شیر کی ایک دن کی زندگی
تاریخ گواہ ہے کہ غالب قوم بعض خصوصی صفات کی حامل ہوتی ہے۔ ازمنہ وسطیٰ سے لیکر ماضی قریب تک دنیا میں غالب قوم کی غالب صفت بہادری اور جنگجوئی تھی۔ اس بہادری اور جنگجو عی کی بنیاد عدل و قسط پر ہوتی تھی اور ظلم و تعدی بھی ، البتہ قوت کا استعمال بہر صورت ناگزیر رہا۔ اس فرق کے ساتھ بعض بیرونی فاتحین کا استقبال ان کی راہ میں پھول بچھا کر کیا گیا۔ اور بعد ازاں ان کے حسن سلوک اور مثالی طرز حکومت کی وجہ سے مفتوحین اپنے فاتحین کے ایسے گروہ ہوئے کہ کہیں ان کا دین اپنا کران کو ہوکر رہ گئے۔ اور کہیں ان کے بت تراش کر اپنے معبدوں میں رکھ لئے۔
محمد بن قاسمؒ اور طارق بن زیاد اس کی واضح مثالیں ہیں۔ جبکہ چنگیز خان اور ہلاکو خان نے قوت کا استعمال خون کے دریا بہانے اور انسانی کھوپریوں کے پہاڑ بناتے ہوئے کیا۔ یہ درندگی اور خونخواری الگ بات ہے لیکن ہم منگولوں کے بہادر اور جنگجو ہونے سے انکار نہیں کر سکتے۔ ہمیں یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ظلم اور خونریزی کے حوالہ سے ہم اکثر ہلاکو اور چنگیز خان کی مثال اس لئے دیتے ہیں کہ ہمارے مسلمان بھائی تہہ تیغ ہوئے اور ان کا خون بہا پھر یہ کہ ہمیں تاریخ کے بہت زیادہ پرت الٹنے نہیں پڑتے۔ یہ ماضی قریب کی تاریخ ہے۔ وگرنہ ماضی بعید میں بھی فاتحین کی درندگی اور خونریزی کی بہت سے مثالیں ہیں۔ انسانی تاریخ کا جہاں تک سراغ ملتا ہے یعنی ہزاروں سال قبل مسیح سے لیکر انیسویں صدی عیسویں تک ہر دور میں دنیا غالب قوم کی غالب صفت بہادری، شجاعت اور جنگجو یانہ روش ہی تھی غالب قوم میں ذہانت وفطانت اورحکمت و منصوبہ بندی جیسی صفات بھی یقیناًکسی نہ کسی درجہ میں ہوتی ہوں گی لیکن ان کی حیثیت ثانوی تھی۔
انیسویں صدی کے اول آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا میں صنعتی انقلاب آیا۔ سائنس اس انقلاب کی بنیاد تھی۔ حالات نے کروٹ بدلی۔ اب دنیا میں غالب قوم بننے کے لئے جہاں بہادری اورشجاعت کی ضرورت تھی۔ وہاں سائنسی علوم اور اس کی بنیاد پر صنعتی ترقی نے بھی اہم حیثیت حاصل کر لی۔ افسوس صد افسوس کہ تاریخ کے اس انتہائی اہم اور نازک موڑ پر مسلمان غافل اورتن آسان ہوچکا تھا۔ اور ان کے حکمران عیش و عشرت کے دلدادہ اور ہوس دنیا میں اندھا ہو چکے تھے۔ اقتدار کے ایوانوں میں محلاتی سازشیں ہو رہی تھیں۔ اور عوام میں جہالت اور تفرقہ بازی عروج پر تھی۔ وقت تو پہلے بھی کسی کا انتظار نہیں کرتا تھا۔ اب تو وقت کو الیکٹرک پہیہ لگ چکا ہے۔ دنیا میں غالب قوم کی حیثیت سے ابھرنے کے لئے اب جدید ترین ٹیکنالوجی کا حصول شرط اول ٹھہر یور شاعت و بہادری کی حیثیت ثانوی ہے۔ بلکہ اس سے بھی کمتر ہو گئی چنانچہ بہادر اور جانفروش افغانوں پر چوہے کی آہٹ سے ڈرنے والے امریکی غالب آ گئے۔ ہم اگر غلامی کا طوق گردن سے اتارناچاہتے ہیں۔ اور اس دشمن غالب قوت کو بچھاڑنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی دونوں آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی۔ ایک طرف ہم اللہ اور اس کے رسول سے از سر نو اپنے رشتہ کو استوار کریں اور دین کے حوالے سے اپنے اسلاف کے طرز عمل کو اپنائیں اور دوسری طرف دینوی معاملات میں جدت پسندی کی شرعی حدود میں محصور کرکے دنیا پر سبقت حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کریں اور صحیح معنوں میں راستے کے راہبر اور دنیا کے مجاہد بنیں۔ آج سے دو صدیاں پہلے ایک مرد حر نے کہا تھا ، شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ مراد یہ تھی کہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔ آج مسلمان کثیر تعداد میں دنیا کے چار سو پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس بے تحاشہ دولت اور قدرتی وسائل ہیں وہ دنیا میں بہت بڑے رقبے کے مالک ہیں لیکن عزت و وقار نام کی کوئی شے ان کے پاس نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان کی دونوں آنکھیں بند ہیں۔ بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ قرآن کی صورت میں روشنی کا مینار ان کی بغل میں ہے۔ لیکن آنکھوں میں نور نہ ہو تو چمکتا سورج بھی راہ نہیں دکھا سکتا۔ ہلاکو اور چنیگز کبھی ہدیہ اور تاون قبول نہیں کیا کرتے،زندگی کو بہر حال ختم ہو جانا ہے یہ ہمارا فیصلہ ہو گا کہ شیر کی راہ اختیار کریں یا گیڈر کی!