیاہے ،فرمایایہ وہ علم ہے جسے تم نہیں جانتے ۔
جب دل میں نو راترا ،پھردل سے روح کو روح سے سری کو اور سری سے خفی کو خفی سے اخفیٰ کو اور اخفیٰ سے لطیفۂ انا کو پہنچا۔پھر جو بھی نار باہر سے آئی ان لطائف نے اس کو جلادیاحتیٰ کہ نفس بھی ناری غذاسے محروم ہوگیا ،اور اس نے زندہ رہنے کے لئے کلمہ پڑھ لیا ۔اور کلمے کا نو ر اس کی غذا بن گئی ،وہ امارہ سے پھر الہامہ اورپھر مطمئنہ کے درجے پرپہنچ گیا اور یہ روح بھی سراپا نور بن گئی ،حدیث شریف میں ہے کہ جس کی زبان پر مرتے وقت کلمہ شریف ہوگا ،بغیرحساب کتاب کے جنت میں داخل ہوگا(مسلم شریف)۔لیکن اکثرمرتے وقت حالت سکرات میں زبان پہلے ہی بند ہوتی ہے،لیکن جن کے قلبوں کی دھڑکن اللہ اللہ میں ضم ہوگئی ان کے قلبوں کے منہ بند نہیں ہوتے۔
حال ہی میں ترکی کے ایک شخص کے دل کا آپریشن ہو ا،دل کے اوپر نمایاں لفظ ’’اللہ‘‘ لکھاہواتھا اور اس کی خبر اور تصویر پاکستان کے اخباروں نے بھی شائع کی،خواجہ بہاؤالدین نقشبندی کو نقشبند اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وہ اپنی روحانی طاقت سے لوگوں کے دلوں پر لفظ ’’اللہ‘‘ نقش کردیتے تھے جسے لوگ مراقبہ ،خواب یا کشف کے ذریعے دیکھتے تھے۔
قرآن مجید بھی گواہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے دلوں پرایمان لکھ دیا(اولئک کتب فی قلوبھم الایمان ۔ سورۃالمجادلہ)جب ایسا آدمی دنیا سے گیا ۔منکر نکیر قبر میں سوال کے لئے آئے روح کو نو ر سے چمکتا پایا،اسم اللہ دل پرلکھادیکھا خاموش ہوگئے کہنے لگے ،اے بندۂ خداآرام سے سوجا ہمیں شرم آتی ہے کہ تجھ سے کوئی سوال کریں تیرے اعضاء خود گواہی دے رہے ہیں،قبر دیکھتی ہے کہ اس سے منکر نکیرنے بھی سوا ل نہیں کیاکہیں مجھ سے باز پرس نہ ہو جائے ،وہ کشادہ ہوجاتی ہے اور اسم اللہ کے نور سے قبر منور ہو جاتی ہے اس کے بعد امان نامی فرشتہ آتاہے جس نے روح کو برزخ میں پہنچانا ہوتاہے ۔منکر نکیر سوال و جواب کا نمبر کفن پر لکھ جاتے ہیں ،لیکن اس کا کوئی نمبر نہیں ہوتا۔وہ روح کو رضوان کے پاس لے جاتاہے کہ اسے جنت میں داخل کردو رضوان نمبر طلب کرتاہے امان کہتاہے اس کا کوئی حساب کتاب نہیں اس کی چمک ہی اس کا نمبر ہے اس طریقے سے وہ روح بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوجاتی ہے اور اس کے نفس کے جُسے جمادی اور نباتی روحیں نوری طاقت میں آنے کی وجہ سے اس کی قبر میں ہی رہتے ہیں ،نماز،تلاوت،ذکروفکر کے علاوہ لوگوں کو ناسوتی فیض بھی پہنچاتے ہیں اور قلب کے جُسے ملکوت میں مسکن بنا لیتے ہیں اور لطائف اپنے اپنے مقامات پر اسی انسان کی شکل میں چلے جاتے ہیں جیساکہ جب حضورپاک ﷺ معراج کے وقت موسیٰؑ کی قبر سے گذرے تو دیکھا کہ موسیٰؑ نماز پڑھ رہے تھے ،جب آپؐ فوراًہی آسمان پر پہنچے تو وہاں پر موسیٰؑ کو پایا۔
یہ لطائف ہر انسان میں ہوتے ہیں ۔ذکوریت اور ان کی ضربوں سے جاگتے ہیں۔پھران کی پرورش اور تعلیم سے ہی اس مقام پرپہنچاجاسکتاہے۔بغیر پرورش اور غذاکے یہ لطائف سینے میں ہی ضائع ہو جاتے ہیں اور جن کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات تھا ارذل المخلوقات بن جاتاہے۔
اس دنیامیں امتی کی پہچان نام ،عمل،شکل اورکلمہ طیبہ سے ہے لیکن وہاں پہچان چمک دمک سے ہے ،جیساکہ عیسیٰ ؑ کی امت کی روحیں یا قدوس ،موسیٰ ؑ کی امت کی روحیں یا رحمن،سلیمان ؑ کی امت کی روحیں یا وہاب اور داؤد ؑ کی امت کی روحیں یا ودود کے نور سے چمک رہی ہوں گی۔
اوریہ روحیں جواسمِ ذات کے نور سے چمک رہی تھیں وہی امت محمد ﷺسے ہیں ،جوروحیں بغیر کسی چمک کے اپاہج یا کمزور یا ناری ہوں گی وہ کبھی بھی کسی امت میں متصورنہ ہوں گی ،بلکہ اس امت میں جاسوس تصور کی جائیں گی ۔
جیساکہ قرآن میں ہے۔
ام حسب الذین اجتر حوالسیات ان نجعلھم کالذین امنو!(القرآن)
ترجمہ :جن لوگوں نے بدکاری کو اپناشیوہ بنالیا ،کیاانہوں نے سمجھ رکھاہے کہ ہم انہیں مومنوں کے برابرکردیں گے۔
قیامت کے دن اسرافیل ؑ صورپھونکیں گے ،ہرذی روح نباتی،جمادی،حیوانی،انسانی،جن ،فرشتے ،لطائف،جُسے سب ختم ہوجائیں گے دوبارہ جب صور پھونکیں گے ،تو صرف انسانی،جناتی روحیں ملائکہ دوبارہ زندہ ہوں گے ،لطائف جُسوں کی عبادت روحوں کو تبدیل ہوجائے گی ۔جس سے ان کے مراتب بڑھ جائیں گے،روحوں کو نئے جسم دیئے جائیں گے جونہ مریں گے نہ جلیں گے ۔کچھ روحیں ان جسموں سے جہنم میں اور کچھ بہشت میں داخل کی جائیں گی۔
بہشت والے حوروں سے مجامعت کرسکیں گے ،جنت کے میوہ جات کھاپی سکیں گے،لیکن ناپاک نہ ہوں گے ،جس طرح کچھ عرصہ آدمؑ اور اماں حوانے جنت میں گزارا ۔ان جسموں سے پہلے جو روحیں برزخ میں ہیں ،ان میں زن ومردکاکوئی امتیاز نہیں۔اورنہ ہی زن و مرد والی کوئی بات ہے۔
جب روح نوری غذا سے جوان ہو جاتی ہے تو جسم سے مراقبہ کے ذریعہ عالم جبروت تک پہنچ سکتی ہے وہا ں کی روحوں اور ملائکہ سے مانوس ہوجاتی ہے ،ایساشخص جبروتی کہلاتاہے۔یہ ولایت کا دوسرادرجہ ہے اوریہ قدم ابراہیمؑ سے ہے جبروت میں سدرۃالمنتہیٰسے ذرانیچے بیت المعمور ہے ،جہاں فرشتے اور صالح ارواح اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ۔خانہ کعبہ بیت المعمورکی نقل ہے ،ابراہیم ؑ کو کشف میں دکھایاگیا تھا ،تب آپ نے اسی کے مطابق اس کی بنیاد رکھی۔اللہ تعالیٰ بیت المعمور کی مخلوق سے بذاتِ خودبذریعہ آوازہمکلام ہوتاہے جب سیدنا غوث اعظمؓ کی روح مبارک کا جنگل میں مراقبہ لگتا۔وہاں کے ڈاکوآپ کو مردہ سمجھ کر قبر میں دفنانے کے لئے لے جاتے لیکن دفن ہونے سے پہلے ہی آپ بیدار ہوجاتے کئی بار ایساہوا۔
روحیں عالم عنکبو ت میں بارہ سالہ بچہ کی عمر میں اکٹھی رہتی ہیں جب دنیا میں آ تی ہیں تو اس عالم کی باتیں بھول جاتی ہیں،جب دنیا میں آکر برزخ میں جاتی ہیں تو اسی جسم کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اورجب برزخ سے زمین پر آتی ہیں تو سفید اور سبز پرندوں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور صور پھو نکنے کے بعد روحیں سب رشتے ناطے بھول جا ئیں گی، نئے جسم ہونگے نئی شکلیں ہونگی ،نہ اولاد ہوگی نہ ہی بڑ ھا پا آگا،بس یہی اک افسوس ہو گا کہ دنیا میں جو لمحہ ذکر اللہ سے خالی گزرا ’’کاش ایسا کبھی نہ ہوتا‘‘
انہی علوم کی پہچان کیلئے کتاب مینا رہ نور کی بھی اشاعت کی گئی ہے جو مسلمان کیلئے ایک مشعل راہ ہے۔
دعاگو حضرت سیدنا ریاض احمد گو ھر شاھی مد ظلہ العالی
المرکز رو حانی،انجمن سرفرو شانِ اسلام پاکستان
خو رشید کالو نی ،نزد خدا کی بستی
کوٹری ضلع دادو فون:0221-870735
اقسام بیعت
پہلی قسم کی بیعت:کسی کامل سے دست بیعت ہونے کے بعد فیض کا سلسلہ شروع ہو تا ہے اس قسم میں صرف نسبت یا منسلک ہو نے سے خاص فیض نہیں ہوتا یہ سلسلہ ہر دور میں موجود ہوتا ہے لیکن اصل کا ملنا محال ہے۔جیسا کہ ایک شخص کو قادری ولایت ملی اور وہ غوث یا قطب ہوا۔اس کی وفات کے بعد اس کا لڑ کا گدی نشین ہوا پھر اس کا لڑکا اور یہ سلسلہ اس طرح چلتا رہا۔لیکن ضروری نہیں کہ باپ بھی غوث بیٹا بھی غوث حتیٰ کہ ساری نسل غوث ہی ہو کیو نکہ ولایت وراثت نہیں بلکہ خداداد ہے اور اس کامل کے خلفاء کی اولاد بھی نسل در نسل گدی نشین بن گئی اب یہ سارے قادری بزرگ ہی کہلائیں گے ان میں کئی وردو وظائف کے عامل اور کئی ظاہری عالم بھی ہونگے۔ لیکن خود کو فقیر کہلائیں گے۔جو کہ فقر کی بو سے بھی آشنا نہ ہونگے کوئی غوثیت اور کوئی قطبیت کے دعوے میں ہوگا پھر اصل کو ٹھکرا ئیں گے اور جھٹلائیں گے اس قسم کی ہزاروں گدیاں اور سجادے اور ہزاروں غوث وقطب ہر شہر میں ہر وقت ملیں گے۔
جبکہ ایک وقت میں ایک ہی غوث و تین قطب ہوتے ہیں ان لوگوں سے بیعت ہونا بیکار ہے اس بیعت سے بہتر تھا کہ کسی ولی کی صحبت میں ایک لمحہ گزار دیتا شاید اصحاب کہف کے کتے کی طرح صرف صحبت سے ہی حضرت قطمیر بن جاتا۔
یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
دوسری قسم کی بیعت : سلسلہ اویسہ کے کسی کامل سے ذاتی منسلک ہونے یا نسبت سے ہی فیض شروع ہو جاتا ہے لیکن یہ سلسلہ کبھی کبھی آتا ہے اس لئے اس کی شناخت بھی محال ہے۔ کامل چاہے اسے بیعت کرے یا نہ کرے لیکن وہ اویسی بیعت میں آجاتا ہے اور طالب کہلاتاہے کامل کے ذمہ اور نظر میں اسوقت تک رہتا ہے۔ جب تک کامل اس کا رخ کسی دوسری طرف نہ پھیر دے۔
حضرت اویس قرنیؓکو بھی بغیر دست بیعت کے حضور پاک ﷺسے فیض تھا حضرت ابو بکر حواری ؒ کو بھی حضرت ابو بکرؓ سے اویسی فیض تھا۔ ان سے با قاعدہ سلسلہ حواریہ چلا با یزید بسطامیؒ کو بھی حضرت امام جعفر صادقؓ سے اویسی فیض تھا ان سے بھی سلسلہ بسطامی چلا ۔سخی سلطان باہوؒ کو بھی حضور پاک ﷺ سے اویسی فیض تھا۔راہ سلوک میں کچھ منازل پانے کے بعد آپ اپنی والدہ کے بے حد اصرار پر حضرت عبد الر حمٰن ؒ سے بیعت ہوئے جس کی آپ کو ضرورت نہ تھی آپ لوگوں کو بھی بغیر دست بیعت کے فیض پہنچاتے اور نظروں سے مسلمان بناتے اور اللہ تک پہنچاتے ۔اگر کسی کو کسی کامل سے قلب اور سینے کا روحی فیض ہو جائے تو وہ خود بخود اس کے سلسلہ میں پیوست اور ولایت میں ضم ہو جاتاہے۔
نماز حقیقت اور نماز صورت میں فرق
نماز صورت کا تعلق زبان سے ہے۔بہتر72فرقے والے یہی نماز پڑھتے ہیں۔خوارج بھی،منافق بھی اور جن پرعلمائے اسلام نے کفر کا فتویٰ دیا وہ قادیانی بھی یہی نماز پڑھتے ہیں۔حتیٰ کہ کافر جاسوس بھی ایسی نماز پڑھ پڑھا کر چلے گئے۔حضور پاک ﷺ کے زمانے میں ایک پری نے شیطان کو بھی نماز پڑھتے دیکھا تھا۔اگر ایسی نماز جنت کی کنجی ہے تو پھر سارے ہی جنتی ہوئے۔جبکہ حدیث شریف میں ہے کہ ’’ ایک فرقہ صحیح اور جنتی ہو گا۔‘‘
نماز حقیقت کیا ہے ۔اس کا ملنا بہت مشکل ہے۔اور اس کو صرف اہل دل پا سکتے ہیں۔نماز حقیقت کیلئے تین(3) شرطیں ہیں۔ایک کی بھی کمی سے نماز نا مکمل ہے۔
اول:۔زبان اقرار کرے زبان سے ادائیگی ہو کیونکہ کافروں کی زبان اقرار نہیں کرتی۔
دوئم:۔قلب تصدیق کرے یعنی زبا ن کے ساتھ ساتھ قلب بھی نماز پڑھے یا صرف دوران نماز قلب اللہ اللہ کرتا رہے کیونکہ منافقوں کے قلب تصدیق نہیں کرتے۔دوران نماز قلب اللہ اللہ تب کرے گا جب دل کی ہر دھڑکن کو اللہ اللہ میں تبدیل کر لیا جائے جسے ذاکر قلبی کہتے ہیں۔
سوئم:۔جسم بھی عمل کرے یعنی نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ رکوع و سجود کرے کیونکہ فاسقوں کے جسم عمل نہیں کرتے نما ز میں ایک اور کڑی شرط ہے کہ ہم اللہ کو دیکھ رہے ہوں یا اللہ ہم کو دیکھ رہا ہو ۔ظاہر ہے ہم اللہ کو نہیں دیکھ رہے اور اللہ بھی ہمیں نہیں دیکھتا کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ ان اللہ لا ینظرا لی صور کم ولا ینظر الی اعمالکم ولکن ینظر الی قلوبکم و نیا تکم( بحوالہ نور الہدیٰ صفحہ 60)
ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے اورنہ تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے وہ تو تمہارے قلبوں اور نیتوں کو دیکھتا ہے۔‘‘ بے شک ہمارے اعمال صالح ہیں ۔لیکن جس قلب پر اللہ کی نظر پڑتی ہے وہ تو سیاہ ہے
لوگوں نے دیکھا نمازی ہے لیکن اللہ نے قلب سیاہ کی وجہ سے نہیں دیکھا تو یہ نماز دکھاوا بن گئی جس کیلئے حکم الٰہی ہے کہ ۔ترجمہ:۔ ان نمازیوں کیلئے تباہی ہے جو نماز حقیقت سے بے خبر ہیں اور ان کی نماز دکھاوا ہے (سورۃ الماعون آیت 3)
زبان کا تصرف عالم نا سوت میں ہے ۔بی بی سی لندن سے آواز پاکستان بلکہ اس سے بھی دور پہنچی ہے زیادہ زبانی عبادت سے زبان میں شیرینی اور اثر آجاتا ہے ۔ا س کی تقریروں اور وعظوں پر دنیا عش عش کرتی ہے۔بہت زیادہ عبادت اور ورد و وظائف سے ایک قسم کی ولایت مل جاتی ہے جس کا تعلق مخلوق اور اس کے درمیان ہوتا ہے۔لیکن مرنے کے بعد یہ ولا یت مخلوق میں ہی رہ جاتی ہے اور وہ خالی ہاتھ جاتا ہے۔قلب کا تعلق عرش معلیٰ سے ہے۔جب یہ یہاں گو نجتا ہے تو اس کی آواز عرش معلٰی میں پہنچتی ہے قلب کی زیادہ عبادت سے قلب میں نرمی اور شیرینی پیدا ہو جاتی ہے۔جس پر اللہ تعالیٰ عش عش کرتا ہے ۔قلب کی دائمی عبادت سے دوسری قسم کے ولایت بھی مل جاتی ہے جس کا تعلق خالق اور اس کے درمیان ہوتا ہے اور مرنے کے بعد یہ ولایت ساتھ جاتی ہے اور وہی قلب اس نماز کو عرش تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔اور وہی نماز پھر مومن کی معراج ہے ۔ایسی نماز اگر پورے دن میں دو رکعت بھی میسر آجائے تو پھر بھی بخشش کی امید ہے ۔نماز صورت دن رات پڑھتا رہے تب بھی رب سے دور ہی ہے۔
مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں (نماز حقیقت خاصان خدا کیلئے ہے ۔عام کو بھی اس کے حصول کی کو شش کرنا چاہیے کیوں نہ چین تک جانا پڑے)۔
تبھی تو حدیث میں ہے کہ’’ دل کی حضوری کے بغیر نماز قابل قبول نہیں۔ ‘‘
تشریح:۔لطیفۂ قلب بذات خود عرش معلی پر حا ضر ہو تا ہے یا لطیفۂ قلب کی آواز عرش معلٰی پر حا ضر ہو تی ہے ا ورنمازی زمین پر رکو ع و سجود میں !جیسا کہ معراج میں جب حضور پاک ﷺ حضرت موسیٰؑ کی قبر سے گزرے تو موسیٰؑ قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔اور آپ ﷺ جب فوراً عرش پر پہنچے تو دیکھا کہ موسیٰؑ وہاں بھی نماز پڑھ رہے ہیں ۔