Monday, October 14, 2024
میگزین

ایڈیٹر کی ڈاک فروری 2010

لوڈ شیڈنگ کا عذاب
مکرمی! میں آپ کے موقر جریدے کی وساطت سے آپکی توجہ (توجہ تو آپکی پہلے بھی ہوگی کیونکہ آپ بھی یہ عذاب بھگت رہے ہوں گے)بجلی کی غیر اعلانیہ اور طویل وقفوں تک کی لوڈ شیڈنگ ہے۔اس وقت پوری دنیا میں بجلی پیدا کرنے کے لیے دو طریقے زیادہ مقبول ہیں جن میں ایک تو بنیادی طریقہ پن بجلی ہے جو کہ سستہ اور ماحول دوست بھی ہے اور دوسر ا طریقہ کسی بھی قسم کے فیول سے بجلی بنائی جاتی ہے یہ طریقہ مہنگا بھی ہے اور ماحول کے لیے بھی نقصان دہ ہے کیونکہ کئی خطرناک گیسیں بھی اس عمل میں پیدا ہو جاتی ہیں۔ساری دنیامیں 80فیصد بجلی پن اور 20فیصد دوسرے طریقوں سے حاصل کی جاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں اسکے بالکل الٹ ہے اور 80فیصد بجلی پاور پلانٹس سے اصل کی جاتی ہے جبکہ 20فیصد بجلی ڈیموں سے حاصل کی جاتی ہے ۔اب جبکہ 80فیصد بجلی پیدا ہو پاور پلانٹس سے کی جاتی ہے تو پھر ان میں قلت کیسی؟۔ اصل میں ہماری حکومت ان بجلی پیدا کرنے والے اداروں جن کو آئی پی پی(IPP)کہتے ہیں تو بجلی کی خرید کی پوری رقم نہیں دیتے جواب میں وہ کمپنیاں بجلی کی پیداوار عارضی طور پر کم کر کے ملک میں لوڈشیڈنگ کر دیتی ہیں اور یہ عارضی طورپر پیدا کردہ لوڈ شیڈنگ کبھی کبھی اچانک ہی ختم کر دی جاتی ہے اور پھر اچانک ہی شروع کر دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور طرف توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے کہ اگر ان بجلی پیدا کرنے والے اداروں کو بروقت ادائیگیاں نہیں کی جارہی ہیں تو وہ رقم کہاں جا رہی ہے ؟۔ہے کو ئی جو اس ظلم کے بارے میں سراغ لگا سکے ؟؟

(صفدر حسین لاہور)

پیٹرولیم قیمتوں میں اضافہ
عالمی سطح پرخام تیل کی قیمتیں جنگی حالات کی وجہ سے بڑھی لیکن پھر رفتہ رفتہ کم ہوگئیں۔قیمتیں بڑھنے سے پہلے خام تیل کہ پیداواری قیمت 70ڈالر فی بیرل تھی اور پھر یہ قیمتیں دو گنا ہو گئیں۔تقریباً140 ڈالر فی بیرل تک پہنچ کر یہ قیمت کچھ عرصہ برقرار بھی رہی۔عالمی سطح پر بڑھنے والی اس قیمت کے ساتھ ہی پاکستان میں پیٹرولیم کی مصنوعات میں بے تحاشا اضافہ کر دیا گیا لیکن جب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کم ہوئی تو ہماری حکومت نے تیل کی قیمتیں کم کرنے کے بجائے ان کو نہ صرف بلند ترین سطح پر قائم رکھنے کا فیصلہ کیا بلکہ ہر ماہ باقاعدگی سے ان میں اضافہ بھی کرتی رہتی ہے ۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان غریب عوام کو ہی ہوتا ہے لیکن تیل کی آمدنی سے بے تحاشہ دولت کمانے والے کہتے ہیں کہ وہ آدمی کیسے غریب ہو سکتاہے جو 600روپے کا 20کلو آٹے کا تھیلا لے سکتا ہے، جو 130روپے کا ایک کلوگھی، 80روپے کلو تک چینی خرید سکتا ہے ۔اس لیے اگرپیڑولیم مصنوعات مزید بھی مہنگی کر دی جائیں تو اس سے اس غریب عوام پر اور بوجھ ہی بڑھے گا اور اس بوجھ کو یہ عوام پہلے ہی اٹھائے جا رہے ہیں لیکن یہ مصنوعات مہنگی کرنے والوں کی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ضرور ہو جائے گا او ر ہو رہاہے۔

(سید طاہررضاملتان)

ترقیاتی منصوبوں میں التواء
ہر حکومت کے آتے ہیں میڈیا میں اسکے جاری اور آئندہ آنے والے منصوبوں کی ایک بہت بڑی تفصیل جاری کردی جاتی ہے اور حکومتی کارندے عوام کو ان منصوبوں سے ہونے والے فائدے کے سنہر ی باغ دکھا کر بے وقوف بناتے رہتے ہیں اور عوام اتنا عرصہ بے وقوف بننے کے بعد کسی بھی حکومت کے اچانک خاتمے کے بعد خوشی مناتے ہیں اور آئندہ آنے والے کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں لیکن آنے والا بھی کسی پچھلے کاہی رشتہ دار ہوتا ہے اور پھر ویسا ہی ہوتا ہے جیسا پہلے ہو چکا ہوتا ہے اور ایسا گزشتہ 62سالوں سے ہوتا آرہا ہے لیکن ابھی تک کو ئی بھی ایسا نہیں آسکا جو قرار واقعی ہی ملک کا خیر خواہ ہو۔ایسا ہی اس حکومتی دور میں ہورہا ہے کہ پچھلی حکومت کے جاری بہت سے منصوبوں کوبند کر دیا گیا ہے اور ان ہی منصوبوں کو دوبارہ سے نئے سرے سے اپنے ناموں کی تختیاں لگا کر شروع کر دیا گیا تاکہ نئے سرے سے ان منصوبوں سے کمیشن کھایا جا سکے۔میرا مقصد کسی ایک خاص علاقے کے منصوبوں کی طرف آپکی توجہ دلانانہیں ہے بلکہ میں آپکی توجہ مجموعی طور پر زیر التواء ملکی منصوبوں کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ جیسے ہر حکومت کالا باغ ڈیم کے منصوبے کا ذکر کرتی ہے لیکن اس کو کوئی بھی شروع نہیں کرتا۔ایسا ہی تعلیم معیار کو بہتر کرنے کے دعوے ہیں۔عوام کی فلاح و بہبود کے بہت سے منصوبے بھی ویسے ہی لا حل ہیں۔

محمد یاسر علی مغل راولپنڈی

خواتین کے مسائل
میں آپکے میگزین کی وساطت سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں کہ ایسی مجبو ر خواتین جو کسی مجبوری کی وجہ سے ملازمتیں رنے کی غرض سے اپنے گھروں سے باہر نکلتی ہیں تو معاشرہ ا نہیں باعزت مقام کیوں نہیں دیتا؟۔ہر ملازمت کرنے والی عورت کو کیوں یہ سمجھ کر عزت نہیں دی جاتی کہ یہ بھی کسی کی عزت ہے ،کسی کی ماں،بہن یا بیٹی ہے۔راہ چلتے فقرے کسنا،سر بازار ہوس زدہ نگاہوں سے دیکھنا، یہ ہم کس معاشرے کی عکاسی کر رہے ہیں۔؟اب تو حکومت نے خواتین کی حفاظت کے لیے تحفظ حقوق نسواں بل بھی منظو رکر لیا ہے لیکن اس کے باوجود محنت کش خواتین کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کی وجہ سے خواتین اس قانون سے بھر پور استفادہ حاصل نہیں کر سکتیں۔

(مس ثانیہ لاہور )

 مذہب کا اصل رنگ
مکرمی! میں نے بہت سے مذہبی لوگوں سے روابط رکھنے ،مذہب پر تحقیق کرنے کے بعد اور اسلامی تعلیمات کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس وقت ہمارے ملک میں جو اسلام کا تصور پیش کیا جارہا ہے وہ ہر گز ہرگز بھی درست نہیں ہے ۔کہیں کوئی فرقہ اسلام کو دہشت گرد بنا کر پیش کر رہا ہے تو کہیں کوئی فرقہ فروہی معاملات کو اچھال کر اپنے آپ کو نجات دہندہ کے طو رپر پیش کرنے میں مصروفِ عمل ہے۔لیکن ہر کوئی اسلام کی اصل تعلیم کو بھول چکا ہے یا صرف ادھوری تعلیمات کا ہی پرچار کر رہا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلام کی ادھوری تعلیمات کی بجائے اصل تعلیمات کی طرف اپنی توجہ کریں اور ان پر عمل پیر ا ہو کر حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کریں ایک ایسامعاشرہ جس میں سسکتی ہوئی انسانیت کو فلاح مل سکے ۔اس سلسلے میں علماء کرام کے چاہیے کہ وہ فروحی مسائل کو چھوڑکر امتِ مسلمہ کو ایک راہ پر گامزن کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں

۔(شریف الدین کراچی)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *