آزادی اور غلامی کا مطالعہ
حضرت علیؓ بن ابی طالب نے فرمایا کہ’’یہ دنیا انسان کے لئے ایک ایسی جگہ ہے جہاں وہ چاہے یا نہ چاہے اسے چند روز گزارنے ہیں‘‘۔ پھر فرمایاں’’ا س دنیا میں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں، ایک وہ لوگ ہیں جو اس دنیا میںآتے ہیں اور اپنے آپ کو بیچ ڈالتے ہیں اور غلام بن جاتے ہیں۔ اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو اس دنیا میں آتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو خرید لیتے ہیں۔ اور آزاد ہو جاتے ہیں۔‘‘ یہ فکر اتنی قومی گہری اور پر معنی ہے کہ اسے اس الٰہی نور سے سمجھا جا سکتا ہے۔جو اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو عطا کرتا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت آج بھی غلام ہے ، اپنی شخصیت ضائع کر بیٹھی ہے ، لوگوں کی اکثریت اپنے آپ کو بیچ چکی ہے۔قرآن تعبیر کے مطابق یہ نقصان اور خسارہ خود انسان کے اپنے ہاتھوں ہوا ہے، یہ لوگ شہوت ، حرص اور غضب کے غلام بن گئے ہیں۔ یہ جاہلانہ عادات اور رسومات کے اسیر بن کر رہ گئے ہیں۔
یہ لوگ نا معقول اور منطق سے عاری فکر کے غلام بن چکے ہیں۔ یہ لوگ فیشن اور رواج کی اندھا دھند تقلید کرنے لگ پڑے ہیں کیونکہ یہ لوگ اس قول پر عمل کر رہے ہیں کہ ’’اگر رسوا نہیں ہونا چاہتے تو اس طبقے میں شامل ہو جائیں‘‘ لوگ اس پیروی کی یہ توجیہہ کر لیتے ہیں کہ ہم کسی کے زر خرید تو نہیں ہیں، ہم آزاد ہیں اور آزادی قائل ہیں۔ لیکن وہ نہیں جانتے کہ یہی تو وہ مقام ہے جہاں سے زیادہ باریک ہزار نکات پوشید ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ غلامی اور بندگی کی ہزاروں صورتیں ہیں وہ یہ نہیں جانتے کے لالچ اور حرص کی بندگی بھی غلامی ہے ، جاہلانہ عادات کی پیروی بھی غلامی ہے دولت پرستی بھی غلامی ہے، فیشن پرستی بھی غلامی ہے۔
یوسف علیہ السلام نے کئی سال غلامی کی زندگی گزاری یعنی بازار میں ایک چیز کی مانند بکتے رہے ایک بے جان چیز کی طرح اس ہاتھ سے اس ہاتھ چلے جاتے، ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہوتے رہے۔ جبکہ وہ کسی بھی چیز کے مالک نہیں تھے۔ حتی کہ غذ ا کھاتے، یا لباس پہنتے تھے۔ وہ بھی ان کا اپنا نہیں ہوتا تھا، اگر وہ مزدوری کرتے تو اس کے عوض جو انہیں ملتا وہ بھی ان کا اپنا نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ وہ ان کے مالک کا ہوتا تھا کیونکہ غلام جو کچھ بھی کرے وہ اس کا اپنا نہیں ہوتا۔جسمانی لحاظ سے آپؑ غلام تھے۔ لیکن حضرت یوسفؑ نے یہ ثابت کر دیا کہ مصر میں ان سے زیادہ آزاد کوئی اور نہیں۔ آپؑ مصر کی خوبصورت عورت کے معشوق بن گئے۔ جسمانی غلام ہونے کے باوجود آپؑ نے اس کے ارادے کو رد کر دیااور کہا ’’ مالکیت کے قانون کے مطابق میرا جسم تمہارا غلام ضرور ہے۔ لیکن میری روح آزاد ہے۔ میں شہوت ، ہوا، ہوس اورخود پسندی کا غلام نہیں ہوں۔ میں فقط ایک حقیقت کا بندہ ہوں۔ میری روح فقط ایک فرمان کے سامنے سربسجود ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو میرا خالق ہے۔ میں تمہاری اس غلامی کے باوجود پس دیوار زندگان جانے کے لئے تیار ہوں لیکن شہوت اور ہوا و ہوس کا بندہ نہیں بن سکتا۔ میں اس ظاہری محدودیت اور محرومیت کو قبول کرتا ہوں اور اپنے اللہ سے یہ دعا کی’’اے میرے اللہ یہ زندگان مجھے محبوب ہے‘‘۔
تاریخ میں ایسے شواہد ہیں کہ قانون مالکیت کے لحاظ سے کچھ لوگ غلام تھے، لیکن عقل اور فکر کے لحاظ سے آزاد تھے۔ کیاحکیم لقمان کہ جن کے نام سے قرآن مجید ایک سورت بھی ہے۔ غلام نہیں تھے؟ جبکہ عقل اور اخلاق کے لحاظ سے آزادی کی انتہا پر تھے۔ جبکہ ہم اکثر ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں۔ جو مالکیت کے حوالے سے آزاد ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں وہ اس پر اور غلام ہوتے ہیں۔ان کی عقل اور فکر غلام ہوتی ہے۔ ان کی روح اور دل غلام ہوتے ہیں۔ ان کا اخلاق اور شہامت غلام ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے’’کہہ دو کہ یقیناًخسارے میں ہے وہ شخص جس نے اپنے آپ کو فروخت کر دیا اور اپنی شخصیت خود اپنے ہاتھ سے دیدی‘‘ جو شخص دنیا میں اپنا گھر ، مال و دولت وغیرہ کا نقصان کر بیٹھے یا اپنی اجمتاعی اہمیت کھو دے تو یہ اتنا اہم نہیں ہو گا، جتنا وہ اپنی انسانی اور معنوی حیثیت کھو بیٹھتا ہے۔ اس کی حریت اور شہامت چلی جائے، اپنی شجاعت سے ہاتھ سے دے بیٹھے، اس کا دل اور ضمیرمردہ ہو جائے۔وہ عقل اور ایمان کھو بیٹھے۔ اس کی بے نیازی اور فیاضی جاتی رہے۔