ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اداریہ
اس بات سے قطع نظر کہ خط غربت کی تعریف کیا ہے اور اسے ماپنے کے لئے پیمانے تشکیل دیئے گئے ہیں، اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں غربت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے، 1999ء میں پاکستان میں شرح غربت1988ء میں کل آبادی کے 17.3فیصد کے مقابلے میں دوگنی یعنی32.6فیصد(دیہی آبادی کا پینتیس فیصد اور شہری آبادی کا چھبیں فیصد) ہو چکی ہے۔اس اندازے کی بنیاد پلاننگ کمیشن کی بیان کردہ اس تعریف پر رکھی گئی ہے جس کے مطابق خط غربت فی بالغ فرد2350کیلوریز یومیہ یا670روپے فی بالغ مرد ماہانہ سے کم آمدن کو کہا جاتا ہے یہ امر قابل ذکر ہے کہ صرف یہ دکھانے کی خاطر غربت کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے پلاننگ کمیشن اپنے پہلے سے مقرر کردہ2.550کیلوریز کے معیار کی حد کو کم کر کے2.350پر لے آیا ہے اور یہ افسوسناک حقیقت بدلتے ہوئے رحجانات کوناپنے کے لئے کوئی مستند اور مستقل معیار مقرر کئے جانے کی متقاضی ہے۔غیر جانبدار اندازوں کے مطابق خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والی آبادی کا تناسب بڑھتے بڑھتے اب تک56فیصد ہو چکا ہے جو تعداد کے اعتبار سے بھی زیادہ بنتا ہے، مزید برآں غریبوں کی اس آبادی میں ہر سال دس لاکھ افراد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے جو متحدہ عرب امارات کی نصف آبادی کے برابر ہے۔غربت کی نوعیت کو سمجھنے میں غلطی کرنا، مطلق غربت سے بھی زیادہ سنگین ہے اور یہی بات امیر اور غریب کے درمیان خلیج کو وسیع تر کرنے کے علاوہ ہم آہنگی کا توازن بھی خراب کر رہی ہے۔ملکی معیشت میں قلیل آمدنی والے گروہوں کی آمدن کا حصہ1970-71میں 6.2فیصد ہو چکا ہے جبکہ اسی عرصہ میں امیر طبقوں کی آمدن43.5فیصد سے بڑھ کر 49.7فیصد ہو چکی ہے جس سے اس روز افزوں نفرت کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ کسی گھرانے کی آمدن کم ہونے لگے تو اس کو سنبھالا دینا مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ غربت ایسی متعدی بیماری ہے جس سے صحت یابی کا انحصار جدو جہد کے ساتھ ساتھ اچھی قسمت پر بھی اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ غریب کے پاس اثاثے ہوتے ہیں اور نہ ہی ریاستی ڈھانچے تک رسائی کے لئے ایسے تعلقات جو غیر متوقع حالات مثلاً بیماری ، روزی کمانے والے فرد کی عارضی معذوری یا اس محدود آمدن کو برباد کر دینے والی خشک سالی یا سیلاب وغیرہ جیسی قدرتی آفات کے خلاف اسے تحفظ فراہم کر سکیں۔ بعض اوقات کسی بیماری وغیرہ جسے بظاہر عارضی رکاوٹ بھی مستقل غربت کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ کسی ہنر یا اثاثوں کی غیر موجودگی جیسے عوامل غریب عوام کے پاس نامساعد حالات کم کرنے کے مواقع ختم کر کے رکھ دیتے ہیں۔چونکہ غربت اور اپنے وسائل کو کھو دینے کے خدشات غریب آدمی کو کم سے کم خطرہ لینے پر مجبور کرتے ہیں اس لئے وہ کم پیداواری معاشی سرگرمیاں اختیار کرتا ہے اور وہ اپنی روز مرہ روٹی کے تحفظ کی خاطر وہ غیر پیداواری یا کم آمدنی والی مزدوی اختیار کرتا ہے اور یہی چیز اس کی غربت کے دوام کا بڑا سبب بھی ہے۔کوئی شنوائی اور اختیار نہ ہونے کی وجہ سے غریب آدمی ریاستی اداروں سے بہتر توجہ حاصل کرنے کی اہلیت اور اثر و رسوخ بھی نہیں رکھتا، پھر براطرز حکومت اور بد عنوانی بھی غریب کو بری طرح سے متاثر کرتے ہیں، افسر شاہی کو من مانیاں نہ صرف اسے مفلوج کر کے رکھ دیتی ہیں بلکہ کسی قضیے کا حل بھی بہت مہنگا پڑتا ہے ۔ اس قسم کے ناگہانی اور استطاعت سے زیادہ اخراجات کسی بھی غریب گھرانے کی کمر توڑنے کیلئے کافی ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار کم ہو جانا اس کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے ، 1996-97سے لیکر قومی فی کس آمدنی میں ایک فیصد سالانہ سے بھی کم شرح سے اضافہ ہوا۔ 1977سے1988تک 6.7فیصد سالانہ شرح نمو اسی کی دہائی کے اواخر اور نوے کے دہائی کے اوائل کی پانچ فیصد سے گرتے گرتے 4.1فیصد اور بالآخر 3.3فیصد رہ گئی۔ اگرچہ شرح نمو میں تیزی سے کمی لانے میں آئی ایم ایف کی طرف سے نافذ کردہ کبیر معیشتی پالیسیوں کا بھی بہت حد تک ہاتھ رہا تا ہم پاکستان کا معاشی تجزیہ ثابت کرتا ہے کہ شرح نمو میں کمی واقعہ ہو جانے کے لئے صرف یہی ایک وجہ ضروری نہیں۔1990ء کی دہائی کے دوران بنیادی ڈھانچے کے سدھار کے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے نافذ کردہ اصلاحات میں سب سڈی کا خاتمہ ٹیکس کا زیادہ موثر نظام متعارف کرایا جانا اور پیداواری و ترقیاتی اخراجات میں کمی لانا وغیرہ شامل ہے۔آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق نافذ کردہ ٹیکس کا ڈھانچہ متعارف کرائے جانے کے بعد1987-88سے لیکر اب تک کم آمدنی والے گروہوں کے ٹیکس دہندگان میں چار فیصد کا اضافہ اور سب سے زیادہ آمدنی والے گروہوں میں اکیس فیصد کمی نوٹ کی گئی ہے۔