Tuesday, October 15, 2024
تصانیف

دین الٰہی

گورنمنٹ آف پاکستان کے نام
میری اس تصنیف کا جائزہ ‘ اور میری ذاتی انکوائری‘ جس کے لئے مختلف ایجنسیاں استعمال کی جا رہی ہیں۔ میری تصانیف اور شخصیت کی تحقیق ایسے منصف مزاج صحافیوں‘ دانشوروں اور سکیورٹی افسروں سے کروائی جائے جو روحانیت اور تصوف کے مخالف فرقے سے نہ ہوں اور تنگ نظر مولوی بھی نہ ہوں‘ کیونکہ انتشار کا سبب یہی لوگ ہیں۔ اگر یہ علم اللہ کی محبت کا درس اور وسیلہ ثابت نہ ہو‘ یا سب مذاہب کو ایک کرنے میں مددگار‘ یا دنیا میں امن کا خواہاں نہ ہو‘ یا اس سے وابستہ مختلف مذاہب کے لوگ گناہوں سے دور اور اللہ‘ رسولؐ کے محب‘ پرستار نہ بنے ہوں ‘ یا اس علم کے ثبوت یا اشارے‘ آسمانی کتب‘ احادیث اور ولیوں کے مکتوبات سے باہر ہوں‘ نیز زمین و فلک پر دکھائی گئی تصویریں‘ خود ساختہ‘ من گھڑت‘ یا بے ثبوت ہوں تو حکومت ہر قسم کی سزا یا بندش کی مجاز ہے۔
ہمارے نوٹس میں آیا ہے کہ حکومت ان تصاویر کی بہت پہلے تحقیق کر چکی ہے۔ لیکن عوام میں فتنے کی وجہ سے خاموش ہے۔ حتیٰ کہ اس فتنے کے خطرے کے پیش نظر گوھرشاہی کو مختلف حربوں سے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کوشش نواز دور سے شروع ہوئی۔ اسکے جانے کے بعد بھی اس کے ہم خیال اس حکومت میں موجود ہیں۔انانیت ‘ فرقہ واریت ‘ عقیدے یا کرسی کی وجہ سے رب کی نشانیوں کو جھٹلانا سربراہوں کے لئے اچھا شگون نہیں ہوتا۔ رب کی نشانیاں فتنہ پیدا نہیں کرتیں بلکہ فتنوں کو مٹانے کے لئے آتی ہیں۔ جس کا لوگوں کو شعور نہیں ہے۔
حکومتِ پاکستان اگر منصف مزاجی سے تحقیقی رپورٹ شائع کر دے۔ جس کی تحقیق غیر ممالک نے بھی کرنی ہے۔ تو پھر بچوں سے لیکر بوڑھوں تک کے دل بھی اللہ کے ذکر اور اس کے نام سے چمکتے نظر آئیں گے، کیونکہ مؤمن اور صادق قسم کے لوگ تصدیق کے منتظر ہیں۔
ہمارا نہ سیاسی جماعت سے تعلق ہے‘ اور نہ ہی حکومتی کاموں میں مداخلت کرتے ہیں۔ جو کچھ بھی کر رہے ہیں‘ رب کی رضا سے کر رہے ہیں اور مستقبل میں جو کچھ بھی ہونا ہے رب کی رضا سے ہی ہونا ہے۔ اس وجہ سے بے خوف اور بے دھڑک حقیقت کو آشکار اکر رہے ہیں۔
اب یہ معلوم ہوا ہے ، کہ حجرِاسود، چاند ، سورج اور ستارے پر نمودار تصویروں کی وجہ سے فوجی جرنیل اور حکومت گوہر شاہی کو امریکہ یا کسی اور ملک کا ایجنٹ اور ملک کے لئے خطرہ سمجھتی ہے ۔ واقعی ، میں اُسی حکومت کا ایجنٹ ہوں، جس نے یہ تصویریں لگائی ہیں۔ میں کئی دفعہ یہ اعلان کر چکا ہوں کہ ملک دشمنی، اسلام دشمنی، توہینِ رسالت یا منکرِ ختمِ نبوت کا اگر کوئی بھی ثبوت کسی کے پاس ہو ، تو بے شک مجھے زندہ جلادیا جائے۔ ہماری نس نس اللہ‘ رسولؐ کے عشق میں تڑپتی ہے۔ جو لوگ ایسے لوگوں پر جھوٹی رپورٹ یا جھوٹا بہتان لگاتے ہیں وہی ہیں۔
لعنۃُاللّٰہ علی الکاذبین!
والسلام
ریاض احمد گوھر شاہی

’’ دین ِ الٰہی‘‘

خدا کے پوشیدہ راز

مُصنّف
ریاض احمد گوہر شاہی
ناشر: آل فیتھ سپریچوئل موومنٹ ( آئر لینڈ)
All-Faith Spiritual Movement
Ireland

۷۸۶

تصنیف ھٰذا کے جملہ حقوق محفوظ ہیں
یہ کتاب اللہ کے متلاشیوں اور اللہ سے محبت کرنے والوں کیلئے ایک تحفہ ہے
اطلاع برائے ذاکرین:
یہ کتاب حق پرستوں ‘ منصف مزاج لوگوں اور اللہ کے طالبوں تک پہنچانی ہے
ازلی منافق اس کو تلف کرنے کی کوشش کریں گے

نام تصنیف دینِ الہٰی
مصنف حضرت سیدنا ریاض احمد گوھر شاہی مدظلہ العالی
امجد علی (متحدہ عرب امارات)
اشاعت دوئم فروری2000
تعداد 50ہزار
ناشر آل فیتھ اسپریچول موومنٹ (زاہد گلزار‘ سبھاش شرما)

اس کتاب میں کمپیوٹر کمپوزنگ کی کسی بھی غلطی کیلئے پیشگی معذرت خواہ ہیں۔
غلطیوں کی نشاندہی کریں تاکہ انہیں آئندہ ایڈیشن میں درست کر دیا جائے۔

فہرست
نمبر شمار عنوان صفحہ
1 پیش لفظ 4
2 تعارف 6
3 چاند‘ سورج کی تصاویر کے بارے میں مکمل وضاحت 10
4 دیباچہ 12
5 باب اول۔انسان ازل سے ابد تک 13
6 باب دوئم۔ دنیا میں انسان کی بنیاد 15
7 باب سوئم ۔لطائف /شکتیاں 17
8 باب چہارم ۔لفظ اللہ 21
9 باب پنجم۔ مراقبہ 24
10 باب ششم ۔ بہشت کن لوگوں کیلئے 25
11 باب ہفتم ۔تقویٰ کن لوگوں کیلئے 28
12 با ب ہشتم۔سوچ تو ذرا۔ تو کس آدم کی اولاد میں سے ہے 29
13 باب نہم ۔دین الہٰی 35
14 باب دہم۔ولی کسے کہتے ہیں 45
15 قدرت کی نشانیاں تصاویر کے آئینے میں 54
16 مختلف مذہب کے چیدہ چیدہ پروگراموں کی تصویری جھلکیاں 72
17 تریاق قلب 78

پیش لفظ

خداوند کریم نبیوں کے بعد ولیوں کو بھی دنیا میں بھیجتا رہا ہے، جن کے ذریعے گناہ گار ‘ سیاہ کار لوگ ہدایت حاصل کر تے رہے۔ اس ُ پر فتن دور میں بھی اللہ کے کامل ولی ‘ امام انقلاب‘ سلطان الفقراء حضرت سیدنا ریاض احمد گوھر شاہی مدظلہ العالی کو ہم جیسے گناہ گاروں کیلئے اس دنیا میں بھیجا۔ جنہوں نے سسکتی ہوئی انسانیت کو فرقہ واریت‘ ظلم و ستم سے نکال کر امن و سکون بخشنے کا بیڑا اٹھایااور جو نسخہ کیمیا لوگوں کو بتایا اس کے ذریعے آج بے شمار قومیں ‘ فرقے اور کئی مذاہب ایک جان ہونے کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اور انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب تعلیمات گوھر شاہی کی بدولت اس دنیا میں تمام مذاہب ایک ہو کر دین الہٰی میں داخل ہونگے۔اور پوری دنیا میں اس انقلاب کی بدولت امن قائم ہوگا۔
یوں تو حضرت گوھر شاہی مدظلہ العالی نے روحانیت کے طالبین کے لئے کئی تصانیف تحریر فرمائی ہیں لیکن زیر نظر کتاب ’’دین الہیٰ ‘‘ جو اپنے نام سے ہی خصوصی اہمیت کی حامل معلوم ہوتی ہے حقیقت میں اس سے کہیں بڑھ کر اس کے اندر موجود حضرت نے جو انمول ہیروں کے موتی بکھیرے ہیں وہ کہیں اور سے ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن اور تصور سے بھی ماورا ہیں۔ اہل سلاسل ‘ گدی نشین اور علمائے حق کہتے ہیں کہ کتاب ’’دین الہیٰ‘‘عالم انسانیت کیلئے نہ صرف ذریعہ نجات ہے بلکہ پیر حضرات اور طالبین حق اسے عشق الہیٰ حاصل کرنے میں بے مثال پائیں گے۔ لہٰذا خدا کے پوشیدہ رازوں سے جو پردہ اٹھایا گیا ہے ہم انسانیت کے فائدے کیلئے پیش کر رہے ہیں تاکہ اکیسویں صدی کی سب سے حیرت انگیز‘ خوبصورت اور لازوال تحریر سے ہر خاص و عام استفادہ کر سکے۔اِس تصنیف کی دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ معرفت الہٰیٰ کا وہ مشکل علم جو بڑے بڑے عالموں ‘ عابدوں اور زاہدوں کی سمجھ سے قاصر تھااس کو انتہائی آسان فرما دیا۔ جسے معمولی پڑھا لکھا انسان بھی آسانی سے سمجھ سکتاہے۔ نیز تزکیہ نفس ‘ تصفیہ قلب‘ شریعت‘ طریقت‘ معرفت اور حقیقت کے رموز سالکوں اور طالبوں کے لئے اس کتاب میں بہترین انداز سے جمع فرما دیئے ہیں۔گویا کہ سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔
کچھ لوگوں کا اعتراض ہے کہ شائد کسی نئے دین کی بات کی جا رہی ہے جبکہ ایسا ہر گز نہیں ہے ۔قرآن میں اس کا حوالہ سورۃ النصر میں پہلے سے موجود ہے’’ اور تم دیکھو گے لوگوں کو دین الہیٰ میں فوج در فوج داخل ہوتے‘‘ اور اسی طرح سورۃ الروم میں بھی ہے کہ’’ دین الہیٰ پر بااستقامت قائم رہنا‘ جس فطرت پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا‘‘۔
( اللہ کی فطرت عشقِ حقیقی اور پیار و محبت ہے)
اللہ تعالی ہر شخص کو صاف ذہن اور دل کے ساتھ اس کتاب کو پڑھ کر اس کے نوری سمندر سے حسب توفیق فیض حاصل کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین۔

حضرت سیدناریاض احمد گوہر شاہی کا شخصی تعارف
آپ25نومبر 1941کو برصغیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں ڈھوک گوہر شاہ ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے، آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سید گوہر علی شاہؒ کے پوتوں میں سے ہیں، جبکہ والد گرامی سید گوہر علی شاہ ؒ کے نواسوں میں سے ہیں، اور دادا مغلیہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔
حضرت گوھر شاہی کے والد گرامی کے تاثرات
بچپن سے ہی آپ کا رُخ اولیاء اکرام کے درباروں کی طرف تھا، آپ کے والد گرامی فرماتے ہیں کہ گوہر شاہی پانچ یا چھ سال کی عمر سے ہی غائب ہو جاتے اور ہم جب اُن کو ڈھونڈنے نکلتے تو اِن کو نظام الدین ؒ اولیاء (دہلی) کے مزار پر بیٹھا ہوا یا سرہانے کی طرف سویا ہواپاتے۔ مجھے کئی دفعہ ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یہ نظام الدین اولیاءؒ سے باتیں کر رہے ہیں، یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت گوہر شاہی کے والد گرامی ملازمت کے سلسلے میں دہلی میں مقیم تھے۔ مارچ97ء میں جب حضرت گوہر شاہی انڈیا تشریف لے گئے تو نظام الدین اولیاءؒ دربار کے سجادہ نشین اسلام الدین نظامی نے صاحبِ مزارکے اشارے پر ان کو دربار کے سرہانے دستار پہنائی تھی۔
بچپن سے ہی جو بات کہتے وہ پوری ہو جاتی، اس وجہ سے میں ان کی ہر جائز ضد کو پورا کرتا۔ آپ کے والد گرامی مزید فرماتے ہیں کہ’’ گوہر شاہی حسب معمول روزانہ صبح لان میں آتے ہیں تو میں ان کی آمد پر احترام میں کھڑا ہو جاتا ہوں‘‘ ، اس بات پر گو ہر شاہی مجھ سے ناراض ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں آپ کا بیٹا ہوں، مجھے شرم آتی ہے آپ اس طرح نہ کھڑے ہوا کریں۔ لیکن میرا بار بار یہی جواب ہوتا ہے کہ میں آپ کیلئے نہیں بلکہ جواللہ آپ میں بس رہا ہے اُس کے احترام میں کھڑا ہو تا ہوں۔
حضرت گوہر شاہی کی والدہ ماجدہ کے ان کے بارے میں تاثرات:
آپ فرماتیں کہ بچپن میں ریاض کبھی اسکول نہ جاتا یا جوانی میں دورانِ کاروبار کبھی نقصان ہو جاتا تو میں اس سے اظہار خفگی کرتی، لیکن انہوں نے کبھی بھی مجھے سر اُٹھا کر جواب نہیں دیا، جبکہ میرے بزرگ ککہ میاں ڈھوک شمس والے کہا کرتے تھے کہ: ’’ ریاض کو گالی مت دیا کر، جو کچھ میں اس میں دیکھتا ہوں تمہیں خبر نہیں‘‘۔ انسانی ہمدردی اتنی کہ اگر ریاض کو پتہ چل جاتا کہ گاؤں سے آٹھ دس میل کے فاصلے پر کوئی بس خراب ہو گئی ہے تو ان لوگوں کیلئے کھانا بنوا کر سائیکل پر انہیں دینے جاتا۔
حضرت گوہر شاہی کی زوجہ محترمہ کہتی ہیں:
’’اول تو ان کو غصہ آتا ہی نہیں، اور اگر کبھی غصہ آتا ہے تو انتہائی شدید ہوتا ہے، اور وہ بھی کسی غلط بات پر‘‘۔ حضرت گوہر شاہی کی سخاوت کے بارے میں کہتی ہیں ” صبح جب اپنے کمرے سے لان تک جاتے ہیں تو جیب بھری ہوتی ہے اور مڑ کر واپس آتے ہیں تو جیب خالی ہو جاتی ہے۔ سارا پیسہ ضرورت مندوں کو دے آتے ہیں اور پھر جب مجھے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے توسنجیدہ ہو جاتے ہیں اور اس طرح مجھے غصہ آتا ہے، پھر معصومانہ چہرہ دیکھ کر بے ساختہ یہ شعر زبان پر آجاتا ؂
دل کے بڑے سخی ہیں ، بیٹھے ہیں دھن لٹا کے
حضرت گوہر شاہی کے صاحبزادوں کے ان کے بارے میں تاثرات:
ابو ہم سے پیار بھی بہت کرتے ہیں اور خیال بھی بہت رکھتے ہیں لیکن جب ہم ان سے پیسے مانگتے ہیں تو وہ بہت کم دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم فضول خرچی کرو گے، تب ہم کہتے ہیں کہ ’’ یا تو ہمیں بھی فقیر بنا دو یا ہمیں پیسے دو‘‘ ۔
حضرت گوہر شاہی اور ان کی ممانی:
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا، ایک دفعہ ممانی ( جو کہ زاہد و پارسا اور عبادت گزار تھیں لیکن حرص اور حسد میں بھی مبتلا تھیں جو کہ اکثر عبادت گزاروں میں ہوتا ہے) نے کہا کہ تجھ میں اور تو سب ٹھیک ہے لیکن تو نماز نہیں پڑھتا میں نے جواب دیا: کہ نماز رب کا تحفہ ہے میں نہیں چاہتا کہ نماز کے ساتھ ساتھ بخل ،تکبر، حسد، کینہ کی ملاوٹ رب کے پاس بھیجوں جب کبھی بھی نماز پڑھوں گا تو صحیح نماز پڑھوں گا، تم لوگوں کی طرح نہیں کہ نماز بھی پڑھتے ہو اور غیبت، چغلی، بُہتان جیسے کبیرہ گناہ بھی کرتے ہو۔
حضرت گوھر شاہی کے اسکول ٹیچر کے تاثرات:
موڑہ نوری پرائمری اسکول کے ماسٹر امیر حُسین کہتے ہیں:” میں علاقے میں بہت سخت استاد مشہور تھا” ۔ شرارتی بچوں کو مارتا اور ان کی شرارت یہ تھی کہ یہ اسکول دیر سے آتے تھے اور جب میں غصہ میں انہیں مارنے لگتا تو مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے کسی نے میرا ڈنڈا پکڑ لیا ہو اور اس طرح مجھے ہنسی آجاتی تھی۔
حضرت گوہر شاہی کی برادری اور دوستوں کے تاثرات:
ہم نے کبھی ان کو کسی سے لڑتے جھگڑتے یا کسی کو مارتے پیٹتے نہیں دیکھا، بلکہ کوئی دوست اگر غصہ کرتا یا ان کو مارنے کیلئے آتا تو یہ ہنس پڑتے۔
حضرت گوہر شاہی کے ایک قریبی دوست محمد اقبال مقیم فضولیاں:
محمد اقبال کہتے ہیں کہ برسات کے موسم میں کبھی کبھی جب کھیتوں کی پگڈنڈی سے گزر ہوتا توبے شمار چیونٹے قطار در قطار اس پگڈنڈی پر چل رہے ہوتے، ہم لوگ پگڈنڈی پر چل پڑتے اور چیونٹوں کا خیال نہیں کرتے لیکن یہ پگڈنڈی سے پرے ہٹ کر کیچڑ میں چلتے تاکہ چیونٹیوں کو تکلیف نہ ہو۔جب ان پر قتل کا جھوٹا کیس بنایا گیا تو کرائم برانچ کے قدوس شیخ انکوائری کیلئے آئے، محلے والوں نے اُنہیں بتایا کہ ہماری نظر میں تو گوہر شاہی نے کبھی ایک مچھر بھی نہیں مارا ہوگا، کہاں ایک انسان کا قتل؟
حضرت گوہر شاہی اپنے بچپن کے حالات بیان فرماتے ہیں:
’’ دس بارہ سال کی عمر سے ہی خواب میں رب سے باتیں ہوتی تھیں اور بیت المامور نظر آتا تھا، لیکن مجھے اس کی حقیقت کا علم نہیں تھا۔ چلہ کشی کے بعد جب وہی باتیں اور وہی مناظر سامنے آئے تو حقیقت آشکار ہوئی‘‘۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے ایک رشتے کے ماموں جو کہ فوج میں ملازم تھا وہ طوائفوں کے کوٹھوں پر جایا کرتا تھا، گھر والوں کے منع کرنے کی وجہ سے وہ مجھے اپنے ساتھ لے جاتا تاکہ گھر والوں کو شک نہ گزرے۔ مجھے چائے اور بسکٹ کھانے کو دیتا اور خود اندر چلا جاتا، جبکہ مجھے طوائفوں اور کوٹھوں کی سمجھ بوجھ نہیں تھی۔ ماموں مجھ سے یہی کہتا کہ یہ عورتوں کا آفس ہے۔ کچھ دنوں بعد میرا دل اس جگہ سے اُچاٹ ہو گیا۔ تب ماموں نے کہا کہ یہ عورتیں ہیں اور اللہ نے ان کو اسی مقصد کے لئے بنایا ہے۔ یعنی اس نے مجھے بھی ملو ث کرنے کی کوشش کی۔ ماموں کی باتوں کا اتنا اثر ہوا کہ نفس کی کشمکش میں رات بھر نہ سو سکا، اور پھر اچانک آنکھ لگ گئی۔ دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا گول چبوترا ہے اور میں اُس کے نیچے کھڑا ہوں، اوپر سے کرخت قسم کی آواز آتی ہے اس کو لاؤ، دیکھتا ہوں کہ ماموں کو دو آدمی پکڑ کر لارہے ہیں اور اشارہ کرتے ہیں کہ یہ ہے! پھر آواز آتی ہے کہ اس کو گرزوں سے مارو تب اس کو مارتے ہیں تو وہ چیخیں مارتا اور دھاڑتا ہے اور چیختے چیختے اس کی شکل سور کی ہوجاتی ہے، پھر آواز آتی ہے کہ تو بھی اس کے ساتھ اگر شامل ہوا تو تیرا بھی یہی حال ہو گا، پھر میں توبہ توبہ کرتا ہوں اور آنکھ کھلتی ہے تو زبان پر یہی ہوتا ہے ۔
کہ یارب میری توبہ ، یارب میری توبہ اور کئی سال تک اس خواب کا اثر رہا
اس کے دوسرے دن میں گاؤں کی طرف جارہا تھا، بس میں سوار تھا راستے میں دیکھا کچھ ڈاکو ایک ٹیکسی سے ٹیپ ریکارڈر نکالنے کی کوشش کررہے تھے، ڈرائیور نے مزاحمت کی تو اس پر چھریوں سے وار کر کے قتل کر دیا، یہ منظر دیکھ کر ہماری بس وہاں رک گئی اور وہ ڈاکو ہمیں دیکھ کر فرار ہو گئے، اور ڈرائیور نے تڑپ کر ہمارے سامنے جان دیدی، پھر ذہن میں یہی آیا کہ زندگی کا کیا بھروسہ، رات کو سونے لگا تو اندر سے یہ شعر گونجنا شروع ہوگئے،
کر ساری خطائیں معاف میری ، تیرے در پہ میں آن گرا
اور ساری رات گریہ زاری میں گزری، اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد میں دنیا چھوڑکر جام داتار ؒ کے دربار پر چلا گیا، لیکن وہاں سے بھی کوئی منزل نہ ملی اور میرا بہنوئی مجھے وہاں سے واپس دنیا میں لے آیا۔ 34 سال کی عمر میں بری امام ؒ سامنے آئے اور کہا کہ اب تیرا وقت ہے دوبارہ جنگل جانے کا! تین سال چلہ کشی کے بعد جب کچھ حاصل ہواتو دوبارہ جام داتار کے دربار گیا، صاحبِ مزار سامنے آگئے میں نے کہا اُس وقت اگر مجھے قبول کر لیا جاتا تو بیچ میں نفسانی زندگی سے محفوظ رہتا، اُنہوں نے جواب دیا: اُس وقت تمہارا وقت نہیں تھا۔
شیخ نظام الدین ، میری لینڈ، امریکہ کے تاثرات:
جس طرح ہرمذہب، ہر قوم، ہر نسل کے افراد حضرت گوہر شاہی سے رشد و ہدایت حاصل کر کے اللہ کی محبت اور ذات تک پہنچنا شروع ہوگئے۔خدا کی قسم! میں بھی ان ہی لوگوں میں سے ہوں جن کے دلوں پر خوشخط لکھا ہوا اسم اللہ چمک رہا ہے۔
…………..*……………
حضرت سیدناریاض احمد گوہر شاہی نے تین سال تک سیون شریف کی پہاڑیوں اور لال باغ میں اللہ کے عشق کی خاطر چلہ کشی کری، اللہ کو پانے کی خاطر دنیا چھوڑی، پھر اللہ کے حکم ہی سے دوبارہ دنیا میں آئے۔ لاکھوں دلوں میں اللہ کا ذکر بسایا اور لوگوں کو اللہ کی محبت کی طرف راغب کیا ، ہر مذہب والوں نے گوہر شاہی کو مسجدوں، مندروں، گردواروں اور گرجاگھروں میں روحانی خطاب کیلئے مدعو کیا، اور ذکر قلب حاصل کیا، بے شمار مرد و زن ان کی تعلیم سے گناہوں سے تائب ہوئے اور اللہ کی طرف جھک گئے۔ بے شمار لاعلاج مریض ان کے روحانی علاج سے شفا یاب ہوئے، پھر اللہ نے ان کا چہرہ چاند پر دکھایا، پھر حجر اسود میں بھی ان کی تصویر ظاہر ہوئی، پوری دنیا میں ان کی شہرت ہوگئی۔ لیکن کورچشم مولویوں کو اور ولیوں سے حسد، بغض رکھنے والے مسلمانوں کو انکی شخصیت پسند نہ آئی، ان کی کتابوں کی تحریروں میں خیانت کرکے ان پر کفر اور واجب القتل کے فتوئے لگائے۔
مانچسٹر میں ان کی رہائش گاہ پر پیٹرول بم پھینکا، کوٹری میں دوران محفل ان پر ہینڈگرنیڈ بم سے حملہ کیا گیا۔ لاکھوں روپے ان کے سر کی قیمت رکھی گئی۔ پانچ قسم کے سنگین جھوٹے مقدمات، اندرونِ ملک ان کو پھنسانے کیلئے قائم کیے گئے۔ نواز شریف کی وجہ سے حکومت سندھ بھی مخالفت میں شامل ہوگئی تھی۔ دو کیس قتل، ناجائز اسلحہ، ناجائز قبضہکی دفعات بھی لگائی گئیں۔ امریکہ میں بھی ایک عورت سے زیادتی اور حبس ِ بیجا کا مقدمہ بنایا گیا۔ زرد صحافت نے انہیں زمانے میں خوب بدنام کرنا چاہا، لیکن آخر میں عدالتوں نے شنوائی اور تحقیقات کے بعد یہ مقدمات جھوٹے قرار دے کر کلئیرکردئیے اور اللہ نے اپنے اس دوست کو ہر مصیبت سے بچائے رکھا۔
حضرت گوہر شاہی کی باطنی شخصیت کے چند حقائق
19سال کی عمر میں جسۂ توفیقِ الٰہی آپ کے ساتھ لگادیا گیا تھا جو ایک سال رہا اور اُس کے اثر سے کپڑے پھاڑکر صرف ایک دھوتی میں جام داتارؒ کے جنگل میں چلے گئے تھے۔ جسۂ توفیقِ الٰہی عارضی طور پر ملا تھا، جو کہ 14 سال غائب رہا، اور پھر 1975میں دوبارہ سیون شریف کے جنگل میں لانے کا سبب بھی یہی جسۂ توفیق الٰہی ہی تھا !
25سال کی عمر میں جسۂِ گوہر شاہی کو باطنی لشکر کے سالارکی حیثیت سے نوازا گیا، جس کی وجہ سے ابلیسی لشکر اور دنیاوی شیطانوں کے شر سے محفوظ رہے۔ جسۂِ توفیقِ الٰہی اور طفلِ نوری، ارواح، ملائکہ اور لطائف سے بھی اعلیٰ (Special) مخلوقیں ہیں، ان کا تعلق ملائکہ کی طرح براہِ راست رب سے ہے اور ان کا مقام ، مقامِ احدیت ہے۔
35سال کی عمر میں 15 رمضان1976 کو ایک نطفہء نور قلب میں داخل کیا گیا، کچھ عرصے بعد تعلیم و تربیت کیلئے کئی مختلف مقامات پر بلایا گیا۔ 15رمضان1985 ء میں جبکہ آپ اللہ کے حکم سے دنیاوی ڈیوٹی پر حیدرآباد مامور ہو چکے تھے، وہی نطفہء نور طفلِ نوری کی حیثیت پاکر مکمل طور پر حوالے کردیا گیا، جس کے ذریعے دربارِ رسالت ؐمیں تاجِ سلطانی پہنایا گیا۔ طفلِ نوری کو بارہ سال کے بعد مرتبہ عطا ہوتا ہے۔ لیکن آپ کو دنیاوی ڈیوٹی کی وجہ سے یہ مرتبہ 9 سال میں ہی عطاہوگیا۔

جشنِ شاہی منانے کی وجوہات
15 رمضان 1977کو اللہ کی طرف سے خاص الہامات کا سلسلہ بھی شروع ہوا تھا۔
راضیہ مرضیہ کا وعدہ ہوا، مرتبہ بھی ارشاد ہواتھا ۔
چونکہ آپ کے ہر مرتبے اور معراج کا تعلق پندرہ رمضان سے ہے۔ اِس لئے
اِسی خوشی میں جشنِ شاہی اس روزمنایا جاتا ہے۔
آپ نے 1978 میں حیدرآبادآکر رشدو ہدایت کا سلسلہ جاری کردیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ سلسلہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ لاکھوں افراد کے قلوب اللہ اللہ میں لگ گئے۔ بے شمار افراد کے قلوب پر اسم اللہ نقش ہوا اور ان کو نظر آیا۔لاتعداد کشف القبوراور کشف الحضور تک پہنچے۔ا ن گنتلاعلاج مریض شفا یاب ہوئے۔
حضرت سیدنا ریاض احمد گوھر شاہی نے 1980میں باقاعدہ تنظیم کے ذریعہ پاکستان سے دعو ت و تبلیغ کا کام شروع کیا۔ آپ کا پیغام ’’اللہ کی محبت‘‘ کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ ہر مذہب کے افراد آپ سے عقیدت اور محبت کرنے لگے اور اپنی اپنی عبادت گاہوں میں حضرت گوھر شاہی کو خطابات کی دعوت دینے لگے۔ اس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی کہ کسی شخصیت کو ہر مذہب والوں نے اپنی عبادت گاہوں کے اسٹیج اور منبر پر بٹھا کر عزت دی ہو۔ ہندو‘مسلم ‘ سکھ‘ عیسائی اور ہر مذہب والوں کے دل گوھر شاہی کی صحبت سے ذکر اللہ سے جاری ہوئے یہ آپ کی ادنی سی کرامت ہے یوں تو آپکی بے شمار کرامتیں ہیں۔ ہر ایک کا تذکرہ نا ممکن ہے۔
چاند ، سورج ، حجر اسود، شو مندر اور کئی دوسرے مقامات پر بھی تصویرِگوہر شاہی نمایاں ہونے کے بعد اکثر مسلم اور غیر مسلم کا خیال اور یقین ہے کہ یہی شخصیت مہدی، کالکی اوتار اور مسیحا ہے، جس کا مختلف مذہبی کتابوں میں ذکر آیا ہے۔ آیئے آپ بھی ان کو پرکھنے کی کوشش کریں، اور ہم سے تحقیق کے لیے رابطہ کریں اور ان کی کتب کے ذریعہ بھی ان کو پہچاننے کی کوشش کریں۔
ایک اہم نکتہ
مھدی کا مطلب۔۔۔ھدایت والا اور مہدی کا مطلب۔۔۔چاند والا
جیسے مہ ناز اور مہتاب

چاند اور سورج پر تصاویر کے بارے میں مکمل وضاحت
سیدنا گوھر شاہی روحانی تعلیم اور جگہ جگہ خطابات کے ذریعہ پوری دنیا میں مشہور اور ہردلعزیز ہوگئے
1994 میں مانچسٹر (انگلینڈ) میں کچھ لوگوں نے چاند پر گوہر شاہی کی تصویر کی نشان دہی کی۔ پھر پاکستان اور دوسرے ممالک سے بھی شہادتیں موصول ہوئیں،کیمرے کے ذریعہ چاند کی تصویریں اتاریں گئیں۔ پھر بیرونِ ممالک اور ناسا سے چاند کی تصویریں منگوائی گئیں، شروع شروع میں تصویریں مدھم تھیں، لیکن گزشتہ دو سال سے اتنی واضح ہو گئیں کہ دور بین یا کمپیوٹر کے بغیر بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
1996 میں ہمارے نمائندے  نے ناساNASA والوں کو نشان دہی کرائی۔ انہوں نے کہا ہمیں پتہ ہے کہ چاند پر چہرہ ہے، یہ چہرہ حضرت عیسیٰؑ کا ہے، جو دو سو (200) میل لمبی روشنی سے معلوم ہوتا ہے۔ امریکی شہریوں نے بھی ناسا پر زور دیا کہ اس تصویر کے بارے میں کچھ وضاحت کی جائے، لیکن (گوہر شاہی کا) ایشیائی ہونے کی وجہ سے ناسا خاموش رہا۔ بلکہ ناسا کے ہی پروفیسر ماہر فلکیاتinsmore Atler نے اپنی تصنیف شدہ کتابPictorial Astronomy میں تصویر کو کچھ ردو بدل کرکے عورت کے روپ میں پیش کیا، اور پوری عیسائی مشنری میں یہ افواہ پھیلادی کہ چاند پر حضرت مریم ؑ کی تصویر ہے۔(تصویر آگے ملاحظہ کریں)
جب پاکستان کے اخباروں میں یہ خبر نشر ہوئی تو بہت سے لوگوں نے اس کی تحقیق کے بعد تصدیق کری، بہت سے لوگوں نے بغیر تحقیق کے تمسخر اُڑایا اور بہت سے لوگوں نے اسے جادو سمجھا۔ کچھ عرصے بعد خلاء میں بھی تصویر کا شور ہوا۔ لیکن اس کا اثر ذاکرین ( معتقدینِ گوہر شاہی) کے علاوہ کہیں بھی نظر نہ آیا ۔
1998 میں روزنامہ پرچم اور روزنامہ محاسب کراچی میں یہ خبر چھپی کہ حجر اسود میں کسی کی شبیہ نظر آرہی ہے۔ ہم اس شبیہ کے متعلق پہلے ہی معلومات رکھتے تھے۔ بلکہ حجر اسود کے کئی تغرے نشان زدہ بھی ہمارے پاس موجود تھے اور تقریبا ہر سرفروش تحقیق کرچکا تھا۔ خاموشی کی وجہ مسلمانوں میں فتنے کا اندیشہ تھا۔ لیکن اخباری خبر کے بعد ہمیں بھی حوصلہ ہوا اور بھر پور انداز میں پریس ریلیز شائع کی گیءں۔ تقریبا ہر مسلمان نے اس کی تحقیق کری، کیونکہ مسلمانوں کے ایمان کی بات تھی۔ کثیر طبقہ متفق ہوا، چونکہ تصویر اتنی واضح تھی کہ اس کا جھٹلانا مشکل تھا۔ اس لئے کئی لوگوں نے مشہور کر دیا کہ یہ بھی جادو ہے۔
تقریبا ہر ملک میں چاند اور حجر اسود کی تصاویر روشناس کرائی گئیں۔ سعودی عرب اور اُس کے ہم نوا سیخ پا ہوگئے، جیسے کہ حجر اسود میں تصویر گوہر شاہی نے لگائی ہو، وہ کہتے ہیں کہ تصویر حرام ہوتی ہے، حجر اسود پر کیسے آگئی؟ یہ نہ سوچا کہ رب کی طرف سے کوئی بھی نشانی حرام نہیں ہوسکتی۔ سعودی حکومت نے اپنی شرعی عدالتوں سے یہ فیصلہ لے لیا ہے کہ گوہر شاہی واجب القتل ہیں۔اگر گوہر شاہی سرزمینِ مکہ میں قدم رکھیں تو انہیں قتل کر دیا جائے۔ پاکستان میں بھی سعودی نواز فرقے گوہر شاہی اور اُس کی تعلیمات کو مٹانے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔ جھوٹے مقدمات، جن میں دفعہ295 کا بھی مقدمہ بنادیا گیا ہے۔ اور کئی دفعہ حضرت گوہر شاہی پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا ہے۔
اب سورج پر بھی گوہر شاہی کی تصویر نمایاں ہوگئی ہے۔
ہم نے حکومتِ پاکستان کو مقدمات کی وجہ اور تصاویر کی تحقیق کیلئے کئی بار آگاہ کیا۔ لیکن اللہ کی ان نشانیوں کو حکومتی سطح پر بھی فرقہ واریت کے دباؤ کی وجہ سے جھٹلایا گیا، بلکہ نواز حکومت نے سندھ حکومت پر بھی زور دیا کہ گوہر شاہی کو کسی طریقے سے پھنسایا، دبایا، یا مٹایا جائے، اور اب ہم فوجی حکومت سے رابطہ کررہے ہیں کہ وہ ان نشانیوں کی انصاف سے تحقیق کرے اور کسی بھی ڈر، خوف، دباؤ یا فرقہ واریت کی وجہ سے اللہ کی نشانیوں کو نہ جھٹلایا جائے۔
اللہ کی یہ نشانیاں فتنہ ڈالنے کیلئے نہیں ، بلکہ فتنہ مٹانے کیلئے ہیں۔ اور اس کا ثبوت ہے کہ حضرت گوہر شاہی کا درس جو امن اور اللہ کی محبت کا درس ہے، جس کے ذریعے ہر مذہب والے اپنی اصلاح کرنے میں لگ گئے۔ اور آج ہندؤ ، مسلم ، سکھ، عیسائی حضرت گوہر شاہی کی عقیدت کی وجہ سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہورہے ہیں، اور تاریخ میں یہ پہلا ریکارڈ ہے کہ کسی بھی مسلم رہنماکو گرجوں، مندروں، اور گردواروں میں وعظ اور تقریر کیلئے مسندوں پر بٹھا یا گیا ہو۔ ایسے شخص کی دلجوئی کی جانی چاہیے جو ملک کیلئے باعثِ فخر اور اللہ کی طرف سے مامور ہو۔ اور اُس کی صداقت کیلئے اللہ نشانیاں دکھا رہا ہو، اور جس کی نظر سے لوگوں کے دل اللہ اللہ میں لگ کر اللہ کے محب بن گئے ہوں۔
لیکن دشمنانِ اولیاء وِ اہل بیت والے مولوی اور جماعتیں ان کے خلاف سربستہ ہوگئی ہیں۔ جھوٹے مقدموں، بے بنیاد حربوں اور من گھڑت پروپیگنڈوں کے ذریعے عوام کا رخ حجر اسود سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جبکہ یہ بہت نازک اور اہم مسئلہ ہے، مسلمانوں کے ایمان کو خطرہ ہے۔ تو اس کی تحقیقات کیلئے خاموشی کیوں ہے؟ اس کے متعلق پوری دنیا میں اتنا منفی اور مثبت پروپیگنڈہ ہوچکا ہے کہ اب اس کو دبانا مشکل ہے۔ ادھر ولیوں کو ماننے والے علماء سو حضرت گوہر شاہی سے بغض و حسد کی وجہ سے گونگے بن گئے ہیں۔ تصویر کو واضح ہونے کی صورت میں جھٹلانا مشکل ہو گیا ، تو کہتے ہیں کہ چاند پر جادو چل گیا، جبکہ حضورؐ نے کہا تھا کہ چاند پر جادو نہیں ہو سکتا، پھر کہتے ہیں حجر اسود بھی جادو کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ اگر کعبہ بھی جادو کی زد میں آگیا ہے تو پھر مسلمانوں کے پاس تحفظ کی کونسی جگہ ہے؟ مثال دیتے ہیں کہ حضورؐ پر بھی جادو ہو گیا تھا ، کعبہ حضورؐ سے افضل نہیں ہے۔
بیشک حضورؐ پر جادو ہوگیا تھا۔ لیکن اس کے توڑ کیلئے سورۃ والناس آگئی تھی۔ تم بھی سورۃوا لناس پڑھ پڑھ کر چاند اور حجر اسود پر پھونکیں مارو، اگر یہ تصویریں نہ مٹیں بلکہ پہلے سے بھی زیادہ روشن ہو جائیں تو پھر تمہیں حق کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ ورنہ پھر تمہارے اندر ابو جہل ہی ہے۔

دیباچہ
جو مذاہب آسمانی کتابوں کے ذریعہ قائم ہوئے وہ درست ہیں بشرطیکہ ان میں رد و بدل نہ کی گئی ہو!
مذاہب کشتی اور علماء ملاح کی طرح ہوتے ہیں، اگر کسی ایک میں بھی نقص ہو تو منزل پہ پہنچنا مشکل ہے، البتہ اولیاء ٹوٹی پھوٹی کشتی کو بھی کنارے
لگادیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ٹوٹے پھوٹے لوگ اولیاء کے گرد جمع ہوجاتے ہیں۔
مذہب سے بالاتر اللہ کی محبت ہے ،جو تمام مذاہب کا عرق ہے۔ جبکہ اللہ کا نور مشعل ِ راہ ہے!
تین حصے علم ِ ظاہرکے اور ایک حصہ علم ِ باطن کا ہے جو خضر ؑ ( وشنو مہاراج) کے ذریعہ عام ہوا!
اللہ کی محبت ہی اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے، جس دل میں خدا نہیں کتے اس سے بہتر ہیں، کیونکہ وہ اپنے مالک سے محبت کرتے ہیں۔ اور محبت ہی کی وجہ
سے مالک کا قرب حاصل کرلیتے ہیں ورنہ کہاں ایک نجس کتا اور کہاں حضرت ِ انسان!
اگر تجھے جنت اور حورو قصور کی آرزو ہے تو خوب عبادت کر تاکہ اونچی سے اونچی جنت مل سکے!
اگر تجھے اللہ کی تلاش ہے تو روحانیت بھی سیکھ تاکہ تو صراطِ مستقیم پر گامزن ہو کر اللہ کے وصال تک پہنچ سکے!

بقلم
ریاض احمد گوھر شاہی

بابِ اول
(انسان ازل سے ابد تک)
جب اللہ نے روحوں کو بنانا چاہا تو کہا ’ کن‘ ، تو بیشمار روحیں بن گئیں۔ اللہ کے سامنے اور قریب ارواح نبیوں کی ، پھر دوسری صف میں ولیوں کی، پھر تیسری صف میں مؤمنین کی ، پھر ان کے پیچھے عام انسانوں کی، پھر حد ِ نگاہ سے دور صف میں عورتوں کی روحیں بن گئیں، پھر ان کے پیچھے روحِ حیوانی، پھر روح ِ نباتی اور پھر ایسی روحِ جمادی جن میں ہلنے جلنے کی طاقت بھی نہ تھی، نمودار ہو گئیں۔
اللہ کے دائیں طرف فرشتوں کی اور پھر اس کے بعد حوروں کی ارواح تھیں، جو رب کے چہرے کو نہ دیکھ سکیں، یہی وجہ ہے کہ فرشتے رب کا دیدار نہیں کر سکے۔ پھر پیچھے نوری مؤکلات کی روحیں جو دنیا میں آکر نبیوں ، ولیوں کی امدادی ہوئیں۔ پھر بائیں جانب جنات کی روحیں، پھر پیچھے سفلی مؤکلات، پھر خبیثوں کی روحیں جو دنیا میں آکر ابلیس کی امدادی ہوئیں۔
دائیں، بائیں اور حد ِ نگاہ سے دور والی ارواح رب کا جلوہ نہ دیکھ سکیں۔ یہی وجہ ہے
کہ جن ، فرشتے اور عورتیں رب سے ہمکلام ہو سکتے ہیں لیکن دیدار نہیں کر سکتے۔
کرہ ِ ارض میں ایک آگ کا گولہ تھا، حکم ہوا ، ٹھنڈا ہو جا ، پھر اسکے ٹکڑے فضا میں بکھر گئے۔ چاند، مریخ، مُشتری، یہ دنیا اور ستارے سب اسی کے ٹکڑے ہیں جبکہ سورج وہی باقی ماندہ گولہ ہے۔ یہ زمین راکھ ہی راکھ بنی ۔جمادی روحوں کو نیچے بھیجاگیا جن کے ذریعے راکھ جم کر پتھر ہوگئی ۔ پھر نباتی روحوں کو بھیجا گیا جس کی وجہ سے پتھروں میں درخت بھی اُگ آئے۔ پھر حیوانی روحوں کے ذریعے حیوان نمودار ہوئے۔
اللہ نے سب روحوں سے یہ بھی پوچھا تھا کیا میں تمہارا رب ہوں، سب نے اقرار کیا اور سجدہ کیا تھا یعنی پتھروں اور درختوں کی روحوں نے بھی سجدہ کیا تھا ۔( والنجم والشجر یسجدان ) (سورۃ الرحمن القرآن)
پھر اللہ نے روحوں کے امتحان کے لیے مصنوعی دنیا ، مصنوعی لذات بنائے اور کہا اگر کوئی ان کا طالب ہے تو حا صل کر لے۔ بے شمار روحیں اللہ سے منہ موڑ کر دنیا کی طرف لپکیں اور دوزخ ان کے مقدر میں لکھ دی گئی۔ پھر اللہ نے بہشت کا نظارہ دکھایا جو پہلی حالت سے بہتر اور اطاعت و بندگی والا تھا۔ بہت سی روحیں ادھر لپکیں انکے مقدر میں بہشت لکھ دی گئی۔ بہت سی روحیں کو ئی فیصلہ نہ کر پائیں۔انہیں پھر رحمن اور شیطان کے درمیان کردیا۔ وہی روحیں دنیا میں آکر بیچ میں پھنس گئیں، پھر جس کے ہاتھ لگ گئیں( اس ہی کی ہو گئیں)۔
بہت سی روحیں اللہ کے جلوے کو دیکھتی رہیں، نہ دنیا کی اور نہ ہی جنت کی طلب، اللہ کو اُن سے محبت اور اُنہیں اللہ سے محبت ہوگئی۔ ان ہی روحوں نے دنیا میں آکر اللہ کی خاطر دنیا کو چھوڑا اور جنگلوں میں بسیرا کیا۔ روحوں کی ضرورت اور دل لگی کے لیے اٹھارہ ہزار قسم کی مخلوق، چھ ہزار پانی میں ، چھ ہزار خشکی میں اور چھ ہزار ہوائی اور آسمانی پیدا کی گئی۔

پھر اللہ نے سات قسم کی جنت اور سات قسم کی دوزخ بنائی
۔۔۔ جنتوں کے نام ۔۔۔
۔۔۔ دوزخوں کے نام۔۔۔
۱۔ خلد
۱۔ سقر
۲۔ دارالسلام
۲۔ سعیر
۳۔ دارالقرار
۳۔ نطیٰ
۴۔ عدن
۴۔ حطمہ
۵۔ الماویٰ
۵۔ جحیم
۶۔ نعیم
۶۔ جہنم
۷۔ فردوس
۷۔ ہاویہ
مندرجہ بالا سارے نام سریانی زبان( وہ زبان جس میں اللہ ، فرشتوں سے مخاطب ہوتا ہے )کے ہیں
سب مذاہب کا عقیدہ ہے کہ جسے اللہ چاہے دوزخ میں اور جسے چاہے بہشت میں بھیج دے۔ اگر وہیں سے جس روح کو دوزخ میں بھیجا جاتا تو وہ اعتراض کرتی کہ میں نے کونسا جرم کیا تھا؟ اللہ کہتا ، تو نے میری طرف سے منہ موڑ کر دنیا طلب کری تھی۔ روح کہتی، وہ تو صرف نادانی میں اقرار تھا ، عمل تو نہیں کیا تھا ، پھر اس حجت کو پورا کرنے کے لیے روحوں کو نیچے اس دنیا میں بھیجا۔
آدم علیہ السلام جنہیں شنکر جی بھی کہتے ہیں جنت کی مٹی سے ان کا جسم بنایا گیا۔ پھر روح ِ انسانی کے علاوہ کچھ اور مخلوقیں بھی اُس میں ڈال دی گئیں۔ جب آدم علیہ السلام کا جسم بنایا جارہا تھا تو شیطان نے حسد سے تھوکا تھا ، جو ناف کی جگہ گرا، اور اُس تھوک کے جراثیم بھی اُس جسم میں شامل ہوگئے۔ شیطان ، جنات قوم سے ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اُس کے ساتھ ایک شیطان جن بھی پیدا ہوتا ہے، جسم تو صرف مٹی کا مکان تھا جس کے اندر سولہ ( ۱۶) مخلوقوں کو بند کردیا، جب کہ خناس اور چار پرندے اور بھی ہیں۔
آدم ؑ کی بائیں پسلی سے عورت کی شکل میں مواد نکلا ، اُس میں روح ڈال دی گئی، جو مائی حوا بن گئی۔ بعد میں بہشت سے نکال کر آدم علیہ السلام کو سری لنکا اور مائی حوا کو جدہ میں اتارا گیا جن کے ذریعے ایشیائیوں کی پیدائش کا سلسلہ شروع ہوگیا، اور آسمان سے باقی روحیں بھی بتدریج آنا شروع ہو گئیں۔ روحوں کی تعلیم و تربیت اور مدارج کے لیے مذاہب کی صورت میں مدرسے قائم ہوئے اور روز ِ ازل کی تقدیر کے مطابق کوئی کسی مذہب میں، اور کوئی بے مذہب ہی رہیں۔ اللہ کی محب روحیں بھی اس دنیا میں آئیں، وئی مسلم کے گھر، کوئی ہندؤں، کوئی سکھوں اور کوئی عیسائیوں کے گھروں میں پیدا ہو گئیں اور اپنے مذہب کے ذریعے اللہ کو پانے کی کوشش کرنے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مذہب کے خواص نے رہبانیت اختیار کی، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔ یہ عقیدہ غلط ہے۔ حضور پاک بھی غار حرا میں جایا کرتے تھے۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؓ، خواجہ معین الدین اجمیری ؒ ، داتا علی ہجویریؒ ، بری امامؒ ، بابا فریدؒ ، شہباز قلندرؓ وغیرہ نے بھی رہبانیت کے بعد ہی اتنے بلند مقام حاصل کیے۔ اور ان ہی کے ذریعے دین کی اشاعت ہوئی۔

باب دوئم
۔۔۔ دنیا میں انسان کی بنیاد۔۔۔
پیٹ میں نطفہ ا نسانی کے بعد خون کو اِکٹھا کرنے کے لئے روحِ جمادی آتی ہے، پھر روحِ نباتی کے ذریعے بچہ پیٹ میں بڑھتا ہے۔ چار ماہ کے بعد روحِ حیوانی جسم میں داخل کی جاتی ہے جِس کے ذریعے بچہ پیٹ میں حرکت کرتا ہے، اِن کو ارضی ارواح کہتے ہیں۔ پھر پیدائش کے بعد روح ِ انسانی دوسری مخلوقات کے ساتھ آتی ہے اِن کوسماوی ارواح کہتے ہیں۔
اگر بچہ پیدائش سے تھوڑی دیر پہلے ہی پیٹ میں مر جائے تو اُس کا جنازہ نہیں ہوتا کہ وہ حیوان تھا۔ پیدائش کے تھوڑی دیر بعد مر جائے تو اُس کا جنازہ لازم ہے کہ وہ روحِ اِنسانی کی آمد کی وجہ سے انِسان بن گیا تھا، اور نفس نے بھی مقامِ ناف پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ڈیرہ لگا لیا تھا۔ اگر اِس میں جمادی روح طاقتور ہے تو وہ پہاڑوں میں رہنا پسند کرتا ہے۔ روحِ نباتی کی وجہ سے انسان پھولوں اور درختوں سے لگاؤ رکھتا ہے۔ روحِ ِ حیوانی کے غلبہ سے جانوروں سے پیار اور جانوروں جیسے کام کرتا ہے۔ جبکہ نفس کی شکل کتے کی طرح ہوتی ہے، اُس کے غلبہ سے کتوں جیسے کام اور کتوں سے پیار کرتا ہے۔ اور بیداری ِ قلب سے انسان فرشتوں کی طرح بن جاتا ہے۔
انسان کے مرنے کے بعد سماوی ارواح آسمانوں کو لوٹ جاتی ہیں، جو ایک ہی جسم کے لیے مخصوص ہیں، ارضی روحیں بمع نفوس کے اسی دنیا میں رہ جاتی ہیں۔ ارضی روحیں ایک سے دوسرے، پھر تیسرے جسم میں منتقل ہوتی رہتیں ہیں کیونکہ ان کا روزِ محشر سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن پاکیزہ نفس قبروں میں رہ کر لوگوں کو فیض پہنچاتے اور خود بھی بندگی کرتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ جب شبِ معراج میں حضور پاک، موسیٰ ؑ کی قبر سے گزرے تو دیکھا موسیٰؑ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے ہیں، جب آسمانوں پر پہنچے تو دیکھا موسیٰؑ وہاں بھی موجود ہیں۔
بد کار لوگو ں کے طاقتور نفس اپنے بچاؤ کے لیے شیاطین کے ٹولے سے مل جاتے ہیں، اور لوگوں کے جسم میں داخل ہو کر لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان کو بد روحیں کہتے ہیں، انجیل میں ہے کہ عیسیٰؑ بد روحیں نکالا کرتے تھے۔
ارضی ارواح اور نفوس اسی دنیا میں ، روح ِ انسانی عالم علیین یا سجیین میں اور لطائف اگر طاقتور ہیں تو وہ بھی علیین میں ، ورنہ قبر میں ہی ضائع ہو جا تے ہیں ۔ نفس کی وجہ سے انسان ناپاک ہوا۔
بقول بلھے شاہؓ:
اس نفس پلیت نے پلیت کیتا
اساں مُنڈھوں پلیت نہ سی!
نفس کو پاک کرنے کے لیے کتابیں اتریں، نبی، ولی آئے، کہیں اُس کو دوزخ ں سے ڈرایا گیا، کہیں بہشت کی لالچ دی گئی۔ ریاضت، عبادت اور روزوں کے ذریعے اسے سُدھارنے کی کوشش کی گئی اور جنت کے حقدار بھی ہوگئے۔ اور بہت سے لوگوں نے باطنی علم کے ذریعے اسے پاک بھی کرلیا اور اللہ کے دوست بن گئے۔

۔۔۔ ایک اہم نقطہ۔۔۔

۔۔۔ نفس کا تعلق شیطان سے ہے۔

۔۔۔ سینے کے پانچوں لطائف کا تعلق، پانچوں رسولوں سے ہے۔

۔۔۔ انا کا تعلق اللہ سے ہے۔

۔۔۔ اِسی طرح اِس جسم کا تعلق کامل مرشد سے ہے۔

اور جو بھی مخلوق جس نسبت سے خالی ہے وہ اس کے فیض سے محروم اور عاری ہے۔

بابِ سوئم
لطائف/شکتیاں
لطیفہِ قلب
گوشت کے لوتھڑے کو اردو میں دل اور عربی میں فواد بولتے ہیں، اور اس مخلوق کو جو دل کے ساتھ ہے، قلب بولتے ہیں اس کی نبوت اور علم آدم ؑ کو ملا تھا ۔حدیث میں ہے کہ دل اور قلب میں فرق ہے۔ اس دنیا کو ناسوت بولتے ہیں، اس کے علاوہ اور جہان بھی ہیں، یعنی ملکوت، عنکبوت ، جبروت، لاہوت، وحدت اور احدیت۔یہ مقام ناسوت میں گولہ پھٹنے سے پہلے تھے۔ اور ان کی مخلوقیں بھی پہلے سے موجود تھیں۔ فرشتے ارواح کے ساتھ بنے۔ لیکن ملائکہ اور لطائف پہلے ہی سے ان مقامات پر موجود تھے، بعد میں عالم ِ ناسوت میں بھی کئی سیاروں پر دنیا آباد ہوئی۔ کوئی مٹ گئے اور کوئی منتظر ہیں۔ یہ مخلوق یعنی لطائف اور ملائکہ روحوں کے امرِکن سے ۷۰ ہزار سال پہلے بنائے گئے تھے اور ان میں سے قلب کو مقامِ محبت میں رکھا گیا، اور اسی کے ذریعے انسان کا رابطہ اللہ سے جڑ جاتا ہے۔ اللہ اور بندے کے درمیان یہ ٹیلی فون آپریٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان پر دلیل و الہامات اسی کے ذریعے وارد ہوتے ہیں۔جبکہ لطائف کی عبادات بھی اسی کے ذریعے عرش ِ بالا پر پہنچتی ہیں۔ لیکن یہ مخلوق خود ملکوت سے آگے نہیں جاسکتی، اس کا مقام خلد ہے۔ اس کی عبادت بھی اندر، اور تسبیح بھی انسان کے ڈھانچے میں ہے۔ اس کی عبادت کے بغیر والے جنتی بھی افسوس کرینگے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا کہ کیا ان لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کو نیکوکاروں کے برابر کر دینگے۔ کیونکہ قلب والے جنت میں بھی اللہ اللہ کرتے رہیں گے۔
جسمانی عبادت مرنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے، جن کے قلب اور لطائف اللہ کے نور سے طاقتور نہیں، وہ قبروں میں ہی خستہ حالت میں رہیں گے یا ضائع ہوجائیں گے۔ جبکہ منور اور طاقتور لطائف مقامِ علیین میں چلے جائیں گے۔ یومِ محشر کے بعد جب دوسرے جسم دئیے جائیں گے تو پھر یہ لطائف بھی روح انسانی کے ساتھ اس جسم میں داخل ہونگے، جنہوں نے ان کو دنیا میں اللہ اللہ سکھایا تھا ، وہاں بھی اللہ اللہ کرتے رہیں گے۔ اور وہاں جاکر بھی ان کے مرتبے بڑھتے رہیں گے۔ اور جو اِدھر دل کے اندھے تھے وہ اُدھر بھی اندھے ہی رہیں گے۔ کیونکہ میدانِ عمل یہ دنیا تھی، اور وہ ایک ہی جگہ ساکن ہو جائیں گے۔
عیسائیوں، یہودیوں کے علاوہ ہندو مذہب بھی ان مخلوقوں کا قائل ہے۔ ہندو انہیں شکتیاں اور مسلمان لطائف کہتے ہیں۔ قلب دل کے بائیں طرف دو انچ کے فاصلے پر ہوتا ہے اس مخلوق کا رنگ زرد ہے۔ اِس کی بیداری سے انسان زرد روشنی اپنی آنکھوں میں محسوس کرتا ہے۔ بلکہ کئی عامل حضرات ان لطائف کے رنگوں سے لوگوں کا علاج بھی کرتے ہیں۔
اکثر لوگ اپنے دل کی بات بر حق مانتے ہیں، اگر واقعی دل سچے ہیں تو سب دل والے ایک کیوں نہیں۔ عام آدمی کا قلب صنوبری ہوتا ہے جس میں کوئی سدھ بدھ نہیں ہوتی ، نفس اور خناس کے غلبے یا اپنے سیدھے پن کی وجہ سے غلط فیصلہ بھی دے سکتا ہے۔قلبِ صنوبری پر اعتماد نادانی ہے۔ جب اس دل میں اللہ کا ذکر شروع ہوجاتا ہے، پھر اس میں نیکی بدی کی تمیز اور سمجھ آجاتی ہے، اسے قلبِ سلیم کہتے ہیں، پھر ذکر کی کثرت سے اُس کا رُخ رب کی طرف مُڑ جاتا ہے، اُسے قلبِ منیب کہتے ہیں، یہ دل برائی سے روک سکتا ہے مگر یہ صحیح فیصلہ نہیں کرسکتا، پھر جب اللہ تعالیٰ کی تجلیات اُس دل پر گرنا شروع ہوجاتی ہیں تو اُسے قلبِ شہید کہتے ہیں۔
الحدیث: شکستہ دِل اور شکستہ قبر پر اللہ کی رحمت پڑتی ہے۔
اُس وقت جو دِل کہے چپ کرکے مان لے، کیونکہ تجلی سے نفس بھی مطمئنہ ہوجاتا ہے اور اللہ حبل الورید ہوجاتا ہے، پھر اللہ کہتا ہے کہ میں اُس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، اُس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔
روح ِ انسانی
اس کی نبوت اور علم ابراہیمؑ کو ملا تھا۔
یہ دائیں پستان کے قریب ہوتی ہے۔ ذکر کی ضربوں اور تصور سے اِس کو بھی جگایا جاتاہے۔ پھر ا دھر بھی ایک دھڑکن نمایاں ہوجاتی ہے۔ اِس کے ساتھ (ذکر) یا اللہ ملایا جاتاہے، پھر انسان کے اندر دو بندے ذکر کرنا شروع کردیتے ہیں اور اِس کا مرتبہ قلب والے سے بڑھ جاتا ہے۔ روح کا رنگ سرخی مائل ہوتاہے اور اِس کی بیداری سے جبروت تک( جو مقام ِ جبرائیل ہے) رسائی ہو جاتی ہے۔ غضب و غصہ اِس کے ہمسایہ ہوتے ہیں، جو جل کر جلال بن جاتے ہیں۔
لطیفہ سری
اس کی نبوت اور علم موسیٰؑ کو ملا تھا۔
یہ مخلوق سینے کے درمیان سے بائیں پستان کے درمیان ہوتی ہے۔ اِس کو بھی یا حئی یا قیوم کی ضربوں اور تصور سے بیدار کیا جاتا ہے۔ اِس کا رنگ سفید ہے۔ خواب یا مراقبے میں لاہوت تک پہنچ رکھتی ہے، اب تین مخلوقیں ذکر کر رہیں ہیں اور اِس کا درجہ اُن دو سے بڑھ گیا۔
لطیفہ خفی
اس کی نبوت اور علم عیسیٰؑ کو ملا تھا۔
یہ سینے کے درمیان سے دائیں پستان کے درمیان ہوتی ہے، اِسے بھی ضربوں کے ذریعہ یا واحد سکھایا جاتا ہے۔ اِس کا رنگ سبز ہے اور اِس کی رسائی مقامِ وحدت سے ہے، اور اب چار بندوں کی عبادت سے درجہ اور بڑھ گیا۔
لطیفہ اخفی
اس کی نبوت اور علم حضور پاک ؐ کو ملا تھا۔
یہ مخلوق سینے کے درمیان ہے۔ یا احد کا ذکر اِس کے لئے وسیلہ ہے۔ اِس کا رنگ جامنی ہے، اِ س کا تعلق بھی مقام وحدت کے اُس پردے سے ہے جس کے پیچھے تخت ِ خداوند ہے ۔
پانچ لطیفوں کا باطنی علم بھی پانچوں نبیوں کو بالترتیب حاصل ہوا، اور ہر لطیفے کا آدھا علم نبیوں سے ولیوں تک پہنچا، اس طرح اس کے دس حصے بن گئے۔ پھر ولیوں سے خاص، اس علم سے مستفیض ہوئے۔ جبکہ ظاہری علم، ظاہری جسم، ظاہری زبان ، ناسوت اور نفوس سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ عام لوگوں کے لئے ہے۔ اور اس کا علم ظاہری کتاب میں ہے۔ جس کے تیس(30) حصے ہیں۔ علمِ باطن بھی نبیوں پر وحی کے ذریعے نازل ہوا، اس وجہ سے اسے بھی باطنی قرآن بولتے ہیں۔ قرآن کی بہت سی سورتیں بعد میں منسوخ کی جاتیں۔ اُس کی وجہ یہی تھی کہ کبھی کبھی سینے کا علم بھی حضورؐ پاک کی زبان سے عام میں ادا ہو جاتا۔ جو کہ خاص کے لئے تھا، بعد میں یہ علم سینہ بہ سینہ ولیوں میں چلتا رہا اور اب کتب کے ذریعے عام کردیا گیا۔
لطیفہ انا
یہ مخلوق سر میں ہوتی ہے، بے رنگ ہے۔ یاھُو کا ذکر اِسکی معراج ہے۔ اور یہی مخلوق طاقتور ہوکر خدا کے روبرو بے پردہ ہمکلام ہوجاتی ہے۔یہ عاشقوں کا مقام ہے، اِس کے علاوہ کچھ خواص کو اللہ کی طرف سے اور (دیگر) مخلوقیں بھی عطا ہوجاتی ہیں، جیسے طفل ِ نوری یا جُسہ ِ توفیق ِ الہیٰ، پھر اِن کا مرتبہ سمجھ سے بالا ہے۔
لطیفہ ِ انا کے ذریعہ دیدار ِ الہیٰ خواب میں ہوتا ہے۔
جُسہ ِ توفیق ِ الہیٰ کے ذریعہ رب کا دیدار مراقبے میں ہوتا ہے۔
اور طفل ِ نوری والوں کا دیدار ہوش و حواس میں ہوتا ہے
یہی پھر دنیا میں قدرت اللہ کہلاتے ہیں، چاہے کسی کو عبادت و ریاضت، اور چاہے کسی کو نظروں سے ہی مقام ِ محمود تک پہنچا دیں، اِن کی نظروں میں
چہ مسلم چہ کافر چہ زندہ چہ مردہ
سب برابر ہوتے ہیں، جیسا کہ غوث پاکؓ کی ایک نظر سے چور، قطب بن گیا۔ یا ابو بکر حواری یا منگا ڈاکو بھی اِن لوگوں کی نظروں سے پیر بن گئے ۔
پانچوں مرسل کو بالترتیب علیحدہ علیحدہ لطائف کا علم دیا گیا جس کی وجہ سے روحانیت میں ترقی ہوتی گئی۔ جس جس لطیفے کا ذکر کرے گا، اُن سے متعلق مرسل سے تعلق اور فیض کا حق دار ہوجائے گا۔ اور جس لطیفے پر تجلی پڑے گی، اس کی ولائت اُس نبی کے نقش قدم پر ہوگی۔ سات آسمانوں میں پہنچ اور سات بہشتوں میں مدارج کی حصولی بھی ان ہی لطائف سے ہوتی ہے۔
لطیفہ نفس:
یہ شیطانی جرثومہ ہے۔ ناف میں اس کا ٹھکانہ ہے۔ سب نبیوں ولیوں نے اس کی شرارت سے پناہ مانگی، اس کی غذا فاسفورس اور بد بو ہے، جو ہڈیوں، کوئلے اور گوبر میں بھی ہوتی ہے۔ ہر مذہب نے جنابت کے بعد نہانے پر زور دیا ہے۔ کیونکہ جنابت کی بد بو مساموں سے بھی خارج ہوتی ہے۔ بد بو دار قسم کے مشروب اور بد بو دار قسم کے جانوروں کے گوشت کو بھی ممنوع قرار دیا ہے۔
روز ِ ازل میں اللہ کے سامنے والی تمام روحیں، جمادی تک، ایک دوسرے سے مانوس اور متحد ہو گئیں۔ روح جمادی کی وجہ سے انسان نے پتھروں کے مکان بنائے، اور روح ِ نباتی کی وجہ سے درختوں کی لکڑیوں سے چھت بنائے، درختوں کے سائے سے بھی مستفیض ہوئے، درختوں نے ان کو صاف ستھری آکسیجن پہنچائی۔ پیچھے والی حیوانی روحیں جو دنیا میں آکر جانور بن گئے، سب انسانوں کے لئے حلال کر دئیے گئے۔جبکہ ان ہی سے متعلقہ پرندے بھی حلال کر دیے گئے،
بائیں طرف جنات اور سفلی مؤکلات بنے پھر اُن سے پیچھے کی طرف خبیث ارواح جو آخر میں دشمنِ خدا ہوئیں۔ اور وہ حیوانی ، نباتی اور جمادی روحیں جو خبیثوں کے پیچھے نمودار ہوئیں تھیں اُنہوں نے انسانوں سے دشمنی کری، اُن کی روح جمادی کے دنیا میں آنے سے راکھ، کوئلہ بنی، جس کی گیس انسانوں کے لئے نقصان دہ تھی۔ اُن کی روح ِ نباتی سے خطرناک او رکانٹے دار قسم کے اور آدم خور قسم کے درخت وجود میں آئے اور اُن کی روح ِ حیوانی سے آدم خور اور درندہ قسم کے جانور پیدا ہوئے، اور اُن سے متعلقہ پرندے بھی ان ہی کی انسان دشمنی کی خصلت کی وجہ سے حرام قرار دیئے گئے ۔ جن کی پہچان یہ ہے کہ وہ پنجے سے پکڑکر غذا کھاتے ہیں۔
دائیں جانب والی ارواح کو انسان کا خادم، پیغام رساں اور مدد گار بنادیا اور انسان کو سب سے زیادہ فضیلت عطاکر کے اپنا خلیفہ مقرر کردیا۔ اب انسان کی مرضی، محنت اور قسمت ہے کہ خلافت منظور کرے یا ٹھکرادے۔ نفس خواب میں جسم سے باہر نکل جاتا ہے اور اس بندے کی شکل میں جنات کی شیطانی محفلوں میں گھومتا ہے۔ نفس کے ساتھ خناس بھی ہوتا ہے، جس کی شکل ہاتھی کی طرح ہوتی ہے اور یہ نفس اور قلب کے درمیان بیٹھ جاتا ہے، انسان کو گمراہ کرنے کیلئے نفس کی مدد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ چار پرندے بھی انسان کو گمراہ کرنے کیلئے چاروں لطائف کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں۔ جیسا کہ قلب کے ساتھ مرغ، جس کی وجہ سے دل پر شہوت کا غلبہ رہتا ہے، قلب کے ذکر سے وہ مرغ ، مرغ ِ بسمل بن جاتا ہے، اور حرام و حلال کی تمیز کا شعور پیدا کردیتا ہے۔ پھر اس قلب کو قلبِ سلیم کہتے ہیں۔ سری کے ساتھ کوا، کوے کی وجہ سے حرص، اور خفی کے ساتھ مور، مور کی وجہ سے حسد، اور اخفیٰ کے ساتھ کبوتر، کبوتر کی وجہ سے بخل آجاتا ہے۔ اور اُنکی خصلتیں لطائف کو حرص و حسد پر مجبور کردیتی ہیں، جب تک لطائف منور نہ ہو جائیں۔ ابراہیم ؑ علیہ السلام کے جسم سے ان ہی چار پرندوں کو نکال کر، پاکیزہ کر کے دوبارہ جسم میں ڈالا گیا تھا۔مرنے کے بعد پاکیزہ لوگوں کے یہ پرندے درختوں پر بسیرا بنالیتے ہیں۔ بہت سے لوگ جنگلوں میں کچھ دن رہ کر پرندوں جیسی آوازیں نکالتے ہیں، اور یہ پرندے ان سے مانوس ہو جاتے ہیں اور اُن کے چھوٹے موٹے علاجوں میں معاون بن جاتے ہیں۔جب کہ روح شہباز کی صورت میں ہوتی ہے۔
انسانی جسم میں اِن لطائف کی ڈیوٹیاں
لطیفہ ِ اخفیٰ : اِس کے ذریعہ انسان بولتا ہے۔ ورنہ زبان ٹھیک ہونے کے باوجود وہ گونگا ہے۔ انسانوں اور حیوانوں میں فرق اِن لطائف کا ہے۔ پیدائش کے وقت اگر اخفیٰ کسی وجہ سے جسم میں داخل نہ ہو سکے تو اسے جسم میں منگوانا کسی متعلقہ نبی کی ڈیوٹی تھی، پھر گونگے بولنا شروع ہوجاتے تھے۔
لطیفہ ِ سری : اِس کے ذریعہ انسان دیکھتا ہے۔ اِس کے جسم میں نہ آنے سے انسان پیدائشی اندھا ہے، اِس کو واپس لانا بھی کسی متعلقہ نبی کی ڈیوٹی تھی، جس سے اندھے بھی دیکھنا شروع ہوجاتے تھے۔
لطیفہ ِ قلب: اِس کے جسم میں نہ ہونے کی وجہ سے انسان بالکل جانوروں کی طرح رب سے نا آشنا اور دور ، بے شوق بے کیف ہوجاتا ہے، اِس کو واپس دلوانا بھی نبیوں کا کام تھا۔ اور اُن نبیوں کے معجزات کرامت کی صورت میں ولیوں کو بھی عطا ہوئے، جس کے ذریعہ فاسق و فاجر بھی رب تک پہنچ گئے۔
کسی بھی ولی یا نبی کے ذریعہ جب کسی متعلقہ لطیفے کو واپس کیا جاتا ہے تو گونگے بہرے اور اندھے بھی شفا یاب ہو جاتے ہیں۔
لطیفہ ِ انا :اِس کے جسم میں نہ آنے سے انسان پاگل کہلاتا ہے، بے شک دماغ کی سب نسیں کام کررہیں ہوں۔
لطیفہ جفی اِس کے نہ آنے سے انسان بہرہ ہے۔خواہ کان کے سوراخ کھول دئے جائیں۔جسمانی نقائص سے بھی یہ حا لتیں پیدا ہوسکتی ہیں، جو قابل ِ علاج ہیں، لیکن مخلوقوں کے ناپید ہونے کا کوئی علاج نہیں، جب تک کسی نبی یا ولی کی حمایت حاصل نہ ہو۔
لطیفہ ِ نفس کے ذریعہ انسان کا دل دنیا میں، اور لطیفہ ِ قلب کے ذریعہ انسان کا رُخ اللہ کی طرف مڑ جاتا ہے۔
باب چہارم
لفظ(اللہ)
سُریانی زبان جو آسمانوں پر بولی جاتی ہے، فرشتے اور رب اسی زبان سے مخاطب ہوتے ہیں۔ جنت میں آدم ؑ صفی اللہ بھی یہی زبان بولتے تھے، پھر جب آدم ؑ صفی اللہ اور مائی حوا دنیا میں آئے، عربستان میں آباد ہوئے۔ اُن کی اولاد بھی یہی زبان بولتی تھی، پھر آل کے دنیا میں پھیلاؤ کی وجہ سے یہ زبان عربی ،فارسی، لاطینی سے نکلتی ہوئی انگریزی تک جا پہنچی، اور اللہ کو مختلف زبانوں میں علیحدہ علیحدہ پکارا جانے لگا۔ آدم علیہ السلام کے عرب میں رہنے کی وجہ سے سریانی کے بہت سے الفاظ اب بھی عربی زبان میں موجود ہیں۔ جیسا کہ آدم ؑ کو آدم صفی اللہ کے نام سے پکارا تھا ۔ کسی کو نوح نبی اللہ، کسی کو ابراہیم خلیل اللہ، پھر موسیٰ کلیم اللہ، عیسیٰ روح اللہ اور محمد الرسول اللہ پکارا گیا۔ یہ سب کلمے سریانی زبان میں لوحِ محفوظ پر ان نبیوں کے آنے سے پہلے ہی درج تھے، تبھی حضور پاک نے فرمایا تھا کہ میں اس دنیا میں آنے سے پہلے بھی نبی تھا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لفظ اللہ مسلمانوں کا رکھا ہوا نام ہے، مگر ایسا نہیں ہے ۔
حضرت محمدالرسول اللہؐ کے والد کا نام عبداللہ تھا ۔ جبکہ اس وقت اسلام نہیں تھا۔ اور اسلام سے پہلے بھی ہر نبی کے کلمے کے ساتھ اللہ پکارا گیا۔ جب روحیں بنائی گئیں تو ان کی زبان پر پہلا لفظ اللہ ہی تھا۔ اور پھر جب روح آدم ؑ کے جسم میں داخل ہوئی تو یا اللہ پڑھ کر ہی داخل ہوئی تھی۔ بہت سے مذاہب اس رمز کو حق سمجھ کر اللہ کے نام کا ذکر کرتے ہیں ۔ اور بہت سے شکوک و شبہات کی وجہ سے اس سے محروم ہیں۔
جو بھی نام رب کی طرف اشارہ کرتا ہے قابل ِ تعظیم ہے۔
یعنی اللہ کی طرف رخ کر دیتا ہے۔ مگر ناموں کے اثر سے متفرق ہوگئے۔ حروفِ ابجد اور حروفِ تہجی کی رو سے ہر لفظ کا ہندسہ علیحدہ ہوتا ہے،یہ بھی ایک آسمانی علم ہے۔ اور اِن ہندسوں کا تعلق کُل مخلوق سے ہے۔بعض دفعہ یہ ہندسے ستاروں کے حساب سے آپس میں موافقت نہیں رکھتے۔ جس کی وجہ سے اِنسان پریشان رہتا ہے ۔ بہت سے لوگ اس علم کے ماہرین سے ستاروں کے حساب سے زائچہ بنوا کر نام رکھتے ہیں۔
جیسا کہ ابجد ( ا ، ب ، ج ، د ) (۱،۲،۳،۴ ) کے دس(۱۰) عدد بنتے ہیں۔ اسی طرح ہر نام کے علیحدہ اعداد ہوتے ہیں۔ جب اللہ کے مختلف نام رکھ دئیے گئے تو ابجد کے حساب سے ایک دوسرے سے ٹکراؤ کا سبب بن گئے۔ اگر سب ایک ہی نام سے رب کو پکارتے تو مذاہب جُدا جُدا ہونے کے باوجود، اندر سے ایک ہی ہوتے۔ پھر نانک صاحب اور با با فرید ؒ کی طرح یہی کہتے ۔
سب روحیں اللہ کے نور سے بنی ہیں لیکن اِن کا ماحول اور ان کے محلے علیحدہ ہیں
جن فرشتوں کی دنیا میں ڈیوٹی لگا ئی جاتی ہے، انہیں دنیا والوں کی زبانیں بھی سکھائی جاتی ہیں۔امتیوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے نبی کا کلمہ ،جو نبی کے زماہ میں امت کی پہچان ، فیض اور پاکیزگی کے لیے رب کی طرف سے عطاء ہوا تھا، اسی کلمے کی تکرار کیا کریں۔کسی کو کسی بھی مذہب میں آنے کے لیے یہ کلمے شرط ہیں۔جس طرح نکاح کے وقت زبانی اقرار شرط ہے۔ جنتوں میں داخلے کے لیے بھی یہ کلمے شرط کر دئیے گئے،لیکن مغربی ممالک میں بیشتر مسلم اور عیسائی اپنے مذہب کے کلموں حتیٰ کہ اپنے بنی کے اصلی نام سے بے ضبر ہیں۔زبانی کلمے والے اعمالِ صالح کے محتاج،کلمہ نہ پڑھنے والے جنت سے باہر اور جن کے دلوں میں بھی کلمہ اتر گیا تھا، وہی بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ آسمانی کتابیں جو جس بھی زبان میں اصلی ہیں ۔ وہ رب تک پہچانے کا ذریعہ ہیں لیکن جب انِ کی عبارتوں اور ترجموں میں ملاوٹ کردی گئی ، جس طرح ملاوٹ شدہ آٹا پیٹ کے لیے نقصان دہ ہے اسی طرح ملاوٹ شدہ کتابیں دین میں نقصان دہ بن گئی ہیں۔اور ایک ہی دین ، بنی والے کتنے فرقوں میں بٹ گئے۔
صراطِ مستقیم کے لیے بہتر ہے کہ تم نور سے بھی ہدایت پاؤ
نور بنانے کا طریقہ
پرانے زمانے میں پتھروں کی رگڑ سے آگ حاصل کی جاتی تھی۔ جبکہ لوہے کی رگڑ سے بھی چنگاری اُٹھتی ہے۔ پانی پانی سے ٹکرایا تو بجلی بن گئی۔ اسی طرح انسان کے اندر خون کے ٹکراؤ یعنی دل کی ٹک ٹک سے بھی بجلی بنتی ہے۔ہر انسان کے جسم میں تقریباً ڈیڑھ والٹ بجلی موجود ہے، جس کے ذریعے اس میں پھرتی ہوتی ہے۔ بڑھاپے میں ٹک ٹک کی رفتار سُست ہونے کی وجہ سے بجلی میں بھی اورچستی میں بھی کمی آجاتی ہے۔ سب سے پہلے دل کی دھڑکنوں کو نمایاں کرنا پڑتا ہے۔ کوئی ڈانس کے ذریعہ، کوئی کبڈی یا ورزش کے ذریعہ اور کوئی اللہ اللہ کی ضربوں کے ذریعہ یہ عمل کرتے ہیں۔
جب دل کی دھڑکنوں میں تیزی آجاتی ہے پھر ہر دھڑکن کے ساتھ اللہ اللہ یا ایک کے ساتھ اللہ اور دوسری کے ساتھ ھو ملائیں۔ کبھی کبھی دل پر ہاتھ رکھیں، دھڑکنیں محسوس ہوں تو اللہ ملائیں، کبھی کبھی نبض کی رفتار کے ساتھ اللہ ملائیں۔ تصور کریں کہ اللہ دل میں جارہا ہے۔ اللہ ھو کا ذکر بہتر اور زود اثر ہے، اگر کسی کو ھو پر اعتراض یا خوف ہو تو وہ بجائے محرومی کے دھڑکنوں کے ساتھ اللہ اللہ ہی ملاتے رہیں، ورد و وظائف اور ذکوریت والے لوگ جتنا بھی پاک صاف رہیں اُن کے لئے بہتر ہے۔
کہ: بے ادب، بے مراد با ادب ، با مراد ہوتے ہیں
پہلا طریقہ
کاغذ پر کالی پنسل سے اللہ لکھیں، جتنی دیر طبیعت ساتھ دے روزانہ مشق کریں۔
ایک دن لفظ ا للہ کاغذ سے آنکھوں میں تیرنا شروع ہو جائے گاپھر آنکھوں سے تصور کے ذریعہ دل پر اُتارنے کی کوشش کریں۔
دوسرا طریقہ
زیرو کے سفید بلب پر پیلے رنگ سے اللہ لکھیں،اُسے سونے سے پہلے یا جاگتے وقت آنکھوں میں سمونے کی کوشش کریں ۔جب آنکھوں میں آ جائے تو پھر اُس لفظ کو دل پر اُتاریں۔
تیسرا طریقہ
یہ طریقہ اُن لوگوں کے لئے ہے جِن کے راہبر کامل ہیں اور تعلق اور نِسبت کی وجہ سے روحانی اِمداد کرتے ہیں۔تنہائی میں بیٹھ کر شہادت کی انگلی کو قلم خیال کریں اور تصور سے دل پر اللہ لکھنے کی کوشش کریں، راہبر کو پکاریں کہ وہ بھی تمھاری انگلی کو پکڑ کر تمھارے دل پر اللہ لکھ رہا ہے۔ یہ مشق روزانہ کریں جب تک دل پر اللہ لکھا نظر نہ آئے۔
پہلے دونوں طریقوں میں اللہ ویسے ہی نقش ہوتا ہے، جیسا کہ باہر لکھا یا دیکھا جاتا ہے۔ پھرجب دھڑکنوں سے اللہ ملنا شروع ہوجاتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ چمکنا شروع ہوجاتا ہے۔ چونکہ اس طریقے میں کامل راہبر کا ساتھ ہوتا ہے، اس لئے شروع سے ہی خوشخط اور چمکتا ہوا دل پر اللہ لکھا نظر آتا ہے۔
دنیا میں کئی نبی ولی آئے، ذکر کے دوران بطور آزمائش باری باری، اگر مناسب سمجھیں تو سب کا تصور کریں جس کے تصور سے ذکر میں تیزی اور ترقی نظر آئے آپ کا نصیبہ اُسی کے پاس ہے۔ پھر تصور کیلئے اُسی کو چن لیں، کیونکہ ہر ولی کا قدم کسی نہ کسی نبی کے قدم پر ہوتا ہے، بے شک نبی ظاہری حیات میں نہ ہو۔ اور ہر مومن کا نصیبہ کسی نہ کسی ولی کے پاس ہوتا ہے۔ ولی کی ظاہری حیات شرط ہے۔ لیکن کبھی کبھی کسی کو مقدر سے کسی ممات والے کامل ذات سے بھی ملکوتی فیض ہوجاتا ہے، لیکن ایسا بہت ہی محدود ہے۔ البتہ ممات والے درباروں سے دنیاوی فیض پہنچاسکتے ہیں۔ اسے اویسی فیض کہتے ہیں اور یہ لوگ اکثر کشف اور خواب میں اُلجھ جاتے ہیں، کیونکہ مرشد بھی باطن میں اور ابلیس بھی باطن میں۔ دونوں کی پہچان مشکل ہوجاتی ہے۔
فیض کے ساتھ علم بھی ضروری ہوتا ہے، جس کیلئے ظاہری مرشد زیادہ مناسب ہے، اگر فیض ہے، علم نہیں تو اُسے مجذوب کہتے ہیں۔ فیض بھی ہے، علم بھی ہے اُسے محبوب کہتے ہیں۔ محبوب علم کے ذریعے لوگوں کو دنیاوی فیض کے علاوہ روحانی فیض بھی پہنچاتے ہیں، جبکہ مجذوب ڈنڈوں اور گالیوں سے دنیاوی فیض پہنچاتے ہیں۔
۔۔۔*۔۔۔
اگر کوئی بھی آپ کے تصور میں آکر آپ کی مدد نہ کرے تو پھر گوہر شاہی ہی کو آزما کر دیکھیں۔ مذہب کی قید نہیں، البتہ ازلی بدبخت نہ ہو۔ بہت سے لوگوں کو چاند سے بھی ذکر عطا ہو جاتا ہے۔ اُس کا طریقہ یہ ہے، جب پورا چاند مشرق کی طرف ہو، غور سے دیکھیں، جب صورتِ گوہر شاہی نظر آجائے۔ تو تین دفعہ اللہ اللہ اللہ کہیں، اجازت ہو گئی۔ پھر بے خوف و بے خطر درج شدہ طریقے سے مشق شروع کردیں۔ یقین جانیے، چاند والی صورت بہت سے لوگوں سے ہر زبان میں بات چیت بھی کرچکی ہے۔ آپ بھی دیکھ کر بات چیت کی کوشش کریں۔

باب پنجم
مراقبہ
بہت سے لوگ روحوں (لطائف، شکتیاں) کی بیداری اور روحانی طاقت سیکھے بغیر مراقبہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا یا تو مراقبہ لگتا ہی نہیں یا شیطانی وارداتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ مراقبہ انتہائی لوگوں کا کام ہے، جن کے نفس پاک اور قلب صاف ہوچکے ہوں۔ عام لوگوں کا مراقبہ نادانی ہے۔ خواہ کسی بھی ظاہری عبادت سے کیوں نہ ہو۔ روحوں کی طاقت کو نور سے یکجا کر کے کسی مقام پر پہنچ جانے کا نام مراقبہ ہے۔
ولائت نبوت کا چالیسواں حصہ ہے۔
نبی کا ہر خواب، مراقبہ یا الہام وحی صحیح ہوتا ہے، اسے تصدیق کی ضرورت نہیں۔ لیکن ولی کے سو(۱۰۰) میں سے چالیس(۴۰) خواب مراقبے یا الہامات صحیح اور باقی غلط ہوتے ہیں۔ اور ان کی تصدیق کے لئے علمِ باطن کی ضرورت ہے، کہ
بے علم نتواں خدارا شناخت
سب سے ادنیٰ مراقبہ قلب کی بیداری کے بعد لگتا ہے، جو کہ ذکر ِ قلب کے بغیر ناممکن ہے۔ ایک جھٹکے سے آدمی ہوش و حواس میں آجاتا ہے، استخارے کا تعلق بھی قلب سے ہے۔ اس سے آگے روح کے ذریعہ مراقبہ لگتا ہے، تین جھٹکوں سے واپسی ہوتی ہے، تیسرا مراقبہ لطیفہِ انا اور روح سے اکھٹا لگتا ہے۔ روح بھی جبروت تک ساتھ جاتی ہے، جیسا کہ جبرائیل حضور پاک کے ساتھ جبروت تک گئے تھے۔ ایسے لوگوں کو قبروں میں بھی دفنا آتے ہیں مگر اُنہیں خبر نہیں ہوتی، ایسا مراقبہ اصحابِ کہف کو لگا تھا جو تین سو(۳۰۰) سال سے زائد عرصہ غار میں سوتے رہے۔ ایسا مراقبہ جب غوث پاکؓ کو جنگل میں لگتا تو وہاں کے مکین ڈاکو آپ کو مردہ سمجھ کر قبر میں دفنانے کے لئے لے جاتے تھے۔ لیکن دفنانے سے پہلے ہی وہ مراقبہ ٹوٹ جاتا۔
اللہ کی طرف سے خاص الہام اور وحی کی پہچان
جب انسان سینے کی مخلوقوں کو بیدار اور منور کر کے تجلیات کے قابل ہو جاتا ہے تو اُس وقت اللہ اُس سے ہمکلام ہوتا ہے، یوں تو وہ قادرِ مطلق ہے، کسی بھی ذریعہ انسان سے مخاطب ہو سکتا ہے لیکن اُس نے اپنی پہچان کے لئے ایک خاص طریقہ بنایا ہوا ہے تاکہ اُس کے دوست شیطان کے دھوکے سے بچ سکیں۔ سب سے پہلے سریانی زبان میں عبارت سالک کے دل پر آتی ہے، اور اُس کا ترجمہ بھی اُسی زبان میں نظر آتا ہے، جس کا وہ حامل ہے، وہ تحریر سفید اور چمکدار ہوتی ہے، اور آنکھیں خود بخود بند ہو کر اُسے دیکھتی ہیں پھر وہ تحریر قلب سے ہوتی ہوئی لطیفہء سری کی طرف آتی ہے جس کی وجہ سے زیادہ چمکنا شروع ہوجاتی ہے۔ پھر وہ تحریر لطیفہء اخفیٰ کی طرف آتی ہے، اخفیٰ سے اور چمک حاصل کر کے زبان پر چلی جاتی ہے، اور زبان بے ساختہ وہ تحریر پڑھنا شروع کردیتی ہے۔اگر یہ الہام شیطان کی طرف سے ہو تو منور دل اُس تحریر کو مدھم کر دیتا ہے، اگر تحریر زورآور ہے تو لطیفہء سری یا اخفیٰ اُس تحریر کو ختم کردیتے ہیں، بالفرض اگر لطیفوں کی کمزوری کی وجہ سے وہ تحریر زبان پر پہنچ بھی جائے تو زبان اُسے بولنے سے روک لیتی ہے۔یہ الہام خاص ولیوں کے لئے ہوتا ہے ،جبکہ عام ولیوں کو اللہ تعالیٰ فرشتوں یا ارواح کے ذریعے پیغام پہنچاتاہے۔
اور جب خاص الہام کی تحریر کے ساتھ جبرائیل بھی آجائیں تو اُسے وحی کہتے ہیں، جو صرف نبیوں کے لئے مخصوص ہے۔
بابِ ششم
بہشت کن لوگوں کے لئے ہے
کچھ ازلی جہنمی بھی اعمال و عبادات کے ذریعہ بہشتی بننے کی کوشش کرتے ہیں
لیکن آخر میں شیطان کی طرح مردود ہو جاتے ہیں، کیونکہ بخل، تکبر، حسد اِن کی وراثت ہے۔
الحدیث: جس میں ذرہ بھر بھی بخل اور حسد تکبر ہے، وہ جنت میں نہیں جاسکتا۔
بہشتی لوگ اگر عبادات میں نہ بھی ہوں تو پہچانے جاتے ہیں، یہ لوگ دِل کے نرم اور صاف، اور حرص و حسد سے پاک اور سخی ہوتے ہیں، اگر عبادات میں لگ جائیں تو بہت اونچا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ان ہی کی بخشش کے بہانے بناتا ہے۔ اور کچھ لوگ درمیان والے ہوتے ہیں۔ ان کا نیکی بدی کا پروانہ چلتا ہے۔ اور کچھ اللہ کے خواص ہوتے ہیں۔ ان ہی روحوں نے ازل میں اللہ سے محبت کری تھی۔ انہیں جنت دوزخ سے مقصد نہیں، بلکہ اللہ کے عشق میں تن من دھن لٹا دیتے ہیں۔ اللہ کے ذکر اور رحمت سے اپنی روحوں کو چمکا لیتے ہیں، دیدارِ الہیٰ بھی حاصل کرلیتے ہیں، جنت الفردوس صرف اِن ہی روحوں کے لئے مخصوص ہے۔
اور اِن ہی کیلئے حدیث ہے کہ
کچھ لوگ بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔
تشریح:

پہلی ارواح:
جن کو دنیا کا نظارہ دکھایا (دنیا ان کے ) مقدر میں لکھ دی۔ انہوں نے نیچے دنیا میں آکر دنیا حاصل کرنے کے لئے جان کی بازی لگا دی ۔ چوری ، ڈاکہ، رشوت، سود جیسے جرائم کو بھی نظر انداز کر دیا حتیٰ کہ وحدانیت کا بھی انکار کر دیا ان میں سے کچھ روحیں تھیں جنہوں نے جنت حاصل کرنے کے لئے مذہب یا عبادت بھی اختیار کی لیکن عزازیل کی طرح بے سود ثابت ہوئیں کیونکہ کوئی گستاخ، یا اللہ کا ناپسند مذہب یا فرقہ ان کے راستے میں رکاوٹ بن گیا۔
دوسری ارواح
جنہوں نے بہشت طلب کری تھی، انہوں نے دنیا وی کاموں کے ساتھ ساتھ عبادت و ریاضت کو اولیں ترجیح دی۔ حور و قصور کی لالچ میں عبادت گاہوں کی طرف دوڑ لگائی اور جنت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ، لیکن ان میں سے کچھ لو گ عبادت میں سُست رہے ، چونکہ جنت ان کی قسمت میں تھی اس لئے کوئی بہانہ ان کے کام آگیا لیکن وہ جنت کا وہ مقام حاصل نہ کر سکے جو نیکو کاروں نے حاصل کیا۔ انہی کے لئے اللہ نے فرمایا ’’ کیا ان لوگوں نے سمجھ رکھا ہے ہم ان کو نیکو کاروں کے برا بر کر دیں گے‘‘۔ کیونکہ جنت کے سات درجے ہیں ۔
عام لوگوں کو ہدایت نبیوں، کتابوں، گوروؤں، ولیوں کے ذریعہ ہوتی ہے، انہیں اس مذہب میں داخلہ اور کلمہ ضروری ہے۔ اور خواص بغیر مذہب اور بغیر کتب کے بھی اللہ کی نظر رحمت میں آجاتے ہیں۔ یعنی ان کو ہدایت نور سے ہوتی ہے۔
اللہ جنہیں چاہتا ہے، نور سے ھدایت دیتا ہے۔ (القرآن)
کہتے ہیں کہ بہشت میں داخلے کیلئے کلمہ ضروری ہے۔ بہشت میں ان جسموں کو نہیں روحوں کو جانا ہے، اور داخلے کے وقت پڑھنا ہے، تو پھر یہ روحیں مقام ِ دید میں جاکر کسی بھی وقت کلمہ پڑھ لیں گی، مرنے کے بعد ہی سہی، جیسے حضور پاک کی والدہ اور والد اور چچا کی روحوں کو مرنے کے بعد ہی کلمہ پڑھایا گیا تھا، بلکہ خواص الخاص روحیں اوپر سے ہی کلمہ پڑھ کر یعنی اقرار تصدیق کرکے ہی آتی ہیں۔ حضور ؐ نے فرمایا تھا کہ میں دنیا میں آنے سے پہلے بھی نبی تھا۔ یہ الفاظ روح کے ہی روحوں کے لئے ہو سکتے ہیں، جسم تو اس دنیا میں ملا۔قومیں ہوں تب سردار ہوتے ہیں، امتی ہوں تب نبی ہوتے ہیں، ورنہ ان کا کیا کام؟
پھر ان ہی لوگوں کو مختلف مذاہب میں بھیجا جاتا ہے، کوئی بابا فرید کے روپ میں، اور کوئی گورو نانک کے روپ میں ظاہر ہوتے ہیں اللہ کو پانے والی روحیں مذہب نہیں دیکھتیں، بلکہ جس کی اللہ سے رسائی دیکھتی ہیں، اس کے ساتھ لگ جاتی ہیں۔ غوث علی شاہ جو ایک ولی ہو گزرے ہیں، تذکرہِ غوثیہ میں لکھا ہے کہ میں نے ہندو جوگیوں سے بھی فیض حاصل کیا ہے، یہ رمز نہ سمجھ کرمسلم علماء نے غوث علی شاہ پر واجب القتل کے فتوے لگائے۔ اور مسلمانوں کو کہا کہ جس کے بھی گھر میں یہ کتاب ہو اُسے جلا دیا جائے، لیکن وہ کتاب بچ بچا کر ابھی بھی ہندوستان، پاکستان میں موجود اور مقبول ہے۔
کچھ قوموں نے نبیوں کو تسلیم کیا اور کچھ نے نبیوں کو جھٹلایا، جھٹلانے والی قوموں میں بھی رب نے ان ہی کے مذہب کے مطابق ان لوگوں کو بھیجا۔ اور انہوں نے اُن کو گناہوں سے بچانے کی تعلیم دی۔ اور اُن ہی کی عبادت اور رسموں و رواج کے ذریعہ اُن کا رخ رب کی طرف موڑنے کی کوشش کی۔ امن اور رب کی محبت کا سبق دیا۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو آج ہر مذہب ایک دوسرے کے لئے خونخوار ہی بن جاتا، ایسی روحوں کو دنیا میں خضر( وشنو مہاراج) سے بھی راہنمائی ملتی ہے۔ جو ہر مذہب کا بھید جانتے ہیں۔
تیسری ارواح
جنہوں نے نہ ہی دنیا طلب کری اور نہ ہی جنت کی طلب گار ہوئیں۔صرف رب کے نظارے کو دیکھتی رہیں۔انہوں نے دنیا میں آکر رب کی تلاش کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔کئی بادشاہتوں کو بھی چھوڑ کر اس کو پانے کے لیے بھوکے پیاسے جنگلوں میں رہے ، حتیٰ کہ کسی نے دریاؤں میں بھی کتنے سال بیٹھ کر گزارے، کامیابی کے بعد یہ ہی ولی اللہ کہلائے۔اور اللہ کی طرف سے مختلف عہدوں اور مختلف ڈیوٹیوں پر فائز ہوئے۔اور دوزخیوں کے لیے بھی دوااور دعُا بن گئے کہ
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں (اقبال)
اس لئے ارضی ارواح کے ہر جنم میں مرشد ( گرو) کا چشم دید ہونا لازمی ہے
پچھلے جنم یا خاندان کے زمانے کے مرشد موجودہ جسم سے مبرّا ہو جاتے ہیں
جیسا کہ نبوت بھی اولوالعزم مرسل کے آنے کے بعد مبُرا ہوجاتی ہے،جیساکہ موسیٰ کلیم اللہ اولوالعزم تھے، موسیٰ کلیم اللہ کے بعد جتنے بھی بنی آئے، عیسیٰ ؑ روح اللہ کے آنے کے بعد ان کا دین بھی کالعدم قرار دیا گیا۔اور عیسیٰ ؑ روح اللہ سے حضورپاکؐ تک جتنے بھی بنی خطہ عرب کے علاوہ آئے ،وہ حضور ؐ پاک کے آنے پر سب کالعدم قرار دئیے گئے۔لیکن اولوالعزم مرسل کے دین کا سلسلہ جاری رہا اور آج تک جاری ہے۔جس میں آدم ؑ صفی اللہ ، ابراہیم ؑ خلیل اللہ ، موسیٰ ؑ کلیم اللہ ، عیسیٰ ؑ روح اللہ اور محمد الرسول اللہ ؐ ہیں اور ہر ولی ان کے نقشِ قدم پر ہے
کیونکہ انسان کے اند ر سینے کے پانچوں لطائف کا تعلق پانچوں رسولوں سے ہے اس وجہ سے ان کی نبوت اور فیض روحانی قیامت تک رہے گا۔یہ جو کہتے ہیں کہ بغیر کلمہ پڑھے کوئی جنت میں نہیں جائے گا ،اس کا مقصد کسی ایک نبی کا کلمہ نہیں ہے بلکہ کسی بھی اولوالعزم نبی کے دین اور کلمہ کی طرف اشارہ ہے ۔تبھی حضور پاکؐ نے فرمایابھی تھاکہ میں ان(اولوالعزم مرسل) کی کتابوں یا دین کو جھٹلانے کیلئے نہیں آیا، بلکہ اصلاح کیلئے آیاہوں ۔یعنی کتابوں میں جو ردو بد ل ہو گیا تھا۔
آدم ؑ صفی اللہ کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جو لوگ صرف قلبی ذکر میں ہیں، رب کے نام پر گریہ زاری اور عاجزی رکھتے ہیں توبہ (کرتے) اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں ، یہی ابتدائی دین ، ابتدائی نبوت اور ابتدائی عبادت تھی۔غوث یا ہر ولی کا قدم کسی بنی کے قدم پر ہوتاہے اور ان کا قدم آدم ؑ صفی اللہ کے قدم پر ہے۔ مجدد الف ثانی ؒ نے بھی کہا تھا کہ میرا قدم موسوی ؑ ہے ۔جبکہ قلندروں کا ایک سلسلہ عیسویؑ ہے۔شیخ عبدالقادر جیلانی محمدی ؐ مشرب سے تعلق رکھتے ہیں

بابِ ہفتم
تقویٰ کن لوگوں کے لئے ہے
علم الیقین
یہ لوگ دنیا دار ہوتے ہیں ،مقام شنید ہوتا ہے ،علم کے ذریعہ یقین رکھتے ہیں ان کا ایمان سُنی سنائی باتوں پر ہوتا ہے، بھٹک بھی جاتے ہیں ۔انہیں تقوے سے نہیں بلکہ محنت سے ملتا ہے۔خوا ہ رزق حلال سے کمائیں یا حرام سے۔
عین الیقین
یہ لوگ تارک الدنیا کہلاتے ہوئے بھی دنیا والوں کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔لیکن ان کا رُخ اور دل رب کی طرف ہوتا ہے۔ ان کو اکثر رحمانی مناظر بھی دکھائے جاتے رہتے ہیں ۔ان کا مقام دید ہوتا ہے انہیں بھی جائز محنت سے ملتا ہے۔ناجائز سے انہیں نقصان ہوتا ہے۔
حق الیقین
ان کا مقام رسید ہوتا ہے ،یعنی اللہ کی طرف سے کوئی مرتبہ مل جاتا ہے ، اور اللہ کی نظرِ رحمت میں آجاتے ہیں،انہیں فارغ الدنیا کہتے ہیں۔دنیا میں رہ کر بھی جائز و نا جائز دھندے سے دور رہتے ہیں۔یہ اگر جنگلوں میں بھی بیٹھ جائیں تو اللہ ان کو وہاں بھی رزق پہنچاتا ہے،یہ تقوے کی منزل ہے۔ ابتدائی لوگ تقوے کی بات ضرور کرتے ہیں مگر اس میں کامیاب نہیں ہوتے۔
تقدیر
تقدیر دو طرح کی ہوتی ہے ،
۱۔ ازل ۔۔۔ اور ۔۔۔ ۲۔معلق
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب مقدر میں رزق لکھ دیا تو اس کے لئے گھومنا پھرنا کیا؟
مخدوم جہانیاں نے کہا کہ رزق کو حاصل کرنے کے لئے گھومنا پھرنا بھی مقدر میں لکھ دیا۔
مثال کے طور پر جیسا کہ آپ کے لئے پھولوں کا گلدستہ چھت پر رکھ دیا گیا ہے( یہ تقدیرِ ازل ہے)۔ اسے حاصل کرنے کیلئے آپ کو سیڑھیوں کے ذریعہ چھت پہنچنا ہے( یہ تقدیرِ معلق ہے) جو آپ کے اختیار میں ہے، اور اسی معلق کا حساب کتاب ہوگا نہ کہ تقدیر ازل کا۔ آپ چھت پر پہنچیں گے اور اپنا نصیب حاصل کرلینگے۔ اگر آپ نے سستی کی، اور چھت تک نہ پہنچے تو اس سے محروم ہو جائیں گے۔ دوسرا شخص جس کے مقدر میں چھت پر گلدستہ نہیں ہے وہ اگر سیڑھیوں کے ذریعہ یا سخت محنت سے بھی چھت پر پہنچ جائے تو وہ محروم ہی ہے۔

باب ھشتم
سوچ تو ذرا۔ تُو کس آدم کی اولاد میں سے ہے!
کچھ الہامی کتابوں میں لکھا ہے کہ اس دنیا میں چودہ ہزار آدمؑ آچکے ہیں۔ اور کسی نے کہا ہے کہ آدم صفی اللہ چودھویں اور آخری آدم ہیں۔اس دنیا میں واقعی بہت سے آدم ہوئے ہیں۔ جب صفی اللہ کو مٹی سے بنایا جارہا تھا تو فرشتوں نے کہا تھا کہ یہ بھی دنیا میں جاکر دنگا فساد کرے گا۔ یعنی فرشتے پہلے والے آدموں کے حالات سے باخبر تھے، ورنہ انہیں کیا خبر کہ اللہ کیا بنارہا ہے اور یہ جاکر کیا کرے گا۔لوح محفوظ میں مختلف زبانیں، مختلف کلمے، مختلف جنتر منتر، مختلف اللہ کے نام، مختلف سورتیں حتیٰ کہ جادو کا عمل بھی درج ہے۔ جو کہ ہاروت، ماروت دو فرشتوں نے لوگوں کو سکھایا تھا۔ اور بطور سزا وہ دونوں فرشتے مصر کے ایک شہر بابل کے کنویں میں الٹے لٹکے ہوئے ہیں۔
ہر آدم کو کوئی زبان سکھائی ،پھر ان کی قوم میں نبیوں کو ہدایت کے لئے بھیجا ، تبھی کہتے ہیں کہ دنیا میں سوالاکھ نبی آئے ،جبکہ آدم صفی اللہ کو آئے ہوئے چھ ہزار سال ہوئے ہیں ۔اگر ہر سال ایک نبی آتا تو چھ ہزار ہی ہوتے ، کچھ عرصہ بعد ان اقوام کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے تباہ کیا،جیسا کہ آثار ِ قدیمہ کے شہروں کا بعد میں نمودار ہونا ، اور وہاں کی لکھی ہوئی زبانوں کو کسی کا بھی نہ سمجھنا۔اور کسی قوم کو پانی کے ذریعہ غرق کیا۔ اور ان میں سے نوح طوفان کی طرح کچھ افراد اُن خطوں میں بچ بھی گئے۔
آخر میں صفی اللہ کو اُن سب سے بہتر بنا کر عرب میں بھیجا گیا۔ اور بڑے بڑے نبی بھی اس آدم کی اولاد سے پیدا ہوئے۔ مختلف آدموں کی مختلف زبانیں اُن کی بچی ہوئی قوموں میں رہیں، جب آخری آدم آئے تو اُن کو سریانی زبان سکھائی گئی۔ جب آپ کی اولاد نے دور دراز کی سیاحت کی تو پہلے والی قوموں سے بھی ملاقات ہوئی، اور کسی نے اچھی جگہ یا سبزہ دیکھ کر اُن کے ساتھ ہی بود و باش اختیار کرلی۔
عرب میں سریانی ہی بولی جاتی تھی پھر یہ اقوام کے میل جول سے عربی، فارسی، لاطینی، سنسکرت وغیرہ سے ہوتی ہوئی انگریزی سے جاملی، مختلف جزیروں میں مختلف آدموں کی اولاد مقیم تھی۔ ان میں سے ایک خانہ بدوش بھی آدم تھا، جس کی اولاد آج بھی موجود ہے اور جس کے ذریعہ مختلف قومیں دریافت ہوئیں۔
سمندر پار کے جزیروں والی قومیں ایک دوسرے سے بے خبر تھیں، اتنے دور دراز سمندری سفر نہ تو گھوڑوں سے کیا جاسکتا تھا اور نہ ہی چپو والی کشتیاں پہنچا سکتیں تھیں۔ کولمبس مشینی سمندری جہاز بنانے میں کامیاب ہوا۔جس کے ذریعہ وہ پہلا شخص تھا جو امریکا کے خطے کو پہنچا۔ کنارے پر لوگوں کو دیکھا جو سرخ تھے، اس نے سمجھا اور کہا شاید انڈیا INDIA) ) آگیا ہے ۔ اور وہ انڈین indian))ہیں۔ تبھی اس قوم کو Red Indian)) ریڈ انڈین کہتے ہیں جو نارتھ ڈکوٹا (North Dakota)کی ریاست میں اب بھی موجود ہیں۔
ریڈ انڈین کے ایک قبیلے کے سردار سے پوچھا کہ آپ کا آدم کون ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہمارے مذہب کے مطابق ہمارا آدم ایشیا میں ہے، جس کی بیوی کا نام حوا ہے۔ لیکن ہماری تاریخ کے مطابق ہمارا آدم ساؤتھ ڈکوٹا (South Dakota)کی ایک پہاڑی سے آیا تھا، اُس پہاڑی کی نشان دہی اب بھی موجود ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ انگریز اور امریکن ٹھنڈے موسم کی وجہ سے گورے ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے۔ کسی کالے آدم کی نسل بھی ان خطوں میں قدیمی موجود ہے۔ وہ آج تک گورے نہ ہو سکے یہی وجہ ہے کہ انسانوں کے رنگ، حلیے، مزاج، دماغ، زبانیں، خوراک ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
آدم صفی اللہ کی اولاد کا سلسلہ وسط ایشیا تک ہی رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وسط ایشیا والوں کے حلیے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آدم صفی اللہ ( شنکر جی )سری لنکا میں اترے، پھر وہاں سے عرب پہنچے۔ اور اس کے بعد آپ عرب میں ہی رہے، اور سرزمین ِ عرب میں ہی آپ کی قبر موجود ہے، تو پھر سری لنکا میں آپ کے اترنے اور قدموں کی نشان دہی کس نے کی؟ جو ابھی تک محفوظ ہے۔ اس کا مقصد آپ سے پہلے ہی وہاں کوئی قبیلہ آباد تھا۔
جو قومیں ختم کر دی گئی ہیں ان پر نبوت اور ولائت بھی ختم ہو گئی ۔ اور باقی ماندہ لوگ ان ہستیوں سے محروم ہو کر کچھ عرصہ بعد بھٹک گئے۔جو ں جوںیہ خطے دریافت ہوتے گئے ، ایشیا سے ولی پہنچتے گئے ،اور اپنے اپنے مذاہب کی تعلیم دیتے رہے اور آج سب خطوں میں ایشیائی دین پھیل گیا۔ عیسیٰ ؑ یروشلم ،موسیٰ ؑ بیت المقدس ، حضور پاک مکہ ، جبکہ نوح ؑ اور ابراہیم ؑ کا تعلق بھی عرب سے ہی تھا
کچھ نسلیں عذابوں سے تباہ ہوئیں ، کچھ کی شکلیں ریچھ،بندروں کی طرح ہوئیں ۔ کچھ رہے سہے لوگ خوف زدہ ہو کر رب کی طرف مائل ہوئے ۔اور کچھ رب کو قہارسمجھ کر اس سے متنفر ہو گئے۔ اور اس کے کسی بھی قسم کے حکم کی نافرمانی کی اور کہنے لگے کہ’ رب وغیرہ کچھ بھی نہیں، انسان ایک کیڑہ ہے، دوزخ بہشت بنی بنائی باتیں ہیں‘۔ موسیٰؑ کے زمانے میں بھی جو قوم بندر بن گئی تھی انہوں نے یورپ کا رخ کیا تھا، اس وقت کی حاملہ ماؤں نے بعد میں بندریا ہونے کی صورت میں بھی جنم انسانی دیا تھا، وہ قوم اب بھی موجود ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ ہم بندر کی اولاد میں سے ہیں۔
جو قوم ریچھ کی شکل میں تبدیل ہوئی تھی، انہوں نے افریقہ کے جنگلوں کی طرف رخ کر لیا تھا ۔ اس وقت کی حاملہ ماؤں کے پیٹ میں تو انسانی بچے تھے، جن کے ذریعہ بعد میں نسل چلی (مم ) کہتے ہیں۔ جسم پر لمبے لمبے بال ہوتے ہیں۔ مادہ زیادہ ہوتی ہیں۔ انسانوں کو اٹھا کر لے بھی جاتی ہیں۔ ان پر مذہب کا رنگ نہیں چڑھتا، لیکن آدمیت کی وجہ سے شرم گاہوں کو پتوں کے ذریعہ چھپایا ہوا ہوتا ہے۔
کسی اور آدم کو کسی غلطی کی وجہ سے ایک ہزار سال سزا ملی تھی۔ اسے سانپ کی شکل میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اب اس کی بچی ہوئی قوم جو ایک خاص قسم کے سانپ کے روپ میں ہے۔ جنم کے ہزار سال بعد انسان بھی بن جاتی ہے اسے روحا کہتے ہیں۔ تاریخ میں ہے، کہ ایک دن سکندر اعظم شکار کے لئے کسی جنگل سے گزرا، دیکھا کہ ایک خوب صورت عورت رو رہی ہے۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں چین کی شہزادی ہوں۔ اپنے شوہر کے ہمراہ شکار کو نکلے تھے، لیکن شوہر کو شیر کھا گیا۔ میں اب تنہا رہ گئی ہوں۔ سکندر نے کہا میرے ساتھ آؤ میں تمہیں واپس چین بھیجوادوں گا۔ عورت نے کہا شوہر تو مر گیا، میں اب واپس جاکر کیا منہ دکھاؤں گی، سکندر اسے گھر لے آیا، اور اس سے شادی کر لی۔
کچھ مہینوں بعد سکندر کے پیٹ میں درد شروع ہو گیا۔ ہر قسم کا علاج کر ایا مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔ درد بڑھتا گیا ، حکیم عاجز آگئے ایک سپیرا بھی سکندر کے علاج کے لئے آیا، اس نے سکندر کو علیحدہ بلوا کر کہا۔ میں آپ کا علاج کر سکتا ہوں لیکن میری کچھ شرطیں ہیں؟ اگر چند ہی دنوں میں میرے علاج سے شفا نہ ہوئی تو بے شک مجھے قتل کرادینا۔آج کی رات کھچڑی پکواؤ، نمک ذرا زیادہ ہو، دونوں میاں بیوی پیٹ بھر کر کھاؤ، کمرے کو اندر سے تالا لگاؤ، کہ دونوں میں سے کوئی باہر نہ جا سکے، تم کو سونا نہیں: لیکن بیوی کو ایسا لگے کہ تم سورہے ہو، پانی کا قطرہ بھی اندر موجود نہ ہو۔ سکندر نے ایسا ہی کیا۔ رات کے کسی وقت بیوی کو پیاس لگی، دیکھا پانی کا برتن خالی ہے، پھر دروازہ کھولنے کی کوشش کی : دیکھا، کہ تالا ہے۔ پھر شوہر کو دیکھا: محسوس ہوا کہ بے خبر سو رہا ہے، پھر سپنی بن کے نالی کے سوراخ سے باہر نکل گئی۔ پانی پی کر پھر سپنی کی صورت میں داخل ہو کر عورت بن گئی۔ سکندر اعظم یہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔ صبح سپیرے کو سب کچھ بتایا اس نے کہا تیری بیوی ناگن ہے جو ہزار سال بعد روپ بدلتا ہے۔ اس کا زہر پیٹ کے درد کا باعث بنا۔ پھر اس عورت کو سیر کے بہانے سمندر میں لے گئے۔ اور جس جگہ پھینکا وہ نشان اب بھی موجود ہے۔ اسے سد سکندری کہتے ہین۔ ان کی نسل بھی اس دنیا میں موجود ہے۔ عام سانپوں کے کان نہیں ہوتے، لیکن اس نسل والے سانپ کے کان ہوتے ہیں۔پتہ نہیں کس آدم کا قبیلہ چین کے پہاڑوں میں بند ہے اُن کے اس خطے میں داخلہ کو روکنے کے لئے ذوالقرنین نے پتھروں کی دیوار بنا دی تھی۔ ان کے لمبے لمبے کان ہیں،ایک کو بچھا لیتے ہیں اور دوسرے کو اوڑھ لیتے ہیں،انہیں جوج ماجوج کہتے ہیں۔سائنس نے کافی خطے تلاش کر لئے ہیں،لیکن ابھی بھی کافی خطے دریافت کرنے باقی ہیں۔
ھمالیہ کے پیچھے بھی برفانی انسان موجودہیں۔بہت سے انسان جنگلوں میں بھی موجود ہیں،ان کی زبان اُن کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔وہ بھی اپنے آدم کے طریقہ پر عبادت کرتے ہیں ۔ اور ضابطہِ حیات کے لئے ان کا بھی سرداری نظام قائم ہے۔ ان براعظموں کے علاوہ اور بھی بڑی زمینیں ہیں۔ جیسا کہ چاند ، سورج ، مشتری ، مریخ وغیرہ وہاں بھی آدم آئے ہیں۔لیکن وہاں قیامتیں آچکی ہیں۔ کہیں آکسیجن کو روک کر اور کہیں زمین کو تہس نہس کردیا گیا۔
مریخ میں انسانی زندگی ابھی بھی موجود ہے، جبکہ سورج میں بھی آتشی مخلوق آباد ہے۔
کہتے ہیں ایک خلا باز جب چاند میں اترا، اُس نے اوپر کے سیاروں کی تحقیق کرنا چاہی، تو اُسے آذان کی آواز بھی سنائی دی، جس سے وہ متاثر ہوکر مسلمان ہوگیا تھا، وہ مریخ کی دنیا تھی جہاں ہر مذہب کے لوگ رہتے ہیں۔ ہمارے سائنس دان ابھی مریخ پر پہنچ نہیں پائے، جبکہ وہ لوگ کئی بار اس دنیا میں آچکے ہیں اور بطور تجربہ یہاں کے انسانوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ اُن کی سائنس اور ایجادیں ہم سے بہت آگے ہیں، ہمارے سیارے یا سائنس دان اگر وہاں پہنچ بھی گئے تو اُن کی گرفت سے آزاد نہیں ہوسکتے۔
ایک آدم کو اللہ نے بہت علم دیا تھا، اور اس کی اولاد علم کے ذریعے بیت المامور تک جا پہنچی تھی، یعنی جو حکم اللہ فرشتوں کو دیتا، نیچے وہ سُن لیتے تھے۔ ایک دن فرشتوں نے کہا، اے اللہ یہ قوم ہمارے معاملے میں مداخلت بن گئی ہے۔ ہم جب کوئی کام کرنے دنیا میں جاتے ہیں، تو یہ پہلے ہی اس کا توڑ کر چکے ہوتے ہیں۔ اللہ نے جبرائیل سے کہا، جاؤ اُن کا امتحان لو۔ ایک بارہ سال کا بچہ بکریاں چرارہا تھا، جبرائیل نے اُس سے پوچھا، کیا تم بھی کوئی علم رکھتے ہو؟ اُس نے کہا ، پوچھو؟ جبرائیل نے کہا ، بتاؤ اس وقت جبرائیل کدھر ہے؟ اُس نے آنکھیں بند کیں، اور کہا آسمانوں پر نہیں ہے۔ پھر کدھر ہے؟ اُس نے کہا زمینوں پر بھی نہیں ہے۔ جبرائیل نے کہا پھر کدھر ہے؟ اس نے آنکھیں کھول دیں، اور کہا میں نے چودہ طبقوں میں دیکھا وہ کہیں بھی نہیں ہے، یا میں جبرائیل ہوں یا تو جبرائیل ہے۔
پھر اللہ نے فرشتوں کو کہا، اس قوم کو سیلاب کے ذریعہ غرق کیا جائے۔ انہوں نے یہ فرمان سُن لیا۔ لوہے اور شیشے کے مکانات بنانا شروع کردیئے، پھر زلزلے کے ذریعہ اُس قوم کو غرق کیا گیا، اُس وقت اُس خطے کو’ کالدہ‘ اور اب یونان بولتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں
انہوں نے روحانی علم کے ذریعہ اور اب ہمارے سائنس دان، سائنسی علم کے ذریعہ رب کے کاموں میں مداخلت کررہے ہیں، انہیں ڈرانے کیلئے چھوٹی موٹی تباہی اور مکمل تباہی کے لئے ایک سیارے کو زمین کی طرف بھیج دیا گیا ہے۔ جس کا گرنا بیس(۲۰) پچیس(۲۵) سال تک متوقع ہے اور وہ دنیا کا آخری دن ہوگا۔ اُس کا ایک ٹکڑا گزشتہ دو برسوں میں مشتری پر گر چکا ہے۔ سائنس دانوں کو بھی اُس کا علم ہوچکا ہے۔ اور یہ اُس کے گرنے سے پہلے چاند پر یا کسی اور سیارے پر رہائش پزیر ہونا چاہتے ہیں۔ جبکہ چاند پر پلاٹوں کی بکنگ بھی ہوچکی ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ چاند میں انسانی زندگی کے آثار یعنی ۂوا، پانی اور سبزہ نہیں ہے، پھر تگ و دو کا مقصد کیا ہے؟ رہا سوال تحقیق کا؟ چاند مشتری پر پہنچ کر بھی انسانیت کا کیا فائدہ ہوا؟ کیا کوئی ایسی دوائی یا نسخہ درازی ِ عمر یا موت کی شفا کا ملا؟
اگر مریخ کی مخلوقات تک پہنچ بھی گئے تو وہاں کی آکسیجن اور یہاں کی آکسیجن کی وجہ سے ایک دوسری جگہ رہنا محال ہے، بس بیکار دولت ضائع کی جارہی ہے، اگر وہی دولت روس اور امریکا، غریبوں پر خرچ کردے توسب خوشحال ہوجائیں۔ آدمیت کے فرق کی وجہ سے ایک دوسرے کو تباہ کرنے کیلئے ایٹم بم بھی بنائے جارہے ہیں جب کہ بموں کے بغیر بھی دنیا کو تباہ ہی ہوناہے۔
آسمان پر روحیں حد سے زیادہ بن گئی تھیں!
مقرب روحیں اگلی صفوں میں تھیں۔ عام روحوں کو اس دنیا میں بنائے ہوئے آدموں کی قوموں میں بھیجا۔ جو کوئی کالی ،کوئی سفید، کوئی پیلی اور کوئی لال مٹی سے بنائے گئے تھے انہیں جبرائیل اور ہاروت ماروت کے ذریعہ علم سکھایا گیا۔
جب زمین پر مٹی سے آدم بنائے جاتے، تو خبیث جن بھی موقع پاکر اُن کے اور اُن کی اولاد کے جسموں میں داخل ہوجاتے۔اور انہیں اپنی شیطانی گرفت میں لینے کی کوشش کرتے۔ پھر اُن کی قوم کے نبی، ولی اور اُن کی سکھائی ہوئی تعلیمات چھٹکارے کا ذریعہ بنتی ۔ بے شمار آدم جوڑوں کی شکل میں بنائے گئے جن سے اولاد کا سلسلہ جاری ہوا لیکن کئی بار صرف اکیلی عورت کو بنایا گیا۔ اور امرِ کُن سے اس کی اولاد ہوئی۔
وہ قومیں بھی اس دنیا میں موجود ہیں۔ اس قبیلے میں صرف عورتیں ہی سردار ہوتی ہیں اور وہ موئنث کی اولاد ہونے کی وجہ سے رب کو بھی موئنث سمجھتے ہیں۔ اور خود کو فرشتوں کی اولاد تصور کرتے ہیں، چونکہ اُن کے موئنث آدم کی (شادی ) یا مرد کے بغیر ہی بچے ہوئے تھے۔ یہی رسم اُن میں اب بھی چلی آرہی ہے ان قبیلوں میں پہلے عورت کے کسی سے بھی بچے ہو جاتے ہیں اور بعد میں کسی سے بھی شادی ہو جاتی ہے، اور وہ اس کو معیوب نہیں سمجھتے۔
روحوں کے اقرار ، قسمت، اور مراتب کی وجہ سے اُن ہی جیسے آدم بنا کر اُن ہی جیسی روحوں کو نیچے بھیجا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لئے کوئی خاص دین ترتیب نہیں دیا گیا۔ اگر ان میں نبی آئے بھی تو بہت کم نے ان کو تسلیم کیا ، بلکہ نبیوں کی تعلیم کا اُلٹ کیا، بجائے اللہ کے چاند ستاروں سورج درختوں، آگ، حتیٰ کہ سانپوں کو بھی پوجنا شروع کردیا۔
آخر میں آدم صفی اللہ کو جنت کی مٹی سے جنت میں ہی بنایا گیا، تاکہ عظمت اور فضیلت میں سب سے بڑھ جائے اور خبیثوں سے بھی محفوظ رہے ، کیونکہ جنت میں خبیثوں کی رسائی نہ تھی۔ عزازیل اپنے علم کی وجہ سے پہچان گیا تھا، جو عبادت کی وجہ سے سب فرشتوں کا سردار بن گیا تھا اور قوم ِ جنات سے تھا۔آدم کے جسم پر حسد سے تھوکا تھا، اور تھوک کے ذریعہ خبیثوں جیسا جراثیم اُن کے جسم میں داخل ہوا، جسے نفس کہتے ہیں، اور وہ بھی آدم کی اولاد کے ورثے میں آگیا۔ اُسی کے لئے حضورؐ نے فرمایا ’ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو ایک شیطان جن بھی اس کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔
فرشتوں اور ملائکہ میں فرق ہے ۔ ملکوت میں فرشتے ہوتے ہیں جن کی تخلیق روحوں کے ساتھ ہوئی۔
ملکوت سے اوپر جبروت کی مخلوق کو ملائکہ کہتے ہیں
جو روحوں کے امرِ کن سے پہلے کے ہیں ۔رب کی طرف سے آدم صفی اللہ کو سجدہ کا حکم ہوا ۔ جبکہ اس سے پہلے نہ ہی کوئی آدم بہشت میں بنایا گیا تھا اور نہ ہی کسی آدم کو فرشتوں نے سجدہ کیا تھا۔ عزازیل نے حجت کری، سجدہ سے انکاری ہوا، تو اس پر لعنت پڑی، اور اس نے صفی اللہ کی اولاد سے دشمنی شروع کر دی۔ جبکہ پہلے آدموں کی قومیں اس کی دشمنی سے محفوظ تھیں، اُن کے بہکانے کے لئے خبیث جن ہی کافی تھے۔
چونکہ شیطان سب خبیثوں سے زیادہ پاورفل تھا ، اس نے صفی اللہ کی اولاد کو ایسے قابو کیا اور ایسے جرائم سکھائے جس کی وجہ سے دوسری قومیں ان ایشیائیوں سے متنفر ہونے لگیں ۔ اور عظمتِ آدم کی ہی وجہ سے جن لوگوں کو رب کی طرف سے ہدایت ملی اتنے خدا رسیدہ اور عظمت والے ہو گئے کہ دوسری قومیں حیرت کرنے لگیں، سب سے بڑی آسمانی کتابیں، توریت، زبور، انجیل اور قرآن ان ہی پر نازل ہوئیں۔جن کی تعلیم ، فیض اور برکت سے ایشیائی دین پوری دنیا کی اقوام میں پھیل گیا۔
آدمؑ کی ابھی روح بھی ڈالی نہیں گئی، فرشتے سمجھ گئے تھے کہ اس کو بھی دنیا کے لئے بنایا جارہا ہے۔ کیونکہ مٹی کے انسان زمین پر ہی ہوتے ہیں۔ پھر کسی بہانے زمین پر بھیج دیا گیا۔ ازلی کام اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں لیکن الزام بندوں پر لگ جاتا ہے۔ اگر آدم کو بغیر الزام کے دنیا میں بھیجا جاتا، تو وہ دنیا میں آکر شکوہ شکایت ہی کرتے رہتے، توبہ تائب اور گریہ زاری کیوں کرتے؟
1 – روزِ ازل والی جہنمی روح غیر مذہب کے گھر پیدا ہو جائیں، اُسے کافر اور کاذب کہتے ہیں، یہی لوگ منکرِ خدا ، دشمن انبیاء اور دشمنِ اولیاء ہوتے ہیں ۔متکبر، سخت دل اور مخلوقِ خدا کو آزار پہنچا کر خوش ہوتے ہیں۔
-2 دوسرا درجہ مذہب میں آکر بھی مذہب سے دور ہوتا ہے، یہی روح اگر کسی مذہبی دیندار گھرانے میں پیدا ہوجائے تو اُسے منافق کہتے ہیں۔ یہی لوگ گستاخِ انبیا دشمنِ اولیاء اور مذاہب میں فتنہ ہوتے ہیں۔ ان کی عبادت بھی ابلیس کی طرح بیکار ہوتی ہے۔ انہیں مذہب جنت میں لے جانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن مقدر دوزخ کی طرف کھینچتا ہے۔ چونکہ نبیوں، ولیوں کی امداد سے محروم ہوتے ہیں، اس لئے شیطان اور نفس کے بہکاوے میں آجاتے ہیں، کہ تو اتنا علم جانتا ہے، اور اتنی عبادت کرتا ہے، تجھ میں اور نبیوں میں کیا فرق ہے۔ پھر وہ اپنا باطن دیکھے بغیر خود کو نبی جیسا سمجھنا شروع ہوجاتے ہیں اور ولیوں کو اپنا محتاج سمجھتے ہیں، پھر روحانیت اور کرامتوں کے اقراری نہیں ہوتے، بلکہ اُسی عمل کے اقراری ہوتے ہیں، جن کی اُن میں خود کی صلاحیت ہوتی ہے، حتیٰ کہ معجزوں کو بھی جادو کہہ کر جھٹلادیتے ہیں۔ ابلیس کی طاقت کو مان لیتے ہیں لیکن انبیاء و اولیاء کی طاقت کو مان لینا ان کیلئے مشکل ہے۔
-3 ازل والی بہشتی روح اگر غیر مذہب یا گندے ماحول میں آجائے تو اُسے معذور کہتے ہیں۔ معذور کیلئے معافی اور بخشش کا امکان ہوتا ہے۔ یہی روحیں صراطِ مستقیم کی تلاش میں ، اور دلدل سے نکلنے کیلئے ولیوں کا سہارا ڈھونڈتی ہیں، نرم دل، عاجز اور سخی ہوتے ہیں۔
4 – اگربہشتی روح کسی آسمانی مذہب اور دینی گھرانے میں پیدا ہوجائے تو اُسے صادق اور مومن کہتے ہیں۔یہی لوگ عبادت و ریاضت سے اللہ کا قرب حاصل کرکے اُس کی وراثت کے حقدار ہو جاتے ہیں۔
تصوف میں اہمیت قلب کو ہے
کسی نے ضربوں، کسی نے کبڈی، کسی نے ڈانس، کسی نے دیواریں بنائیں اور ڈھائیں، اور کسی نے ورزش کے ذریعہ دل کی دھڑکن کو اُبھارا، پھر اس کے ساتھ اللہ اللہ ملانے میں آسانی ہو گئی۔ اور بتدریج اللہ اللہ سب لطائف تک خود ہی پہنچ گیا۔ اور کچھ لوگ گہرائی میں جائے بغیر ان کی نقل کرنے لگے۔ انہوں نے بھی اللہ اللہ کے ساتھ ڈانس شروع کردیا، دھڑکنوں کے ساتھ اللہ اللہ تو نہ سمجھ اور نہ ملا سکے، البتہ اُن کی روحِ حیوانی جس کا تعلق اچھل کود سے ہے، اللہ کے نام سے مانوس ہو گئی، اسی طرح موسیقی کے ساتھ اللہ اللہ ملانے سے روحِ نباتی بھی مانوس اور طاقت ور ہوتی ہے۔ موسیقی روحِ نباتی کی غذا ہے۔
امریکہ میں کچھ فصلوں پر موسیقی کے ذریعہ تجربہ کیا گیا، ایک ہی جیسی فصل ایک ہی جیسی زمین پر اگائی گئی۔ ایک میں دن رات موسیقی اور دوسری کو خاموش رکھا گیا، جبکہ موسیقی والی فصل دوسری سے نشوونما میں بہت بہتر ہوئی۔
نفس بہت موذی ہے، پاک ہونے کے بعد بھی بہانے خور ہے، جبکہ اس کی پسند سازو آواز ہے۔ کچھ لوگوں نے ساز کے ذریعہ نفس کو متوجہ کر کے اُس کا رخ اللہ کی طرف موڑنے کی کوشش کری۔ کچھ لوگوں نے گٹار کے ساتھ اللہ اللہ ملایا۔ اور نہ سہی ( کم از کم )کان کی عبادت تک پہنچ گئے۔ مجھے ایک گٹار والے نے قصہ سنایا تھا کہ میں شوقیہ فارغ وقت گٹار کی تار کے ساتھ اللہ اللہ ملاتا رہتا ہوں۔ کبھی کبھی جب نیند سے بیدار ہوتا ہوں تو میرے اندر سے اُسی طرح اللہ اللہ کی آواز آرہی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ دوسرے اشغال یعنی گانے بجانے والوں اور تماشائیوں سے بہتر ہوگئے۔ لیکن کسی ولائت کے مرتبہ تک نہ پہنچے۔ یہ لگن، تڑپ اور تلاش والے لوگ ہوتے ہیں۔ اور کسی کامل کے ذریعہ کسی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔
اسلام میں بھی اور دوسرے مذاہب کے صوفیوں نے بھی کسی نہ کسی طریقہ سے رب کے نام کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کی۔ جو فعل رب کی طرف موڑے اور اُس کے عشق میں اضافہ کرے وہ ناجائز نہیں ہے ۔
الحدیث: اللہ عملوں کو نہیں بلکہ نیتوں کو دیکھتا ہے۔
شریعت والے اس کو معیوب اور غلط سمجھتے ہیں کیونکہ وہ شریعت سے ہی مطمئن اور سیراب ہو جاتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو شریعت سے آگے عشق کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں، یا وہ لوگ جو شریعت میں نہیں ہیں انہیں کچھ اور متبادل کرنے سے کیوں روکا جاتا ہے؟

بابِ نہم
دین ِ الٰہی

تمام دین اس دنیا میں نبیوں کے ذریعے بنائے گئے۔ جبکہ اس سے پہلے خود عشق ، خود عاشق ، خود معشوق تھا۔
اور وہ روحیں جو اس کے قرب، جلوے اور محبت میں تھیں وہی عشق الٰہی، دینِ الٰہی اور دین ِ حنیف تھا۔
پھر اُن ہی روحوں نے دنیا میں آکر اُس کو پانے کیلئے اپنا تن من قربان کر دیا۔
(یہ) پہلے خاص تک تھا، اب روحانیت کے ذریعہ عام تک بھی پہنچ گیا۔
حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں مجھے حضور پاکؐسے دو علم حاصل ہوئے ایک تمہیں بتادیا، دوسرا بتاؤں تو تم مجھے قتل کردو!
جب شاہ شمس تبریزؒ نے پانی کے حوض سے خشک کتابیں نکلیں تو
مولانا رومؒ نے کہا: ایں چیست؟( یہ کیا ہے؟)
شاہ شمس ؒ نے کہا: ایں آں علم است کہ تو نمی دانی!( یہ وہ علم ہے جسے تم نہیں جانتے)
اسی طرح جب موسیٰؑ نے کہا کہ کیا کچھ اور علم بھی ہے؟ تو اللہ نے کہا کہ خضرؑ کے پاس چلا جا۔
ہر نمازی کی دُعا:
اے اللہ! مجھے اُن لوگوں کا سیدھا راستہ دکھا ، جن پر تیرا انعام ہوا!
علامہ اقبالؒ
اس کو کیا جانے، بچارے دو رکعت کے امام
۔۔۔*۔۔۔

وہ روحیں جو ازل سے ہی با مرتبہ ہیں، اللہ جن سے محبت کرتا ہے، اور جو اللہ سے محبت کرتی ہیں، دنیا میں آکر بھی رب کی نام لیوا ہوئیں، مثلاّ عیسیٰ ؑ زچگی میں ہی بول اُٹھے تھے کہ میں نبی ہوں، جبکہ حضرت مریم ؑ کو پیدائش سے پہلے ہی جبرائیل بشارت دے چکے تھے۔موسیٰ ؑ کے متعلق فرعون کو پیشن گوئی تھی،کہ فلاں قبیلے سے ایک بچہ پیدا ہوگا جو تمہاری تباہی کا سبب بنے گا اور اللہ کا خاص بند ہ ہوگا۔ حضورؐ پاک نے بھی کہا تھا : میں دنیا میں آنے سے پہلے بھی بنی تھا۔
بہت سی محب اور ازلی ارواح مختلف مذاہب اور مختلف اجسام میں موجود ہیں۔
اس آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ کسی ایک روح کو دنیا میں بھیجے گا جو اِن روحوں کو تلاش کر کے اکھٹا کریگا، اور انہیں یاد دلائے گا کہ کبھی تم نے بھی اللہ سے محبت کری تھی۔ ایسی تمام روحیں خواہ کسی بھی مذہب یا بے مذہب اجسام میں تھیں۔ اُس کی آواز پر لبیک کہیں گی، اور اُس کے گرد اکھٹی ہوجائینگی۔ وہ رب کا ایک خاص نام اِن روحوں کو عطا کریگا، جو قلب سے ہوتا ہوا روح تک جا پہنچے گا ، اور پھر روح اُس نام کی ذاکر بن جائیگی۔ وہ نام روح کو ایک نیا ولولہ، نئی طاقت اور نئی محبت بخشے گا۔ اُس کے نور سے روح کا تعلق دوبارہ اللہ سے جُڑ جائیگا۔
ذکر قلب ذکرِ روح کا وسیلہ ہے، جیسا کہ بندگی یعنی نماز، روزہ ذکرِ قلب کا وسیلہ ہے۔ اگر کسی کی روح اللہ کے ذکر میں لگ گئی تو وہ اُن لوگوں سے ہے، جنہیں ترازو، یوم محشر کا بھی کوئی خوف نہیں۔ روح کے آگے کے ذکر اور عبادت اُس کے بلند مراتب کے شواہد ہیں۔
جن لوگوں کی منزل قلب سے روح کی طرف رواں دواں ہے، وہی دینِ الٰہی میں پہنچ چکے یا پہنچنے والے ہیں۔ اِن کو کتابوں سے نہیں بلکہ نور سے ہدایت ہے اور نور سے ہی بازِ گناہ ہوجاتے ہیں۔ اور جو سنُ کر یا محنت سے بھی اس مقام سے محروم ہیں وہ اس سلسلے میں شامل نہیں ہیں۔ اگر ذکر قلب و روح کے بغیر خود کو اس سلسلے میں متصور کیا یا اُن کی نقل کی، تو وہ زندیق ہیں۔
جبکہ عام لوگوں کی بخشش کا ذریعہ عبادات اور مذہب ہیں۔
ہدایت کا ذریعہ آسمانی کتب ہیں۔
شفاعت کا ذریعہ نبوت اور ولائت ہے۔
بہت سے مُسلم ولیوں کی شفاعت کو نہیں مانتے۔ لیکن حضورؐ نے اصحابہ کو تاکید کری تھی کہ اویس قرنیؓ سے اُمت کیلئے بخشش کی دُعا کرانا۔

روُحوں کا دین
عشقِ الٰہی و دینِ الٰہی والوں کی پہچان

جس میں سب دریا ضم ہو جائیں وہ سمندر کہلاتا ہے!
اور جس میں سب دین ضم ہو کر ایک ہو جائیں، وہی عشقِ الٰہی اور دینِ الٰہی ہے!
جتھے چاروں مذہب آ ملدے ھُو( سلطان صاحبؒ )
ابتدائی پہچان:
جب قلب و روح کا ذکر جاری ہو جائے، چاہے عبادت سے ہو یا کسی کامل کی نظر سے ہو، دونوں حالتوں میں وہ ازلی ہے۔ گناہوں سے نفرت ہونا شروع ہوجائے، اگر گناہ سرزد ہو بھی جائے تو اُس پر ملامت ہو اور اُس سے بچنے کی ترکیبیں سوچے۔
مجھے وہ لوگ بھی پسند ہیں جو گناہوں سے بچنے کی ترکیبیں سوچتے ہیں۔ ( فرمانِ الٰہی)
دنیا کی محبت دل سے نکلنا اور اللہ کی محبت کا غلبہ شروع ہوجائے، حرص، حسد، بخل اور تکبر سے چھٹکارا محسوس ہو۔ زبان کسی کی غیبت سے باز آجائے، عاجزی محسوس ہو، کنجوسی کی جگہ سخاوت اور جھوٹ جاتا نظر آئے۔ حرام خواہشاتِ نفسانی حلال میں تبدیل ہوجائیں۔ حرام مال، حرام کھانے اور حرام کاموں سے نفرت پیدا ہو۔
انتہائی پہچان:
چرس، افیون، ہیروئن، تمباکو اور شراب وغیرہ سے مکمل چھٹکارا ہو جائے۔ مقدس ہستیوں سے خواب، مراقبے یا مکاشفہ کے ذریعہ ملاقاتی ہو جائے۔ نفس اماراہ سے مطمئنہ بن جائے، لطیفہ انا رب کے روبرو ، اللہ اور بندے کے درمیان سب حجابات اُٹھ جائیں۔ بازِ گناہ، عشق ِ خدا ، وصلِ خدا ، بندہ سے بندہ نواز اور غریب سے غریب نواز بن جائے۔
کیونکہ اس سلسلے میں مختلف مذاہب سے آ کر خاص روحیں شامل ہونگیں، جنہوں نے روزِ ازل میں رب کی گواہی میں کلمہ پڑھ لیا تھا۔ اس لیے کسی بھی مذہب کی قید نہیں ہوگی۔ ہر شخص اپنے مذہب کی عبادت کرسکے گا، لیکن قلبی ذکر سب کا ایک ہوگا۔ یعنی مختلف مذاہب کے باوجود دِلوں سے سب ایک ہوجائیں گے، پھر جب دلوں میں اللہ آیا تو سب اللہ والے ہوجائیں گے۔ اِس کے بعد رب کی مرضی ہے انہیں اپنے تئیں رکھے یا کسی بھی مذہب میں ہدایت کے لیے بھیج دے یعنی کوئی مفید ہوگا، کوئی منفرد، کوئی سپاہی ہوگا، اور کوئی سالار ہوگا۔
ان کی امداد اور ساتھ دینے والے گناہگار بھی کسی نہ کسی مرتبے میں پہنچ جائیں گے۔ جو لوگ اس ٹولے میں شامل نہ ہو سکے، اُن میں سے اکثر شیطان(دجال) کے ساتھ مل جائیں گے۔ خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم ہوں۔ آخرمیں ان دونوں ٹولوں کی زبردست جنگ ہوگی۔ عیسیٰؑ ، مہدی،( کالکی اوتار) والے ملکر انہیں شکست دینگے۔ بہت سے دجالئے قتل کرد یے جائیں گے، جو بچیں گے وہ خوف اور مجبوری کی وجہ سے خاموش رہیں گے۔
مہدی اور عیسیٰ ؑ کا لوگوں کے قلوب پر تسلط ہوجائے گا۔ پوری دنیا میں امن قائم ہوجائے گا۔ جُدا جُدا مذہب ختم ہو کر ایک ہی مذہب میں تبدیل ہو جائیں گے۔ وہ مذہب رب کا پسندیدہ ، تمام نبیوں کے مذاہب اور کتابوں کا نچوڑ، تمام انسانیت کے لئے قابل قبول، تمام عبادات سے افضل، حتیٰ کہ اللہ کی محبت سے بھی افضل، عشق الٰہی ہوگا۔
جتھے عشق پہنچاوے، ایمان نو وی خبر نہیں ( باھو)

علامہ اقبال نے اسی وقت کے لئے نقشہ کھینچا تھا:
دنیا کو ہے اُس مہدی برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگاہ زلزلہء عالمِ افکار

کھلے جاتے ہیں اسرارِ نہانی گیا دور حدیث لن ترانی
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار‘ وہی مہدی وہی آخر زمانی
کھول کر آنکھ مری آئینہء ادراک میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
لولاک لما دیکھ زمیں دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چُھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سار ا جہاں میخانہ ہر ایک ہی بادہ خوار ہوگا
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کوپلٹ دیا تھا
سُنا ہے قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

تمام آسمانی کتابیں اور صحیفے اللہ کا دین نہیں ہیں۔ ان کتابوں میں نماز روزہ اور داڑھیاں ہیں۔ جبکہ اللہ اس کا پابند نہیں ہے، یہ دین نبیوں کی امتوں کو منور اور پاک صاف کرنے کیلئے بنائے گئے۔ جبکہ اللہ خود پاکیزہ نور ہے، اور جب کوئی انسان وصل کے بعد نور بن جاتا ہے تو پھر وہ بھی اللہ کے دین میں چلا جاتا ہے۔ اللہ کا دین پیار و محبت ہے۔ ننانوے ناموں کا ترجمہ ہے۔ اپنے دوستوں کا ذکر کرنے والا ہے۔
خود عشق، خود عاشق، خود معشوق ہے۔ اگر کسی بندہِ خدا کو بھی اُس کی طرف سے اِن میں سے کچھ حصہ عطا ہوجائے تو وہ دینِ الہیٰ میں پہنچ جاتا ہے۔ پھر اُس کی نماز دیدارِ الہیٰ اور اس کا شوق ذکرِ خدا ہے۔ حتیٰ کہ اس کی زندگی کی تمام سنتوں، فرضوں کا کفارہ بھی دیدارِ الہیٰ ہے۔ جن فرشتے اور انسانوں کی مشترکہ عبادت بھی اُس کے درجے تک نہیں پہنچ سکتی۔
ایسے ہی شخص کیلئے شیخ عبدالقادر جیلانی نے فرمایا کہ:
” جس نے وصال پر پہنچ کر بھی عبادت کی یا ارادہ کیا ، تو اُس نے کفرانِ نعمت کیا ”
بلھے شاہ نے فرمایا:
اساں عشق نماز جدوں نیتی اے بھُل گئے مندر مسیتی اے
علامہ اقبال نے کہا :
اس کو کیا جانے بے چارے دو رکعت کے امام
اس علم کے متعلق ابو ہریرہ نے فرمایا تھا:
کہ مجھے حضور ؐ سے دو علم عطا ہوئے، ایک تمہیں بتا دیا۔ اگر دوسرا بتاؤ ں تو تم مجھے قتل کردو۔
تاریخ گواہ ہے کہ جنہوں نے بھی اس علم کو کھولا، شاہ منصور اور سرمد کی طرح قتل کر دیے گئے۔
اور آج ہم (گوہر شاہی) بھی اس علم کو عام کرنے کی وجہ سے قتل کے دہانے پر کھڑے ہیں
نبیوں کی شریعت کی پابندی امت کے لئے ہوتی ہے۔ ورنہ انہیں کسی عبادت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ شریعت سے پہلے ہی بلکہ روز ازل سے ہی نبی ہوتے ہیں، چونکہ انہوں نے دین کو نمونے کے طور پر مکمل کرنا ہوتا ہے۔ ان کے کسی ایک رکن کے چھوڑنے یا فعل کو بھی امت سنت بنا لیتی ہے، اس وجہ سے انہیں محتاط اور صحو میں رہنا پڑتا ہے۔ کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ کوئی بھی نبی اگر کسی بھی عبادت میں نہیں ہے تو کیا وہ دوزخ میں جاسکتا ہے؟ ہر گز نہیں !کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ عبادت کے بغیر نبی نہیں بن سکتا ؟ کیا کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ علم سیکھے بغیر نبوت نہیں ملتی؟ پھر ولیوں پر اعتراضات کیوں ہوتے ہیں؟ جبکہ ولائت نبوت کا نعم البدل ہے۔
یاد رکھیں جنہوں نے دیدارِ رب کے بغیر وصال کا دعویٰ کیا، یا خود کو اس مقام پر تصور کر کے نقل کی، وہ زندیق اور کاذب ہیں۔ اور قرآن نے ایسے ہی جھوٹوں پر لعنت بھیجی ہے۔ جن کی وجہ سے ہزاروں کا وقت اور ایمان برباد ہوتا ہے۔

ِِ’’یہ کتاب ہر مذہب، ہر فرقے اور ہر آدمی کے لئے قابلِ غور
اور قابلِ تحقیق ہے۔اور منکرانِ روحانیت کیلئے ایک چیلنج ہے!”
” فرموداتِ گوہر شاہی”
تین حصے علم ِ ظاہر کے ہیں، اور ایک حصہ علم ِ باطن کا ہے ۔
ظاہری علم حاصل کرنے کیلئے کسی موسیٰ ؑ اور باطنی علم کیلئے، کسی خضرؑ کو تلاش کرنا پڑتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبرائیل کے بغیر جو آواز آئی، اُسے الہام اور جو علم آیا، اُسے صحیفے اور حدیث ِ قدسی کہتے ہیں۔
اور جبرائیل کے ساتھ جو علم آیا، اُسے قرآن کہتے ہیں، خواہ وہ ظاہری علم ہو یا باطنی علم ہو۔
اُسے توریت کہیں، زبور کہیں، یا انجیل کہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علماء سے اگر کوئی غلطی ہو جائے تو اُسے سیاست کہہ کر چھٹکارا حاصل کرلیتے ہیں۔
اولیاء سے کوئی غلطی ہوجائے، اُسے حکمت سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔
جبکہ نبیوں پر غلطی کی دفعہ نہیں لگتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو جس شغل میں ہیں، اندر سے اُن کی متعلقہ روحیں طاقتور ہیں۔
اور جو کسی بھی شغل میں نہیں ہیں، اُن کی روحیں خفتہ اور بے حس ہیں۔
اور جنہوں نے کسی بھی طریقہ سے اللہ کا نام ان روحوں میں بسالیا، پھر اُن کا شغل ہمہ وقت ذکر سلطانی اور عشقِ خداوندی ہے۔
تب ہی علامہ اقبال نے کہا:
گر ہو عشق تو کفر بھی ہے مسلمانی!
سچل سائیں نے کہا:
بِن عشقِ دلبر کے سچل، کیا کفر ہے کیا اسلام ہے!
سلطان باہو نے کہا:
جتھے عشق پہنچاوے، ایمان نوں وی خبر نہ کائی
ایسے لوگ جب کسی مذہب میں ہوتے ہیں یا جاتے ہیں، تو اُن کی برکت سے اُس خطے پر اللہ کی بارانِ رحمت برسنا شروع ہو جاتی ہے۔
پھر وہ بابا فرید ہوں تو ہندو، سکھ بھی اُن کی چوکھٹ پر
اگر بابا گورونانک ہوں، تو مسلم، عیسائی بھی اُن کے در پر چلے آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔

(امام مہدی علیہ السلام تمام مذاہب کی تجدید کرینگے)
جس طرح حضور پاکؐ کی ختم ِ نبوت کے بعد مُسلمانوں میں مجدد آتے رہے
اور ماحول کے مطابق دین میں کچھ تجدید کرتے رہے
اسی طرح امام مہدی علیہ السلام کے آنے کے بعد اُن (مجددؤں) کی تجدید ختم ہو جائیگی،
اور سب مذاہب کے مطابق امام مہدی ؑ کی اپنی تجدید ہوگی۔
کچھ کتابوں میں ہے ۔ وہ ایک نیا دین بنائیں گے۔
*فرموداتِ گوہر شاہی*
“اگر کوئی ساری عمر عبادت کرتا رہے ، لیکن آخر میں امام مہدیؑ اور
حضرت عیسیٰؑ کی مخالفت کربیٹھا، جن کو دنیا میں دوبارہ آنا ہے۔
عیسیٰؑ کا جسم سمیت اور مہدیؑ کا ارضی ارواح کے ذریعے آنا ہے
۔تو وہ بلیعم باعور کی طرح دوزخی اور ابلیس کی طرح مردود ہے۔
“اگرکوئی ساری عمر کتوں جیسی زندگی بسر کرتا رہا
، لیکن آخر میں اُن کا ساتھ اور اُن سے محبت کر بیٹھا،
تو وہ کتے سے حضرت قطمیر بن کر جنت میں جائے گا۔”
کچھ فرقے اور مذاہب کہتے ہیں کہ عیسیٰؑ فوت ہوگئے۔ افغانستان میں اُن کا مزار ہے، یہ غلط پرپیگنڈہ ہے۔ افغانستان میں کسی اور عیسی نامی بزرگ کا دربار ہے۔ اُس پیادہ زمانے میں مہینوں کی مسافت پر جاکر دفنانا کیا مقصد رکھتا تھا؟ پھر وہ کہتے ہیں ، آسمان پر کیسے اُٹھائے گئے؟ ہم کہتے ہیں آدم علیہ السلام آسمان سے کیسے لائے گئے؟ جبکہ ادریسؑ بھی ظاہری جسم سے بہشت میں اب تک موجود ہیں،خضر ؑ اور الیاسؑ جو دنیا میں ہیں، اُن کو بھی ابھی تک موت نہیں آئی۔غوث پاکؓ کے پوتے حیات الامیر (600) سال سے زندہ ہیں، غوث پاک نے کہا تھا،اُس وقت تک نہیں مرنا، جب تک میرا سلام مہدی علیہ السلام کو نہ پہنچادو۔ شاہ لطیف کو بری امام کا لقب اُنہوں نے ہی دیا تھا۔مری کی طرف بارہ کوہ میں اُن کی بیٹھک کے نشان ابھی تک محفوظ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
ظاہری گناہ کی سزا، جیل ،جرمانہ یا ایک دن کی پھانسی ہے۔ اگر کوئی راہِ فقر میں ہے، تو اس کی سزا ملامت ہے۔ جبکہ باطنی گناہوں کی سزا بہت زیادہ ہے۔ غیبت کرنے والے کی نیکیوں سے جرمانہ فریق دوئم کی نیکیوں میں شامل کیا جاتاہے۔ حرص ، حسد ، بخل اور تکبر اُس کی لکھی ہوئی نیکیوں کو مٹا دیتے ہیں۔ اگر اُس میں کچھ نور ہے، تو انبیاء واولیا کی گستاخی اور بغض سے چھن جاتا ہے۔ جیسا کہ شیخ صنعان کا شیخ عبدالقادر جیلانی کی گستاخی سے کشف و کرامات کا سلب ہو جانا۔واقعہ ہے کہ جب بایزید بسطامی کو پتہ چلا کہ ایک شخص اُن کی برائی کرتا ہے، تو آپ نے اُس کا وظیفہ مقرر کردیا۔ وہ وظیفہ بھی لیتا رہا اور برائی بھی کرتا رہا۔ ایک دن اُس کی بیوی نے کہا: نمک حرامی چھوڑ، یا وظیفہ چھوڑ، یا برائی چھوڑ، پھر اُس نے تعریف کرنا شروع کردی۔آپ کو جب تعریف کا پتہ چلا تو اُس کا وظیفہ بند کردیا۔پھر وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کہ جب برائی کرتا تھا، وظیفہ ملتا تھا، اب تعریف کی وجہ سے وظیفہ کیوں بند ہوا؟آپ نے فرمایا:تو اُس وقت میرا مزدور تھا، تیری برائی سے میرے گناہ جلتے، میں اُس کا تجھے معاوضہ دیتا تھا۔ اب کس چیز کا معاوضہ دوں۔ مندرجہ برائیوں کا تعلق نفس امارہ سے ہے، جس کاامدادی ابلیس ہے۔ جبکہ تقویٰ، سخاوت، درگزر، صبرو شکر، عاجزی اور انوارِ الٰہی کا تعلق قلبِ شہید سے ہے، جس کا امدادی ولی مرشد ہے۔
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
جب تک نفس امارہ ہے کسی بھی پاک کلام کے انوار دل میں ٹھہر نہیں سکتے، بے شک الفاظ و آیات کا حافظ کیوں نہ بن جائے، طوطا ہی ہے۔ جب تیرا نفس مطمئنہ ہوجائے گا، پھر ناپاک چیز تیرے اندر ٹھہر نہیں سکتی، پھر تُو مرغِ بسمل ہے۔ نفس پاک کرنے کیلئے کسی نفس شکن کو تلاش کر۔ جو ہر وقت منجانب اللہ ڈیوٹی پر مامور ہوتے ہیں۔ جسم کے باہر کی طہارت پانی سے ہوتی ہے، جبکہ جسم کے اندر کی طہارت نور سے ہوتی ہے۔ طہارت کے بغیر گندہ اور ناپاک ہے۔ صاف جسم عبادتِ الٰہی کے قابل ہوتاہے، جبکہ صاف دل تجلیاتِ الٰہی کے قابل ہوتا ہے۔ پھر ہی آسمانی کتابیں ھدایت کرتی ہیں پاکوں کو( ھدی اللمتقین)۔ ورنہ کتابوں والے ہی کتابوں والوں کے دشمن بن جاتے ہیں۔ مجدد الف ثانی مکتوبات میں لکھتے ہیں: قرآن اُن لوگوں کے پڑھنے کے لائق نہیں جن کے نفس امارہ ہیں۔مبتدی کو چاہیے کہ پہلے ذکر اللہ کرے( یعنی اندر کو پاک کرے)، مُنتہی کو چاہیے کہ پھر قرآن پڑھے۔
الحدیث: کچھ لوگ قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن اُن پر لعنت کرتا ہے۔
بلھے شاہ کھا کے سارا مُکر گئے، جنھاں دے بغل وچ قرآن
عابد کو گمان ہے کہ وہ اللہ کے لئے عبادت اور شب بیداری کررہا ہے، اسلئے وہ اللہ کے بہت نزدیک ہے۔ عبادت کے بعد تیری دعا، صحت، عمردرازی، مال و دولت، اور حورو قصور ہے، سوچ! کیا تو نے کبھی بھی یہ دعا مانگی تھی؟ اے اللہ مجھے کچھ نہیں چاہیے، صرف تو چاہیے!
عالم کو گمان ہے کہ میں قربِ خداوندی میں بخشا بخشایا ہوا ہوں۔ کیونکہ میرے اندر علم اور قرآن ہے۔ پھر تو دوسروں کو جہنمی کیوں کہتا ہے، جبکہ ہر مسلم کو بھی کچھ نہ کچھ علم اور قرآن کی بہت سی سورتیں یاد ہیں۔سوچ! علم کون بیچتا ہے؟ خود کون بکتا ہے؟ ولیوں کی غیبت کون کرتا ہے؟ حاسد، متکبر اور بخیل کون ہوتا ہے؟ دل میں اور، زبان میں اور، صبح اور، شام کو اور، یہ کس کا وطیرہ ہے؟ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر کون پیش کرتا ہے؟ اگر تو ان سے دور ہے، تو خلیفہِ رسول ہے! تیری طرف پشت کرنا بھی بے ادبی ہے ۔یعنی قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن( علامہ اقبال)اگر تو ان خصلتوں میں گم ہے ، تو پھر تُو وہی ہے جس کیلئے بھیڑیے نے کہا تھا کہ اگر میں نے یوسف کو کھایا ہو تو اللہ مجھے چودھویں صدی کیعلماء سو سے اُٹھائے۔

( صراطِ مستقیم )
1 – جنکے ظاہر درست، باطن سیاہ ہیں، مذہب میں فتنہ ہیں، ابلیس کے خلیفہ ہیں۔
الحدیث: جاھل عالم سے ڈرو اور بچو، جس کی زبان عالم اور دل جاھل یعنی سیاہ ہو۔
2 – باطن درست لیکن ظاہر خراب۔۔۔ ان کو مجذوب، معذور، سکر اور منفرد کہتے ہیں
عشق میں عقل ہی نہ رہی تو حسابِ حشر کیا؟ (تریاقِ قلب)
مذہب کے لئے پریشانی ،لیکن اللہ کے قرب میں ہوتے ہیں، مگر مزید مرتبہ حاصل نہیں کرسکتے، بامرتبہ تصدیق نقالیئے زندیق۔ انہوں نے صدر ایوب، بے نظیر اور نواز شریف جیسوں کو اُن کے دورِ حکومت میں ڈنڈے مارے اور گالیاں دیں۔تم کسی صاحبِ اقتدار کو ڈنڈے مارکر دکھاؤ، یعنی یہ صرف اُن کی ذات تک محدود ہے، دوسروں کے لئے نہیں ہے۔
3 – ظاہر درست باطن بھی درست۔۔۔ ظاہری عبادت کے علاوہ قلبی عبادت میں بھی ہوتے ہیں،
اِن کو عالمِ ربّانی کہتے ہیں۔یہی منبرِ رسول اور دین کے وارث ہوتے ہیں، اور جب کسی کا ظاہر و باطن ایک ہو جاتا ہے تو اُسے نائبِ اللہ کہتے ہیں اگرخواب میں یا روحانی طور پر حج کرتا ہے تو ظاہر میں بھی اُس کا درجہ ملتا ہے، بلکہ ظاہری حج سے بہت ہی زیادہ۔ روحوں کی نماز ظاہری نماز کی حیثیت رکھتی ہے، بلکہ کہیں زیادہ ، اگر ظاہر میں نماز پڑھتا ہے تو باطن میں بھی اس کی نماز معراج بن جاتی ہے، یہی لوگ ہیں، جسم اِدھر، روح اُدھر، فقر کے محکمے میں ان کو معارف بھی کہتے ہیں۔ جبکہ عاشق کیلئے رب کا دیدار ہی کافی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں، دیدار ہوہی نہیں سکتا، لیکن یہ دیدار والا علم حضور ؐ سے شروع ہوچکا ہے۔ بقول امام ابو حنیفہ: میں نے ۹۹ ننانوے مرتبہ رب کو دیکھا ہے۔ بایزید بُسطامی کہتے ہیں کہ میں نے ۷۰ مرتبہ رب کا دیدار کیا ہے۔ دیدار لطیفہ انا سے ہوتا ہے، اور تم انا کی تعلیم اور ذکر سے انجان ہو۔
(اللہ کا دوست)
اگر کسی کو خلقِ خدا کشف و کرامات اور فیض کی وجہ سے ولی مانتی ہے۔
لیکن اُس کے کسی فعل یا مذہب کی وجہ سے تُو دلبرداشتہ ہے۔
اُس کی برائی کرنے سے بہتر ہے تُو ادھر جانا چھوڑ دے۔
کیا خبر؟ وہ کوئی منظورِ خدا ہو! شیخ بقا ہو، یا کوئی لعل شہباز ہو، کوئی خضر ہو، یا ساھے بابا ہو یا گورونانک ہو، کوئی بلھے شاہ ہو اور کوئی سدا سہاگن بھی ہو سکتا ہے!

گوہر شاہی کا عالم انسانیت کیلئے
انقلابی پیغام
مسلمان کہتا ہے کہ میں سب سے اعلیٰ ہوں،
جبکہ یہودی کہتا ہے، میرا مقام مسلم سے بھی اُونچا ہے،
اور عیسائی کہتا ہے، میں ان دونوں سے بلکہ سب مذاہب والوں سے بلند ہوں،
کیونکہ میں اللہ کے بیٹے کی امت ہوں۔
لیکن گوہر شاہی کا کہنا ہے!
کہ سب سے بہتر اور بلند وہی ہے، جس کے دل میں اللہ کی محبت ہے،
خواہ وہ کسی بھی مذہب سے نہ ہو!
زبان سے ذکر و صلواۃ اُس کی اطاعت اور فرمانبرداری کا ثبوت ہے،
جبکہ قلبی ذکر اللہ کی محبت اور رابطے کا وسیلہ ہے۔

باب دھم
ولی کسے کہتے ہیں
ولی دوست کوکہتے ہیں ، اور دوست کا ایک دوسرے کو دیکھنا اور ہمکلام ہو نا ضروری ہے
بامرتبہ تصدیق، نقالیہ زندیق‘ جھوٹی نبوت کا دعویدار کافر ہے
جبکہ جھوٹی ولائت کا دعویدار کفر کے قریب ہے،
حضورؐ نے بھی ایک مرتبہ اصحابہ کو کہا تھا کہ کچھ کام صرف میرے کرنے کے ہیں، تمہارے لئے نہیں ہیں۔
ہر نمازی کی یہی دعا ہوتی ہے کہ اے اللہ مجھے اُن لوگوں کا سیدھا راستہ دکھا جن پر تیرا انعام ہوا۔ جب تک اُس کی روح بیت المامور میں جاکر نماز نہ پڑھے، جسے حقیقی نماز کہتے ہیں، کیونکہ وہ نمازمرنے کے بعد بھی جاری رہتی ہے۔ جیسا کہ شب معراج میں بیت المقدس میں بھی سب نبیوں کی ارواح نے نماز پڑھی تھی، اور جب تک رب کا دیدار نہ ہو جائے اس وقت تک شریعت کی اتباع ضروری ہے۔
البتہ سُست اور گناہگار لوگوں کیلئے بھی اللہ نے کچھ نعم البدل بنایا ہوا ہے۔ اللہ کے نام کا قلبی ذکر بھی ظاہری عبادت اور گناہوں کا کفارا کرتا رہتا ہے، اور کبھی نہ کبھی اُسے اللہ کا محب اور روشن ضمیر بنادیتا ہے۔
جب تمہاری نمازیں قضا ہو جائیں تو اللہ کا ذکر کرلینا، اُٹھتے، بیٹھتے، حتیٰ کہ کروٹوں کے بل بھی۔ (قرآن)
ولیوں کا قرب، نسبت، نظر اور دعا بھی گناہگاروں کا نصیبہ چمکا اور دوزخ سے بچا لیتی ہے۔ جیسا کہ حضورؐ نے امت کے گناہگاروں کی بخشش کیلئے حضرت اویس قرنی سے بھی دعا کیلئے اصحابہ کو بھیجا تھا۔ سخاوت، ریاضت، اور شہادت سے بھی گناہوں کا کفارا اور بخشش ہو سکتی ہے۔ عاجزی ،توبہ تائب اور گریہ زاری بھی رب کو پسند ہے، جس کی وجہ سے نصوح جیسا کفن چور اور مردہ عورتوں کی بے حرمتی کرنے والا بخشا گیا۔(قرآن)
ایک دن عیسیٰؑ نے شیطان سے پوچھا کہ تیرا بہترین دوست کون ہے؟ اُس نے کہا: کنجوس عابد۔ کہ وہ کیسے؟ اُس کی کنجوسی اُس کی عبادت کو رائیگاں کردیتی ہے، پوچھا؟ تیرا بڑا دشمن کون ہے؟ اُس نے کہا: گناہگار سخی۔ کہ وہ کیسے؟ اُس کی سخاوت اُس کے گناہوں کو جلا دیتی ہے۔ خدا کے بندوں اور خدا کی مخلوق سے پیار کرنے اور خیال رکھنے والے، حق کا ساتھ اور انصاف والے لوگ بھی رب کی نظرِ کرم کے قابل ہوجاتے ہیں۔
علامہ اقبال تیسری چوتھی کے طالبِ علم سکول سے واپس آئے تو ایک کتیا اُن کے پیچھے چل پڑی، آپ سیڑھیوں پر چڑھ گئے اور وہ بے حسی سے دیکھتی رہی۔ آپ نے سوچا شاید بھوکی ہے۔ اُن کے والد نے اُن کے لئے ایک پراٹھا رکھا ہوا تھا۔ اُنہوں نے آدھا کتیا کو ڈال دیا، وہ فوراّ کھا گئی پھر بے حسی سے دیکھنے لگی۔ آپ نے باقی آدھا بھی اُسے ڈال دیا، اور خود سارا دن بھوکے رہے۔ رات کو اُن کے والد کو بشارت ہوئی کہ تمہارے بیٹے کا عمل مجھے پسند آیا ہے اور وہ منظورِ نظر ہو گیا ہے۔
جب سبکتگین ہرنی کا بچہ جنگل سے اُٹھا کر چل پڑا۔ تو دیکھا کہ گھوڑے کے پیچھے پیچھے ہرنی بھی دوڑ رہی ہے۔ سبکتگین رُک گیا۔ دیکھا ہرنی بھی کھڑی ہو گئی۔ اور اپنے منہ کو اُس نے آسمان کی طرف اُٹھا لیا۔ سبکتگین نے دیکھا کہ اُس وقت اُس کے آنسو بہہ رہے تھے، اور سبکتگین نے بچے کو آزاد کردیا۔ اس واقعہ کے بعد سبکتگین پر اتنا اللہ کا کرم ہوا۔ کہ رب کے نام پر اکثر رویا کرتا تھا۔
مولانا رومؓ کہتے ہیں کہ:
یک زمانہ صحبتِ بااولیاء ۔۔۔ بہتر ازصد سالہ طاعت بے ریا
ولی کی ایک لمحہ کی صحبت سو سالہ بے ریا عبادت سے بہتر ہے
حدیث قدسی: میں اُس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے،اُس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے پکڑتا ہے۔
ابوذر غفاری: یومِ محشر میں لوگ ولی کو پہچان کر کہیں گے۔ اے اللہ میں نے اُس کو وضو کرایا تھا، جواب آئے گا، اس کو بخش دو۔ دوسرا کہے گا یا اللہ میں نے اسے کپڑے پہنائے یا کھانا کھلایا تھا۔ جواب آئے گا اسے بھی بخش دو۔ اس طرح بھی بے شمار لوگ ان کے ذریعے بخشے جائیں گے۔
حدیث قدسی: جس کسی نے میرے ولی کے ساتھ دشمنی کری۔ میں اُس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتاہوں۔
اللہ کی جنگ ایک دن کا سر کاٹنا نہیں ہوتا۔ بلکہ اُن کا ایمان کاٹ دیا جاتا ہے۔
جو اگلی ساری زندگی میں دوزخ میں اسکا روزانہ اذیت سے سر کٹتا رہے گا۔
جیسا کہ بلیعم باعور جو بہت بڑا عالم اور عابد تھا۔ لیکن موسیٰؑ کی دشمنی کی وجہ سے دوزخ میں ڈال دیا گیا۔
لوگ کہتے ہیں رب عبادت سے ملتا ہے۔
ہم کہتے ہیں رب دل سے ملتا ہے
عبادت دل کو صاف کرنے کا ذریعہ ہے، اگر عبادت سے دل صاف نہیں ہوا۔ تو رب سے بہت دور ہے۔
حدیث: نہ عملوں کو دیکھتا ہوں، نہ شکلوں کو۔ بلکہ نیتوں اور قلوب کو دیکھتا ہوں۔
البتہ عبادت سے جنت مل سکتی ہے۔ لیکن جنت بھی رب سے بہت دور ہے۔
یہ علمِ باطن صرف اُن لوگوں کیلئے ہے، جو حور و بہشت کی پرواہ کئے بغیر
رب سے محبت، قرب اور وصال چاہتے ہیں۔
اللہ اُنہیں کسی ولی مرشد سے ملا دیتا ہے
جسے اللہ گمراہ کر دے ، ہرگز نہ پائے گا ولی مرشد سورہ کھف ( القرآن)
جب اللہ تعا لیٰ کسی بندے کی کسی بھی ادا سے مہربان ہو جاتا ہے، تو اُسے بڑے پیار سے دیکھتا ہے ۔ اُس کا پیار سے دیکھنا ہی بندے کے گُناہوں کو جلا دیتا ہے۔ اُس کے پاس بیٹھنے والے بھی نظرِ رحمت کی لپیٹ میں آجا تے ہیں ۔ رب کے دوست اصحاب کہف سوتے رہے یا مراقبہ میں رہے ، اللہ اُن کو پیار سے دیکھتا رہا۔ جس کی وجہ سے اُن کا ساتھی ’کتا ‘بھی حضرت قطمیر بن کر جنت میں جائے گا۔ جب شیخ فریدؒ اللہ کی نظرِ رحمت میں آئے تو ساتھ بیٹھا ہوا چرواہا بھی رنگا گیا۔
۔۔۔*۔۔۔
جب اللہ ابو الحسن ؒ کی کسی ادا پر مہربان ہوا تو ہمکلامی کا سلسلہ شروع ہو گیا، ایک دن اُسے کہا : اے ابو الحسن ، اگر تیرے متعلق میں لوگوں کو بتا دوں تو لوگ تجھے پتھر مار مار کر ہلاک کر دیں ۔ اُنھوں نے جواب دیا ، اگر میں تیرے متعلق لوگوں کو بتا دوں : کہ تو کتنا مہربان ہے ، تو تجھے کوئی بھی سجدہ نہ کرے۔
رب نے کہا : ایسا کر نہ تو بتا ، نہ ہم بتاتے ہیں۔
۔۔۔*۔۔۔
جب تیسری بار زید کو شراب کے جُرم میں لایا گیا ۔ تو اصحابہ نے کہا ، اِس پر لعنت ، بار بار اِسی جُرم میں آتا ہے۔ حضور ؐ نے فرمایا ، لعنت مت کرو یہ اللہ اور اُس کے حبیب سے محبت بھی کرتا ہے، جو اللہ رسول سے محبت کرتے ہیں ، دوزخ میں نہیں جا سکتے۔
۔۔۔*۔۔۔
بے شک اللہ کُل مخلوق سے محبت کرتا ہے اور سب مخلوق کا خیال رکھتا ہے، معذور کیڑے کو پتھر میں بھی رزق پہنچاتا ہے ۔
لیکن جس طرح نا فرمان اولاد کو سزا اور عاق کیا جاتا ہے ، اِسی طرح نافرمانوں اور گُستاخوں کے لیئے وہ قہار بن جاتا ہے۔
۔۔۔*۔۔۔
یقین کرو ۔ تمہیں بھی رب دیکھنا چاہتا ہے، لیکن تم انجان ،لاپرواہ یا بد بخت ہو۔ جسے لوگ دیکھتے ہیں اُسے روز صابن سے دھوتے ہو، روز کریم لگاتے اور خط بناتے ہو، اور
جسے رب نے دیکھنا ہے کیا ؟ تو نے کبھی اُسے بھی دھویا ہے ۔
الحدیث: ہر چیز کو دھونے کے لئے کوئی نہ کوئی آلہ ہے، جب کہ دلوں کو دھونے کے لئے اللہ کا ذکر ہے۔
۔۔۔۔۔۔
پاکیزہ محبت کا تعلق بھی دل سے ہوتا ہے، زبان سے I Love You کہنے والے مکار ہوتے ہیں۔
محبت کی نہیں جاتی۔۔۔ہو جاتی ہے، جو بھی دل میں اُتر جائے۔
رب کو دل میں اُتارنے کے لئے تصور ، قلبی ذکر اور ولی اللہ ہوتے ہیں۔
۔۔۔*۔۔۔
صرف گاڑی کا انجن منزلِ مقصود تک نہیں پہنچاسکتا، جب تک دوسری چیزیں بھی یعنی اسٹیرنگ ، ٹائر وغیرہ نہ ہوں ۔
اِسی طرح نماز بھی تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے بغیر ادھوری ہے۔
اگر اِن لوازمات کے بغیر نماز ہی سب کچھ ۔۔۔اور جنت ہے، پھر تم دوسروں کو کافر ، مرتد اور دوزخی کیوں کہتے ہو جبکہ وہ بھی نماز پڑھتے ہیں، فرق یہ ہی ہے ، کوئی عیسٰیؑ کے گدھے پر سوار ہے ، اور کوئی دجال کے گدھے پر سوار ہے، یعنی اندر سے دونوں کالے۔ صرف عقیدوں کا فرق ہوا ، جبکہ عقیدے ادھر رہ جائیں گے، اندر کی روحیں آگے جائیں گی۔ زبان میں نماز لیکن دل میں خرافات ، حرص و حسد ۔ یہ نماز صورت کہلاتی ہے ۔ عام لوگ اِسی سے خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں، اور فرقہ بندی کا شکار ہوتے رہتے ہیں، اِنکی دین میں تبلیغ فتنہ بن جاتی ہے۔ فرض کیا تم دس پندرہ سال سے کسی فرقہ میں رہ کر عبادت کرتے رہے، پھر تم دوسرے فرقے کو صحیح سمجھ کر اُس میں شامل ہوگئے۔
اِس کا مقصد تمہارا پہلا فرقہ باطل تھا، باطل کی عبادت قبول ہی نہیں ہوتی
یعنی تم نے دس پندرہ سالہ نمازوں کو جھٹلا دیا۔ ہو سکتا ہے نیا فرقہ بھی باطل ہو پھر پچھلی بھی گئی اور اگلی بھی گئی۔ پٹی اُتری تو کولُہو کے بیل کی طرح وہیں موجود پایا۔
عمر برباد ہونے سے بہتر تھا کہ کسی کامل کو ڈھونڈ لیتے۔
۔۔۔*۔۔۔

(گوہر شاہی کا عقیدہ)
سب مذاہب کے نیکوں کاروں اور عابدوں کو ایک لائن میں کھڑا کر دیا جائے ،
رب کو کہو، کس کو دیکھے گا ؟
جس طرح تیری نظر چمکتے ہوئے ستاروں پر پڑتی ہے ،
وہ مریخ ہو یا عطارد یا بے نام ستارہ،
اِسی طرح رب بھی چمکتے دلوں کو دیکھتا ہے ،
وہ مذہب والے ہوں یا بے مذہب۔
بن عشقِ دلبر کے سچل کیا کفر ہے ، کیا اِسلام ہے
۔۔۔*۔۔۔
تم رب کی تلاش میں مندروں چرچوں اور مسجدوں وغیرہ کی دوڑ لگاتے ہو! کیا تاریخ میں کوئی ثبوت ہے، کہ رب کو کسی نے بھی کسی بھی عبادت گاہ میں بیٹھا ہوا دیکھا ہو؟
ارے نادان! رب کا مسکن تیرا دل ہے، اس کو دل میں بسا۔ پھر دیکھ یہ عبادت گاہیں اور ان میں عبادت کرنے والے تیری طرف دوڑ لگائیں گے۔ بایزید بسطامی ؒ فرماتے ہیں ایک عرصہ کعبہ کا طواف کرتا رہا، جب رب میرے اندر آیا ، تو ایک عرصہ سے کعبہ میرا طواف کررہا ہے۔
یہ عبادت گاہیں ثواب گاہ ہیں، جبکہ یہ دل آماجگاہ ہے۔ عبادت گاہوں میں تو پکارے گا۔ اور رب دلوں میں پکارے گا۔
۔۔۔*۔۔۔
عقل والوں کے نصیبے میں کہاں ذوقِ جنوں
عشق والے ہیں جو ہر چیز لُٹا دیتے ہیں
اللہ اللہ کئے جانے سے اللہ نہ ملے
اللہ والے ہیں جو اللہ سے ملا دیتے ہیں
۔۔۔*۔۔۔
ہر مذہب کا عقیدہ ہے، کہ اس کے نبی کی شان سب سے بلند ہے اور یہی عقیدہ اہل کتاب میں جنگوں کا سبب بنا،
بہتر ہے تم روحانیت کے ذریعہ نبیوں کی محفل میں پہنچ جاؤ، پھر ہی پتہ چلے گا کہ کون کس مقام پر ہے اور کون کس درجہ پر ہے۔
رسولو ں کے کلمے
ہر نبی کو ا للہ نے خاص نا مو ں سے پکا را جو ان کی مات کے لئے پہچا ن اوربن گئے ۔ یہ نام اللہ کی اپنی زبان سریا نی میں تھے ان کے اقرار سے اس نبی کی امت میں دا خل ہو تا ہے ۔ تین دفعہ اقرار شرط ہے امت میں دا خل ہو نے کے بعد ان لفظوں کو جتنا بھی دہرا ئے گا اتنا ہی پا کیزہ ہو تا جا ئے گا ۔ مصیبت کے وقت ان لفظو ں کی ادائیگی مصیبت سے چھٹکا را بن جا تی ہے۔ قبر میں بھی یہ الفا ظ حساب کتا میں کمی کا با عث بن جا تے ہیں ۔ حتی کہ بہشت میں دا خلہ کے لئے بھی ان الفا ظ کی ادا ئیگی شرط ہے ۔
ہر امت کو چا ہئیے کہ اپنے نبی کے کلمے کو یا درکریں اور صبح و شام جتنا بھی ہو سکے ان کو پڑھیں ۔ ھدا یت کے لئے آسمانی کتا بیں آپ پڑ ھ سکتے ہیں لیکن عبا دت کے لئے اصلی کتاب کی اصلی عبارتیں زیا دہ فیض پہنچا تی ہیں۔
عیسائیوں کاکلمہ…..لاالہ الااللہ عیسیٰ رو ح اللہ (ترجمہ)اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں عیسیٰ اللہ کی رو ح ہیں ۔
یہودیو ں کا کلمہ…..لاالہ الااللہ موسیٰ کلیم اللہ (ترجمہ)اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں مو سیٰ اللہ سے با ت چیت کر تے ہیں ۔
ابرا ھیمیو ں کا کلمہ…..لاالہ الااللہ ابرا ھیم خلیل اللہ (ترجمہ)اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں ابرا ھیم اللہ کے دو ست ہیں ۔
مسلمانو ں کا کلمہ…..لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ (ترجمہ)اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں محمد اللہ کے رسول ہیں۔
جبکہ ہندو اور سکھ دینِ آدم اور دین نو ح کی ایک کڑی ہیں ۔ حضرت آدم ؑ کی حجراسود(پتھر) کی تعظیم سے ان میں بھی پتھر کو پو جنے کی ریت چل پڑی ۔ کشتی نو ح ؑ سے بچے ہو ئے لوگوں نے بھی ہندوستا ن میں جا کر تبلیغ کری تھی اور حضرت خضرؑ سے بھی ان کے گروؤں کو فیض ملا تھا اور یہ اپنی دعاوں میں آدم ؑ کو شنکر جی ، شیو جی اور مہا دیوکے نام سے پکا رتے ہیں اور خضر ؑ کو وشنو مہارا ج ،کرشن جی اور را م جی کے نام سے یا دکر تے ہیں بلکہ ایک طبقہ حضرت فا طمہ کا بھی معتقد ہے اور حضرت فا طمہ کو درگا ما ئی،لکشمی دیو ی اور ما ں کے نام سے اپنی
عبا د ت میں پکارتا ہے اور یہ ما ئی حو اکو پاروتی کہتے ہیں ۔ گرو نانک اپنے ماننے وا لو ں کو …ایشور اللہ تیرا نام رام بھی تو رحیم بھی تو ………
پڑھا تے تھے۔
ہر مذہب وا لا خو اہ کو ئی بھی زبان رکھتاہو لیکن کلمے اللہ کی سریا نی زبا ن میں اس کی پہچا ن اور نجا ت ہیں عا م انسان کے لئے رو زانہ کم از کم 33مرتبہ اللہ کا ا ور رسو ل کو صبح اور شام یا دکر نا ضروری ہے ۔ دنیا وی مصیبتو ں سے محفو ظ (رہنے) کے لئے رو زانہ99مر تبہ صبح اور شام یا جتنا بھی ہو سکے ، مصیبت کو ٹا لنے کے لئے پا نچ ہزار،پچیس ہزار یا بہتر ہزار کئی آدمی ایک ہی نشت میں بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں ، آخری حد سوا لا کھ ہے۔
دل کو صاف کر نے اورگنا ہو ں کے دھبے مٹا نے کے لئے سا نس کی مشق ، سانس لیتے ہو ئے وقت لاالہ الااللہ اور سانس نکا لتے وقت با قی حصہ پڑھیں سانس نکالتے وقت دھیان دل کی طرف ہو اللہ سے محبت اور قرب حا صل کر نے کے لئے دوسرا طریقہ ہے جو بغیر رب کی ر ضا کے مشکل ہے ۔ کتاب میں درج شدہ طریقے کے مطابق دل کی دھڑکن کو تسبیح بنانا پڑتا ہے اور دھڑکنو ں کے ساتھ صرف ا للہ کے خا لص الفا ظ کو ملانا پرتا ہے ۔ جتنا ہو سکے روزانہ اس کی بھی مشق کریں کسی کا دھیان کے ذریعے ،کسی کابغیر دھیان کے بھی اور کسی کا قلب و رو ح کی بیداری کے بعدہر وقت بھی خو دبخو د جا ری ہو سکتا ہے۔
اللہ کے دوستوں کا ذکر بہتر ہزار روزنہ ہوتا ہے ،جبکہ عاشقوں کا ذکر سوا لاکھ تک پہنچ جاتا ہے ۔ اگر لطائف بھی ذکر کرنے لگ جائیں تو اسکے ذکوریت کا شمار کراماً کاتبین کے بھی بس میں نہیں رہتا۔
کوئی فرش پر ، کوئی عرش پر
کوئی کعبے میں ، کوئی روئے خدا
(تریاقِ قلب)
مذہب والے اسمِ اللہ کے علاوہ اپنے نبی کے نام کو بھی دل میں جمانے کی کوشش کیا کریں، تاکہ اسمِ اللہ کنٹرول میں رہے۔ وجد، جذب یا جلال کی صورت میں نبی کا کلمہ اُس وقت تک پڑھیں، جب تک وہ حالت ختم نہ ہو اور دیکھے ہوئے مرشد کو بھی خیال میں لائیں تاکہ اُس کی روحانی طاقت دل پر اللہ نقش کرے۔ جن کا کوئی مذہب نہیں ، خدا جانے ان کا نصیبہ کس کے پاس ہے یا کہیں بھی نہیں ہے۔ وہ باری باری مشق کے دوران پانچوں مرسلین کے نام کا تصور کریں اور جس بھی دیکھے ہوئے ولی پر یقین رکھتے ہیں، اُس کا بھی خیال لائیں۔ پھر جس کے آپ ہیں وہ اندر سے بولنا شروع کر دے گا، یعنی آپ کا رخ ، محبت اور دل اُسی طرف خود بخود مائل ہوجائے گا۔
۔۔۔*۔۔۔
کسی زمانے میں اھلِ کتاب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے تھے، آپس میں اکٹھا کھانا، پینا اور ایک دوسرے سے شادیوں کی اجازت ہو گئی تھی۔ اِسی طرح اِس زمانے میں اھلِ ذکر بھی ایک ہو جائینگے ، اھلِ کتاب والے عارضی تھے۔ کیونکہ کتاب زبان پر تھی ، نکل گئی اور یہ مستقل ہونگے کیونکہ اللہ کا نام اور اُس کا نور خون اور دل میں ہو گا۔ جو بیماری خون میں چلی جائے یا جس کی محبت دل میں اُتر جائے، اُس کا نکلنا مشکل ہے۔
۔۔۔*۔۔۔
پانی ، پانی ہی ہے۔ لیکن جب رگڑا لگتا ہے تو بجلی بن جاتا ہے۔ دودھ کو رگڑتے ہیں تو مکھن بن جاتا ہے۔ اِسی طرح آسمانی کتابوں کی اصلی آیتوں کا جب تکرار کرتے ہیں، تو نور بن جاتا ہے۔ آیتوں اور صفاتی اسماء کے تکرار سے صفاتی نور بنتا ہے۔ جس کی پہنچ ملائکہ تک ہے جو با لواسطہ ہے، یہ وحدت الوجود کا مقام ہے۔ لیکن اللہ کے ذاتی نام کے تکرار کے نور کی پہنچ ذات تک ہے، جو بلاواسطہ ہے، اور وحدت الشہود سے تعلق رکھتا ہے۔
۔۔۔*۔۔۔
بہت سے لوگ اپنے مذہب کے نبی اور ولیوں کا بہت ہی احترام اور عقیدت ، محبت رکھتے ہیں۔ لیکن دوسرے مذاہب کے نبیوں ولیوں سے بغض و عناد اور دشمنی رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی اللہ کی طرف سے کوئی مقام حاصل نہیں کر سکتے ہیں، کیونکہ جن کی برائی کرتے ہیں وہ بھی اللہ کے دوستوں میں سے ہیں اوراللہ کی مرضی سے ہی مختلف مذہبوں اور قوموں میں تعینات کئے گئے۔

۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
فرمانِ گوہر شاہی
۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔
تمام انسانوں کی ارضی ارواح اِس دنیا میں کئی بار دوسرے
جسموں میں جنم لیتی ہیں۔ پاکیزہ لوگوں کی ارواح پاکیزہ جسموں
میں، جبکہ حضور پاکؐ کی ارضی ارواح کو مہدی علیہ السلام کیلئے
روکا ہوا تھا، جس طرح آپؐ کے جسم کے کسی بھی علیحدہ حصے،
یعنی ہاتھ یا پاؤں کوبھی آمنہ کا لعل کہہ سکتے ہیں، اسی طرح حضورؐ
کی سماوی روح کے کسی علیحدہ حصے کو بھی عبداللہ کا فرزند اور آمنہ
کا لعل کہا جاسکتاہے۔اہل بیت کی ارواح بھی اہل بیت
میں ہی شامل ہیں۔

۔۔۔*۔۔۔
چند محب ارواح کے چشم دید واقعے
ایک ازلی روح کا واقعہ
میں(گوھر شاہی) امریکہ میں نصف شب کے قریب ایک جنگل سے گزرا۔دیکھا ایک شخص ایک درخت کے آگے سجدہ ریز ہو کر گڑ گڑا رہا ہے، تقریبا ایک گھنٹہ بعد میری واپسی ہوئی، ابھی بھی وہ اِسی حالت میں تھا، میں قریب جاکر رک گیا، اُس نے مجھے محسوس کر کے سجدے سے سر اُٹھایا اور کہا مجھے ڈسٹرب کیوں کیا؟ میں نے کہا میں بھی رب کی تلاش میں ہوں، لیکن درخت سے کیسے رب ملے گا؟ بہتر تھا کسی مذہب کے ذریعہ رب کو حا صل کرتا ! کہنے لگا:” بائبل، قرآن یا جو بھی آسمانی کتابیں ہیں، میں اُن کی اوریجنل زبان نہیں جانتا اور ان کتابوں کے جو ترجمے ہوئے ہیں، میں اُن سے مطمئن نہیں، کیونکہ ان میں زبردست تضاد ہے جس کی وجہ سے یہ یقین نہیں ہو سکتا کہ یہ کسی ایک ہی خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی کتابیں ہوں۔ایک کتاب میں لکھا ہے کہ عیسیٰ میرا بیٹا ہے۔ جبکہ دوسری کتاب میں ہے کہ میرا کوئی بیٹا وغیرہ نہیں ہے۔ایک عرصہ اُن کے مطالعہ میں میرا وقت اور عمر برباد ہوئی۔ میں نے اب دوسرا راستہ اختیار کیا ہے کہ یہ درخت اتنا خوبصورت ہے اس کا مقصد رب اس سے محبت کرتا ہے، ہوسکتا ہے اِسی کے ذریعہ میری رب تک رسائی ہوجائے”۔
یہ کوئی ازلی محب روح تھی جو اپنی عقل کے مطابق رب کی تلاش میں تھی۔ کیا ایسے لوگ دوزخ میں جاسکتے ہیں جو کہ معذور کہلاتے ہیں اور یہی کتے سے بھی قطمیر بن جاتے ہیں، جبکہ حضرت قطمیر کا بھی کوئی مذہب نہیں تھا ۔
۔۔۔*۔۔۔
ایریزو نا (ARIZONA) کی مس کیتھرین کاواقعہ :
وہ کہتی ہیں’’ میں نے انجیلا سے ذکرقلبی کی اجازت لی، انجیلا نے کہا سات دن کے اندر اندر اگر دل میں اللہ اللہ شروع ہوگئی تو سمجھنا کہ رب نے تمہیں قبول کرلیا ہے، ورنہ تیری زندگی فضول ہے۔ جب سات دن کی محنت سے بھی میرا ذکر جاری نہ ہوا تو ایک رات مجھے سخت رونا آیا میں خوب گڑگڑائی، اُسی رات میرے اندر اللہ اللہ شروع ہوگئی، جو تین سال سے جاری ہے۔ کیتھرین عمر کی قائل نہیں، بلکہ تندرستی کی قائل ہے، اسی طرح وہ مذہب کی بھی قائل نہیں بلکہ اُس کی محبت کی قائل ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ اس ذکر کی وجہ سے میرے دل میں رب کی محبت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، میرے لئے یہی کافی ہے۔”
۔۔۔*۔۔۔
ایک ہندو گرُ و سے ملاقات:
میں(گوھر شاہی) اُس وقت سیون کی پہاڑیوں میں تھا کبھی کبھی لال شہباز کے دربار چلا جاتا۔ ایک شخص دربار کے باہر برآمدے میں بیٹھا ہوا تھا۔ بہت سے ہندو مذہب کے لوگ اُس کے گرد بڑی عقیدت سے جمع تھے۔ پوچھا یہ کون بزرگ ہے؟ کہنے لگے یہ ہندوؤں کا گرو ہے، روشن ضمیر بھی ہے، اِسی کے ذریعہ ہماری درخواستیں لال سائیں تک پہنچتی ہیں اور ہمارے کام ہو جاتے ہیں۔ بہت سے مسلمان بھی اُس کی عزت کرتے تھے۔ ایک دن میرا ایک ٹیلے سے گزر ہوا، دیکھا وہی شخص سامنے ایک بُت رکھ کر سجدہ کی حالت میں کچھ پڑھ رہا ہے۔ دوسرے دن دربا رمیں ملاقات ہوئی۔ میں نے کہا تجھ جیسے روشن ضمیر کا مٹی کے بُت کو پوجنا میری سمجھ سے باہر ہے، اُس نے جواب دیا: میں بھی اِسے کوئی رب نہیں سمجھتا البتہ میرا عقیدہ ہے اور تمہاری کتابوں میں بھی لکھا ہے، کہ اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا اس وجہ سے طرح طرح کی صورتیں بنا کر پوجتا ہوں ، پتہ نہیں کون سی صورت رب سے مل جائے۔ اُس نے کہا : تو بھی روشن ضمیر ہے ، بتا کہ اللہ کی صورت کیسی ہے اور کس بت سے ملتی ہے؟ تاکہ میں اُسے من میں بسا سکوں۔
میری عمر کوئی سولہ سترہ سال کے لگ بھگ تھی۔ اپنے خاندانی بزرگ بابا گوہر علی شاہ ؒ کے دربار پر ایک دن سورہ مزمل کی تلاوت کر رہا تھا ، اتنے میں ایک لمبے قد کا آدمی فقیری حلیہ میں میرے سامنے آیا ، اور کہنے لگا، خواہ مخواہ چنے چبا رہا ہے، بزرگ صورت تھا میں خاموش رہا، لیکن دل میںیہی تھا کہ یہ ضرور کوئی شیطان ہے جو مجھے تلاوت سے روک رہا ہے۔ عرصہ گزر گیا۔ جب ذکر قلب جاری ہوا تو میری عمر پنتیس (35)سال کے لگ بھگ تھی۔ بتائے ہوئے طریقہ سے زبان سے سورہ مزمل کی آیت پڑھتا، پھر خاموش ہو جاتا کہ دل پڑھے، پھر دل سے اسی آیت کی آواز آتی۔ ایک دن اسی مشق میں مگن اور مسرور تھا کہ پھر وہی شخص اُسی حلیہ میں ظاہر ہوا۔ اور کہنے لگا: اب تو قرآن پڑھ رہا ہے۔
جب تک تریاق معدے میں نہ جائے شفا نہیں ہوتی
جب تک کلامِ الٰہی دل میں نہ اُترے کوئی بات نہیں بنتی
اُس نے شعر سنایا:

زبانی کلمہ ہر کوئی پڑھدا ، دِل دا پڑھدا کوئی ھو
دِل دا کلمہ عاشق پڑھدے ، کی جانن یار گلوئی ھو

۔۔۔ * ۔۔۔
داتا دربارکی مسجد میں جب نماز سے فارغ ہوا دیکھا ایک عمر رسیدہ شخص نمازیوں کی جوتیاں سیدھی کررہا ہے، میں نے بھی یہ محسوس کیا ، کہ سوائے جوتیاں سیدھی کرنے کے اُس نے کوئی نماز نہیں پڑھی کیونکہ میں پچھلی صف میں تھا ، جاتے وقت میں نے کہا: آپ نے نماز تو نہیں پڑھی، ان جوتیوں سے آپ کو کیا ملے گا؟ کہنے لگا نماز تو عمر بھر نہیں پڑھی، اب بڑھاپے میں نماز سے بخشش کی کیا امید رکھوں! بس ایک امید پر قائم ہوں کہ اتنے لوگوں میں سے کوئی ایک تو رب کا دوست ہوگا، شاید اِس ادا سے ہی وہ یا اُس کا یار خوش ہو جائے۔ میں نے کہا نماز سے بڑھ کر کوئی ادا نہیں۔ کہنے لگا یار سے بڑھ کر کوئی چیزنہیں، اگر وہ راضی ہو جائے ! تین سال کی چلہ کشی کے بعد ایک دن محفلِ حضوری نصیب ہوئی دیکھا وہی شخص یار کے قدموں میں تھا۔
پھر یہ شعر یاد آیا کہ:
گناہگار پہنچے درِ پاک پر
زاہد و پارسا دیکھتے رہ گئے

حضرت گوہر شاہی کے عارفانہ کلام پر مبنی منظوم تصنیف “تریاقِ قلب”
سے چند خاص اشعار ملاحظہ کیجئے یہ کچھ الہامی اور کچھ عشقیہ کلام آپ نے
دورانِ ریاضت و مجاہدہ تحریر فرمائے۔

’’تریاقِ قلب‘‘
کہاں تیری ثناء کہاں یہ گُناہ گار بندہ
کہاں لاحوت و لامکاں کہاں یہ عیبدار بندہ
نُور سراپا ہے تُو ، مگر یہ نقص دار بندہ
کتنی جرات ، بن گیا تیرے عشق کا دعویدار بندہ
مگر عشق تیرا دن رات ستائے ، پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رلائے پھر میں کیا کروں
پاک ہے ذات تیری ، مگر یہ بے اشنان بندہ
بادشاہ ہے تو زمانے کا ، مگر یہ بے نشان بندہ
مالک ہے تو خزانے کا ، مگر یہ بے سروسامان بندہ
جتلائے پھر بھی عشق تجھ سے یہ انجان بندہ
۔۔۔*۔۔۔
نہیں ہوں سوالی ، فقیری میرا دھندہ نہیں ہے
دنیا والو ! عشق ِ خُدا ہے ، عشق ِ بندہ نہیں ہے
عرصے سے ہوں آوارہ میں کوئی اندھا نہیں ہے
عشق ہے یہ ابدی ، آہو یا پرندہ نہیں ہے
پڑے ہیں ٹیلوں پہ ، یہ بے آب و گیاہی
تعجب ہے کیا ، یہی ہے قاعدہِ فقرائی
نیند گئی لُقمہ بھی گیا ، یہی ہے رضائے الٰہی
پڑے ہیں مستی میں نظریں جمائے ہوئے گوہر شاہی
۔۔۔*۔۔۔
آگئے کدھر ہم یہ تو سخی شہباز کی چلہ گاہ ہے
واہ رے خوش نصیبی، یہ ہماری بھی عبادت گاہ ہے
وہ تو کر گئے پرواز اب ہماری انتظار گاہ ہے
اس بھٹکے ہوئے مسافر پر اِن کی بھی نگاہ ہے
شہباز کی محفل میں جا کر بھی یاد تیری ستائے پھر میں کیا کروں
عشق تیرا دشت و جبل میں رُلائے پھر میں کیا کروں!
۔۔۔*۔۔۔

ہوگئے قیدی ہم جبلوں کے اک دلدار کی خاطر
پی رہے ہیں خونِ جگر ، ان دیکھے دربار کی خاطر
سولی پہ لٹکے گئے عشق کی تار کی خاطر
جان بھی نہ نکلے، اک تیرے دیدار کی خاطر
۔۔۔*۔۔۔
پہن کر چوغے و کلاوے فقیر بن گئے تو کیا
پڑھ کر کتابیں تّصوف کی ، پیر بن گئے تو کیا
کر کے یاد حدیث فقہ مّلا بے تقدیر بن گئے تو کیا
عمل نہ کیا کچھ بھی فرعون بے تقصیر بن گئے تو کیا
رکھ کے داڑھی عیب چھپایا تو کیا مزہ
رگڑ کر ماتھا ، مّلا کہلایا تو کیا مزہ
کھا کے زہر گر پچھتایا تو کیا مزہ
لُٹا کے جوانی خدا یاد آیا تو کیا مزہ
۔۔۔*۔۔۔

فاذکرونی اذکرکُم ، پھر تجھے اور تمنا کیا
تب ہی پوچھے گا خدا اے بندے تیری رضا کیا
اے بندے سمجھ ، کیوں ہوا دنیا میں ظہور تیرا!
تو وہ عظیم تر ہے ، خُدا بھی ہوا مذکور تیرا
عش عش کرتے کّرو بیاں ، دیکھتے جب شکستہ صدور تیرا !
فخر ہوتا ہے اللہ کو ، بنتا ہے جب جسم سراپا نور تیرا!
کہتے ہیں پھر اللہ ، اے ملائکو میرے بندے کی شان دیکھو
ہوا تھا جِس پہ انکارِ سجدہ ، اب اُس کا ایمان دیکھو
جنبش پہ ہے جسکا دل ، ایک سرا ادھر ایک لامکاں دیکھو
ناز ہے تم کو بھی عبادت کا ، مگر عبادت قلبِ انسان دیکھو
۔۔۔*۔۔۔
بنایا پھر بسیرا پہاڑوں میں اور تلاشِ یار ہوئے!
بہت ہی مغلوب تھے ہم ، جو آج شکنِ حّصار ہوئے
کر لے جب بھی توبہ ، وہ منظور ہوتی ہے
بندہ بشرہے ، جِس سے غلطی ضرور ہو تی ہے
کہتے ہیں موسیٰؑ ، اللہ کو وہی عبادت محبوب ہوتی ہے
جس میں گنہگاروں کی گریہ زاری خوب ہوتی ہے
قُفلوں والے کریں گے کیسے یقین ہم پر
کہ ہو چکا ہے اتنا مہربان ، رب العالمین ہم پر
کھول چکا ہے اسرار، حور و نازنین ہم پر
کہ بس رہا ہے جُسہ توفیقِ الٰہی زمین ہم پر
۔۔۔*۔۔۔

یہ راز چھپا کر کریں گے کیا ، اب تو دنیا فانی ہے
انتظار تھا جس قیامت کا ، عنقریب آنی ہے
دجال و رجال پیدا ہو چکے یہ بھی اک نشانی ہے
ظاہر ہونے والا ہے مہدی بھی، یہی رازِ سلطانی ہے
۔۔۔*۔۔۔
نماز بھی پڑھا دی مولانا نے، قرآن پڑھنا بھی سکھا دیا
کلمے بھی پڑھائے، حدیثیں بھی ، بہت کچھ مغز میں بٹھا دیا
بتا نہ سکا دل کا راستہ، باقی سب کچھ پڑھا دیا
یہی اِک خامی تھی ، ابلیس نے سب کچھ جلا دیا
۔۔۔*۔۔۔

پُوچھا موسٰؑ ی نے اللہ سے تُجھے کوئی پائے تو پائے کہاں
میں آتا ہوں کوہِ طور پر وہ جائے تو جائے کہاں!
گر ہو کوئی مشرق میں پیدا ، تو وہ طور بنائے کہاں
آئی آواز ہوں ذاکر کے قلب میں زمیں پہ ہو یا آسماں
مِلا تھا قطرہ نور کا کر کے ترقی لہر بن گیا
آئی طغیانی ٹکرایا بحر سے اور بحر بن گیا
نہ رہی تمیز من و تن کی دل تھا دہر بن گیا
بس گیا علم اِس پہ اتنا کہ اک شہر بن گیا
اس نکتہ کی تلاش میں کتنے سکندر عُمریں گنوا بیٹھے
خوش نصیبی میں تیری شک کیا ، گھر بیٹھے ہی یہ راز پا بیٹھے
۔۔۔*۔۔۔
سُورج چڑھا تو نکلا پیٹ کے جھنجال میں
گھر آیا تو پھنسا بیوی کے جال میں
سویا تو وہ بھی بچوں کے خیال میں
عُمر یوں ہی پہنچ گئی ستر سال میں
ہوا جب کام سے نکمہ ، لیا دین کا آسرا
اب کہاں ہے خریدار، بیٹھا جو حسن لُٹا
بے شک کر ناز نخرے ، اور زُلفوں کو سجا
وقت تھا جو تیرا ، وہ تو بیٹھا گنوا
کر کے ذکر چار دن بن گیا زنجہانی ہے
دھوکہ ہے تیری عقل کا ، جو ہوگئی پرانی ہے
اب کچھ توقع اللہ سے ، یہ تیری نادانی ہے
قابل تو نہیں ، گر بخش دے اُسکی مہربانی ہے
ڈوبنے لگا فرعون وہ بھی ایمان لے آیا تھا
کر کے دعویٰ خدائی وہ بھی پچھتایا تھا
کر لی توبہ آخر میں ، وہ وقت ہاتھ نہ آیا تھا
جسوقت کا قدرت نے بندے سے وعدہ فرمایا تھا
۔۔۔*۔۔۔
یہ تو وہ عمل ہے ، عاصیوں کو بھی مجیب مل جاتے ہیں
ہوتے ہیں جو بے نصیب ، اُنہیں بھی نصیب مل جاتے ہیں
نہیں ہے فرق خواندہ ناخواندگی کا ، کہ خطیب مل جاتے ہیں
ڈھو نڈتی ہے دُنیا جن کو ستاروں میں قریب مل جاتے ہیں
پارس بھی اسی میں، کیمیاء بھی اسی میں
وفا بھی ، حیا بھی ، شفا بھی اسی میں
رضا بھی بقا بھی لقا بھی اسی میں
خُدا کی قسم! ذاتِ خُدا بھی اسی میں
۔۔۔*۔۔۔
پڑا ہے بُت اِدھر ، لٹکی ہوئی ہے جان اُدھر
دے رہے ہیں سجدے اِدھر، وہم و گمان اُدھر
لکھتے ہیں سیاہی سے ، پڑتا ہے لہو کا نشان اُدھر
بودو باش اس جنگل میں ، زندگی کا سامان اْدھر
ٹپکے آنکھوں سے آنسو دو چار ، بن گئے درّ تابان اْدھر
پھڑکا جب دل کبوتر کی طرح ،ہو گئے فرشتے حیران اْدھر
آگئے رشک میں ، کاش ہم بھی ہوتے انسان اْدھر
یہ تو وہی خستہ حال تھا ، جو ہو گیا سینہ تان اْدھر
کہا بت کو کہ چل اِس دنیا سے، کہ بن گیا مکان اْدھر
یہ تو اک دھوکہ تھا ، پڑا ہے جو بے سروسامان اْدھر
۔۔۔*۔۔۔
نہ کر شبہ ، چور بھی اوتاد و اخیار بن بیٹھے!
آئے پارس کے ہا تھوں ، خود ہی سرکار بن بیٹھے!
مارا نفس کو اور حق کے خریدار بن بیٹھے!
حق نے لیا گر، سوکھے کانٹے بھی گلزار بن بیٹھے!
۔۔۔*۔۔۔
اِس زندگی سے گئے ، پایا جب سراغ زندگی
پایا پھر وسیلہ ظفر، مٹایا جب داغِ زندگی
نکلے پھر دنیا کے اندھیر سے ، جلایا جب چراغِ زندگی
دھویا آنسوؤں سے قلب کو ، بسایا جب باغِ زندگی
نکلا اْس چمن سے طائرِ لاہوتی ، اور کیا نباضِ زندگی
ہوئے جب قبر و گھر یکساں ، اور کیا فیاضِ زندگی
زندگی میں ہی دیکھا یومِ محشر ، اور کیا بیاضِ زندگی
پی بیٹھے خونِ جگر ، خاطرِ مولا ، اور کیا ریاضِ زندگی
۔۔۔*۔۔۔
رکھا تو نے عرصے تک، اِس نعمت سے محروم کیوں ؟
نفس ہم سے شاکی ، جب یہ نقطہ ادبستان سے پکڑا
ہو گئے پاک سب جْثے جل کے ، بُت کے سوا
روٹھا بت جو جلنے سے ، اسکو قبرستان سے پکڑا
اب آنے لگی آواز ، ہر رگ سے اللہ ھو کی
یہ سکون ہم نے کچھ زمین سے، کچھ آسمان سے پکڑا
کیا بتاوں تجھے کہ، دل کی زندگی ہے کیا؟
ڈال کر کمند ہم نے، اس کو کہکشاں سے پکڑا
بن بیٹھے آج ، ہم بھی طالبِ مولا لیکن
سْلجھے تھے ، جب یہ راستہ اک انسان سے پکڑا
ہدایت ہے انسان کو انسان سے ہی اے کورِ چشم!
وسیلہ انسان نے انسان سے شیطان نے شیطان سے پکڑا
سوچا تھا اک دن ہم نے ، یہ وجہ تنّزل کیا ہے؟
رہتے ہیں سرگرداں ہر دم ، یہ زندگی بے منزل کیا ہے ؟
کون سی خامی ہے وہ، رہتے ہیں پریشان ہر دم؟
سدھر جائے جس سے دین و دنیا وہ عمل کیا ہے؟
جھانکا جو گریبان کو نظر آئیں ہزاروں خامیاں
روئے بہت ، آیا جو سمجھ میں مقصدِ اصل کیا ہے
نکلے پھر ڈھونڈنے رہنما کو ، اس اندھیر میں
بھٹکتے رہے بر سوں ، سمجھ نہ تھی پیرِ اکمل کیا ہے؟
۔۔۔*۔۔۔
کر بیٹھا عشق ، اک بے پرواہ سے انجان یہ
تڑپتا رہے گا بھٹی میں برسوں یہ خاقانہِ دل
آ جائے بازضد سے ، نہیں ہے ممکن اے ریاضؔ
دے چکا ہے تحریر، سمیت گواہاں یہ جلالانہِ دل
۔۔۔*۔۔۔
جس حال پہ رکھے تو ، اْسی پہ ہیں شاداں ہم
دِکھتا رہے فقط نام تیرا ،ہوئے جس پہ قربان ہم
رُل کے اس مٹی میں ہو گا نہ زباں کو شکوہ تیرا
ہو گئے نام لیواؤں میں تیرے، اسی پہ نازاں ہم
نہ کر شبہ اے آسمان ، ان گیسوؤں پر ہمارے
تمنا نہیں کچھ ، اْسی کے دیدار کو گریاں ہم
کھا نہ غم تُو ، دیکھ کے خونِ جگر کو ہمارے!
یہی پیالہ ہے ، بیٹھے ہیں دینے کو جسے ترساں ہم
قسم ہے تجھے شہباز قلندر کی اے لال باغ
گواہ رہنا، بیٹھے ہیں عرصے سے بے گوروکفاں ہم
رس چکا ہو گا ، پتے پتے میں تیرے سوزِعشق !
رکھنا سنبھال کے امانت ، بنا ئینگے کبھی گورِلرزاں ہم
سمجھے گا کیا ، میری داد و فریاد کو یہ زمانہ
یہ تو اک عجز تھا ، کر بیٹھے جسے افشاں ہم
آتا نہ تھا دل کو چین ، کبھی نہ کبھی اے ریاضؔ
یہ بھی اک مرض تھا ، بنا بیٹھے قلم کو راز داں ہم!
۔۔۔*۔۔۔
پہلے تو پکڑ اِس جاسوس کو ، کہتے ہیں جسے نفس
آ نہ سکے گا گرفت میں ، نہ کر فقیری میں عمر تباہ
ادھر تو چاہیے علم و حلم اور دل کشادہ جانی
پھر صبر و رضا اور مرشد ، جو ہو راہوں سے آگاہ
۔۔۔*۔۔۔
نہ چھیڑ قصہ بادِ نکہت کا ویرانے میں ، اے دیوانہ دِل
ڈھونڈ نہ شہرِخموشاں میں وہ شہنشائیاں اے مستانہِ دل
رکھ نہ تمنا کچھ اِن لاشوں سے ستاروں کے علاوہ
تھا بے شک خاکی تْو ، ہو گیا اب جو عرشیانہ دل!
نہ رکھ امید ، ہم سفر سے کچھ اے محبوبہ
تھا جو کبھی شیدائی تیرا ، تھا وہ پرانا دل
نہ رکھ تْو بھی آس کوئی اے میری جنت
پالا تھا آغوش میں ، ہو گیا وہ بیگانہ دل
بنا کہ لحد میری رو لینا دو چار دن
تھا جو سپوت تیرا مٹ گیا وہ فسانہ دل
کر دینا بھرتی یتیم خانے میں بھی اْن کو!
مر گیا باپ ان کا ڈھونڈتے ڈھونڈتے خزانہ دل
(دینِ حُسین کے متعلق)
ملا جس سے ایمان کچھ ، گرا وہ ثاقبِ شہاب تھا
لرزی مٹی جس کے خون سے ، وہ محافظ نْورِ کتاب تھا
اٹ گیا پھر دھول میں اُس کا مرغِ لا حوتی
کر نہ سکا پرواز پھر ، تشنہ دنیا و مآب تھا
ہو گئے پھر پیوست اس کے بیضے خاک میں
ہوا پھر طائر بھی خاکستر ، جو شعلہ آفتاب تھا
سمائی اْس میں وہ بْو ، آئی پھر وہ خْو!
بھولا سبق وہ ، لایا جو ٹکڑا نصاب تھا
ڈھونڈ کے آسان حیلہ ، مذہب میں ترمیم کی
نکلے پھر حیلے کئی ، ملّا ومفتی بے حساب تھا
۔۔۔*۔۔۔
نہ تاثیرِ گفتار‘ نہ طاقتِ رفتار‘ نہ عروجِ کردار تیرا
نہ خوفِ قبر ، نہ یادِ خدا ، تیری یہ مسلمانی کیا ہے؟
پڑھ کے کافر اک ہی بار لا اِلہ الا اللہ ، ہو گیا خُلدی
نہیں اثر دھڑا دھڑ لا اِلاؤں سے ، یہ نا توانی کیا ہے
مال مست ، حال مست، ذال مست بن نہ سکا لعل مستؒ !
بیٹھے ہو آڑ میں دین کی ، یہ سبقِ بے ایمانی کیا ہے؟
شب بیدار تو ، پر ہیزگار تو ، نہ حق دار تو!
سمجھتا ہے خود کو مومن ، اور نادانی کیا ہے
۔۔۔ *۔۔۔
رکھا تھا جس نے بھی صبر ، اْس کا مقام انتہاہو تاہے
کہ نہیں ہے جن کا آسرا کوئی اْن کا خْدا ہو تا ہے
ہوا گر برباد راہِ حق میں وقتِ جوانی!
وہی ہے با یزید ؒ ، جو پْتلا وفا ہو تا ہے
مارا گر ہوس و شہوت کو رہ کے دنیا میں
وہی طالعِ قسمت جو اک دن با خدا ہو تا ہے
کی گریہ زاری گنہگار نے کسی وقت پشیمانی!
کبھی نہ کبھی وہ کعبے میں سجدہ گرا ہوتا ہے
۔۔۔*۔۔۔

ہم عشق میں برباد، وہ برباد ہمارے جانے کے بعد
ہوئی عشق کو تسلی ، کتنی جا نیں رلانے کے بعد
آئے یاد بچے ، آیا صبر پھر آنسو بہانے کے بعد
نہ رہی طاقتِ گفتار اب یہ ’دکھڑا سنانے کے بعد
۔۔۔*۔۔۔

کہا اقبال ؔ نے دردِ دل کے واسطے آیا آدمی
سمجھے تھے ہم شاید اقبال ؔ سے کچھ بھول ہوئی
گْھومتے رہے ہم بھی کچھ عرصہ تک اِن گردابوں میں
ہوا جب دل کو درد پھر زندگی کچھ حصول ہوئی
یہ حیلہ نفس تھا ، بُت میں بھی ہمارے
سمجھا نفس کو ، دل کو تازگی قبول ہوئی
آ گئے تھے اوّل رُجعت میں پا کر یہ سبق
سمجھایا جو حق باہوؒ نے کْچھ عقل دخول ہوئی!
نہ خدمت سے نہ ہی سخاوت سے ہوا کوئی تغیر
ہوا جب ذکرِ قلب جاری کْچھ روشنی حلول ہوئی
۔۔۔۔۔۔***۔۔۔۔۔۔

گوھر شاہی کے خلاف عدالتی فیصلہ؟
( کچھ مقدمات کے بارے میں وضاحت)

کئی سالوں سے مجھے مختلف مقدمات میں پھنسانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سر کی قیمت بھی لگائی گئی اوربموں (Bombs) سے بھی حملے کرائے گئے۔ لیکن اللہ نے محفوظ رکھا! اب میری غیر موجودگی میں، جبکہ میں آئر لینڈ اور امریکہ میں نیو یارکرز کے روحانی لیکچرز کی دعوت میں بلایا گیا تھا‘ 295 کے مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا۔ جبکہ میری پاکستان میں موجودگی میں تقریبا چار ماہ تک اس مقدمے کو التوا میں رکھا گیا اور ملک سے باہر جانے کے چھ ماہ بعد مجھے کوئی اطلاع یا موقع دیے بغیر میری طرف سے حکومت کے خرچہ پر فرضی وکیل کھڑا کیا گیا اور بند کمرے میں خفیہ طور پر یک طرفہ فیصلہ ہوا۔ 2مئی 99کو تھانہ ٹنڈو آدم تھانے میں میرے خلاف F.I.R. درج کرائی گئی جب مجھے پتہ چلا تو میں نے سابقہ آئی جی سندھ رانا مقبول کو حالات سے آ گاہ کیا جس کی بناء پر آئی جی پولیس کی طرف سے ٹنڈو آدم پولیس کو 29/07/99لیٹر جاری ہوا کہ اس کیس کے متعلق Commentsدیئے جائیں کیونکہ مدعی کے مطابق یہ کیس غلط درج ہوا ہے ۔ کیوں نہ یہ کیس کرائم برانچ کو دیا جائے۔ اسی دوران ہائی کورٹ سندھ میں بھی جھوٹی FIRکی درخواست ہماری طرف سے دی گئی۔ ہائی کورٹ نے بھی ٹنڈو آدم پولیس سے تفصیلات طلب کریں۔ جبکہ ہائی کورٹ کی طرف سے 30.07.99کوتھانے میں لیٹر موصول ہوا اور ان دونوں لیٹرز کو نظر انداز کر کے تھانے نے صرف تین دن کے اندر یعنی 3-08-99کو چالان پیش کر دیا۔ لیکن یہ دونوں لیٹرز پتہ نہیں کس کی دلیری پر نظر انداز ہوئے۔ اور کس کی دلیری پر چالان کیا گیا؟ لیکن گرفتاری کے لئے پولیس نے کوئی قدم نہ اٹھایا اور نہ ہی میں مفرور ہوا بلکہ معمول کے مطابق مصروف رہا۔ مئی کے آخر میں مجھے عرس بابا گوھر شاہ میں شمولیت کے لئے پنجاب جانا پڑا اور گرمیوں کے دو ماہ حسب معمول اپنے آبائی گاؤں میں گذارے۔ مورخہ تیرہ اگست 99کو کوٹری آستانہ میں ایک بڑے پر تشہیر جلسہ میں کھلے عام شرکت اور تقریر کی تھی۔ اس جلسے میں مقامی ایجنسیوں کے علاوہ دادو سے ایک پولیس دستہ جس میں تقریبا 25 اہلکار شامل تھے حفاظت کیلئے بھیجا گیا تھا۔ 18اگست 99کو لندن کیلئے روانگی کے وقت کسی نے بھی ائیر پورٹ پر نہیں روکا۔ 9 ماہ تک مقدمے کو التوا میں رکھا گیا ۔ جب بقر عید سے پہلے وطن واپسی کا پروگرام تھا اچانک عدالتی کاروائی کر کے تین بار عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ ان علماء سے میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی بلکہ یہ وہ لوگ تھے جو ولیوں کی تعلیم کو باطل اور درباروں پہ جانا شرک سمجھتے ہیں، اور میری تعلیم ان کے عقیدے کے مخالف ہے۔ یہ لوگ سعودی لابی اور سعودی تعلیم سے تعلق رکھتے ہیں اور دفعہ295 کا ناجائز فائدہ اُٹھا تے ہیں، ایک مولوی اپنے حریف کے خلاف اپنی چالاکی سےF.I.R کٹواتا ہے، تو چار نمازیوں کو گواہ بنا لیتا ہے۔آجکل کے نمازی بھی اندر سے خالی ہیں، اور S.H.O کو بھی کچھ کھانے کیلئے مل جاتا ہے۔ اور پھر F.I.R کٹ جاتی ہے۔ پھر عدالتوں کے جج بھی فرقہ پرستی یا علمِ تصوف کی نا علمی کی وجہ سے لمبی سزائیں سنا دیتے ہیں۔ اس قسم کے کئی کیس پاکستان میں سزا کا سبب بن چکے ہیں۔
مجھ پر توہین رسالت اور توہینِ قرآن کا کیس بھی اُن مولویوں کی سازش ہے جو خود کو حضور پاک ﷺجیسا سمجھتے ہیں، لیکن خصلتیں شیطان جیسی ہیں۔جھوٹی گواہیاں اور جھوٹے مقدمے، مکرو فریب، جھوٹ کو سچ بنا کر بے گناہوں کو آزار پہنچانا، کیا حضور پاکؐ جیسوں کا کام ہوتا ہے؟ ایسے ہی عالموں کیلئے بھیڑیے نے یعقوبؑ کو کہا تھا: کہ میں نے اگر یوسفؑ کو کھایا ہو! تو اللہ مجھے چودھویں صدی کے عالموں سے اُٹھائے۔
(دفعہ نمبر (1 ) کا جواب)
میری سالگرہ کے موقع پر، کچھ ہندؤوں نے ایک اسٹیکر شائع کیا تھا۔ جس پر چاند ، سورج اور حجر اسود پر بھی میری تصاویر دکھائی گئی تھیں۔ اس اسٹیکر پر لکھا تھا: لا الہٰ الا اللہ، ریاض احمد گوہر شاہی، یعنی اس کے آگے رسول اللہ، نبی اللہ یا کچھ بھی نہیں لکھا ہوا تھا۔ یہ اُن کی عقیدت کا اظہار تھا کہ ہم اللہ کے بعد ریاض احمد گوہر شاہی کو اپنا اوتار تسلیم کرتے ہیں، جس کا وہ لندن کے ہفت روزہ اخبار (دیس پردیس)29جولائی98 کے شمارے میں اعلان بھی کرچکے تھے۔ ان کے عقیدے کے مطابق کوئی حرج نہیں تھا۔ لیکن میں نے اس کی تائید نہیں کری تھی، اور مسلمانوں میں غلط فہمی (کے اندیشہ کے باعث) سختی سے منع کیا تھا کہ آئندہ جو بھی اسٹیکر چھاپنا ہو، مرکزی کمیٹی کی منظوری سے چھاپا جائے، اس وقت بھی یہ لوگ اس اسٹیکر کو لیکر صدر رفیق تارڑ کے پاس پہنچے تھے، اور صدر صاحب نے اسلامی نظریاتی کونسل کے علماء سے اُس اسٹیکر کی وضاحت چاہی تھی۔ علماء نے صدر کو لکھ کر بھیجا تھا کہ لا الہٰ۔۔۔ کے بعد صرف گوہر شاہی کا نام جو ایک کونے پر ہے کلمہ کی دلالت نہیں کرتا۔
( تصاویر۔۔۔ دفعہ نمبر(2) کا جواب)
یہ تصویریں حجر اسود، چاند ، سورج کے متعلق حقیقت میں باثبوت ہیں، جو کہ کتاب دین الہٰی کے علاوہ انٹر نیٹ پر بھی موجود ہیں۔ چاہیے تھا کہ جج صاحبان ان تصویروں کی تصدیق کرتے! اور عدم ثبوت پر ، ان کو سزا دینے کا حق تھا! لیکن ھوم سیکریٹری سندھ کے دباؤ کی وجہ سے نا انصافی کی گئی، ہو سکتا ہے کہ دوسرے حکمران بھی شامل ہوں، لیکن ہمیں صرف ھوم سیکریٹری کی سازش کا پکا یقین اور ثبوت ہے۔ دو سال پہلے بھی ھوم سیکریٹری نے ڈپٹی کمشنروں کو ایک لیٹر جاری کیا تھا کہ بڑھتی ہوئی مقبولیت کے تحت گوہر شاہی اور اس کی تنظیم پر سخت نظر رکھی جائے۔( اس لیٹر کی نقل ہمارے پاس موجود ہے)۔ ہو سکتا ہے میری اس تحریر سے ہوم سیکریٹری طیش میں آ کر بڑے نقصان کا سوچے۔ لیکن درویش اللہ کے بغیر کسی سے نہیں ڈرتے۔ میں نے کئی بار حکومت کو بھی ان تصویروں کے متعلق آ گاہ کیا، کہ وہ تحقیق کرے، لیکن حکومت جانتے ہوئے بھی خاموش ہے جس کی وجہ سے یہ فتنہ کھڑا ہورہا ہے۔ یہ تصویریں منجانب اللہ ہیں۔ ہر شخص کو چاہیے کہ ان کی تحقیق کرے پھر غور اور انصاف کرے اِسی میں اُس کے ایمان کی بہتری ہے۔
( دفعہ نمبر (3)۔۔۔توہین قرآن کا جواب)
الرا :یعنی الف سے اللہ ‘ ل سے لا الہ الا اللہ……..اور ر سے ریاض …….کے متعلق نہ ہی میری کوئی تحریر ہے نہ ہی تقریر ہے اور نہ ہی میں نے کبھی ایسا بیان دیا ہے یہ حمادی کی اپنی من گھڑت ہے اور اپنے ہی گواہ ہیں۔
مہدی : میں نے کبھی امام مہدی کا اعلان نہیں کیا
یہی کہتا ہوں کہ جس کی پشت پر کلمے کے ساتھ مہر ہوگی وہی امام مہدی ہو گا۔
( دفعہ نمبر(4) کا جواب)
ایک صحافی نے سوال کیا تھا کہ آپ لینڈ کروزر (Land Cruiser)میں گھومتے ہیں لیکن حضور پاکﷺنے تو گاڑی پر سفر نہیں کیا؟ میں نے کہا کہ اس وقت لینڈ کروزر تھی ہی نہیں اس وقت گھوڑے ہوتے تھے ۔ حضور پاک ﷺ نے عمدہ گھوڑوں پر سواری کی۔
جہادی سفر :یہ بھی مولانا حمادی کی من گھڑت ہے
ہمارا شعبہ خواتین بھی ہے‘ وہ بھی تبلیغ کا کام کرتی ہیں۔ اکثر پروگراموں میں نعت خواں اور قاریہ قسم کی لڑکیوں کو ساتھ لے جاتا ہوں۔ جن میں میری بیوی اور بیٹی بھی ساتھ ہوتی ہیں۔ پروگراموں کے علاوہ بھی کہیں جانا ہو تو بیوی ہمیشہ ساتھ ہوتی ہے۔اور کبھی کبھی مہمان یا رشتہ دار خواتین بھی گاڑی میں بیٹھ جاتی ہیں۔
( دفعہ نمبر(5) کا جواب)
نماز اور روزے کیلئے کراچی میں ایک پروگرام میں کہا تھا کہ جو لوگ اللہ کے دیدار میں چلے جائیں ان کا دیدار الہیٰ سب عبادات سے افضل ہے (کئی ولیوں اور غوث پاک کا بھی یہی قول ہے) اور وہی صائم الدہر ہوتے ہیں اور ہر وقت کے مومن یعنی انکا کھانا پینا اور سونا بھی عبادت ہوتا ہے۔ اسی قول پر اس دور کے پانچ سو (500)علماء نے غوث پاک ؒ پر بھی فتوے لگائے تھے۔ سخی سلطان باہو ؒ اور بلھے شاہ ؒ بھی اسی قول پر علماء کی زد میں آ گئے تھے۔ یہ درویشوں اور عالموں کا جھگڑا قدیمی ہے۔
اگرواقعی ہی تصوف کو مٹانا ہے تو تمام ولیوں کی کتابوں کو ضبط کیا جائے۔
تمام فرقوں کو جیلوں میں بند کیا جائے ۔ کیونکہ باقی سب فرقے حمادی کی نظر میں غلط یا کافر ہیں۔
ہمارے حکمران جب درباروں پر جاتے ہیں تو ولیوں کے ماننے والوں کو خوش کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ ولیوں کی تعلیم کو عام کیا جائے اور جب کوئی اس تعلیم کی وجہ سے پھنسایا جاتا ہے تو پھر اس کا ساتھ نہیں دیتے کہ کہیں تصوف کے مخالفین خفا نہ ہو جائیں۔
(توہینِ رسالت۔۔۔ دفعہ کا جواب)
7 دسمبر 98 کو آستانہِ گوہر شاہی میں پریس کانفرنس میں مختلف اخباروں کے تقریبا 30 صحافی کے ساتھ نشست ہوئی اور ملٹری انٹیلی جنس حیدرآباد کے نمائندے بھی شامل تھے۔ اس کاروائی کی پوری رپورٹ اُنہوں نے نوٹ کری تھی۔اگر کوئی توہینِ قرآن یا توہینِ رسالت کی بات ہوتی تو اس وقت کے اخباری رپورٹر کیسے خاموش رہتے؟ ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ حضور پاکؐ سے اکثر بالمشافہ ملاقات ہوتی رہتی ہے، اگر کوئی سچا طالب ہے تو سات دن کے اندر حضور پاک ؐسے ملاقات کرواسکتا ہوں، اور جو علم حضور پاکؐ سے سیکھا ہے وہی لوگوں کو بتاتا ہوں۔ دوسرے دن اخبارات میں بھی یہی بیان آئے تھے جن کو تحفظ ختم نبوت والوں نے اپنی منطق سے توہین رسالت اور توہین قرآن کا رنگ دیدیا۔ لا الہٰ الا اللہ کے اسٹیکر کو وجہ بنا کر، کچھ ان ہی کے اخباروں اور مولانا حمادی نے یہ مشہور کردیا کہ گوہر شاہی نے براہِ راست نبوت کا اعلان کردیا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے بھی کئی بار اخبارات میں اس کی تردید اور وضاحت ہو چکی تھی۔
حمادی نے ایک درخواستDC دادو کو بھیجی کہ گوہر شاہی پر دفعہ295 کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔DC نے وہ درخواست انکوائری کیلئے SP کوٹری کو بھیجی۔ انکوائری کے بعد SP کوٹری نے DC دادو کو لکھا کہ یہ جھوٹی درخواست ہے اور اس پر کوئی دفعہ نہیں لگ سکتا۔( اس کا تحریری ثبوت ہمارے پاس موجود ہے)، پھر وہی درخواست اپنے رسوخ کی بنیاد پر حمادی نے DC سانگھڑ کو دی۔ اورDC سانگھڑ کے حکم پر ٹنڈوآدم کے تھانے نے جو کہ حمادی کا ہمسایہ تھا چالان دہشت گردی کی عدالت میں پیش کردیا۔ اس F.I.R کی نقل بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ یہ کیس سات ماہ (3.8.99 تا10.3.200 )دہشت گردی کی عدالت میں گھومتا رہا جبکہ اس عدالت نے سات دن میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ آخر کار سخت دباؤ کی وجہ سے عبدالغفور میمن تک پہنچا، جس کا انصاف بھی بغیر تحقیق اور ثبوت کے، یک طرفہ پالیسی پر مبنی تھا۔ اور اتنی لمبی سزا دیتے وقت اُسے یہ بھی خیال نہ آیا کہ اس کا بھی کوئی حساب لینے والا موجود ہے!
اب ہم ہائی کورٹ سے رجوع کررہے ہیں، اگر وہاں سے بھی انصاف نہ ملا تو پھر سپریم کورٹ میں جائینگے،
اگر وہاں سے بھی مایوسی ہوئی تو سربراہِ مملکت سے رجوع کیا جائے گا۔ اگر وہاں سے بھی شنوائی نہ ہوئی !
تو پھر ہمارا اپنا کورٹ فیصلہ کرے گا
کہ پاکستان کو ظالموں کے پنجے سے آزاد کرایا جائے اور اس پاک گلشن سے چیلوں، کوؤں اور کالی بھیڑوں کو نکال کر انصاف پسند، روشن ضمیر مومنوں اور جن کے لئے بنایا گیا تھا ‘ ان کے حوالے کیا جائے، اس کے لئے ہمیں کوئی بھی وسائل استعمال کرنا پڑے یا خون کی قربانی دینا پڑی تو اس سے بھی دریغ نہیں کرینگے!
(خوشخبری)
میں ان لوگوں کو حلفیہ یہ خوشخبری سناتا ہوں جو ناحق جیلوں میں بند ہیں یا وہ لوگ جو ناحق مقدموں کی وجہ سے مفرور ہو کر ڈاکو بن گئے یا جو سیاسی انتقام کی بنا پر ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔۔۔کہ عنقریب وقت آنے والا ہے کہ اس ملک پاکستان میں کسی درویش کی حکومت ہوگی۔ بکری اور شیر ایک ہی جگہ پانی پیءں گے۔ سکون ہوگا، امن ہوگا، اور انصاف ہوگا، اور ہر کوئی خوشحال ہوگا۔
ذمہ دار کرسیوں پر خدا ترس اور درویش ہی بیٹھیں گے۔ ا تنامیرے علم میں ہے کہ یہ انگریز قانون اور جیلیں ختم کردی جائینگی۔تاوان، قصاص، اور جرمانے یا غلامی کے بعد تمام قیدی رہا کردیئے جائینگے اوریا تو کوڑے مار کر فارغ، یا ہاتھ کاٹ کر فارغ، یا پھر سنگسار کردیئے جائینگے۔ جیلوں کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
یہ سخت قانون امن کا باعث بنے گا۔

از
ریاض احمد گوھر شاہی

کتاب کے بارے میں اٹھائے گئے
اعتراضات کی وضاحت
1؂جب کتاب دین الہٰی کا پہلا ایڈیشن ورجینیا (USA) سے شائع ہوا تو کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ کون سا نیا دین لے آئے ہیں۔ لوگوں کی معلومات کیلئے میں نے دوسرے ایڈیشن میں تحریر کیا تھا کہ یہ کوئی نیا دین نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق بھی اسلام سے ہے اور سورۃ النصر اور سورۃ الروم کا حوالہ دیا تھا۔ معترض کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضورپاک ﷺ کو تسلی دینے کے لئے یہ آیات نازل کیں۔ اگر قرآن کے آیتیں تسلیاں ہیں تو پھر کسی بھی آیت کو تسلی سمجھ کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ کیا ان آیات کی نفی پر معترض پر توہین قرآن کا دفعہ نہیں لگ سکتا؟

2؂معترض نے اس تحریر میں خیانت کی ہے کتاب ملاحظہ ہو۔ اس میں تعارف لکھنے والے نے گوھر شاہی کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ کے مرتبے اور معراج کا تعلق 15رمضان سے ہے ۔ معترض نے یہ اشارہ حضور پاک ﷺ کی طرف موڑ دیا ہے۔
کتاب دینِ الہٰی کی تمہید میں نے لکھی ہے۔ جس کا تعلق گوھر شاہی سے نہیں ہے۔ میرے اور ہزاروں برطانیہ کے مسلمانوں کے نزدیک گوھر شاہی امام مہدی ہے۔ کیونکہ کثیر لوگوں نے ان کے شانوں پر کبھی چمکتا ہوا اور کبھی نسوں سے ابھرا ہوا کلمہ شریف اور مہرِ مہدیت لکھی دیکھی ہے۔ کئی لوگوں نے ظاہری آنکھوں سے اور کچھ نے خواب میں دیدار کیا ہے۔ چاند سورج اور حجرِاسود وغیرہ پر تصاویر کی تحقیقات کے بعد ہمارا یقین اور بھی مضبوط ہو گیا ہے۔ جبکہ مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں، عیسائیوں کے دل بھی گوھر شاہی کی نظر سے اللہ اللہ کر رہے ہیں۔ بلکہ بے شمار لوگوں کو اپنے دلوں پر لفظ اللہ لکھا ہوا نظر بھی آتا ہے،جس کی وجہ سے ہندو اِنہیں کالکی اوتار کہتے ہیں۔ اور وہ اپنے جریدے ہفت روزہ’’ دیس پردیس‘‘ لندن میں اس
کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔
3؂یہودیوں کے نزدیک ایک ایسا مسیحا آئے گا جو اللہ کے پاک نام سے اِن کی روحوں کو نئی زندگی بخشے گا۔یہ اشارہ قطعاً حضرت عیسیٰؑ کی طرف نہیں ہے جبکہ حضرت عیسیٰؑ کا واقعہ اسی کتاب میں درج ہے کہ ان کا دوبارہ دنیا میں آنا ظاہری جسم سے ہے یعنی جس عمر میں اٹھائے گئے تھے۔
از یونس الگوھر لندن

4؂بعض حدیثیں ایک فرقے کے نزدیک مستند ہیں لیکن دوسرے فرقے کے نزدیک ضعیف ہیں جس کی وجہ سے کئی فرقے بن گئے اور آج تک علماء آپس میں متفق نہ ہو سکے۔ جیسا کہ حدیث :’’جب تم کسی معاملے میں پریشان ہو تو اہل قبور سے رابطہ کر لینا‘‘
حضرت ابو ھریرہؓ نے فرمایا مجھے حضور پاک ﷺ سے دو علم حاصل ہوئے ایک تمہیں بتا دیا دوسرا بتاؤں تو تم مجھے قتل کر دو۔
اس طرح کی حدیثیں فرقہ وہابیہ میں کمزور ہیں لیکن اہل سنت ‘ قادریہ ‘ چشتیہ‘ نقشبندیہ‘ سہروردیہ کے نزدیک مستند ہیں۔ جیسا کہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے اس میں دو طرح کے عقیدے کے لوگ ہیں ایک کے نزدیک ساری عمر کی رہبانیت منع ہے لیکن تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے لئے کچھ عرصہ کے لئے رہبانیت جائز ہے۔ جبکہ غوث پاک‘ داتا صاحب ‘ خواجہ صاحب اور بابا فرید وغیرہ نے کئی سال جنگلوں میں گذارے لیکن فرقہ وہابیہ کے نزدیک رہبانیت کی مکمل طور پر اور عارضی کی بھی نفی ہے۔
5؂اس تحریر میں بھی خیانت کی گئی ہے۔ لکھا ہے کہ ہندو آدم کو شنکر جی‘ خضر کو وشنو مہاراج‘ اور ہندوؤں کا ایک طبقہ حضرت فاطمہ کو درگا مائی‘ لکشمی دیوی اور ماں کے نام سے اپنی دعاؤں میں پکارتا ہے۔ جبکہ مائی حوا کو وہ پاروتی کہتے ہیں۔
ازحضرت ریاض احمد گوھر شاہی
کتاب ’’دین الٰہی‘‘ کے چندخاص اقتباسا ت

-1 اگر آپ کسی مذہب میں ہیں لیکن اللہ کی محبت سے محروم ہیں، اِن سے وہ بہتر ہیں جو کسی مذہب میں نہیں لیکن اللہ کی محبت رکھتے ہیں۔
2 – محبت کا تعلق دِل سے ہے، جب دِل کی دھڑکن کے ساتھ اللہ اللہ ملایا جاتا ہے، تو وہ خون کے ذریعہ نس نس میں پہنچ کر روحوں کو جگاتا ہے۔ پھر روحیں اللہ کے نام سے سرشار ہو کر اللہ کی محبت میں چلی جاتی ہیں۔
3 – رب کا کوئی بھی نام خواہ کسی بھی زبان میں ہو قابلِ تعظیم ہے لیکن رب کا اصلی نام سُریانی زبان میں اللہ ہے جو کہ عرشیوں کی زبان ہے، اسی نام سے فرشتے اُسے پکارتے ہیں۔ اور ہر نبی کے کلمے کے ساتھ منسلک ہے۔
4 – جوبھی شخص سچے دل سے رب کی تلاش میں بحرو بر میں ہے وہ بھی قابلِ تعظیم ہے۔
5 – اس دنیا میں ایک ہی وقت میں علیحدٰہ علیحدٰہ خطوں میں کئی آدم آئے۔ تمام آدم دنیامیں دنیا کی ہی مٹی سے بنائے گئے، جبکہ آخری آدم جو عرب میں دفن ہیں بہشت کی مٹی سے واحد بنائے گئے، اِن کے سوا کسی اور آدم کو فرشتوں نے سجدہ نہیں کیا، ابلیس اِسی آدم کی اولاد کا دشمن ہوا۔
6 – انسان کے جسم میں سات قسم کی مخلوقیں ہیں ، جن کا تعلق علیحدٰہ علیحدٰہ آسمانوں ، علیحدٰہ علیحدٰہ بہشتوں اور انسان کے جسم میں علیحدٰہ علیحدٰہ کاموں سے ہے ، اگر ان کو نور کی طاقت پہنچائی جائے تو یہ اُس انسان کی صورت میں ایک ہی وقت میں کئی جگہ حتیٰ کہ ولیوں، نبیوں، کی مجلس اور رب سے ہمکلام یا دیدار تک پہنچ سکتی ہیں۔
7 – ہر انسان کے دو مذہب ہوتے ہیں، ایک جسم کا مذہب جو مرنے کے بعد ختم ہو جاتا ہے، دوسرا روح کا مذہب جو کہ روزِ ازل میں تھا یعنی اللہ سے محبت، اسی کے ذریعہ انسان کا مرتبہ بلند ہوتا ہے۔
8 – سب مذاہب سے بالاتر رب کا عشق ہے، اور سب عبادات سے بالاتر رب کا دیدار ہے۔
9 – انسانوں ، حیوانوں، درختوں اور پتھروں کے متعلق معلومات ، کہ یہ کس طرح وجود میں آئے اور کیوں کوئی حرام اور کوئی حلال ہوا۔
-10 ارواح اور فرشتوں کے امر ِ کن سے بھی پہلے کون سی مخلوق تھی؟ وہ کون سا کتا تھا جو حضرت قطمیر بن کر جنت میں جائے گا؟ اور وہ کون سے لوگ ہیں جن کی روحوں نے ازل میں ہی کلمہ پڑھ لیا تھا؟
وہ کون سے بندے کا راز ہے جو اس کتاب میں درج نہیں ہے؟
معلومات اور تحقیقات کے لئے اس کتاب ۔۔۔ کو ضرور پڑھیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *